Fawad – Digital Outreach Team – US State Department
کچھ رائے دہندگان اپنے دلائل ايسے دعوؤں کو بنياد بنا کر پيش کرتے ہيں جو ناقابل فہم بھی ہوتے ہيں اور پڑھنے والوں سے اس غلط توقع کے متقاضی بھی ہوتے ہيں کہ ان بے سروپا الزامات کو من وعن حقيقت سمجھ کر تسليم کر ليا جائے۔
دسمبر 2007 ميں تحريک طالبان پاکستان کا باضابطہ اعلان بيت اللہ محسود کی قيادت ميں کيا گيا تھا۔
ريکارڈ کی درستگی کے ليے آپ کو ياد دلا دوں کہ امريکی فوج نے اگست 2007 ميں ہی بيت اللہ محسود کی گرفتاری پر پچاس ہزار ڈالرز کا انعام رکھا تھا جسے امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ نے مارچ 25 2009 کو بڑھا کر 5 ملين ڈالرز کر ديا تھا۔
ستمبر 1 2010 کو امريکہ نے تحريک طالبان پاکستان کو ايک بيرونی دہشت گرد تنظيم قرار ديا اور حکيم اللہ محسود اور ولی الرحمن کو "خصوصی عالمی دہشت گرد" قرار ديا۔ تحريک طالبان پاکستان کو ايک دہشت گرد تنظيم کا درجہ ديے جانے کے بعد اس تنظيم کی حمايت يا اس سے ميل ملاپ ايک جرم ہے اور امريکی حکومت اس تنظيم سے متعلق کسی بھی اثاثے کو منجمند کرنے کی مجاز ہے۔ اس کے علاوہ امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ نے ان دونوں افراد کی حدود واربعہ سے متعلق معلومات مہيا کرنے پر 5 ملين ڈالرز کا انعام بھی مقرر کيا۔
امريکی سيکرٹری آف اسٹيٹ اس طرح کے انعام کے اعلان کا صرف اسی صورت ميں مجاز ہوتا ہے جب کسی ايسے شخص کی گرفتاری کے ليے معلومات درکار ہوں جو يا تو اپنے اعمال، منصوبہ بندی، سازش، امداد يا ترغيب کے ذريعے امريکی املاک يا افراد کے خلاف عالمی دہشت گردی کی کاروائ ميں ملوث ہو۔ بيت اللہ محسود پر انعام کا اعلان اور تحريک طالبان پاکستان نامی تنظيم کو دہشت گرد قرار ديا جانا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ امريکی حکومت نے ہميشہ اس تنظيم کو اپنے شہريوں کے ليے براہراست خطرہ سمجھا ہے۔
اگر آپ گزشتہ چند برسوں کے دوران بيت اللہ محسود سميت تحريک طالبان پاکستان کے سرکردہ قائدين کے بيانات پڑھيں تو آپ پر يہ واضح ہو جائے گا کہ ان کی جانب سے تواتر کے ساتھ امريکہ کی حدود کے اندر دہشت گردی کی کاروائيوں کی دھمکی موجود تھی۔
مارچ 2009 سے ايک مثال
http://www.longwarjournal.org/archives/2009/03/baitullah_mehsud_tak.php
اس کے علاوہ تحريک طالبان پاکستان کے ليڈر قاری محسود نے اپريل 2010 ميں ايک ويڈيو بيان ريکارڈ کروايا جس ميں يہ دعوی کيا کہ امريکہ کے شہروں پر حملے ان کا اصل ہدف ہيں۔ تحريک طالبان پاکستان نے دسمبر 2009 ميں کيمپ چيپ مین ميں امريکی تنصيبات پر خودکش حملے اور مئ 2010 ميں نیويارک کے ٹائم سکوائر پر حملے کی کوشش کی ذمہ داری بھی قبول کی۔
يہ بيانات صرف امريکی اور مغربی ذرائع ابلاغ پر ہی نہيں بلکہ پاکستانی ميڈيا پر بھی موجود ہيں۔
حکمت عملی کے اعتبار سے امريکی حکومت کو ايسی تنظيم کو مدد فراہم کرنے کے نتيجے ميں کوئ فائدہ نہيں ہے جو برملا ہمارے ہی شہريوں کو ہلاک کرنے کی دھمکياں دے رہے ہیں۔ يہ تنظيم سرحد کے دونوں اطراف پاکستانی اور نيٹو افواج پر کئ براہراست حملوں کی ذمہ دار ہے۔
يہ ايک مسلم حقيقت ہے کہ تحريک طالبان پاکستان نامی تنظيم کے کئ قائدين، افغانستان ميں لڑائ ميں ملوث رہے ہیں اور نيٹو کی قيادت ميں آئ – ايس – اے – ايف کے فوجیوں سے برسرپيکار گروہوں کو تربيت، سازوسامان اور افرادی قوت فراہم کرتے رہے ہيں۔ مئ 2010 کو اپنے ايک انٹرويو کے دوران امريکی جرنل ڈيوڈ پيٹريس نے تحريک طالبان پاکستان اور ديگر جنگجو گروپوں کے مابين تعلقات کو ان الفاظ ميں بيان کيا۔
"ان تمام مختلف تنظيموں کے مابین ايک قريبی تعلق موجود ہے جن ميں القائدہ، پاکستانی طالبان، افغان طالبان اور تحريک نفاذ شريعت محمدی شامل ہيں۔ يہ تنظيميں ايک دوسرے کی مدد بھی کرتی ہیں اور مل جل کر کام بھی کرتی ہيں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔حتمی تجزيے ميں ان کے درميان مخصوص رشتہ قائم ہے"۔
ايسی کوئ قابل فہم وجہ موجود نہيں ہے جو اس بے بنياد الزام کو تقويت دے سکے کہ امريکی حکومت کيونکر ايک ايسی تنظيم کی حمايت کرے گی جو کہ نا صرف يہ کہ خود ہمارے اپنے فوجيوں کے ليے براہرست خطرہ ہے بلکہ پاکستان سميت دنيا بھر ميں ہمارے اتحاديوں کے لیے ايک تسليم شدہ دشمن کی حيثيت رکھتی ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall