فرعونیت کے علم بردار

ساجد

محفلین
اب سے قریب تین گھنٹے قبل ایک ڈرون حملے میں پھر سے امریکی جارحیت بے نقاب ہوئی ہے تفصیل یہاں پڑھیں۔
رمضان المبارک کا آغاز ہوا اور پھر یوم آزدی امریکہ نے حسب معمول منافقت سے کام لیتے ہوئے مسلمانوں اور پاکستانیوں کے لئیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے مامور نے ایک بیان اوبامہ اور دوسرا ہیلری کے نام سے بڑے اہتمام کے ساتھ اردو محفل پہ پیش کیا۔ میں نیچے ایک لنک دے رہا ہوں اور توقع رکھتا ہوں کہ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا یہ مامور میرا یہ پیغام اور لنک فرعون کی طفل کش پالیسی کے پیروکار اوبامہ اور ہیلری تک بھی پہنچائے گا۔
http://tribune.com.pk/story/229751/drone-campaign-unsuspecting-victims-of-a-precise-warfare/
 

ساجد

محفلین
شمشاد بھائی ، خوب یاد دلایا اپنی کھٹی دہی کا۔ آپ سب گواہ ہیں کہ اپنی کھٹی دہی کو بھی میں نے کبھی نہیں سراہا۔ ان بیرونی حملہ آوروں اور غاصبوں کے خلاف مدافعتی آواز بلند کرنا اس کھٹی دہی کے خلاف احتجاج بھی ہے۔
 

ساجد

محفلین
جی بالکل بھگت رہے ہیں شمشاد بھائی۔ روزانہ سینکڑوں پاکستانی داخلی و خارجی دہشت گردوں کا نشانہ بن رہے ہیں اور ان کی حمیت نہیں جاگتی۔
 

dxbgraphics

محفلین
جب سات ہزار ریمنڈ ڈیوس ہونگے پاکستان میں تو کچھ نہ کچھ نتیجہ تو نکلنا ہی ہے۔ دہشت گردوں کی فیکٹریاں کارخانے تو نہیں اور نہ ہی لینلارڈ ہیں۔ یقینا ان کو فنڈنگ حکومت سطح پر ہی ہوسکتی ہے اور وہ ہے امریکی حکومت۔ جو کہ پاکستان کو ناکام ریاست بنا کر ہمیں ایٹمی اثاثوں سے محروم کرنا چاہتے ہیں
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

آپ يہ چاہتے ہيں کہ میں اس بحث کے ايک پہلو پر توجہ مرکوز رکھوں اور باقی جہتوں کو نظرانداز کر دوں۔ ليکن کسی بھی موضوع پر تعميری اور سہل حاصل گفتگو کے لیے يہ ضروری ہوتا ہے کہ آپ دونوں جانب کے فريقین کے نقطہ نظر اور حقائق کو سامنے رکھيں تا کہ مسلئے کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ آپ کو اس بات کا پورا حق حاصل ہے کہ آپ دہشت گردی کے ضمن ميں ہونے والی عالمی کاوشوں کے دوران بے گناہ انسانی جانوں کے ضياع پر اپنے غم و غصے کا اظہار کريں۔ ليکن اس ضمن میں حتمی رائے قائم کرنے سے پہلے آپ کو يہ بات بھی مدنظر رکھنی ہو گی کہ عالمی برادری بشمول امريکی اور پاکستانی حکومتوں کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کے نتيجے میں کتنے بے گناہ انسانوں کو بچانا ممکن ہو سکا۔

ذرا تصور کريں کہ وہ تمام دہشت گرد جو پاکستان کے اندر گرفتار يا ہلاک کيے جا چکے ہيں، اگر ان کے خلاف کوئ کاروائ نہ کی جاتی اور وہ آج بھی بلا روک ٹوک پاکستان کے اندر کم سن بچوں کو اپنے مذموم مقاصد کی تکميل کے ليے خود کش حملہ آور بنانے میں مصروف ہوتے اور پاکستان کے اہم شہروں ميں بغیر کسی روک ٹوک کے دہشت گردی کرنے کے لیے آزاد ہوتے تو اس کے نتيجے ميں کتنے اور معصوم پاکستانی شہری لقمہ اجل بنتے۔ کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ ان دہشت گردوں کے خلاف اس خوف اور خدشے کے تحت کاروائ نہيں کی جانی چاہيے کہ ان کے خلاف کسی بھی آپريشن کے نتيجے ميں بے گناہ افراد کی ہلاکت کا امکان موجود رہتا ہے؟

