فروری - مارچ 2011 شجر کاری مہم

الف نظامی

لائبریرین
فروری - مارچ 2011 شجر کاری مہم میں حصہ لیں اور اپنے حصے کا درخت لگائیں۔ پاکستان کو سر سبز بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
مسکراتی زندگی کے لیے درخت لگائیں۔
اگر اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں میں سے ہر ایک 20 درخت لگائے تو 5 سال کے اندر ہم پانی کی قلت ، گلوبل وارمنگ عالمی حدت ، اور ماحولیاتی مسائل سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔
یعنی ہمیں
180000000x 20 = 3600000000
پاکستان میں تین ارب ساٹھ کروڑ درخت اگانے ہیں۔
 

میم نون

محفلین
بہت شکریہ الف نظامی، اگر ہم میں سے ہرکوئی ہر سال ایک درخت بھی لگائے تو بہت فرق پڑھ سکتا ہے۔
اور اسکے لیئے زیادہ محنت کی بھی ضرورت نہیں، اگر آپ پانی نہیں دے سکتے اور درختوں کی دیکھ بھال نہیں کر سکتے تو ایسے درخت لگائیں جنیھں کم پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
نوید صاحب فرق بھی "پڑھتا" ہے :)
فرق پڑ سکتا ہے

بظاہر خشک نظر آنے والی زمین میں بھی اس قدر نمی ہوتی ہے کہ وہ پودے کی ضروریات پوری کر سکے۔ البتہ یہ پانی چند فٹ کی گہرائی میں ہوتا ہے۔ پودے کو کبھی کبھار دیا گیا پانی چند گھنٹوں یا ایک آدھ دن میں بخارات بن کر اڑ جاتا ہے۔ اس طرح ایک نوزائیدہ پودے کی پانی کی ضروریات پوری نہیں ہو پاتیں اور پودا مرجھا جاتا ہے؛ کیونکہ ابھی اس کی جڑیں اتنی گہری نہیں ہوتیں کہ زمین کی چند فٹ کی گہرائی میں موجود نمدار مٹی سے پانی حاصل کر سکیں۔
اکثر ترقی پذیر ممالک میں تقریبا یہی صورت حال ہوتی ہے۔ اس لئے اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے ہالینڈ کے ماہرین نے نوزائیدہ پودوں کی دیکھ بھال کرنے والا ایک انکوبیٹر تیار کیا ہے۔ یہ انکوبیٹر ایک سال تک پودے کی حفاظت اور آبیاری کرتے ہوئے اسے اس قابل بناتا ہے کہ پودے کی جڑیں زمین کی گہرائی میں خود ہی پانی جذب کرنے کی صلاحیت حاصل کر سکیں۔
دی گروسس واٹر باکس Groasis waterbo نامی یہ پیالہ نما نباتاتی انکوبیٹر اس وقت تک پودے کو قائم رکھتا ہے جب تک وہ خود زمین کی گہرائی سے پانی جذب کرنے کے قابل نہ ہو جائے۔
اسے تازہ لگائے گئے پودے کے گرد رکھ دیجیے اور اس کے تبخیر روک گڑھے کو صرف ایک بار چار گیلن پانی سے بھر دیجیے۔ اب باقی کام یہ واٹر باکس خود سر انجام دیتا رہے گا۔

صحارا میں کی گئی ایک آزمائش میں اس واٹر باکس نے زراعت کے روایتی طریقوں کی نسبت پودوں کے تحفظ میں 80 فیصد بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اس کی تعارفی قیمت 27 ڈالر بتائی گئی ہے۔
ماہنامہ گلوبل سائنس دسمبر 2010
 

میم نون

محفلین
یہ طریقہ ہے تو بہت اچھا لیکن بہت مہنگا ہے۔
اس سے تو بہتر ہے کہ دو چار درجن کبوتر سدھا لیئے جائیں اور زمین پر نشان لگا کر انسے کہا جائے کہ یہاں پر اپنی حاجت پوری کریں :laugh:
 
Top