یہ امید تو تب رکھی جائے، جب نئے صوبے بننے دیے جائیں۔امید ہے کہ قومیت پرستی کی جڑ بھی نئے صوبے بننے سے کٹ جائے گی۔۔۔
پھر تو بڑا مسئلہ ہوجائے گا۔۔۔حال تو یہ ہے کہ ابھی تک زیادہ تر نئے صوبوں کی جو کوشش نظر آئی ہے وہ بھی قومیت کی بنیاد پر ہی ہے۔
درست بات ہے۔ لیکن ملکی نظام کو خود بھی بہت سی سخت ضروریات اور حاجات لاحق ہیں ۔میرے خیال میں یہ اچھا قدم ہو گا۔ فاٹا کو ملکی نظام میں انٹگریٹ کرنے کی سخت ضرورت ہے۔
اسی بات کا خدشہ ہے اور اس کے بعد آزاد کشمیر کو بھی اسی طرح کا سٹیٹس دیا جائے گا اور مسئلہ کشمیر کا قصہ ختم۔فاٹا کے متوقع انضمام کے بعد اگلا اہم مرحلہ گلگت بلتستان کو آئینی صوبے کا درجہ دینے کا ہے۔
اچھی تجویز ہے لیکن میرے کہنے کا مطلب اس فورم سے نہیں تھا، یہاں تو ماشاءاللہ سارے ہی باشعور دوست ہیں، میں masses کی بات کر رہا تھا اور یقینا صوبوں کی تقسیم مخالف جذبات بہت پُرجوش ہیںمیں ذاتی طور پر پورے ملک میں نئے صوبے بنانے کے حق میں ہوں سوائے گلگت بلتستان کو نیا صوبہ تسلیم کرنے کے، ویسے تجویز اچھی ہے آپ کی کیوں نا نئے صوبے بنانے کے بارے میں ایک پول والی لڑی بنالی جائے؟
1972ء میں جب اندرا گاندھی اور ذوالفقار بھٹو کے درمیان شملہ مذاکرات ہو رہے تھے تو اندرا گاندھی کا سارا زور، اور اس زور میں 90 ہزار سے زائد پاکستانی فوجیوں کی قید کا زور بھی شامل تھا، اس بات پر تھا کہ کشمیر میں لائن آف کنڑول کو مستقل انٹرنیشنل بارڈر مان لیا جائے۔ اگرچہ سخت گیر ہندو جماعتیں اُس وقت بھی اور اب تک اندرا گاندھی کی اس پوزیشن پر سخت تنقید کرتی ہیں کہ اس سے انڈیا کا مؤقف کشمیر پر کمزور ہوتا ہے کیونکہ ان کے بقول سارا کشمیر انڈیا کا ہے۔ لیکن اندرا گاندھی اپنے مؤقف پر ڈٹی رہی کہ کشمیر کے مسئلے کو اس طریقے سے ہمیشہ کے لیے ختم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن بھٹو جانتا تھا کہ ایسا کوئی فیصلہ مان لینا اس کے لیے سیاسی خود کشی ہوگی، انہی وجوہات کی بنا پر جو آپ کے مراسلے میں بین السطور سمجھی جا سکتی ہیں۔اسی بات کا خدشہ ہے اور اس کے بعد آزاد کشمیر کو بھی اسی طرح کا سٹیٹس دیا جائے گا اور مسئلہ کشمیر کا قصہ ختم۔
حامد میر نے اپنے کالموں میں بھی لکھا کہ مشرف کنٹرول لائن کو انٹرنیشنل بارڈر تسلیم کر کے مسئلہ کشمیر کو حل کرنا چاہتا تھا وہ تو بھلا ہو وکلاء تحریک کا جس نے مشرف کے بہت سے مذموم منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔ مشرف نے کئی برس تک سالانہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں مسئلہ کشمیر کا ذکر نہیں کیا پھر زرداری نے عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد اقوام متحدہ میں سالانہ اجلاس میں اس مسئلے کو اٹھایا جس کی بھارت کو بہت تکلیف ہوئی۔