طارق شاہ
محفلین
غزلِ
فرحت شہزاد
کُھلی جو آنکھ ، تو وہ تھا، نہ وہ زمانہ تھا
دہکتی آگ تھی، تنہائی تھی، فسانہ تھا
غموں نے بانٹ لیا تھا مجھے یوں آپس میں
کہ جیسے میں کوئی لُوٹا ہُوا خزانہ تھا
دہکتی آگ تھی، تنہائی تھی، فسانہ تھا
غموں نے بانٹ لیا تھا مجھے یوں آپس میں
کہ جیسے میں کوئی لُوٹا ہُوا خزانہ تھا
یہ کیا کہ چند ہی قدموں پہ تھک کے بیٹھ گئے
تُمھیں تو ساتھ مِرا دُور تک نِبھانا تھا
مجھے، جو میرے لہو میں ڈبو کے گزُرا ہے
وہ کوئی غیر نہیں، یار اِک پُرانا تھا
خود اپنے ہاتھ سے شہزاد اُس کو کاٹ دِیا
کہ جس درخت کی ٹہنی پہ آشیانہ تھا
فرحت شہزاد
تُمھیں تو ساتھ مِرا دُور تک نِبھانا تھا
مجھے، جو میرے لہو میں ڈبو کے گزُرا ہے
وہ کوئی غیر نہیں، یار اِک پُرانا تھا
خود اپنے ہاتھ سے شہزاد اُس کو کاٹ دِیا
کہ جس درخت کی ٹہنی پہ آشیانہ تھا
فرحت شہزاد