فاروق سرور خان نے لکھا:
سوال یہ ہے کہ ایسی ذومعنی روایات کی ضرورت کیا ہے؟ کیا ان کا شمار درآیت میں ہوگا، اگر ہاں تو ان کو 'صحاح ستہ' میں کیوں شامل کیا جاتا ہے۔
ان احادیث کی ضرورت اور کتب ستہ میں انہیں شامل کیے جانے کی وجہ " حدیث میں صنفی مسائل کیوں بیان کیے گئے ہیں"
کے تحت لکھ چکا ہوں۔
فاروق سرور خان نے لکھا:
سوال کا جواب دیتے وقت یہ بھی ذہن میں رکھئے کہ ان روایات کو بنا کسی تشریح کے دشمنان اسلام اپنے مقاصد کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں۔
دشمنانِ اسلام صرف ان "روایات" ہی کو نہیں بہت سی آیات کو بھی بغیر تشریح کے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور ان سے اہانت رسول، اہانت صحابہ اور اہانت انبیاء ثابت کرتے ہیں۔ ایسی چند لغویات ملاحظہ فرمائیے:
اہانت انبیاء:
قرآن میں ہے کہ اللہ کے رسول آسمانی کتابوں کا احترام نہیں کرتے تھے اور انہیں زمین پر پٹخ دیا کرتے تھے۔
و القی الالواح و اخذ براس اخیہ یجرہ الیہ (الاعراف 150)
"(موسیٰ علیہ السلام نے) تورات کی تختیاں پھینک دیں اور اپنے بھائی کے سر کے بال پکڑ کر اسے کھینچا"
سورۃ الحجر کی آیت71 سے اسلام دشمن یہ مطلب نکالتے ہیں کہ لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کے سامنے اپنی بیٹیاں زنا کے لیے پیش کر دیں (نعوذباللہ)
قال ھئولاء بنٰتی ان کنتم فٰعلین (الحجر۔71)
"لوط نے کہا "اگر تمہیں کچھ کرنا ہی ہے تو یہ میری بیٹیاں موجود ہیں"
اہانت صحابہ:
قرآن میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جمعے کا خطبہ دے رہے تھے کہ ایک تجارتی قافلہ مدینے میں آیا۔ صحابہ خطبہ چھوڑ کر سامان خریدنے دوڑ پڑے۔
و اذا راو تجارۃ او لھوا انفضوا الیھا و ترکوک قائما (الجمعۃ۔11)
"اور جب انہوں نے تجارت اور کھیل تماشا ہوتے دیکھا تو اس کی طرف لپک گئے اور تمہیں کھڑا چھوڑ دیا۔"
اہانت رسول:
1۔ سورۃ الفتح آیت 1 میں ہے:
لیغفر لک اللہ ما تقدم من ذنبک و ما تاخر
"تاکہ معاف فرمادے تمہیں اللہ وہ سب جو پہلے ہوچکی ہیں تم سے کوتاہیاں اور جو بعد میں ہوں گی"
اسلام دشمنوں نے اس آیت سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک گناہگار انسان تھے(نعوذباللہ )۔ جی۔ایل ٹھاکر داس نے اس آیت سے غلط مطلب نکال کر پورا کتابچہ لکھ مارا ہے۔
2۔ سورۃ الضحٰی کی آیت 7 کے لفظ ضالًا سے مستشرقین غلط استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے نبی گمراہ انسان تھے (اللہ کی لعنت ہو ایسے ظالموں پر)۔
3۔ سورۃ التحریم کی آیت 1 سے اسلام دشمن یہ مطلب نکالنے کی کوشش کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی بیویوں کی خوشنودی کی خاطر حلال کو حرام کر دیا کرتے تھے:
یایھا النبی لم تحرم ما احل اللہ لک تبتغی مرضات ازواجک (التحریم۔1)
"اے نبی، تم کیوں اس چیز کو حرام کرتے ہو جو اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہے؟ تم اپنی بیویوں کی خوشی چاہتے ہو؟
فرمائیے کہ ہمارا ردعمل کیا ہونا چاہیے، صحیح مفہوم واضح کرنا یا آیات کو قرآن سے نکالنے کی مہم چلانا؟
فاروق سرور خان نے لکھا:
کتب روایات کی کیا حیثیت ہے؟ کیا یہ قرآن کے مساوی ہیں؟