1972ء میں جب اندرا گاندھی اور ذوالفقار بھٹو کے درمیان شملہ مذاکرات ہو رہے تھے تو اندرا گاندھی کا سارا زور، اور اس زور میں 90 ہزار سے زائد پاکستانی فوجیوں کی قید کا زور بھی شامل تھا، اس بات پر تھا کہ کشمیر میں لائن آف کنڑول کو مستقل انٹرنیشنل بارڈر مان لیا جائے۔ اگرچہ سخت گیر ہندو جماعتیں اُس وقت بھی اور اب تک اندرا گاندھی کی اس پوزیشن پر سخت تنقید کرتی ہیں کہ اس سے انڈیا کا مؤقف کشمیر پر کمزور ہوتا ہے کیونکہ ان کے بقول سارا کشمیر انڈیا کا ہے۔ لیکن اندرا گاندھی اپنے مؤقف پر ڈٹی رہی کہ کشمیر کے مسئلے کو اس طریقے سے ہمیشہ کے لیے ختم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن بھٹو جانتا تھا کہ ایسا کوئی فیصلہ مان لینا اس کے لیے سیاسی خود کشی ہوگی، انہی وجوہات کی بنا پر جو آپ کے مراسلے میں بین السطور سمجھی جا سکتی ہیں۔
اسی سلسلے میں ایل کے آڈوانی نے اپنی خود نوشت میں ایک واقعہ لکھا ہے۔ 1998ء میں جب بھارتیہ جنتا پارٹی الیکشن جیتی تو آڈوانی کے بقول اُس وقت پاکستان میں برطانیہ کے ہائی کمشنر جو دہلی دورے پر تھے آڈوانی سے ملنے آئے اور کہنے لگے کہ مجھے خوشی ہے کہ آپ الیکشن جیتے اور اب مسئلہ کشمیر حل ہو سکے گا۔ آڈوانی نے پوچھا کیسے؟ تو اُس نے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف اس طرح حل ہو سکتا ہے کہ انڈیا میں کوئی سخت گیر ہندو جماعت حکومت میں ہو اور پاکستان میں فوجی حکومت ہو۔
یہ بات بہت حد تک درست ہے، اور بعد میں وقت نے ثابت بھی کیا جب انڈیا میں بی جے پی اور پاکستان میں جنرل مشرف تھا۔ مشرف کے ایک وزیرِ خارجہ خورشید محمود قصوری نے بھی اپنی کتاب میں کشمیر کے مسئلے پر کافی بحث کی ہے اور بقول قصوری دونوں فریق اس حل کے بہت قریب تھے کہ 2004ء میں انڈیا میں بی جے پی کی حکومت ختم ہو گئی۔
وکلا تحریک مشرف کے اقتدار میں آنے کے آٹھ سال بعد نمودار ہوئی تھی۔ جبکہ مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں آگرہ سمٹ ۲۰۰۱ کا واقعہ ہے۔حامد میر نے اپنے کالموں میں بھی لکھا کہ مشرف کنٹرول لائن کو انٹرنیشنل بارڈر تسلیم کر کے مسئلہ کشمیر کو حل کرنا چاہتا تھا وہ تو بھلا ہو وکلاء تحریک کا جس نے مشرف کے بہت سے مذموم منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔
کنٹرول لائن کو بین الاقوامی سرحد تسلیم کرنے پر مشرف نے کب عمل درآمد کرنا تھا؟وکلا تحریک مشرف کے اقتدار میں آنے کے آٹھ سال بعد نمودار ہوئی تھی۔ جبکہ مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں آگرہ سمٹ ۲۰۰۱ کا واقعہ ہے۔
کراچی دارالحکومت ہو؟اسکا دارلحکومت کراچی ہو۔
کراچی دارالحکومت ہو؟
مجھے ان سب چیزوں کا زیادہ علم تو نہیں لیکن میرا خیال ہے کراچی کسی طور بھی ایک دارالحکومت کے طور پر اسلامآباد سے زیادہ محفوظ نہیں ہو سکتا