عبد السمیع عرف عاصمؔ
محفلین
( فاعلن مفاعیلن )
رہبروں کی شکلوں میں،
رہزنوں کی کثرت تھی،
بد گماں کِیا مجھ کو،
رہبَری سے اپنوں کی۔
رہزنی کا تو خدشہ،
ہر وقَت ہی منڈلایا،
چھانتا بھی گر (میں) سانپ
آستیں سے کِتنوں کی۔
مَر کے بھی نہ مِٹ پائے،
حق پہ جاں بحَق جو تھے،
قاتلوں کو ہیبت تھی،
وحشتوں سے سپنوں کی۔
چل پڑا تھا جوں جوں میں،
راہِ حق بجانب تو،
زور بڑھ ہی جاتا تھا،
سمتِ شر سے رقنوں کی۔
کیا سکوں ملے عَاصِمؔ،
گِھر گیا ہوں سازش سے،
کیا گِلہ ہو غیروں سے،
زَخم سہہ کے اپنوں کی۔
_________________________
کچھ ہے زینتِ دنیا،
کچھ ہے منصبی دھوکا،
سب عیاں تھے طبقے پر،
اولین قَرنوں کی۔
ہر صَحابی غازی تھے،
یا شہید اکثر تھے،
رہ گئی جواںمردی،
آج ہو کے دھرنوں کی۔
کیا ہے وجہۂِ بربادی،
صاحبِ امن ہی کی،
کیوں پڑی ہے یہ امّت،
لذّتوں میں مَٹنوں کی۔
کیوں ہے زینتِ طاقاں،
دھول میں لدی قُرآں،
کیوں بنی تیری دنیا،
کمپيوٹر کے بَٹنوں کی۔
چھوڑ غیر کا دَر اب،
جوڑ پھر سے ناطئہِ رب،
محسنِ زمانہ بن،
کاٹ جڑ کو فِتنوں کی۔
رہبروں کی شکلوں میں،
رہزنوں کی کثرت تھی،
بد گماں کِیا مجھ کو،
رہبَری سے اپنوں کی۔
رہزنی کا تو خدشہ،
ہر وقَت ہی منڈلایا،
چھانتا بھی گر (میں) سانپ
آستیں سے کِتنوں کی۔
مَر کے بھی نہ مِٹ پائے،
حق پہ جاں بحَق جو تھے،
قاتلوں کو ہیبت تھی،
وحشتوں سے سپنوں کی۔
چل پڑا تھا جوں جوں میں،
راہِ حق بجانب تو،
زور بڑھ ہی جاتا تھا،
سمتِ شر سے رقنوں کی۔
کیا سکوں ملے عَاصِمؔ،
گِھر گیا ہوں سازش سے،
کیا گِلہ ہو غیروں سے،
زَخم سہہ کے اپنوں کی۔
_________________________
کچھ ہے زینتِ دنیا،
کچھ ہے منصبی دھوکا،
سب عیاں تھے طبقے پر،
اولین قَرنوں کی۔
ہر صَحابی غازی تھے،
یا شہید اکثر تھے،
رہ گئی جواںمردی،
آج ہو کے دھرنوں کی۔
کیا ہے وجہۂِ بربادی،
صاحبِ امن ہی کی،
کیوں پڑی ہے یہ امّت،
لذّتوں میں مَٹنوں کی۔
کیوں ہے زینتِ طاقاں،
دھول میں لدی قُرآں،
کیوں بنی تیری دنیا،
کمپيوٹر کے بَٹنوں کی۔
چھوڑ غیر کا دَر اب،
جوڑ پھر سے ناطئہِ رب،
محسنِ زمانہ بن،
کاٹ جڑ کو فِتنوں کی۔