واجدحسین
معطل
حجیۃ الحدیث پر مبسوط بحث
سوال :۔ آج کل انکار حدیث کا فتنہ روز افزون ترقی پر ہے ۔ اس کا قلع قمع کرنا اور عوام کو ایسے فتنوں سے محفوظ رکھنا علمائے وقت ہی کا فریضہ ہے ۔ لہذا استدعا ہے حجیۃ الحدیث سے متعلق سیر حاصل بحث فرما کر عنداللہ ماجور و عند الناس مشکور ہوں گے واللہ لا یضیع اجر المحسنین ط
الجواب و منہ الصدق و الصوااب
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یا رب صل و سلم دائماً ابدًا علی حبیبک خیر الحلق کلھم
بمصطفٰی برساں خویش راکہ ہمہٰ وست اگر باونر سیدی تمام بو لہبی ست
یا رب صل و سلم دائماً ابدًا علی حبیبک خیر الحلق کلھم
بمصطفٰی برساں خویش راکہ ہمہٰ وست اگر باونر سیدی تمام بو لہبی ست
عبد اللہ چکڑالوی نے سب سے پہلے انکار حدیث کا فتنہ بربا کر کے مسلمانان عالم کے قلوب کو مجروح کیا مگر یہ فتنہ چند روز میں اپنی موت خود مر گیا ۔ حافظ اسلم جیراج پوری نے دوبارہ اس دبے ہوئے فتنہ کو ہوا دی اور بجھی ہوئی آگ کو دوبارہ جلا کر عاشقان شمع رسالت کے جروح پر نمک پاشی کی اور اب غلام احمد پرویز بٹالوی نگراں رسالہ "طلوع اسلام " اس آتش کدہ کی تولیت قبول کرکے رسول دشمنی پر کمر بستہ ہے اور کیوں نہ ہو جب کہ قادیان اور بٹالہ دونوں ایک ہی ضلع میں واقع ہیں ۔ بلکہ بٹالہ بوجہ تحصیل ہونے کے قادیان پر ایک قسم کی مرکزی فوقیت رکھتا ہے اس لحاظ سے اگر غلام احمد بٹالوی غلام احمد قادیانی سے رسول دشمنی میں ایک دو درجے اوپر چڑھ جائے تو کوئی بعید نہیں ۔ احمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ان نام نہاد غلاموں نے بموجب مقولہ مشہورہ " برعکس نہند نام زنگی کافور" سید الکونین صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف دنیا میں بغاوت کا علم بلند کیا ۔ رسول دشمنی پر پرویز (علیہ ما علیہ ) کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے اور یہ امتیازی شان اس کے منحوس نام کا اثر ہے وہ سیاہ بخت کسری جس نے سید الکونین صلی اللہ علیہ وسلم کے نامہ مبارک کو بہت پیچ و تاب کھا کر پھاڑ ڈالا تھا وہ بھی پرویز کہلواتا تھا پرویز ( علیہ ما علیہ) کو معلوم ہونا چاہیے کہ کسری پرویز رسول دوشمنی جیسے ناقابل معافی جرم میں نہ صرف تاج و تخت کھویا گیا بلکہ سارا خاندان تباہ و برباد ہو گیا ۔ یہ تو دنیا کا معاملہ ہے جو دار جزا نہیں والعذاب الآخرۃ اکبر ۔ وہ دن دور نہیں جس کے متعلق ارشاد ہے ۔
[arabic]وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَى يَدَيْهِ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلا [/arabic](25: 27 )
جس روز ظالم ( غایت حسرت سے ) اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ کھائے گا اور کہے گا
کیا اچھا ہوتا کہ میں رسول کے ساتھ (دین کی ) راہ پر اکر چلتا۔
