فروغِ اردو ادب ایوارڈز کا اعلان

نوید صادق

محفلین
پروفیسر سیدہ جعفر اورجمیل جالبی کے لیے فروغِ اردو ادب ایوارڈز کا اعلان
رشید الدین
حیدرآباد دکن
February 16, 2009



اردو کی نامور محققہ سیدہ جعفر

تیرھویں مجلس فروغ اردوادب ایوراڈ کے لیے بھارت اور پاکستان کے ممتاز ادیب اور نقاد منتخب کیے گئے۔ بھارت سے پروفیسر سیدہ جعفر اور پاکستان سے ڈاکٹر جمیل جالبی کو اس باوقار ایوارڈ کے لیے چنا گیا۔ یہ ایوارڈ ڈیڑھ لاکھ روپے نقد طلائی تمغے اور سپاس نامہ پر مشتمل ہے۔ یہ ایوارڈ دوحہ قطر کی ایک تقریب میں پیش کیا جائے گا۔ قطر کی تنظیم فروغ اردو ادب کی جانب دیا جانے والا یہ ایوارڈ اردو دنیا کے باوقار ترین ایوارڈز میں شامل ہے۔

اردو دنیا کی مایہ ناز دانشور نقاد اور محقق پروفیسر سیدہ جعفر کا ”تیرھویں مجلس فروغ اردو ادب ایوارڈز“ کیلیے انتخاب دکن کے ادبی حلقوں میں مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ پروفیسر سیدہ جعفر کا شمار حیدرآباد کے غیر معمولی طور پر مقبول یونیورسٹی اساتذہ میں ہوتا ہے۔ انوفں نے بحیثیت پروفیسر و صدر شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی اور سنٹرل یونیورسٹی حیدرآباد میں گراں قدر خدمات انجام دیں اور وظیفہٴ حسنِ خدمت پر سبک دوش ہوئیں۔ اس کے بعد بھی مسلسل ادب کی خدمت میں مصروف و منہمک ہیں اور ساتھ ہی ساتھ آج بھی اردو کے ریسرچ اسکالر ان سے رجوع ہوتے ہیں اور رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔

اردو تنقید و تحقیق پر یوں تو پروفیسر سیدہ جعفر کی تیس تصنیفات و تالیفات ہیں جو ادب میں ایک بڑے سرمایے کی حیثیت رکھتی ہیں، لیکن بالخصوص دکنی ادب سے متعلق ان کا تحقیقی کام اپنی مثال آپ ہے۔ ان کی مذکورہ وقیع اور اعلیٰ معیاری کاوشوں کے اعتراف کے طور پر انہیں 19 اعزازات سے نوازا جا چکا ہے جن میں بہار اردو اکیڈیمی کا ”قاضی عبدالودود ایوارڈ فار ریسرچ“، لکھنؤ اردو اکیڈیمی کا ”نوائے میر ایوارڈ“، ”تلگویونیورسٹی آندھراپردیش“ کا بیسٹ اردو رائٹر ایوارڈ، ہندی پرچار سبھا کا بیسٹ اردو رائٹر ایوارڈ، عالمی اردو کانفرنس کے ”فراق گورکھ پوری ایوارڈ برائے تنقید اور ڈاکر زور ایوارڈ برائے تحقیق، آندھراپردیش اردو اکیڈیمی کا مخدوم ایوارڈ اور مولانا آزاد قومی اردو یونیورسٹی کا دکنی ادب سے متعلق ایوارڈ شامل ہیں۔

پروفیسر سیدہ جعفر 16 سال نیشنل کونسل فار پروموشن آف اردو لینگویج کی رکن رہیں اور اس کے علاوہ ساہتیہ اکیڈیمی کی بھی رکن رہی ہیں۔ ان کی حالیہ کتاب چار ضخیم جلدوں پر مشتمل ’تاریخِ ادبِ اردو‘ منفرد تحقیقی دستاویز ہے، جس میں انہوں نے عہدِ میر سے ترقی پسند تحریک تک احاطہ کیا۔

پروفیسر سیدہ جعفر کی تصنیفات و تالیفات کے ترجمے ہندی، مراٹھی، انگریزی، عربی اور میتھلی زبانوں میں ہوچکے ہیں اور ہنوز ان کی ادبی خدمات کا سلسلہ جاری ہے۔ پروفیسر سیدہ جعفر کے شاگردوں کی کثیر تعداد آج ملک و بیرون ملک ادبی خدمات انجام دیتے ہوئے ان کا نام روشن کررہی ہے۔ جن لوگوں کو پروفیسر سیدہ جعفر کی شاگردی کا موقع حاصل ہوا ان میں کئی ایسے ہیں جن کے تذکرہ بغیر دور حاضر میں اردو ادب کا ذکر نا مکمل متصور کیا جاتا ہے۔ ہر رشتے اور تعلق سے اخلاق اور محبت پر مبنی حیدرآباد کی مثالی تہذیب کی نمائندہ پروفیسر سیدہ جعفر ایک انتہائی مشفق استاد ہیں اور اپنی اولاد و معنوی (شاگردوں) کو حقیقی مادرانہ شفقت سے مستفیض کرنا ان کا وصف خاص ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے سابق طلبہ جن میں اکثر اب اساتذہ ہیں کو ان کی خدمات کا اعتراف کیے جانے پر یہ احساس ہوتا ہے جیسے خود انہیں یہ اعزاز حاصل ہوا ہے۔


ڈاکٹر جمیل جالبی

ڈاکٹر جمیل جالبی پاکستان کی اہم علمی اور تحقیق شخصیت ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ان کی اردو ادب کی تاریخ کا کتاب کا نام بھی ’تاریخِ ادبِ اردو‘ ہے، جس کی دو جلدیں اب تک منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔ اس کتاب میں جالبی صاحب نے بنیادی ماخذات کی مدد سے اردو تاریخ پر پڑے بہت سے جالوں کو صاف کیا ہے۔ عام تحقیقی کتابوں کے برعکس اس کتاب کا اندازِ تحریر بھی بے حد شگفتہ اور رواں دواں ہے۔

اردو تاریخ اور تنقید پر درجنوں کتابوں کے مصنف جمیل جالبی کو ہلالِ امتیاز سے نوازا جا چکا ہے۔ وہ کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہ چکے ہیں۔

فروغِ اردو ایوارڈز اس سال جون میں دوحہ میں دیے جائیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شکریہ: وائس آف امریکہ: اردو سروس
 

الف عین

لائبریرین
خوب۔۔ سیدہ آپا تو میری پڑوسی ہیں۔۔ اگرچہ میرا تعارف نہیں۔ صابرہ سے اچھی طرح واقف ہیں۔ بہر حال اس اہل ضرور ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
ارے بھائی محترمہ کی ساری حسیں کمزور ہو گئی ہیں، ایک قلم نہیں چھوٹتا۔۔ اب بڑھاپے میں کی بورڈ کو کیا ہاتھ لگائیں گی۔
کتابوں کو کاپی رائٹ کر رکھا ہے، میں نے کہلوایا تھا کہ اجازت اور فائلیں دے دیں تو نیٹ پر مہیا کر دیا جائے۔۔ میں نے سوچا تھا کہ ان پر احسان کر رہا ہوں، لیکن محترمہ پوچھنے لگیں کہ کتنے لاکھ روپئے ان کو ملیں گے!!!
 
Top