صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1166 حدیث متواتر حدیث متفق علیہ
مسدد یزید بن زریع معمر زہری عروہ حضرت عائشہ (رض) سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتی ہیں کہ نماز دو دو رکعت فرض ہوئی تھی پھر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہجرت فرمائی تو چار چار رکعت فرض ہوگئی اور سفر کی نماز پہلی حالت پر باقی رکھی گئی ہے عبدالرزاق نے معمر سے اس کے متابع حدیث روایت کی ہے۔
حدیث فراہم کرنے کا شکریہ۔۔۔ یہ حدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب "نماز قصر کے بیان" میں درج فرمائی ہے۔۔۔
یہ بات تو آپ کو معلوم ہی ہو گی کہ ایک ہی حدیث مختلف صحابہ کرام سے الفاظ کی کمی بیشی کے ساتھ مختلف اوقات میں روایت کی جاتی ہے۔ مثلاً کسی صحابی نے ایک جگہ ضرورت کے حساب سے ایک ہی جملہ بیان کیا اور کسی جگہ مکمل حدیث بیان کر دی گئی۔ اسی طرح ایک محدث نے اپنی کتاب میں کتاب کے باب کے حساب سے ایک روایت کو ترجیح دی تو دوسری جگہ اُسی حدیث کی دوسری روایت کو۔۔۔
اب آتے ہیں آپ کی کوٹ کردہ اوپر والی حدیث کی طرف۔۔۔ صحیح بخاری اور مسلم میں اس مفہوم کی ایک حدیث یوں بھی بیان کی گئی ہے۔۔۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ"
فرض الله الصلوة حين فرضها ركعتين ركعتين في الحضر والسفر فاقرت صلوة السفر وزيد في الصلوة الحضر"
اللہ نے جب نماز فرض کی تو سفر اور حضر( گھر اور حالت اقامت) میں دو دو رکعتیں فرض کیں پھر سفر کی نماز تو اس پر قائم رہی اور حضر( گھر اور حالت اقامت) والی نمازمیں اضافہ کردیاگیا۔(صحیح بخاری : 350 وصحیح مسلم :1570/655)
کوئی استاد محترم یہ بتا سکتے ہیں کہ (پہلے سوال میں) فجر کی رکعات 2 کیوں ہیں۔ کسی مستند روایت سے سمجھایا جائے۔
اگر کسی کی نظر میں بخاری کی یہ روایت قابل قبول نہیں تو بھی فجر کی رکعات کے متعلق مستند روایت درکار ہے۔
(مغرب اور جمعہ اس سوال میں شامل نہیں)
اب آتے ہیں آپ کے پوچھے گئے اصل سوال یعنی فجر کی دو رکعتوں کے حوالے سے مستند روایت کی طرف۔۔۔
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اپنی مسند میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی نقل فرماتے ہیں کہ۔۔۔
کان أول ما افترض علی رسول اللہ ﷺ الصلوٰۃ
رکعتان رکعتان إلا المغرب فإنھا کانت ثلاثاً، ثم أتم اللہ الظھر و العصر و العشاء الآخرۃ أربعاً فی الحضر و أقر الصلوٰۃ علی فرضھا الأول فی السفر“
رسول اللہ ﷺ پر پہلے دو دو رکعتیں نماز فرض ہوئی تھی سوائے مغرب کے وہ تین رکعات فرض تھی۔ پھر اللہ نے حضر میں ظہر، عصر اور عشاء کی نماز چار (چار) کردی اور سفر والی نماز اپنی حالت پر (دو دو سوائے مغرب کے) فرض رہی۔ (مسند الامام احمد ج ۶ ص ۲۷۲ ح ۲۶۸۶۹ دوسرا نسخہ : ۲۶۳۳۸ و سندہ حسن لذاتہ )
صحیح ابن حبان اور صحیح ابن خزیمہ میں
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی روایت ہے کہ :
“فرضت صلوٰۃ السفر و الحضر رکعتین فلما أقام رسول اللہ ﷺ بالمدینۃ زید فی صلوٰۃ الحضر رکعتان رکعتان و ترکت صلوٰۃ الفجر لطول القرأۃ و صلوٰۃ المغرب لأنھا وتر النھار“
سفر اور حضر میں دو (دو) رکعتیں نماز فرض ہوئی۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں اقامت اختیار کی تو حضر کی نماز میں دو دو رکعتوں کا اضافہ کردیا گیا اور صبح کی نماز میں طولِ قرأت اور مغرب کی نماز کو دن کے وتر ہونے کہ وجہ سے چھوڑ دیا گیا ۔ (صحیح ابن حبان ۱۸۰/۴ ح ۲۷۲۷ دوسرا نسخہ: ۲۷۳۸ و صحیح ابن خزیمہ ۷۱/۲ح ۹۴۴ و سندہ حسن)
امید ہے آپ کو اپنے سوال کا جواب مل گیا ہو گا۔۔۔
وما علینا الالبلاغ۔۔۔