سید شہزاد ناصر
محفلین
یہ غزل بہت پہلے میں نے پڑھی تھی ذہن سے محو ہو گئی اردو محفل کی بدولت فارسی کا ادبی ذوق پھر سے جوان ہو گیا بہت تلاش کے بعد یہ غزل ملی ہے قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں افسوس کہ اس کا ترجمعہ دستیاب نہیں اگر کوئی رکن ترجمہ کر سکے تو نوازش ہو گی غزل درج ذیل ہے
ما رخت ز مسجد بہ خرابات کشیدم
خط بر ورق زہد و کرامات کشیدم
در کوئی مغاں در صف عشّاق نشستیم
جام از کف رندان خرابات کشیدم
گر دل بزند کوس شرف شاید از این پس
چون رایت دولت یہ سماوات کشیدم
از زہد و مقامات گزشتیم کہ بیسار
کاس تعب از زہد و مقامات کشیدم