میری دوسری پوسٹ میں "قرآن کریم سے حفاظتِ حدیث کے بارے میں شبہات کا جواب" اور تیسری پوسٹ میں الشیخ ابن باز رحمہ اللہ کے مضمون کو دوبارہ پڑھ لیں۔ ان میں ضوء القرآن یعنی قرآن کی روشنی میں کتب احادیث کی حیثیت واضح کی گئی ہے۔
فاروق سرور خان نے لکھا:
پہلے دو خلفائے راشدین نے قرآن کی تدوین اور قرآن کی نقل بنانے پر کام کیا لیکن کسی بھی خلفائے راشدین نے صحاح ستہ اور( اس جیسی تین کتب جو شیعہ حضرات استعمال کرتے ہیں)، جیسی کتب روایات کیوں نہیں ترتیب دیں، اور (کم از کم دو خلفاء نے) اپنے اقوال رسول کے مجموعے کیوں جلادئے یا ضائع کردئے تھے؟ اس پر روشنی ڈالئے۔
3۔ وہ کونسی وجہ تھی کہ ان روایات کو دو سو سال بعد کتب کی شکل دی گئی اور ان روایات کو کتاب کی شکل دینے کوشش کسی صحابہ نے کیوں نہیں کی ؟
صحابہ نے حدیث کے جو مجموعے ترتیب دیے تھے ان کا ذکر "کتابتِ حدیث کی مختصر تاریخ" میں ہو چکا ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے حدیث کا مجموعہ جلا دیا تھا۔ یہ واقعہ اگر درست ہے تو اس کی وجہ من کذب علی متعمدًا والے حکم کی بنا پر ان کی احتیاط تھی۔ لیکن سچ یہ ہے کہ یہ روایت درست نہیں ہے۔ اس کی سند میں علی بن صالح مجہول ہے۔ دوسرا راوی محمد بن موسٰی غیر ثقہ ہے(لسان المیزان) اور تیسرا راوی موسٰی بن عبد اللہ ہے جس کے بارے میں امام بخاری کہتے ہیں "فیہ نظر"۔ عمر رضی اللہ عنہ کا احادیث کو جلانا بھی ثابت نہیں ہے اور وہ روایت منقطع ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے تو خود حدیث کی کتاب لکھوائی تھی جو ان کی اولاد میں منتقل ہوتی رہی۔ امام مالک نے اس کتاب کو خود پڑھا تھا (موطا امام مالک) اور عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے اس کی نقل تیار کروا کر اس پر عمل کرنے کا حکم دیا تھا (دار قطنی، دارقطنی نے اس کے راویوں کو ثقہ قرار دیا ہے)۔
حیرت ہے کہ ایک طرف بخاری اور مسلم کی صحیح احادیث بھی تسلیم نہیں ہیں اور دوسری جانب "تذکرۃ الحفاظ" وغیرہ کی ضعیف اور موضوع روایتوں کو دلیل بنانے میں جھجک محسوس نہیں ہوتی۔
فاروق سرور خان نے لکھا:
اہانت قرآن : قرآن پتھروں، ہڈیوں ، لکڑی اور پارچوں پر لکھا تھا ، یہ واقعہ بیان ہو رہا ہے حضرت عمر کے دور میں۔ جبکہ حضرت حفصہ کی کتاب موجود ہے۔ جس کا موازنہ بعد میں حافظوں کی مدد سے کیا گیا۔
اہانت مسجد: مسجد نبوی میں کتے پیشاب کرجاتے تھے اور ان پر کوئی پانی بھی نہیں بہاتا تھا۔
اہانت رسول : اگر کچھ بہتر ملے گا تو میں (دوسری قوم سے کیا ہو عہد) توڑ دوں گا۔
مستشرقین نے قرآن کریم سے اہانت کے جو نمونے نکالے ہیں، انہیں ایک نظر دوبارہ دیکھ لیجیے۔ یقین مانیے حدیث سے اہانت قرآن، مسجد اور رسول ثابت کرنے کی یہ کوشش اس سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ ہجرت کے بعد ابتدائی دنوں میں مسجد نبوی کی چاردیواری نہیں تھی اور جانور اس میں آ جایا کرتے تھے۔ اس وقت پہلا مسئلہ مہاجرین کی آبادکاری کا تھا۔ مدینے کی مالی حالت بہتر ہوتے ہی مسجد کی چاردیواری بنائی گئی۔ سیاق و سباق سے کاٹ کر اہانت کی کئی سو مثالیں پیش کرنا واقعی کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