چودھویں صدی کے پرویز کو بھی اپنی سیاہ کاریوں کے تلخ ثمرات سے خائف رہنا چاہیے ۔ فلیحذر الذین یخالفون عن امرہ ان نصیبھم فتنۃ او یصیبھم عذاب الیم () ( خسرالدنیا ولآخرۃ )
پروفیسر امین الدین صاحب روزنامہ تسنیم لاہور ، 20 مارچ 57 ء میں تحریر فرماتے ہیں : ۔ " یہ نیا فتنہ لاہور کے ادارہ ثقافت اسلامیہ کے زیر اہتمام سرکاری امداد کے بل بوتے پر پروان چڑھ رہا ہے یہ وہی ادرہ ہے جس کا ذکر گذشتہ دنوں قومی اسمبلی میں ہمارے ملک کے وزیر تعلیم نے فرمایا تھا اور اس کے بعد مغربی پاکستان کے بجٹ میں اس کے لیے پچیس ہزار روپے کی گرانقدر امداد کا انتظام بھی فرمایا گیا ہے " ۔
مفسد کون ہے ؟
موجودہ فضا میں جو شخص بھی کسی ایسے ضروری اور اہم مضمون پر قلم اٹھاتا ہے جو خواہشات نفسانیہ کے خلاف ہو یا اس میں کسی ناپاک فتنے کو دبانے کی کوشش کی گئی ہو اور کسی دشمن اسلام کی بد عنوانیوں کی صدائے باز گشت ہو تو بلا امتیاز حق و باطل اسے مفسد و مفتن کہا جاتا ہے قابل غور یہ امر ہے کہ اگر کوئی شخص کسی چودہ سو سالہ مشہور عالم ادرہ کی رکنیت قبول کریے ۔ اس ادارے کے ارکان سابقہ علم و فراست ، عملی جدوجہد اور اخلاص میں یکتا ہوں جن کی محیر العقول مساعی اور شبانہ روز انتھک تک و دو سے اس ادارہ کا نام چار سو آفاق عالم میں چمکنے لگا ہو اب یہ جدید رکن کہے کہ ادرہ کے سابقہ ارکان سب کے سب جاہل اور قوانین سے نا واقف تھے یا ان میں اخلاص نہیں تھا ۔ یا سب کے سب خائن تھے یا ان میں عملی اقدام نہ تھا وہ سب قوانین جن پر چودہ سو سال تک عمل ہوتا رہا سراسر غلط ہیں میں انہیں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ ادارہ میں قانون وہ جاری ہو جو میں بناؤں اور اس کی فلاح اسی میں ہے جو میں کہوں فکر صائب صرف وہی ہے جو میرے دماغ میں آئے اور نظریہ صرف وہی درست ہے جو میں پیش کرو تو کیا ایسا رکن ادارے کا خیر خواہ ہے یا بد خواہ ؟ اور مصلح ہے یا مفسد ؟ ادارے کے ارکان سابقہ میں اگر کوئی رکن اس جدید روشن خیال کو سمجھائے اور اس کے خرافات کا جواب دے تو کیا اس کے فعل کو فتنہ اور فساد سے تعبیر کیا جائے گا یا کہ امن و اصلاح سے ؟ بعینہ یہی مثال غلام احمد پرویز کی ہے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لیکر آج تک دین کا مدار دو ہی چیزیں رہی ہیں ۔ کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم انہی دو ستونوں پر دین کی عمارت ٹھری ہوئی ہے ۔ خلفائے راشدین و دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تبع تابعین ، ائمہ کرام اور محدثین فقہا صوفیہ اور تمام عالم اسلام کے علما سنت نبویہ کو دین میں حجت مانتے آئے ہیں ۔ مگر غلام احمد پرویز کا خیال ہے کہ اب امت مسلمہ کو قرآن کی وہ تفسیر اور تعبیر قبول کرنی چاہیے جس پر میرے نام کی چھاپ لگی ہوئی ہو ۔ میری تفسیر ، تعبیر ، تشریح کے علاوہ جو کچھ ہے وہ ملاازم ہے ، عجمی سازش ہے ، جہل اور نادانی ہے اب تک قرآن کو ٹھیک طور پر سمجھا کہاں گیا ہے ۔