معیشت اس سے زیادہ بہتر نہیں ہو سکتی
04/04/2019 عدنان خان کاکڑ
تحریک انصاف کے بہت ”ڈائی ہارٹ“ حامی بھی نہایت پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت آنے کے محض چھے آٹھ ماہ بعد ہی ڈائی ہارڈ سے ڈائی ہارٹ کی تبدیلی کو بعض قنوطی پریشان کن قرار دے رہے ہیں۔ اس مردہ دلی کو پھیلانے میں مقامی اور عالمی میڈیا بھی اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ آج ہی روئٹر نے سٹوری شائع کی ہے کہ پنڈی کا ایک ٹیکسی ڈرائیور جس نے کپتان کی غریب پروری سے متاثر ہو کر اسے ووٹ دیا تھا اب سوچ رہا ہے کہ اپنی ٹیکسی کو آگ لگا کر نچنت ہو جائے۔
حالات نہایت مایوس کن دکھائی دے رہے ہیں لیکن گھبرانا نہیں چاہیے۔ لوگ نون لیگ کے پروپیگنڈے کا شکار ہو کر ہر اچھی چیز کو بھی بری نظر سے دیکھ رہے ہیں ورنہ ہر ذی شعور شخص یہ سمجھ سکتا ہے کہ معیشت بہتر ہو رہی ہے۔ کپتان کے بعض اقدامات عزیز ہم وطنوں کی دنیا سنوار رہے اور بعض ان کی عاقبت اور طبق روشن کر رہے ہیں۔ جناب اسد عمر بھی بتا چکے ہیں کہ مشکل وقت گزر چکا ہے اور معیشت دونوں ہاتھ پھیلا کر اٹھان لے چکی ہے۔
پہلے تو پیٹرول کی قیمت کو ہی دیکھ لیتے ہیں جس کی وجہ سے ٹیکسی والے صاحب اپنی گاڑی کو آگ لگانا چاہتے ہیں۔ جناب اسد عمر نے واضح کر دیا ہے کہ پیٹرول کی قیمت بڑھانا گھٹانا حکومت کے اختیار میں نہیں ہے۔ یہ ایک خود مختار ادارہ اوگرا کرتا ہے۔ اسد عمر صاحب کی بات درست ہے۔ اوگرا غالباً محض خانہ پری کے لئے وزیر اعظم کو قیمتوں کی منظوری کے لئے سمری بھیجتا ہے اور میڈیا پر خبر لگوا دیتا ہے کہ جی ہم نے اتنے کی سمری بھیجی تھِی لیکن وزیراعظم نے اتنے کی منظوری دی۔ حکومت کا اس میں کوئی کردار نہیں ہو گا اور وزیراعظم کی حیثیت ویسے ہی کٹھ پتلی کی ہو گی جیسے آئین میں صدر کی مقرر کی گئی ہے۔ یعنی جو ایڈوائس مل جائے اس پر دستخط کرنے ہیں۔
دوسرا معاملہ اشیائے خورد و نوش کی قیمت میں اضافے کا ہے۔ اور یہیں سے اصل گڑبڑ ہو رہی ہے کیونکہ اسد عمر صاحب نے واضح کر دیا ہے کہ ”مہنگائی میں اضافے کی بڑی وجہ اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافہ ہے“۔ ہر شخص جانتا ہے کہ نون لیگ والوں کا سب سے بڑا سپورٹر تاجر طبقہ ہے۔ گلی محلے کے پرچون فروش محض کپتان کی دشمنی میں آٹے دال کا بھاؤ بڑھا رہے ہیں اور حکومت بے بسی سے دیکھ رہی ہے۔ یہ سازش اتنی زیادہ بڑی ہے کہ سرکاری ادارے یوٹیلٹی سٹور تک نے دال اور چاول کی قیمت میں پچاس روپے کلو تک کا اضافہ کر دیا ہے۔ غالباً ادھر بھی سارا سٹاف نون لیگ کا حامی ہے اور اس نے حکومت کو بتائے بغیر ہی اس طرح اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا۔
ماہرین معیشت کہہ رہے ہیں کہ عوام اب صرف وہ اشیا خرید رہے ہیں جو جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کو ضروری ہیں۔ محکمہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی اشیائے صرف کی قیمتیں 9.4 فیصد کی شرح سے مہنگی ہو کر نومبر 2013 کے بعد بلند ترین سطح پر ہیں۔ اسد عمر صاحب نے فوراً اس پر گرفت کی اور بتایا کہ محکمہ شماریات کو حساب کتاب نہیں آتا ہے اور اس نے یہ شرح 1.2 بڑھا کر بتائی ہے۔ اس لئے ہمیں مطمئن رہنا چاہیے کہ اشیائے صرف کی قیمتیں زیادہ نہیں بڑھی ہیں۔ لیکن بہرحال وہ بتا چکے ہیں کہ مہنگائی اسی سبب بڑھی ہے۔