کيا آپ کے خيال ميں دنيا ميں آج زيادہ امن ہوتا اگر القائدہ کی دو تہائ سے زيادہ قيادت جو گزشتہ 10 برسوں کے دوران گرفتار اور ہلاک ہو چکی ہے، اسے بغیر کسی ردعمل اور کاروائ کے خوف کے اپنی کاروائياں جاری رکھنے کا موقع فراہم کيا جاتا؟ ايسی صورت حال ميں ان مجرموں کو اپنی صلاحيتوں ميں اضافے اور اپنی تنظيم کو مضبوط کر کے اس ميں مزيد دہشت گرد شامل کرنے کا موقع ملتا جس کے نتيجے ميں ان کی جانب سے مزید قتل و غارت گری کا بازار گرم کيا جاتا۔

اس میں کوئ شک نہيں کہ دہشت گردی کے خلاف جاری مہم اور ان مجرموں کو قانون کے کٹہرے ميں لانے کے لیے کی جانے والی کوششوں کے ضمن ميں بے گناہ انسانوں کی جانيں بھی گئ ہيں۔ سينکڑوں کی تعداد ميں امريکہ اور نيٹو کے فوجی بھی اپنی جانوں کی قربانی دے چکے ہیں۔ ليکن يہ نہیں بھولنا چاہيے کہ ہزاروں کی تعداد ميں بے گناہ شہری آج اس وجہ سے محفوظ بھی ہیں کہ القائدہ اور اس سے منسلک گروہ اپنی بقا کی کوشش کر رہے ہيں اور ان کی تمام تر توجہ 911 جيسے مزيد واقعات کی بجائے اپنی وجود کے دفاع پر ہے۔ میں يہ بھی واضح کر دوں کہ امريکی اور نيٹو افواج بے گناہ افراد کی ہلاکت کے واقعات کی اصل ذمہ دار نہيں ہیں۔ يہ ايک واضح حقیقت ہے کہ دہشت گرد دانستہ اپنے آپ کو بچانے کے لیے انسانی آباديوں کو استعمال کرتے ہيں اور عام لوگوں ميں گھل مل جاتے ہیں۔ يہ وہ مجرم اور ان کا طریقہ کار ہے جو آپ کی تنقيد کے اصل حقدار ہیں جو مذہب کا سہارا لے کر بے گناہ عورتوں اور بچوں کو بھی معاف نہيں کرتے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
:worried:
 

ساجد

محفلین
اتنا لمبا چوڑا پر فریب پیغام لکھنے کی قطعی ضرورت نہ تھی۔
اب پڑھئیے ذرا غور سے!!!!
حقانی گروپ ، جو روز اول سے افغانستان میں امریکی جارحیت کا مخالف ہے وہ آج کل امریکیوں کا ٹارگٹ ہے۔ وجہ یہ ہے کہ امریکیوں کی واپسی میں یہ گروپ ان پر جان لیوا حملے کرنے کی استعداد رکھتا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ ڈیورنڈ لائن کے دونون اطراف پشتون آباد ہیں جو آپس میں رشتہ داریاں رکھتے ہیں۔ اور ان کے خونی رشتے سرحد کے دونوں اطراف میں ہیں۔ یہ لوگ اپنے قاتل کو معافی مانگنے پہ معاف تو کر دیتے ہیں لیکن اس کو بھاگنے نہیں دیتے۔ یہی وہ کہانی ہے جو سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے درمیان کشاکش کا باعث ہے۔ حقانی گروپ نہ تو موجودہ تحریک طالبان پاکستان میں شامل ہے اور نہ ہی اس نے پاکستان میں خود کش حملے کروائے اور یہی گروپ ہے جو امریکہ کے ساتھ نام نہاد مذاکرات میں بھی شریک نہیں ہوا۔ اب امریکی حکومت میڈیا اور جھوٹ کا جتنا بھی سہارا لے کہ یہ طالبان پہ حملے ہیں سب غلط ہے۔ اور پاکستان بھی جتنا کہے کہ وہ امریکہ سے اس گروپ کے بارے میں تعاون کر رہا ہے وہ بھی غلط ہے۔ دراصل امریکہ جیسی بڑی طاقت کے مقابلے میں یہ گروپ پاکستان کے لئیے اس کی مغربی سرحد پر فوج سے دباؤ کم کرنے میں ممد ہو گا۔ وقت تیزی سے امریکہ کے ہاتھ سے نکل رہا ہے ۔ گزرتا ہوا ہر لمحہ امریکی جھنجھلاہٹ میں اضافہ کر رہا ہے اور اسے اب ڈرون حملے ہی سوجھتے ہیں بھلے ان میں کتنے ہی سویلین مارے جائیں۔
بات لمبی نہیں کروں گا جو کچھ لکھ دیا گیا وہ بہت کچھ آشکار کر رہا ہے۔
 

عثمان

محفلین
ڈرون حملوں نے تو پھر کچھ ڈکا لگا رکھا ہے ، ورنہ طالبانیت کے علمبردار پینتیس ہزار نہیں بلکہ پینتیس لاکھ کا خون پی چکے ہوتے!
 

