سید زبیر
محفلین
وہ چاند نگر کی شہزادی
وہ چاند نگر کی شہزادی
خوشبو کی باتیں کرتی تھی
رنگوں کو پہنا کرتی تھی
خوابوں سے کھیلا کرتی تھی
پھولوں میں مہکا کرتی تھی
اک رات ، جو راتوں جیسی تھی
چاہت کی باتوں جیسی تھی
اس رات خیالوں کی چادر
میں تنہا اوڑھے بیٹھا تھا
کچھ زخم پرانی یادوں کے
میں چاند سے جوڑے بیٹھا تھا
تب دل نے تھوڑی سی ضد کی
چل چاند نگر پر چلتے ہیں
میں دل کی بات یہ رکھنے کو
جب چاند نگر پر پہنچا
اک دنیا تھی آباد وہاں
کچھ آنسو نوحے سپنے تھے
کچھ یار پرانے اپنے تھے
کچھ آہیں تھیں دیوانوں کی
خواہش کا جال بھی پھیلا تھا
کچھ باتیں تھی فرزانوں کی
جو میں نے ہجر میں کھوئی تھیں
وہ نیندیں تنہا بیٹھی تھیں
لکھے تھے جو بھی چاہت میں
وہ باب آوارہ پھرتےے تھے
کچھ خواب آوارہ پھرتے تھے
جانے میں کب، کس عالم میں
خوابوں کے پیچھے بھاگا تو
وہ چاند نگر کی شہزادی
اس چاند نگر پر اتری
پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جانے کتنا وقت لگا
اور جانے کیا کچھ بیت گیا
بس اتنا یاد ہے مجھ کو
جب ساری دنیا سوتی ہے
میں چاند نگر پر جاتا ہوں
وہ چاند نگر پر ہوتی ہے
وہ چاند نگر پر ہوتی ہے
فرمان علی ارمان
بشکریہ اردو پوائنٹ ڈاٹ کام