Rashid Ashraf
محفلین
خیر اندیش
راشد اشرف
کراچی سے
فتوحات اتوار بازار۔بیان م حسن لطیفی و ظفر اقبال کا
یکم اپریل۔ ۲۰۱۲
شہر کراچی کے حالات کے برعکس پرانی کتابوں کا اتوار بازار حسب معمول مہربان رہا، احباب صبح صبح پہنچ جاتے ہیں، ایک دوسرے کو کتابوں کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے، بازار میں رکھی کوئی کتاب کسی ایک کے پاس پہلے سے موجود ہو تو دوسرے کو اسے خریدنے کا مشورہ دیتے ہوئے، کسی دوسرے کو درکار کتاب فراغ دلی سے فوٹو کاپی یا اسکیننگ کے لیے فراہم کرتے ہوئے۔ گھر سے نکلا تو رستے میں عا بدہ رحمانی صاحبہ یاد آئیں جنہوں نے مہینہ بھر قبل بزم قلم پر شامل کی گئی ایک روداد کے جواب میں کہا تھا کہ بھارت میں ٹنڈلکر اور پاکستان میں پیٹرول اور ڈالر سو کا ہندسہ عبور کرجائے تو آگاہ کرنا۔ اب انتظار ڈالر کا ہے کہ بقیہ دو تو منزل پر پہنچ کر شاد ہوئے ہیں لیکن دم پھر بھی نہیں لیا، مزید آگے جانے کا ادارہ رکھتے ہیں۔ علی گڑھ سے کراچی آئی پروفیسر صاحبہ آج صبح عازم وطن ہوئیں، ان کے قیام کے دوران کراچی کے حالات اچھے نہ رہے ، پروفیسر صاحبہ کے ارادوں میں کھنڈت پڑتی رہی ، ادھر میں فون پر ان کی ڈھارس بندھاتا تھا کہ یہ تو ’معمول ‘ ۔ کی بات ہے ، ہمارے لیے تو اسے معمول بنے کئی برس گزر چکے ہیں۔ حضرت صبا اکبر آبادی نے برسوں پہلے شعر کہا تھا :
یہ ہمیں ہیں کہ ترا درد چھپا کر دل میں
کام دنیا کے بدستور کیے جاتے ہیں
اہل کراچی تمام تر خدشوں کے باوجود اپنے کام بدستور کیے جاتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اس مرتبہ ایک بہت کمال کی کتاب ہاتھ لگی ہے، یہ ہے " ناصر کاظمی۔ایک دھیان"مصنف: شیخ صلاح الدین، انیس سو بیاسی میں شائع ہوئی تین سو صفحات پر مشتمل یہ کتاب لاہور سے شائع ہوئی تھی، اس کا ذکر بہت سنا تھا۔" ناصر کاظمی۔ایک دھیان" یاد نگاری کا بہترین مرقع ہے، شیخ صاحب نے موضوع کا حق ادا کردیا ہے۔کتاب کو احباب کے لیے اسکین کررہا ہوں، بزم پر حجم کی حد مقرر ہونے کے سبب اسے پیش کرنے میں دقت ہوگی، ایک ممکنہ طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ احباب کے ’برقی آڈرز‘ موصول ہوں اور کتاب جہاں ہے جیسے ہے کی بنیاد پر روانہ کردی جائے۔یاد رہے کہ محدود تعداد میں کاپیاں ہونے کے سبب پہلے آئیے اور پہلے پائیے کے زریں اصول پر عمل کیا جائے گا لہذا اپنے آرڈز ابھی سے بکُ کرالیجیے۔
ناصر کاظمی پر بہت کم کتابیں لکھی گئی ہیں، ایک حالیہ ملاقات میں ہم نے یہ گلہ انتظار حسین صاحب سے کیا کہ ان کی خودنوشت چراغوں کا دھواں میں ناصر کاظمی کا ذکر دلنواز ہے تو سہی لیکن ایک تشنگی پھر بھی باقی رہ گئی ہے۔انتظار صاحب نے انکشاف کیا کہ وہ ان دنوں اپنے عزیز از جان دوست ناصر کاظمی پر ایک کتاب لکھنے میں مصروف ہیں۔
" ناصر کاظمی۔ایک دھیان" کے مصنف شیخ صلاح الدین کا ذکر چراغوں کا دھواں میں انتظار صاحب نے بھی کیا ہے
:
آ شیخ صلاح الدین
جا شیخ صلاح الدین
پنجابی میں وہ بولا
پا شیخ صلاح الدین
مذکورہ تک بندی حفیظ ہوشیار پوری کے ذوق سخن کا نتیجہ ہے جو ہر کس و ناکس کو دیکھتے ہی رواں ہوجاتے تھے، مبارک احمد پر نظر پڑی تو پکار اٹھے
:
اس کی خالہ کا ہو خدا حافظ
جس کا خالو ہے مبارک احمد
صفدر میر کو دیکھا تو شعر موزوں کیا:
دیکھیؤ نہ رہ جائے کوئی در کھلا
پھر رہا ہے شہر میں صفدر کھلا
ان دنوں ذکر حضرت ظفر اقبال کا ہے، کراچی کے ادبی پرچے مکالمہ میں ’میر کے تاج محل کا ملبہ ‘ لکھ کر تو آپ پہلے سے زیادہ مشہور ہوگئے ہیں۔ اکثر یہ دیکھا ہے جس کسی کتاب ہا معلومات کی جب جب بھی خصوصیت سے ضرورت پڑی، انہی دنوں میں اتوار بازار سے مطلوبہ کتاب مل گئی ۔کچھ ایسا ہی اس بار بھی ہوا جب حضرت ظفر اقبال کا شعری مجموعہ ’ رطب و یابس‘ اتوار بازار میں رکھا نظر آیا۔ کتاب کے فلیپ پر بانو قدسیہ کا تبصرہ موجود ہے۔ بانو قدسیہ کا کہنا ہے کہ ’’ظفر اقبال کی شاعری دراصل ایک خوبصورت بٹن کی مانند ہے، ایک ایسا بٹن جو لنڈے کے پرانے کوٹ سے اتار کر شہر کی سب سے دیدہ زیب عورت اپنے چمڑے کے چمکیلے کوٹ میں ٹانک لے‘ ، اس بٹن میں چار سوراخ ہیں اور تمنا کی ابتری کا مضبوط دھاگہ‘ ، بٹن کے ایک سوراخ میں اس کے زبان کے تجربات ہیں، دوسرے سوراخ سے گھروں کے اندر جھانکا جاسکتا ہے، تیسرے سوراخ سے گلابی مزاح کی دھوپ جھلکتی ہے اور چوتھا سوراخ بہت مہیب اور غم دیدہ ہے
سبحان اللہ۔۔۔بانو آپا ، آپ کے کیا کہنے۔۔۔ لوگ انہی باتوں کی وجہ سے تو آپ پر اور اشفاق صاحب پر جان چھڑکتے ہیں۔۔۔یہ بھی تو سوچیے کہ حضرت ظفر اقبال کی شاعری پڑھنے کے بعد ان کے بے بس و بے کس قاری کے سر میں جتنے سوراخ ہوئے ہیں ان کا مداوا کرنے والا کون ہے....
شہر کی سب سے دیدہ زیب عورت حضرت کی شاعری کا بٹن اپنے کوٹ میں جب بھی ٹانکے گی، گمان ہے کہ اسکا کوٹ چمکیلا ہرگز نہیں رہے گا، ہمیں تو آپ کا بیان کردہ دھاگہ تمنا کی ابتری کا کم اور تمنا کی افراتفری کا زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ رہا سوال چوتھے سوراخ کا جو آپ کا الفاظ میں "بہت مہیب اور غم دیدہ ہے‘‘، تو عرض یہ ہے کہ یہی چوتھا سوراخ حضرت کی شاعری میں نمایاں اور بڑا نظر آتا ہے اور بعض نقادوں کی نظر میں سوراخ مذکورہ سے جناب شاعر کی شاعری اسی مہیب خلا میں جا گری ہے جس کا ذکر آپ کرچکی ہیں، رہ گئی غم دیدگی کی بات تو اس کے متاثرین میں جناب شاعر نہیں بلکہ ان کا قاری شامل ہے۔ ذرا غور سے دیکھیے، خوف کی الٹی لٹکی چمگادڑ وں ہی کے آس پاس جناب شاعر کا قاری بھی خوف سے سہما الٹا لٹکا نظر آئے گا۔
فلیپ لکھنا تو ایک فیشن بن گیا ہے، ہندوستان کے ایک بہت پڑھے لکھے شخص نے آخری عمر میں کہا تھا کہ میں نے اپنی زندگی میں اب تک کتابوں پر جتنے بھی فلیپ لکھے ہیں، میں ان سے دستبرداری کا اعلان کرتا ہوں۔ ذرا ملاحظہ تو کیجیے کہ کتاب میں دھرا کیا ہے :
ستر پوشی ہے قافیہ بندی
ہاں ذرا کس کے باندھیے شلوار....
سوچیے شعر کا نیا کوئی کوڈ
ساتھ چلتا نہیں ہے یہ بھی موڈ....
دھوپ سے کچھ بچاؤ رہتا ہےسر پہ رکھتے ہیں شاعری کا ٹوپ
....
خیر آپ بھی بدمعاش ہوں گے
میں ہوں ذرا مختلف لفنگا
......
میں اتنا بدمعاش نہیں یعنی کھل کے بیٹھ
چبھنے لگی ہے دھوپ، سوئٹر اتار دے
.....
بانو قدسیہ اکیلی ہی نہیں ہیں ، انیس ناگی بھی کمر کس کے ان کی مدد کو پہنچے تھے ، کیوں نہ آتے کہ اپنے پرچے ’دانش ور ‘میں ظفر اقبال کی ’غزلاں‘ جو شائع کرتے تھے۔خامہ بگوش نے دانش ور میں چھپی ان کی ایک غزل کے یہ دو اشعار استاد لاغر مراد آبادی کو سنائے تھے:
جو آن کے ہمسائے ہمارے میں ر ہیں گا
تحقیق کہ خود ہی خسارے میں رہیں گا
اس گھر کی بناوٹ ہی ایسی ہے کہ وہ شوخ
ایک بار رہیں گا تو دوبارے میں رہیں گا
اور استاد گرامی نے یہ شعر سن کر فی البدیہہ فرمایا تھا:
ناگی نے جو چھاپیں ظفر اقبا ل کی غزلاں
جو ان کو پڑھیں گا وہ خسارے میں رہیں گا