فرحت شہزاد :::: کُھلی جو آنکھ تو وہ تھا نہ وہ زمانہ تھا -- Ferhat Shehzaad

طارق شاہ

محفلین


غزلِ
فرحت شہزاد

کُھلی جو آنکھ ، تو وہ تھا، نہ وہ زمانہ تھا
دہکتی آگ تھی، تنہائی تھی، فسانہ تھا

غموں نے بانٹ لیا تھا مجھے یوں آپس میں
کہ جیسے میں کوئی لُوٹا ہُوا خزانہ تھا

یہ کیا کہ چند ہی قدموں پہ تھک کے بیٹھ گئے
تُمھیں تو ساتھ مِرا دُور تک نِبھانا تھا

مجھے، جو میرے لہو میں ڈبو کے گزُرا ہے
وہ کوئی غیر نہیں، یار اِک پُرانا تھا

خود اپنے ہاتھ سے شہزاد اُس کو کاٹ دِیا
کہ جس درخت کی ٹہنی پہ آشیانہ تھا

فرحت شہزاد
 

mtahirz

محفلین
یہ کیا کہ چند ہی قدموں پہ تھک کے بیٹھ گئے
تُمھیں تو ساتھ مِرا دُور تک نِبھانا تھا

مجھے، جو میرے لہو میں ڈبو کے گزُرا ہے
وہ کوئی غیر نہیں، یار اِک پُرانا تھا

بہت خُوب
 

زبیر حسین

محفلین

غزلِ
فرحت شہزاد

کُھلی جو آنکھ ، تو وہ تھا، نہ وہ زمانہ تھا
دہکتی آگ تھی، تنہائی تھی، فسانہ تھا

غموں نے بانٹ لیا تھا مجھے یوں آپس میں
کہ جیسے میں کوئی لُوٹا ہُوا خزانہ تھا

یہ کیا کہ چند ہی قدموں پہ تھک کے بیٹھ گئے
تُمھیں تو ساتھ مِرا دُور تک نِبھانا تھا

مجھے، جو میرے لہو میں ڈبو کے گزُرا ہے
وہ کوئی غیر نہیں، یار اِک پُرانا تھا

خود اپنے ہاتھ سے شہزاد اُس کو کاٹ دِیا
کہ جس درخت کی ٹہنی پہ آشیانہ تھا

فرحت شہزاد
ہر شعر ہی لاجواب ہے۔
 

کاشفی

محفلین
مجھے، جو میرے لہو میں ڈبو کے گزُرا ہے
وہ کوئی غیر نہیں، یار اِک پُرانا تھا

واہ، بہت ہی عمدہ۔۔ شیئر کرنے کے لیئے بہت شکریہ۔
 
Top