فاروق سرور خان نے لکھا:
ایک سے زیادہ نسخہ کتبِ روایات میرے پاس ہے جو کہ مختلف ہے۔ کسی میں کچھ روایات نہیں ہیں اور کسی میں ان کے نمبر مختلف ہیں۔
مختلف نسخوں کے اختلاف کے بارے میں میں نے جو سوالات پیش کیے ہیں انہیں دوبارہ دیکھ لیجیے۔ کتب احادیث کی ترقیم (Numbering) کے مختلف طریقے مروج ہیں۔ نمبر مختلف ہونے کی وجہ ترقیم کے طریقے (Numbering System) کا فرق ہے۔ مثلًا صحیح المسلم کی دو ترقیم مشہور ہیں۔ فواد عبدالباقی کی ترقیم اور ترقیم العالمیۃ۔ محققین کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے کسی ترقیمی نظام میں حدیث کے ساتھ ابواب پر بھی نمبر لکھے گئے ہیں، کسی میں ہر سند کو الگ نمبر دیا گیا ہے اور کسی میں سند کی بجائے متن کو سامنے رکھ کر نمبرنگ کی گئی ہے۔ لہٰذا جب حدیث نمبر لکھا جائے تو یہ بتانا ضروری ہے کہ کونسا ترقیمی نظام استعمال کیا گیا ہے۔ کتب حدیث کے جو سافٹ ویئر مارکیٹ میں موجود ہیں ان میں عمومًا اپنی پسند کا ترقیمی نظام اپنانے کی سہولت ہوتی ہے۔ لہٰذا نمبر مختلف ہونے کی وجہ احادیث کی تعداد میں فرق کی بجائے احادیث کو گننے (Counting method) کے طریقے میں فرق ہے۔
آپ کے اٹھائے گئے سوالات پڑھ کر مجھے محسوس ہوا کہ میں اپنا موقف واضح طور پر بیان نہیں کر سکا شاید اسی لیے آپ اپنے پرانے سوالات ہی کو دہرا رہے ہیں۔ نئی بحث کا آغاز کرنے کی بجائے میں نے سابقہ مراسلات کو دوبارہ مدون کر دیا ہے۔گزارش ہے کہ انہیں ایک نظر دوبارہ دیکھ لیں۔
یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات
دے اور دل ان کو، جو نہ دے مجھ کو زباں اور
"خاک" سے "گوشت" بنانے کی داستان دلچسپ ہے لیکن اسے احادیث کی تشریح پر منطبق کرنا درست نہ ہو گا۔ میں نے جو کچھ لکھا ہے اسے پڑھ کر ہر شخص فیصلہ کر سکتا ہے کہ اس میں اپنی طرف سے بات بنانے کی کوشش کی گئی ہے یا سادہ اور منطقی انداز میں حدیث کا اصل مطلب واضح کیا گیا ہے۔
ہم دونوں اپنا اپنا موقف تفصیل سے بیان کر چکے ہیں۔ مزید بحث کی بجائے اب فیصلہ قارئین پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اللہ جسے چاہے گا ہدایت عطا فرما دے گا۔
اللہُ ربُنَا و رَبُکم، لَنَا اعمالنا و لکم اعمالکم، لا حجۃ بیننا و بینکم اللہ یجمع بیننا و الیہ المصیر (الشورٰی۔15)
"اللہ ہمارا رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے۔ ہمارے لیے ہیں ہمارے عمل اور تمہارے لیے تمہارے عمل، کوئی جھگڑا نہیں ہمارے اور تمہارے درمیان۔ اللہ جمع کرے گا (ایک روز) ہم سب کو اور اسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے۔"
قیصرانی نے لکھا:
آپ کا جواب بہت اچھا لگا اور میں اب یہ سوچ رہا ہوں کہ ہر حدیث کو اس کے درست رنگ میں اور درست سیاق و سباق میں سمجھنے کے لئے آپ کو ہر بار کہاں تلاش کروں تاکہ ایمان بچا رہے
کسی حدیثکے بارے میں شک ہو تو ایمان بچانے کے لیے علماء سے رجوع کرنے میں کیا حرج ہے۔مجھے تلاش کرنے کی بجائے علم حدیث کے کسی استاد سے رجوع کریں۔ میں کم علم آدمی ہوں شاید آپ کی تسلی نہ کر سکوں۔ کوئی وجہ نہیں کہ ایمان بچانے کی خاطر انسان اتنی بھی تکلیف نہ کرے۔