ساجد

محفلین
قانون اور جمہوریت کے دعویداروں کا اصل چہرہ ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔
1 ڈرون حملے بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہیں۔ لیکن امریکہ اس کا ارتکاب کئیے جا رہا ہے۔
2 پاکستان کی مقننہ اس کے روکنے کے لئیے ایک متفقہ قرارداد منظور کر چکی ہے اور اس کی کاپی امریکہ کو ارسال کر دی گئی لیکن خود مختاری اور ممالک کی جغرافیائی حدود کے کسی قانون کی امریکہ نے کبھی پرواہ نہیں کی۔
3 خود امریکہ کے حربی ماہرین ڈرون کے استعمال کے خلاف ہیں اور اسے حربی قوانین کی پامالی قرار دے چکے ہیں۔
4 اقوام متحدہ کا ادارہ یونیسف کہہ چکا ہے کہ ڈرون میں یا خود کش حملوں میں ایک معصوم جان کی تلفی بھی ناقابل قبول ہے اور اس میں بچوں کی اکثریت جاں بحق ہوئی ہے۔ لیکن امریکہ ڈھٹائی پہ قائم ہے۔
اگر یہ ڈرون ہی مسئلے کا حل ہیں تو برطانیہ 5 دن تک لندن اور مانچسٹر کو جلتے کیوں دیکھتا رہا ۔ 2 ڈرون حملے کافی نہ ہوتے شدت پسندوں پہ قابو پانے میں؟۔
ناروے ایک شدت پسند عیسائی کے ہاتھوں اپنے 86 شہری یک مشت گنوا کر بھی اس کی تحقیقات کیوں کر رہا ہے ان مراکز پہ ایک ڈرون کافی نہ ہوتا جہاں سے اس شدت پسند نے ٹریننگ لی؟۔
شمالی آئر لینڈ کے قتل و غارت کے اعداد و شمار پہ کبھی غور کیا؟ کیا خیال ہے وہاں ڈرون کے استعمال کے بارے میں؟
بھارت اپنی نو شورش زدہ ریاستوں میں روزانہ درجنوں شہری گنوا رہا ہے ۔ لیکن اسے ڈرون استعمال کرنے کا خیال نہ آیا۔
سری لنکا 35 برس تک تامل ٹائیگرز سے لڑتا رہا لیکن ڈرون کے بغیر ہی یہ لڑائی چلتی رہی۔ کم عقل سری لنکز نے یہ آسان ڈرون حل کیوں اختیار نہ کر لیا۔
میڈیا اور امریکی جھوٹ سے متاثرین کبھی موت کا رقص اس قریب سے دیکھیں کہ ان کا کوئی عزیز اس کی بھینٹ چڑھ گیا ہو تو میں دیکھوں گا کہ کس طرح سے ڈرونز کی حمایت جاری رکھتے۔
سب سے بڑا جھوٹ ہے کہ ڈرونز نے طالبان کو کمزور کیا ان کی کمر پاکستانی فوج نے توڑی۔ یہ خود کش طالبان تو خود امریکہ کے فنڈ سے پلتے ہیں وہ ان میں سے انہی مارتا ہے جو نافرمان ہو جائیں اور پاکستان میں دہشت گردی سے انکار کر دیں یا امریکیوں کو آنکھیں دکھانے کی غلطی کر بیٹھیں۔ نیک محمد اور بیت اللہ محسود کی موت اس کے ثبوت ہیں۔ اول الذکر نے امریکہ سے تعاون کرنے سے انکار کیا تھا اور پاکستان کا ساتھ دینے کی حامی بھر لی تھی۔ اور ثانی الذکر نے اپنا گروپ بنانے کی کوشش کی تھی۔ ابھی بھی وہ طالبان کو نہیں صرف حقانی کے امریکہ مزاحم گروپ کو ڈرون کا نشانہ بنا رہا ہے۔ یاد رکھین کہ امریکہ افغانستان اور پاکستان میں جارحیت کر رہا ہے اور یہ ضروری نہیں کہ اس کی مزاحمت کرنے والے طالبان یا ان کے حامی ہوں۔ جن کے پیارے اس جارحیت میں ان سے بچھڑ گئے اور جن کے گھر اجڑے وہ بھی جذبات رکھنے والے انسان ہیں اور امریکہ طالبان کا ڈھنڈورہ پیٹ پیٹ کر سب کو روندنے کے چکر میں ہے۔
طالبان خونی اور قاتل ہیں ان کی کہانی ایک حقیقت ہے لیکن امریکی ڈرونز سے اس کہانی کا کوئی تعلق نہیں سوائے جھوٹ اور میڈیا کے غلط استعمال کے۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

کچھ رائے دہندگان اپنے دلائل ايسے دعوؤں کو بنياد بنا کر پيش کرتے ہيں جو ناقابل فہم بھی ہوتے ہيں اور پڑھنے والوں سے اس غلط توقع کے متقاضی بھی ہوتے ہيں کہ ان بے سروپا الزامات کو من وعن حقيقت سمجھ کر تسليم کر ليا جائے۔

دسمبر 2007 ميں تحريک طالبان پاکستان کا باضابطہ اعلان بيت اللہ محسود کی قيادت ميں کيا گيا تھا۔

ريکارڈ کی درستگی کے ليے آپ کو ياد دلا دوں کہ امريکی فوج نے اگست 2007 ميں ہی بيت اللہ محسود کی گرفتاری پر پچاس ہزار ڈالرز کا انعام رکھا تھا جسے امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ نے مارچ 25 2009 کو بڑھا کر 5 ملين ڈالرز کر ديا تھا۔

ستمبر 1 2010 کو امريکہ نے تحريک طالبان پاکستان کو ايک بيرونی دہشت گرد تنظيم قرار ديا اور حکيم اللہ محسود اور ولی الرحمن کو "خصوصی عالمی دہشت گرد" قرار ديا۔ تحريک طالبان پاکستان کو ايک دہشت گرد تنظيم کا درجہ ديے جانے کے بعد اس تنظيم کی حمايت يا اس سے ميل ملاپ ايک جرم ہے اور امريکی حکومت اس تنظيم سے متعلق کسی بھی اثاثے کو منجمند کرنے کی مجاز ہے۔ اس کے علاوہ امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ نے ان دونوں افراد کی حدود واربعہ سے متعلق معلومات مہيا کرنے پر 5 ملين ڈالرز کا انعام بھی مقرر کيا۔

امريکی سيکرٹری آف اسٹيٹ اس طرح کے انعام کے اعلان کا صرف اسی صورت ميں مجاز ہوتا ہے جب کسی ايسے شخص کی گرفتاری کے ليے معلومات درکار ہوں جو يا تو اپنے اعمال، منصوبہ بندی، سازش، امداد يا ترغيب کے ذريعے امريکی املاک يا افراد کے خلاف عالمی دہشت گردی کی کاروائ ميں ملوث ہو۔ بيت اللہ محسود پر انعام کا اعلان اور تحريک طالبان پاکستان نامی تنظيم کو دہشت گرد قرار ديا جانا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ امريکی حکومت نے ہميشہ اس تنظيم کو اپنے شہريوں کے ليے براہراست خطرہ سمجھا ہے۔

اگر آپ گزشتہ چند برسوں کے دوران بيت اللہ محسود سميت تحريک طالبان پاکستان کے سرکردہ قائدين کے بيانات پڑھيں تو آپ پر يہ واضح ہو جائے گا کہ ان کی جانب سے تواتر کے ساتھ امريکہ کی حدود کے اندر دہشت گردی کی کاروائيوں کی دھمکی موجود تھی۔

مارچ 2009 سے ايک مثال

http://www.longwarjournal.org/archives/2009/03/baitullah_mehsud_tak.php

اس کے علاوہ تحريک طالبان پاکستان کے ليڈر قاری محسود نے اپريل 2010 ميں ايک ويڈيو بيان ريکارڈ کروايا جس ميں يہ دعوی کيا کہ امريکہ کے شہروں پر حملے ان کا اصل ہدف ہيں۔ تحريک طالبان پاکستان نے دسمبر 2009 ميں کيمپ چيپ مین ميں امريکی تنصيبات پر خودکش حملے اور مئ 2010 ميں نیويارک کے ٹائم سکوائر پر حملے کی کوشش کی ذمہ داری بھی قبول کی۔

يہ بيانات صرف امريکی اور مغربی ذرائع ابلاغ پر ہی نہيں بلکہ پاکستانی ميڈيا پر بھی موجود ہيں۔
حکمت عملی کے اعتبار سے امريکی حکومت کو ايسی تنظيم کو مدد فراہم کرنے کے نتيجے ميں کوئ فائدہ نہيں ہے جو برملا ہمارے ہی شہريوں کو ہلاک کرنے کی دھمکياں دے رہے ہیں۔ يہ تنظيم سرحد کے دونوں اطراف پاکستانی اور نيٹو افواج پر کئ براہراست حملوں کی ذمہ دار ہے۔

يہ ايک مسلم حقيقت ہے کہ تحريک طالبان پاکستان نامی تنظيم کے کئ قائدين، افغانستان ميں لڑائ ميں ملوث رہے ہیں اور نيٹو کی قيادت ميں آئ – ايس – اے – ايف کے فوجیوں سے برسرپيکار گروہوں کو تربيت، سازوسامان اور افرادی قوت فراہم کرتے رہے ہيں۔ مئ 2010 کو اپنے ايک انٹرويو کے دوران امريکی جرنل ڈيوڈ پيٹريس نے تحريک طالبان پاکستان اور ديگر جنگجو گروپوں کے مابين تعلقات کو ان الفاظ ميں بيان کيا۔

"ان تمام مختلف تنظيموں کے مابین ايک قريبی تعلق موجود ہے جن ميں القائدہ، پاکستانی طالبان، افغان طالبان اور تحريک نفاذ شريعت محمدی شامل ہيں۔ يہ تنظيميں ايک دوسرے کی مدد بھی کرتی ہیں اور مل جل کر کام بھی کرتی ہيں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔حتمی تجزيے ميں ان کے درميان مخصوص رشتہ قائم ہے"۔

ايسی کوئ قابل فہم وجہ موجود نہيں ہے جو اس بے بنياد الزام کو تقويت دے سکے کہ امريکی حکومت کيونکر ايک ايسی تنظيم کی حمايت کرے گی جو کہ نا صرف يہ کہ خود ہمارے اپنے فوجيوں کے ليے براہرست خطرہ ہے بلکہ پاکستان سميت دنيا بھر ميں ہمارے اتحاديوں کے لیے ايک تسليم شدہ دشمن کی حيثيت رکھتی ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

شمشاد

لائبریرین
اُپ کچھ بھی کہہ لیں پھر بھی پاکستان کی سرزمین پر ڈرون حملے دہشت گردی کی اپنی مثال آپ ہیں، ان کو آپ کسی بھی طرح justify نہیں کر سکتے۔
 

سویدا

محفلین
ان تمام لوگوں کو پیدا کرنے والا اور ان کی پشت پناہی کرنے والا بھی امریکہ ہی ہے
اگر ان لوگوں نے امریکہ پر حملے کا اعلان کیا بھی ہے تو امریکہ کو چاہیے کہ اپنا دفاع اور اپنی سرحدات اور نگرانی کو محفوظ کرنے کا انتظام کرے اور ان دہشت گردوں کو خاتمے کی ذمہ داری پاکستانی حکومت اور فورسز پر ڈال دے
طالبان نے اگر امریکہ کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے تو امریکہ میں بھی کئی ایسے شدت پسند ہیں جنہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے تو کیا اب تمام مسلم ممالک مل کر امریکہ پر چڑھ دوڑے اور ان شدت پسندوں کو ختم کرنے کے لیے حملے شروع کردیں اگر یہی دلیل آپ کی دلیل ہے تو اب تمام مسلم ممالک کو ایسے تمام لوگوں کا خاتمہ کرنا چاہیے جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف شدت پسندانہ سرگرمیوں میں مصروف ہیں
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

اگر ان لوگوں نے امریکہ پر حملے کا اعلان کیا بھی ہے تو امریکہ کو چاہیے کہ اپنا دفاع اور اپنی سرحدات اور نگرانی کو محفوظ کرنے کا انتظام کرے اور ان دہشت گردوں کو خاتمے کی ذمہ داری پاکستانی حکومت اور فورسز پر ڈال دے


اگر ميں آپ کا نقطہ نظر درست سمجھا ہوں تو اس منطق کے اعتبار سے پاکستان بھر ميں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے جواب ميں صرف يہی ردعمل کافی ہونا چاہیے کہ عمارتوں، بازاروں، سکولوں، ہسپتالوں اور عوامی مقامات پر سيکورٹی کے انتظامات ميں اضافہ کر ديا جائے تا کہ پھرايسا کوئ واقعہ پيش نہ آئے۔ ان تمام مجرموں کے خلاف کسی قسم کی کوئ کاروائ نہيں کرنی چاہيے جو نہ صرف يہ کہ اس طرح کے مزيد حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہيں بلکہ نئے "سپاہی" بھی اپنی صفوں ميں شامل کر رہے ہيں۔ اس طرح کا لائحہ عمل نہ صرف يہ کہ غير فعال ہو گا بلکہ اس سے دہشت گردوں کو حوصلہ افزائ ملے گی کہ وہ اپنی حکومتوں کی رٹ کو چيلنج کریں۔ اپنے شہروں کے گرد آہنی ديواريں کھڑی کر لينے سے دہشت گردی کی لعنت کا سدباب نہيں کيا جا سکتا۔

اس ميں کوئ شک نہيں کہ 911 کے واقعے کے بعد سے امريکی حکومت نے اپنی سرحدوں کے اندر سيکورٹی کے حوالے سے نظام کو پہلے سے کئ زيادہ فعال کرنے کے لیے کئ اقدامات کيے ہيں۔ ليکن القائدہ اس واقعے سے پہلے ہی دنيا بھر میں امريکی املاک پر حملے کر رہی تھی۔ اگر اس واقعے کے بعد بھی امريکہ کا ردعمل محض اپنی سرحدوں کی سيکورٹی فعال کرنے تک محدود رہتا اور ان مجرموں کے خلاف کوئ کاروائ نہ کی جاتی تو وہ دنيا بھر ميں ايسے مزيد حملوں کے منصوبے تيار کرنے اور ان پر عمل کرنے کے ليے آزادانہ کاروائياں کرتے۔

يہ ايک حقيقت ہے کہ وہ دہشت گرد جو دنيا بھر ميں پرتشدد مہم جوئ کے لیے منصوبہ بندی اور تياری کر رہے ہیں، ان کا تعاقب کرنا نا صرف يہ کہ اجتماعی ذمہ داری ہے بلکہ ایک ايسی ناگزير ضرورت ہے جسے کسی صورت ميں بھی نظرانداز نہيں کيا جا سکتا۔ مزيد براں ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ جہاں تک پاکستان کے اندر دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خاتمے کا سوال ہے تو اس ضمن میں امريکی حکومت نہيں بلکہ حکومت پاکستان اور مسلح افواج ڈرائيونگ سيٹ پر ہیں۔ ہم باہم مشاورت کے ساتھ کاوشيں کر رہے ہيں اور پاکستانی حکام کی رضامندی، آگہی اور تعاون کے ساتھ اپنی مکمل سپورٹ فراہم کر رہے ہيں۔ ليکن حتمی تجزيے ميں يہ ذمہ داری کلی طور پر حکومت پاکستان کی ہے کہ وہ اس بات کو يقينی بنائے کہ ان کی سرزمين کو کوئ فرد يا گروہ بيرونی ممالک کے خلاف حملوں کے لیے استعمال نہ کر سکے۔ اس مشترکہ مقصد کے حصول کے ضمن میں کی جانے والے باہم کاوشيں پاکستان کے بھی بہترين مفاد میں ہيں۔

اسی بات کو سيکرٹری آف ڈيفينس ليون پنيٹا نے بھی اپنے ايک حاليہ بيان ميں اجاگر کيا ہے

"ہم اپنی قومی سلامتی کا تحفظ کر رہے ہیں۔ ہم اپنے ملک کا دفاع کر رہے ہیں۔ حقيقت يہ ہے کہ القائدہ جس نے ہمارے ملک پر 911 کو حملہ کيا تھا۔۔۔۔القائدہ کی قيادت يہاں پر موجود تھی۔ اس ليے ہم ان کا تعاقب کر رہے ہیں جو ہمارے ملک کے خلاف حملے کی منصوبہ بندی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ دہشت گرد ہيں۔ اور ہم نے جو آپريشنز وہاں کیے ہيں وہ القائدہ اور اسی قسم کے مزيد حملے کرنے کی ان کی صلاحيت کو کمزور کرنے ميں معاون ثابت ہوئے ہیں۔

ليکن مجھے يہ واضح کر لينے ديجيے کہ جو دہشت گرد وہاں موجود ہیں وہ پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے بھی خطرہ ہيں۔ وہ پاکستانيوں پر حملہ کرتے ہيں۔ وہ کراچی جاتے ہیں، اسلام آباد جاتے ہیں اور وہاں جا کر حملے کرتے ہیں جن کے نتيجے ميں پاکستانی ہلاک ہوتے ہیں۔ اس لیے يہ ان کے بھی بہترين مفاد میں ہے کہ وہ ان دہشت گردوں کا پيچھا کريں۔"


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

سویدا

محفلین
برادرم میرا موقف یہ بھی تھا :
طالبان نے اگر امریکہ کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے تو امریکہ میں بھی کئی ایسے شدت پسند ہیں جنہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے تو کیا اب تمام مسلم ممالک مل کر امریکہ پر چڑھ دوڑے اور ان شدت پسندوں کو ختم کرنے کے لیے حملے شروع کردیں اگر یہی دلیل آپ کی دلیل ہے تو اب تمام مسلم ممالک کو ایسے تمام لوگوں کا خاتمہ کرنا چاہیے جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف شدت پسندانہ سرگرمیوں میں مصروف ہیں
 

سویدا

محفلین
امریکہ میں اسلام مخالف شدت پسند عناصر پسند جاتے ہیں وہ بھی تو اسلام اور مسلمانوں کے لیے خطرہ ہیں ؟
اصل میں امریکہ کے لیے صحیح اسلام اور صحیح مسلمان ہمیشہ سے ہی خطرہ ہیں
امریکہ چاہتا ہے کہ مسلمان امریکہ کی مرضی اور منشا کے مطابق اسلام پر عمل پیرا ہوں اسلامی نظام ، اسلامی عدالت ، اسلامی معیشت ، یہ سب لبرل ازم کے خلاف ہیں
 

ساجد

محفلین
اگر ميں آپ کا نقطہ نظر درست سمجھا ہوں تو اس منطق کے اعتبار سے پاکستان بھر ميں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے جواب ميں صرف يہی ردعمل کافی ہونا چاہیے کہ عمارتوں، بازاروں، سکولوں، ہسپتالوں اور عوامی مقامات پر سيکورٹی کے انتظامات ميں اضافہ کر ديا جائے تا کہ پھرايسا کوئ واقعہ پيش نہ آئے۔ ان تمام مجرموں کے خلاف کسی قسم کی کوئ کاروائ نہيں کرنی چاہيے جو نہ صرف يہ کہ اس طرح کے مزيد حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہيں بلکہ نئے "سپاہی" بھی اپنی صفوں ميں شامل کر رہے ہيں۔ اس طرح کا لائحہ عمل نہ صرف يہ کہ غير فعال ہو گا بلکہ اس سے دہشت گردوں کو حوصلہ افزائ ملے گی کہ وہ اپنی حکومتوں کی رٹ کو چيلنج کریں۔ اپنے شہروں کے گرد آہنی ديواريں کھڑی کر لينے سے دہشت گردی کی لعنت کا سدباب نہيں کيا جا سکتا۔
ستم ظریفی کہئیے یا کچھ اور کہ جو کچھ آپ کی حکومت ملکوں کے ملک تباہ کر کے ثابت کرنا چاہ رہی ہے وہ بھی دہشت گردی ہی ہے۔ اس کے ردعمل کو مزید دہشت گردی کا نام دے کر مزید ممالک پر فوج کشی کا جواز ڈھوندنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ ایک شیطانی چکر ہے جو دنیا بھر میں پھیلتا جا رہا ہے کبھی اس طرف توجہ دلائی آپ کے کسی خیر خواہ نے؟۔ امریکہ تاریخ دانوں ، تاریخ سازوں اور تاریخ نویسوں کی سر زمین ہے لیکن تاریخ کا ایک سبق بھی آپ کی حکومت کو کسی نے یاد نہ کروایا اور آج جب کہ آپ کی ہٹ دھرمی دنیا کو تباہی کے گڑھے میں دھکیل رہی ہے تو آپ عجیب و غریب منطقیں پیش فرما رہے ہیں۔

اس ميں کوئ شک نہيں کہ 911 کے واقعے کے بعد سے امريکی حکومت نے اپنی سرحدوں کے اندر سيکورٹی کے حوالے سے نظام کو پہلے سے کئ زيادہ فعال کرنے کے لیے کئ اقدامات کيے ہيں۔ ليکن القائدہ اس واقعے سے پہلے ہی دنيا بھر میں امريکی املاک پر حملے کر رہی تھی۔ اگر اس واقعے کے بعد بھی امريکہ کا ردعمل محض اپنی سرحدوں کی سيکورٹی فعال کرنے تک محدود رہتا اور ان مجرموں کے خلاف کوئ کاروائ نہ کی جاتی تو وہ دنيا بھر ميں ايسے مزيد حملوں کے منصوبے تيار کرنے اور ان پر عمل کرنے کے ليے آزادانہ کاروائياں کرتے۔
پاکستان اور پاکستانیوں نے دنیا بھر کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا ہم تو اس بربریت پہ آپ کو خبردار کرتے ہیں جو ہمارے ملک میں برپا کی جاتی ہے۔ القاعدہ کچھ اور نہیں سوائے امریکی تخلیق کے۔ آپ کی افغانستان میں جارحیت سے پہلے پاکستان میں خود کش حملوں کا نام نہ تھا اور آج آپ کی آمد کا "فیضان" ہم بھگت رہے ہیں اور آپ جن کو ابھی تک یہاں دہشت گرد کے نام سے یاد فرما رہے ہیں آپ کی فوج اور حکومت انہی دہشت گردوں سے غیر مشروط اور عجلت میں مذاکرات کر کے انہیں دہشت گردوں کی فہرستوں سے نکال کر اپنے فرار کے بعد افغانستان میں حکومت سونپنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔

کومت پاکستان اور مسلح افواج ڈرائيونگ سيٹ پر ہیں
حکومت کی بات نہ کیجئیے وہ تو داخلی امن برقرار رکھنے میں مکمل ناکام ہے یہ افواج پاکستان ہیں جنہوں نے طالبان کے دانت کھٹے کر دئیے اور آپ کی فوج اور ناٹو کی آنکھیں کھول دیں کہ وہ کس قدر صلاحیت رکھتی ہیں ۔ ادھر آپ کی فوجیں ہیں کہ 50 کے قریب ترقی یافتہ ٹیکنالوجی کے حامل ممالک کے فوجی طالبان کے آگے افغانستان میں بھیگی بلی بن جاتے ہیں۔ امن سے ہمیں آپ سے زیادہ دلچسپی ہے کہ یہ آگ ہمارے گھر میں لگی ہے ۔ اگر ڈرون سے طالبان ہی مارے جاتے تو بخدا میں یہاں کبھی امریکہ پہ تنقید نہ کرتا لیکن زمینی حقیقت کچھ اور ہے جو منافقت کے زمرے میں آتی ہے اور امریکہ کے لئیے بھی نقصان دہ ہے۔ لیکن آپ کے پالیسی ساز میڈیا کے ذریعے سب اچھا کا راگ الاپ رہے ہیں۔

"ہم اپنی قومی سلامتی کا تحفظ کر رہے ہیں۔ ہم اپنے ملک کا دفاع کر رہے ہیں۔ حقيقت يہ ہے کہ القائدہ جس نے ہمارے ملک پر 911 کو حملہ کيا تھا۔۔۔۔القائدہ کی قيادت يہاں پر موجود تھی۔ اس ليے ہم ان کا تعاقب کر رہے ہیں جو ہمارے ملک کے خلاف حملے کی منصوبہ بندی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ دہشت گرد ہيں۔ اور ہم نے جو آپريشنز وہاں کیے ہيں وہ القائدہ اور اسی قسم کے مزيد حملے کرنے کی ان کی صلاحيت کو کمزور کرنے ميں معاون ثابت ہوئے ہیں۔
اگر یہ قیادت پاکستان میں تھی تو آپ سیدھے پاکستان میں نازل کیوں نہ ہوئے؟۔ درحقیقت آپ کا بیان ہی یہ واضح کرتا ہے کہ یہ جنگ پاکستان تک مقاصد کے حصول کے لئیے پھیلائی گئی۔ 9-11 کے حملہ آوروں میں کوئی افغان تھا نہ پاکستانی اور اگر ٹریننگ سنٹرز کا حوالہ دیتے ہیں تو عرض ہے کہ یہ آپ ہی کی حکومت نے روس افغان جنگ میں قائم کئیے تھے۔ گویا آپ کی حکومت اس گناہ میں برابر کی شریک ہے بلکہ برابر سے زیادہ۔
ليکن مجھے يہ واضح کر لينے ديجيے کہ جو دہشت گرد وہاں موجود ہیں وہ پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے بھی خطرہ ہيں۔ وہ پاکستانيوں پر حملہ کرتے ہيں۔ وہ کراچی جاتے ہیں، اسلام آباد جاتے ہیں اور وہاں جا کر حملے کرتے ہیں جن کے نتيجے ميں پاکستانی ہلاک ہوتے ہیں۔ اس لیے يہ ان کے بھی بہترين مفاد میں ہے کہ وہ ان دہشت گردوں کا پيچھا کريں۔"
کراچی اور لاہور کے مسائل پاکستان کے اپنے مسائل ہیں ان کے غم میں دبلے مت ہوں۔ آپ افغانستان سے واپس تشریف لے جائیں یہ خود بخود ختم ہو جائیں گے۔
 

شمشاد

لائبریرین
"میں نہ مانوں"

بھیڑیا اور بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پی رہے تھے کہ بھیڑیا بولا تم میرا پانی گندا کر رہی ہو۔ بکری نے کہا جناب پانی تو آپ کی طرف سے آ رہا ہے تو گندا تو میری طرف کا ہوا ناں۔ بھڑیے کو غصہ آیا اور کہنے لگا اچھا تو میری بات کو جھٹلاتی ہے۔ ٹھہر جا ابھی تجھے مزہ چکھاتا ہوں۔ یہ کہہ کر اسے ہڑپ کر گیا۔

ویسے تو بھڑیا اور بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پیتے ہیں لیکن بات کو جھٹلانا نہیں چاہیے۔
 

سویدا

محفلین
فواد صاحب یہ ٹھیک ہے کہ آپ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داری نبھارہے ہیں لیکن از راہ کرم دلیل عقلی اور منطقی پیش کیا کریں آپ کی تمام گفتگو تضادات کا مجموعہ ہوتی ہے
 
Top