بڑے بڑے علما حدیث اور فقہ میں الجھے رہے بلکہ قرآن کے خلاف سازشیں کرتے رہے ۔ یہ عجمی سازشیں قتادہ ، حسن ، مجاہد اور عکرمہ جیسے مفسرین کی قرآن میں سند قبول کرتے تھے اور میں نے ان تمام مفسرین کے علی الرغم عبداللہ چکڑالوی ، سرسید احمد خان ، اور اسلم جیراج پوری سے فیض یاب حاصل کیا ہے ۔ لہذا قرآن کی تفسیر وہ معتبر ہے جو میں کرتا ہوں قرآن کو ان عجمی سازشوں سے نجات دلانے اور مظلومیت سے چھڑانے والو آؤ ، بھاگتے ہوئے آؤ اور میرے ارد گرد جمع ہو جاؤ ۔ پرخچے اڑا دو تفسیرابن کثیر کے پارہ پارہ کردو بیضاوی ، ابن جریر اور راتقان کو ۔ معارف القرآن پڑھو۔ اللہ کی آیات کا صحیح مفہوم اسی میں مل سکتا ہے ۔
پرویز لکھتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور احادیث دین میں حجت نہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کو رواج دے کر جو دین میں حجت ٹھرایا گیا ہے۔ یہ دراصل قرآن کے خلاف ایک عجمی سازش ہے پرویز خاک بدہن گستاخ نے جن نفوس قدسیہ کی طرف عجمی سازش کو منسوب کیا ہے یہ وہ پاک روحیں ہیں جن کو بڑے سے بڑے جابر اور ظالم حاکموں کا ظلم و استبداد کلمہ حق سے روک نہ سکا جنہوں نے کوڑے کھائے ، مصیبتیں جھیلیں ، دار کے تختوں پر لٹکے تیغوں کے سایوں میں اور توپوں کے گرجوں میں اعلائے حق کی خاطر جانیں قربان کر دیں ۔ کوئی خوف انہیں مرعوب نہ کرسکا ، اور نہ ہی کوئی بڑی سے بڑی طمع اور دنیا کا لالچ انہیں رام کر سکا ۔
ٹل نہ سکتے تھے جو میدان میں اڑ جاتے تھے
پاؤں شیروں کے بھی میداں سے اکھڑ جاتے تھے
تجھ سے سرکش ہوا کوئی تو بگڑ جاتے تھے
تیغ تو کیا چیز ہے ہم توپ سے لڑ جاتے تھے
نقش توحید کا ہر دل پر بٹھایا ہم نے
زیر خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے
پاؤں شیروں کے بھی میداں سے اکھڑ جاتے تھے
تجھ سے سرکش ہوا کوئی تو بگڑ جاتے تھے
تیغ تو کیا چیز ہے ہم توپ سے لڑ جاتے تھے
نقش توحید کا ہر دل پر بٹھایا ہم نے
زیر خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے
یہ ایسے نفوس قدسیہ تھے جن کی عبادت پر فرشتوں کو رشک تھا جن کے دامن ملائکہ کے لیے مصلے بن سکتے تھے ۔ جن کی پاکبازی کی قسم کھا جاسکتی ہے جن کے جسم رات بھر بستروں سے علیحدہ رہتے تھے جنہوں نے برسوں عشاء کے وضو سے فجر کی نماز بڑھی اور خشیت الہیہ نے جن کے لیے دنیا کی تمام تر لذتوں کو یکسر بے کیف کر ڈالا تھا ۔ جو شخص خاک بدہن گستاح ان سعید روحوں کو قرآن کے خلاف عجمی سازش کرنے والا کہتا ہے ۔ اگر اس کی تحریروں کی وجہ سے عالم اسلام اور عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی غیرت جوش میں آجائے تو فتنہ و فساد کی ذمہ داری کس پر عائد ہو گی ؟
ناپاک عزائم
دشمنان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد صرف انکار حدیث تک محدود نہیں بلکہ یہ لوگ ( علیہم ما علیہم ) اسلام کے سارے نظام کو مخدوش کر کے ہر امر و نہی سے آزاد رہنا چاہتے ہیں ۔ نمازوں کے اوقات خمسہ ، تعداد رکعات فرائض اور واجبات کی تفاصیل ۔ صوم و صلوۃ کے مفصل احکام ، حج کے مناسک ، قربانی ، بیع وشراء ، امور خانہ داری ، ازدواجی معاملات اور معاشرت کے قوانین ان سب امور کی تفصیل حدیث ہی سے ثابت ہے قرآن میں ہر چیز کا بیان اجمالاً ہے جس کی تشریح و تفصیل حدیث میں ہے ۔ پرویز ( علیہ ما علیہ ) ان سب تفصیلات اور پورے نظام کو یکسر بدل ڈالنا چاہتا ہے ۔ باقی رہا قرآن ۔ سو اس میں بھی من مانی تفسیر کر کے حقیقی مطالب اور مراد الہی کو ختم کر دینا چاہتا ہے ۔ یہ لوگ اہل قرآن کہلواتے ہیں اور بظاہر قرآن کی تائید میں مضامین بھی لکھتے ہیں لیکن حقیقت میں انہوں نے مار آستین بن کر قرآن کے مفہوم کو فنا کر دیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ قرآن کی حقانیت کو مخدوش کر رہے ہیں ۔ ، صحابہ ، تابعین ، محدثین اور فقہا بقول پرویز ، خاک بدہن گستاخ قرآن کے خلاف سازشیں کرنے والے اور قرآن کے دشمن تھے تو انہی اسلاف کے ہاتھوں سے ہم تک پہنچے ہوئے قرآن کی صداقت پر کیسے اعتماد کیا جاسکتا ہے ؟
گندگی چھپی نہیں رہتی
مشہور ہے کہ گندگی چھپی نہیں رہتی ۔ کیونکہ اس کی بد بو ہی اس کی غمازی کرتی ہے منکرین حدیث کی تحریروں کے چند جملے ملاحظہ ہوں ۔
1 ۔ منکرین حدیث ایک جدید اسلام کے بانی ہیں ( رسالہ طلوع اسلام ص 16 ، اگست و ستمبر 1952 )
2 ۔ بالکل واضح ہے کہ اللہ اور رسول سے مراد " مرکز حکومت " ہے ( معارف القرآن ص 654 ج 4 )
3 ۔ دین نے قیام صلوۃ کا حکم دیا تھا مذہب میں یہ چیز نماز پڑھنے کے مترادف بن گئی ( پرویز طلوع اسلام ص 46 جون 1950 )
4 ۔ مرکز ملت کو ان میں ( جزئیات نماز میں ) تغیر و تبدیل کا حق ہو گا ( پرویز ، طلوع اسلام ص 7 4 جون 1950)
5 ۔ میرا دعوی تو صرف اتنا ہے کہ فرض صرف دو نمازیں ہیں جن کے اوقات بھی دو ہیں ۔ باقی سب نوافل ( عباداللہ اختر ۔ طلوع اسلام ص 8 5 اگست 1950 )
6 ۔ پھر آج کل مسلمان دو نمازیں پڑھ کر کیوں مسلمان نہیں رہ سکتا ( لاہوتی ، طلوع اسلام ص 1 6 اگست 1950 )
7 ۔ مذہب میں نماز ، روزہ ، صدقہ ، خیرات اسی خوشامدانہ مسلک ( یعنی منافقانہ زندگی کے خوشامدانہ مسلک) کے مظاہر بن جاتے ہیں ( پرویز ۔ طلوع اسلام جنوری ، فروری ص 108 1950 )
8 ۔ حج ایک بین الملی کانفرنس ہے اور حج کی قربانی کا مقصد بین الملی کانفرنس میں شرکت کرنے والوں کے لیے خورد و نوش کا سامان فراہم کرنا ہے ۔ مکہ معظمہ میں حج کی قربانی کے سوا اضحیہ ( عید کی قربانی ) کا کوئی ثبوت نہیں ( رسالہ قربانی از ادرہ طلوع اسلام )
9 ۔ عید کے دن بارہ بجے تک دس کروڑ روپےکا قومی سرمایہ ضائع ہو جاتا ہے اور یہ دس کروڑ ہر سال ضائع ہوتے ہیں ۔ ( رسالہ قربانی )
10 ۔ عید کی صبح بارہ بجے تک قوم کا کس قدر روپیہ نالیوں میں بہہ جاتا ہے ( ادرہ طلوع اسلام ص ا ستمبر 1950 )