اسی مہنگائی کو بنیاد بنا کر سٹیٹ بینک شرح سود کا تعین کرتا ہے۔ کوتاہ بینی سے کام لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اس نے گھبرا کر شرح سود میں اضافہ کیا ہے۔ لیکن معاملہ فہم افراد سے یہ حقیقت چھپی نہیں ہے کہ حکومت درحقیقت سود کے مذموم کاروبار کی بیخ کنی پر تلی ہوئی ہے۔ جتنی زیادہ شرح سود ہو گی، اتنے زیادہ لوگ سود خوروں سے دور بھاگیں گے۔ رفتہ رفتہ ملک سے سود کی لعنت کا خاتمہ ہو جائے گا۔ دنیا و عاقبت سنوارنے والے اس بہترین منصوبے پر صرف نون لیگ کے حامی ہی اعتراض کر سکتے ہیں۔
پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے بتایا ہے کہ ہسپتالوں کے آؤٹ ڈور وارڈ میں مریضوں کومفت دوائیں نہیں دی جائیں گی۔ اب اس پر قنوطی تو یہی کہیں گے کہ حکومت عوام سے سستا علاج چھین رہی ہے اور اسے غریبوں کا احساس نہیں ہے۔ لیکن اہل نظر جانتے ہیں کہ اس اعلان کا مطلب یہ ہے کہ اب حکومت کے بہترین اقدامات کی وجہ سے عوام کی صحت اس حد تک بہتر ہو گئی ہے کہ وہ بیمار پڑ کر ہسپتال نہیں جاتے ہیں۔ دوائیاں بیکار پڑے پڑے خراب ہو رہی تھیں۔ اس وجہ سے اب انہیں ذخیرہ کرنا چھوڑ دیا گیا ہے۔
لیکن ایسا نہیں ہے کہ یہ حکومت سب اچھا کر رہی ہے۔ اب یہی دیکھ لیں کہ سب نے تحریک انصاف کو اس لئے ووٹ دیا تھا کہ وہ زرداری اور نواز شریف وغیرہ جیسے کرپٹ لوگوں سے پاکستان کو پاک کر دیں۔ حکومت نے اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی ان کے خلاف اقدامات شروع کر دیے تھے۔ اور وہ تمام کرپٹ لوگوں کو نہایت خوفزدہ کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ اسی وجہ سے حکومت کے نہایت معتبر ذرائع سے خبریں بے اختیار لیک ہوتی رہی تھیں کہ نواز شریف پانچ دس ارب ڈالر دے کر این آر او کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن حکومت نہیں مان رہی اور انہیں عبرت کا نشان بنانے پر تلی ہوئی ہے۔
یہی وجہ ہو گی کہ نہایت خوف کے عالم میں شہباز شریف نے کہا کہ ”حکومت ضد، انا اور تکبر کو ایک طرف رکھ کر میثاق معیشت کی طرف آئے“۔ غور سے دیکھا جائے تو وہ اتنے سہمے ہوئے تھے کہ این آر او مانگ رہے تھے مگر حکومت نہیں دے رہی تھی۔
اب یہ خبر نہایت تشویش سے سنی گئی ہے کہ ان مہا کرپٹ لوگوں سے، جن کے خلاف کپتان بائیس برس سے جدوجہد کر رہا ہے، اسد عمر یہ نام نہاد میثاق معیشت کرنے جا رہے ہیں۔ اسد عمر نے بتایا کہ حکومت نے اپوزیشن کے ساتھ میثاق معیشت کا مسودہ تیار کر لیا ہے اور 4 اپریل کو خزانہ کمیٹی کو پیش کریں گے۔ نیز کالا دھن رکھنے والے عناصر کو حکومت اثاثہ جات پر ایمنسٹی دینے پر غور کر رہی ہے۔ کیا اس سہولت سے کرپٹ اپوزیشن والے فائدہ نہیں اٹھا لیں گے؟ کل ہی جناب اسد عمر نے اسلام آباد میں ڈیجیٹل اینڈ سوشل میڈیا فورم پر بات کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ معیشت اٹھان لے چکی ہے۔ معیشت اتنی اچھی پوزیشن میں ہے تو پھر نہایت ہی کرپٹ اپوزیشن سے یہ نام نہاد میثاقِ معیشت کیوں کیا جا رہا ہے؟