11 ۔ روایات ( احادیث نبویہ ) محض تاریخ ہیں ( پرویز۔ طلوع اسلام ص 49 جولائی 1950 )
12 ۔ الغرض حدیث کا صحیح مقام دینی تاریخ وغیرہ کا ہے ۔ اس سے تاریخی فائدے حاصل کئے جاسکتے ہیں لیکن دینی حجت کے طور پر نہیں پیش کی جا سکتی ( اسلم جیراج پوری طلوع اسلام ص 73 نومبر 1950 )
13 ۔ حدیثیں ظنی ہیں ( مقدمہ اول ) ظن کی پیروی کرنا قرآن کی رو سے منع ہے ( مقدمہ دوم ) نتیجہ حدیث کی پیروی قرآن کی رو سے منع ہے ( اسلم جیراج پوری ۔ طلوع اسلام ص 75 جولائی 1950 )
14 ۔ بخلاف اس کے نہ حدیث پر ہمارا ایمان ہے نہ اس پر ایمان لانے کا ہم کو حکم دیا گیا ہے ( اسلم جیراج پوری طلوع اسلام ص 17 دسمبر 1950 )
15 ۔ حدیث کا پورا سلسلہ ایک عجمی سازش تھی اور جس کو شریعت کہا جاتا ہے وہ بادشاہوں کی پیدا کردہ ہے ( پرویز ۔ طلوع اسلام ص 7 اکتوبر 1952 )
16 ۔ صرف مردار ، بہتا خون ، خنزیر اور غیر اللہ کی نام کی طرف منسوب چیزیں حرام ہیں ۔ ان کے علاوہ اور کچھ حرام نہیں بلکہ محمد صبیح ایڈوکیٹ لکھتا ہے کہ مذکورہ چار چیزوں کے علاوہ باقی ہر چیز کا کھانا فرض ہے کھانے سے انکار کر دینا گناہ اور خد کے حکم کی معصیت ہے ( طلوع اسلام جون 1952 )
یعنی کتا ، گدھا، گیڈر ، بلی ، چوہا حتی کہ پیشاب پاخانہ وغیرہ کا کھانا فرض ہے ۔ اس سے ظاہر ہے کہ منکرین حدیث خدا کے حکم کی معصیت سے بجنے کے لیے فرض اور ثواب سمجھ کر شبانہ روز مذکورہ چیزیں مزے لے لے کر کھاتے رہوں گے ۔ سود اللہ تعالی وجوھہم ،
دامن رسول صلی اللہ علیہ وسلم چھڑانے والا پنجہ مروڑ دیا جائیگا
اکتوبر 1952 کے رسالہ طلوع اسلام سے معلوم ہوتا ہے کہ پرویز ( علیہ ما علیہ ) کی پنشن کا زمانہ قریب ہے اور اس کو اتنی پنشن مل سکتی ہے کہ وہ معاش کی طرف سے بے فکر ہو جائے اب اس کو چند رازداں بھی ہاتھ آگئے ہیں ۔ لہذا پرویز ( علیہ ما علیہ ) اب اس مشن ( انکار حدیث ) کو پوری تنظیم کے ساتھ چلانے کا ارادہ کر رہا ہے ۔
لہذا ہم پرویز ( علیہ ما علیہ ) کو متنبہ کرتے ہیں کہ اگر تمھارے یہی عزائم اور حوصلے ہیں تو بسم اللہ ہم اس چیلنج کو قبول کرتے ہیں ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام اور کام کے فدائی سرور کائنات کی سنت اور اسوۃ حسنہ کے شیدائی اللہ کے فضل سے ابھی زندہ ہیں اور قیامت تک زندہ رہیں گے ۔ ہمارے ہاتھوں سے دامن رسول صلی اللہ علیہ وسلم چھڑانے کے لیے آگے بڑھنے والا پنجہ مروڑ دیا جائے گا ۔ طریق رسالت میں اٹکنے والا روڑا بوٹ کی نوک سے ٹھکرا دیا جائے گا ۔ رسول دشمنی کا حوصلہ رکھنے والے گروہ کے پرخچے اڑا دئیے جائیں گے ۔ اور راہ رسول میں کانٹے بچھانے والے چودھویں صدی کے ابو لہب کو اپنی سیہ کاریوں کا نتیجہ دنیا ہی میں بھگتنا پڑے گا ۔ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے قرارداد مقاصد میں کتاب اللہ کے ساتھ جو سنت کا لفظ بھی شریک کر دیا ہے ۔ اس پر پرویز ( علیہ ما علیہ ) بہت خفا ہے متواتر چیخ چیخ کر پکار رہا ہے اور دہائی دے رہا ہے کہ قرارداد مقاصد سے سنت نبوی کو حذف کر کے صرف کتاب اللہ کو باقی رکھا جائے ۔ یہ دریدہ دہن پاکستان میں بہت بڑے فتنہ کا دروازہ کھولنا چاہتا ہے اور حکومت کو مشورہ دیتا ہے کہ دین کے اصل الاصول اور مسلمانوں کے اجماعی عقیدہ کو یکسر ٹھکرا دیا جائے ۔ ہمیں یقین ہے کہ پاکستان کے ارباب حل و عقد کے سامنے ایسی مفسدانہ آوازیں صدا بصحر ثابت ہوں گی ۔ اگر بفرض محال دستور ساز اسمبلی نے قرارداد مقاصد سے سنت نبویہ حذف کر ڈالا تو جس دن ( خدا نہ کرے ) یہ اعلان ہو گا ۔ وہ دن پاکستان کی تاریخ میں شدید ترین کشمکش کا دن ہو گا ۔ یہ باتیں اس مملکت میں نہیں چل سکتیں جو کتاب و سنت کے نام پر وجود میں آئی ہو ۔ مسلمان اس متاع بے بہا کو کسی قیمت پر چھوڑ نہیں سکتے ہمارے انداز تحریر سے کسی صاحب کو درشتی کا شکوہ نہ ہو کیوں کہ یہ منکرین حدیث حقیقت میں منکرین اسلام ہیں ۔ یہ کفر اور ایمان کا سوال ہے ہم ان پر ذرہ برابر بھی نرمی کرنا روا نہیں سمجھتے ۔ ہماری ان سے جنگ ہے اور اس کی ابتداء ہم نے نہیں کی انہوں نے کی ہے انہوں نے ہی پہلے فتنہ کی آگ بھڑکایا ہے ۔ پس ہم بھی اس فتنہ کو کچلنے کے لیے اپنی تمام تر قوتیں صرف کر دیں گے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حیات ہماری جان اور ایمان ہے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام اور کام کی حفاظت کے لیے اپنی جان قربان کر دینا ہم انتہائی سعادت سمجھتے ہیں ۔
فان ابی و والدتی و عرضی لعرض محمد منکم وقاء
حق تو یہ ہے کہ اس قسم کے ملحدوں کو تہ تیغ کرکے انہیں ان کے کردار کا مزہ چکھا دیا جائے مگر شریعت غراء کی حفاظت اور امت مسلمہ کے امن کی خاطر بموجب قانون الہی کسی ملحد کو موت کے گھاٹ اتار کر اس کے وجود نامسعود سے دنیا کو پاک کر دینا تو در کنار یہاں تو اس قسم کے ملحدین کے متعلق لب کشائی کرنا اور صدائے احتجاج بلند کرنا بھی ممنوع قرار دیا گیا ہے ۔ یہ دستور زباں بندی عجب ہے تیری محفل میں یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
دنیا میں بڑے سے بڑا احمق پڑا ہوا ہے ۔
دنیا میں بڑے سے بڑا احمق پڑا ہوا ہے ۔
پرویز ( علیہ ما علیہ) اپنے عقیدت مندوں پر نہ اترائے ۔ عقیدت مندوں کا جمع ہو جانا حقانیت کی دلیل نہیں ۔ اس دنیا خیر و شر میں کوئی ایسا پلیٹ فارم نہیں جس پر اجتماع نہ ہوا ہو ہر آواز پر کچھ نہ کچھ لوگ جمع ہو جاتے ہیں ۔ ہم نے دیوانوں اور پاگلوں کے پیچھے عقیدت مندوں کی ٹولیوں کو ہاتھ باندھے ہوئے دیکھا ہے ہماری ہی بستی میں ایک شخص ایک ہندو کا اس لیے عقیدت مند ہے کہ وہ ہندو پاگل ہے ۔ جب قادیانی مجنون ( جو مراق کا خود اقرار کرتا ہے) کے پیچھے ہزاروں حمقا جمع ہو سکتے ہیں تو بٹالوی منکر اسلام کے جھنڈے کے نیچے اگر چند بے وقوف اکٹھے ہو جائیں تو کیا تعجب ہے ؟ دنیا میں بے وقوفوں کی کمی نہیں یہاں بڑے سے بڑا احمق پڑا ہوا ہے۔
خوفناک فتنہ کے مقابلہ میں کھڑے ہو جاؤ
ہم اوپر ظاہر کر چکےہیں کہ کہ چودھویں صدی کا ابو لہب رسول دشمنی کے منصوبے کو جماعتی تنظیم کے ساتھ چلانا چاہتا ہے ۔ لہذا اے شمع رسالت کے پروانو ، سیدالکونین صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیواؤ ، محبوب دو عالم کی محبت اور عشق کے دعویداروں ، شفیع المذنبین کی شفاعت کے طالب گارو ، اٹھو دشمنان رسول کے مقابلہ کے لیے کھڑے ہو جاؤ ۔ بے غیرت ہے وہ شخص جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کوئی آواز سنے اور اس کی حمیت بے چین نہ ہو بے ایمان ہے وہ سیاہ بخت جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنے کے منصوبے آنکھوں سے دیکھ رہا ہو اور اس کے دل پر چوٹ نہ لگیں ملعون ہے وہ مسلمان کہلوانے ولا جس کے روبرو حضور اکرم صلی اللہ کے نام اور اسوہ حسنہ کو مٹایا جا رہا ہو، مگر اس کی رگوں میں خون نہ گرمائے اور جسم کے رونگٹے کھڑے نہ ہوں ۔ ہر مسلمان پر فرض ہے کہ اس شجر خبیث کی بیخ کنی کے لیے مستعد اور کمر بستہ ہو جائے ۔ اس فتنہ کو نرمی اور ملایمت سے رام نہیں کیا جاسکتا۔ اسے دبانے کے لیے پوری قوت اور شدت سے کام لینا پرے گا ۔ وہ اہل ایمان جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع کو عین ایمان جانتے ہیں ان کا فرض ہے کہ تقریروں ، تحریروں ، عام محفلوں اور نجی صحبتوں میں اس فتنے پر ملامت کریں ۔ اور نا واقف مسلمانوں کو اس بے دینی سے بچائیں ۔ یہ اختلاف مسلمانوں کے مختلف مسلمانوں کے مختلف مسالک کے درمیان فروعی اختلاف جیسا نہیں ۔ یہ ایمان اور کفر کا اختلاف ہے ۔ لہذا تمام تر جزئی اختلاف کو چھوڑ کر متحد محاذ قائم کرنا اور مسلمانوں کی جمیع جماعتوں کا ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر اس فتنہ کا مقابلہ کرنا فرض ہے ۔
اس کے بعد ہم حجیت حدیث پر مختصراً چند دلائل پیش کرتے ہیں ۔ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ دشمنان رسول کے مقابلے کھڑے ہوتے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے قل و جبریل معک اس لیے میں دشمنان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں مضمون لکھتے وقت ہر لمحہ کو انتہائی سعادت اور خوش نصیبی سمجھتا ہوں ۔ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم فداہ ابی و امی کا مذکورہ بالا ارشاد گرامی جب آنکھوں کے سامنے آتا ہے ۔ تو دل میں وہی سرور موجزن ہونے لگتا ہے جو حضرت حسان کے قلب میں ہوتا ہو گا ۔ اس لطف و سرور کے سامنے دنیا بھر کی لذتیں بے کیف اور بڑے سے بڑے مصائب اور رنج و غم کافور ہو جاتے ہیں یہی اور صرف یہی ایک خدمت ہے جسے میں اوثق الاعمال اور ذریعہ نجات سمجھتا ہوں اور یہی ہدیہ اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کرتا ہوں ،،، گر قبول افتدز ہے عزو شرف
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