اسد
محفلین
فرہنگ اِصطلاحاتِ جامعہ عثمانیہ
مرتّبہ ڈاکٹر جمیل جالبی ستارۂ امتیاز
مقتدرہ قومی زبان - اسلام آباد 1991ء
پیش لفظ
اصطلاحاتِ جامعہ عثمانیہ ہمارا علمی سرمایہ اور تاریخی ورثہ ہیں ۔ اس سرمائے میں برِ صغیر کے بہترین دماغوں کی انفرادی و اجتمائی کاوشیں شامل ہیں ۔ سقوطِ حیدر آباد (دکن) کے فوراً بعد جب اُردو ذریعۂ تعلیم کی روایت وہاں ٹوٹی تو یہ سارا علمی سرمایہ بھی منتشر ہو گیا ۔ اب جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے اس سر مائے کی شیرازہ بندی دشوارتر ہوتی جاتی ہے ۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ یہ سرمایہ یکجا و مرتب کر کے شائع کیا جاتا تاکہ یہ نہ صرف محفوظ ہو جاتا بلکہ وضع اصطلاحات کی جدید روایت سے بھی اس کا رشتہ قائم ہو جاتا ۔ اسی خیال کے پیش نظر میں نے کم و بیش اس سارے سرمائے کو کھنگالا جو پاکستان کے مختلف کتب خانوں میں محفوظ تھا اور اسے یکجا کر کے مرتب کر دیا ۔ ”فرہنگِ اصطلاحات جامعہ عثمانیہ“ انہی اصطلاحات کا مجموعہ ہے ۔
ہر زندہ زبان میں ، علوم و فنون کی سطح پر ، اصطلاحات بنیادی اہمیت رکھتی ہیں ۔ اگر مروج معنی کے علاوہ کسی لفظ کے کوئی اور معنی صلاح و مشورہ سے مقرر کر لیے جائیں تو معنی کی اس صورت کو اصطلاح کہتے ہیں ۔ اس طرح کئی تصورات یا خیالات اس لفظ سے ادا ہو جاتے ہیں ۔ پروفیسر وحید الدین سلیم نے اسی لئے کہا تھا کہ ”اصطلاحیں دراصل اشارے ہیں جو خیالات کے مجموعوں کی طرف ذہن کو منتقل کر دیتی ہیں ۔“ [1]
1 - وضع اصطلاحات ، مولوی وحید الدین سلیم ، ص 12 ، انجمن ترقی اُردو پاکستان (تیسرا ایڈیشن) کراچی ، 1965ء ۔
اُردو زبان میں اصطلاحات کا سرمایہ تو اسی وقت سے پیدا ہونے لگا تھا جب یہ زبان علوم و فنون کے اظہار کا وسیلہ بنی تھی ۔ اس دور میں اصطلاحات عربی ، فارسی ، ترکی اور سنسکرت وغیرہ سے لی یا وضع کی جاتی تھیں لیکن اٹھارویں صدی عیسوی میں جب برِ صغیر میں مسلم سلطنت کا سورج غروب ہونے لگا اور انگریزی تسلط رفتہ رفتہ قائم ہو کر انیسویں صدی میں پوری طرح مستحکم ہو گیا تو ایک نیا مسئلہ اس وقت سامنے آیا جب جدید مغربی علوم کو اردو زبان کے ذریعے حاصل کرنے کا عمل شروع ہوا ۔ اس دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ اصطلاحات اور وضع اصطلاحات کے مسئلے نے ایک نئی اہمیت اختیار کر لی ہے ۔ دہلی کالج 1825ء میں قائم ہوا اور اسی کے ساتھ وہاں ”دہلی ورنیکلر ٹرانسلیشن سوسائٹی“ قائم ہوئی اور درسی کتب کی ضرورت کے لئے کیمیا ، نباتیات ، معدنیات ، ریاضی ، طب ، علم ہندسہ اور دوسرے علوم کی اصطلاحات وضع ہوئیں ۔ حیدر آباد میں شمس الامراء نے انگریزی و فرانسیسی سے اہم کتابوں کے اردو تراجم میں گہری دلچسپی لی اور 1834 - 1850ء کے درمیان بیس سے زیادہ سائنسی کتابیں اردو میں منتقل ہوئیں ۔ سر سید احمد خان نے 1863ء میں ”سائنٹفک سوسائتی“ قائم کی جس کا مقصد یہ تھا کہ جدید سائنسی کتابوں اور امہات الکتب کو اردو میں ترجمہ کرایا جائے ۔ وضع اصطلاحات کی کمیٹی بھی اسی زمانے میں سر سید احمد خان نے قائم کی ۔ رڑکی انجینئرنگ کالج میں 1856ء سے 1888ء تک ایک ذریعۂ تعلیم اردو زبان تھی ۔ درسی ضروریات کے پیش نظر وہاں بھی متعدد کتابیں اُردو میں لکھیں اور اصطلاحات وضع کی گئیں - اسی طرح آگرہ میڈیکل کالج میں بھی ایک ذریعۂ تعلیم اُردو تھی۔ وہاں بھی طلبہ کی درسی ضرورت کے لئے کتابیں لکھیں اور جدید طبی اصطلاحات اردو میں وضع کی گئیں ۔ یہ ذخیرہ آج بھی پاکستان کے بعض کتب خانوں میں محفوظ ہے ۔ سائنٹفک سوسائٹی مظفر پور (1868ء) نے بھی فلکیات ، معدنیات ، طبیعات ، جغرافیہ اور فنِ تعمیر وغیرہ پر بہت سی کتابیں نہ صرف ترجمہ کرائیں یا لکھوائیں بلکہ وضع اصطلاحات کے کام کو بھی آگے بڑھایا ۔ شاہان اودھ غازی الدین حیدر اور نصیر الدین حیدر کے دورِ حکومت میں بہت سی علمی و سائنسی کتابیں اُردو میں ترجمہ ہوئیں اور بہت سی نئی اصطلاحات وجود میں آئیں ۔ 1865ء میں انجمنِ پنجاب لاہور میں قائم ہوئی اور اس کے تحت بھی ترجمہ و اصطلاحات کا بہت سا قابلِ ذکر کام ہوا ۔ میں یہاں اصطلاحات سازی و ترجمہ کی تاریخ مرتب نہیں کر رہا ہوں بلکہ صرف یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ انگریزی سے اُردو تراجم اور علمی اصطلاحات کی روایت کو اب کم و بیش دو سو سال کا عرصہ ہو چکا ہے ۔
بیسویں صدی کے اوائل میں یہ روایت اس وقت زیادہ اہمیت اختیار کر گئی جب 26 اپریل 1917ء کو نظام دکن نے یہ فرمان جاری کیا کہ ”اپنی تخت نشینی کی یادگار میں سلطنت آصفیہ میں ایک جامعہ کے قیام کا حکم دیتا ہوں جس کا نام جامعہ عثمانیہ ہو گا“ ۔ اس فرمان کے چار مہینے کے اندر اندر 14 اگست 1917ء کو شعبہ تالیف و ترجمہ کا قیام عمل میں آ گیا جس کے سربراہ مولوی عبدالحق مقرر کیے گئے ۔ اس شعبے کا مقصد یہ تھا کہ جامعہ عثمانیہ کے لئے ضروری کتب لکھوائی اور ترجمہ کرائی جائیں تاکہ یہ کتابیں جامعہ عثمانیہ میں درسی کتب کے طور پر استعمال کی جا سکیں ۔ جامعہ عثمانیہ کا آغاز 1919ء میں ہوا ۔ جامعہ عثمانیہ میں ذریعۂ تعلیم چونکہ اُردو زبان تھی ، اس لیے وہاں اصطلاح سازی کے کام میں بھی غیر معمولی اور مفیدِ مقصد پیش رفت ہوئی ۔ دارالترجمہ کے صاحبان علم نے ، جیسا کہ مولوی وحید الدین سلیم نے لکھا ہے ، وضع اصطلاحات کے مختلف پہلوؤں پر غور و فکر اور بحث و مباحثہ کر کے کثرت رائے سے طے کیا کہ ”انگریزی زبان کی اصطلاحیں بجنسہٖ یا کسی تغیر و تبدل کے ساتھ اُردو زبان میں نہ لی جائیں بلکہ علمی اصطلاحات کے مقابلے میں اُردو علمی اصطلاحات وضع کی جائیں ۔ اس مرحلے پر پہنچ کر اصطلاح سازوں کے دو گروہ ہو گئے ۔ ایک گروہ کی رائے یہ تھی کہ تمام اصطلاحی الفاظ عربی زبان سے بنائے جائیں ۔ دوسرے گروہ کی رائے یہ تھی کہ اصطلاحات کے وضع کرنے میں ان تمام زبانوں کے لفظوں سے کام لینا چاہیے جو اُردو زبان میں بطور عنصر کے شامل ہیں اور ان لفظوں کی ترکیب میں اردو گرامر سے مدد لینی چاہیے ۔ دوسرے گروہ نے یہ بھی کہا کہ اُردو زبان آریائی خاندان سے اور عربی زبان سامی خاندان سے تعلق رکھتی ہے ۔ دونوں خاندانوں میں الفاظ بنانے کے جدا جدا قاعدے ہیں ۔ آریائی خاندانوں کی زبانوں میں مرکب الفاظ بنانے اور ان الفاظ سے پھر نئے الفاظ مشتق کرنے کے خاص قائدے ہیں اور یہی وہ چیز ہے جس کی ضرورت علمی اصطلاحات میں پیش آتی ہے ۔ سامی زبانوں میں یہ قائدے نہیں ہیں ، اس لئے مرکب الفاظ اور ان کے مشتقات کو معرب کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے ۔ دوسرے گروہ نے اس بات پر زور دیا کہ کسی زبان کی ترقی کے یہ معنی ہرگز نہیں ہیں کہ اس زبان میں غیر زبانوں کے بے شمار الفاظ بجنسہٖ یا بعد تصرف کے داخل کر لیے جائیں ۔ زبان کی ترقی اسی حالت میں ترقی کہلا سکتی ہے جب کہ وہ الفاظ جو اس میں بڑھائے جائیں اس زبان کی قدرتی ساخت اور اس کی اصلی گرامر کے مطابق بنائے گئے ہوں اور ان الفاظ کے مادے ان زبانوں سے لیے گئے ہوں جو اس زبان کی بناوٹ اور ترکیب میں قدرتی طور سے دخل رکھتی ہوں ۔ اُردو زبان میں علمی اصطلاحات وضع کرنا اسی حالت میں اس کی ترقی کا باعث ہو سکتا ہے جب کہ اس اصول پر عمل کیا جائے ۔ اُردو زبان کے قدرتی عنصر عربی ، فارسی اور ہندی زبانیں ہیں ۔ ہمارے لئے سہولت اسی میں ہے کہ ہم جو نئے الفاظ بنائیں ان کے مادے تینوں زبانوں سے لیں اور اپنی زبان کو ترقی کی اس طبعی رفتار پر آگے بڑھنے دیں جس پر وہ آج تک چلتی رہی ہے ۔ جامعہ عثمانیہ کی وضع اصطلاحات کمیٹی نے دونوں نقطۂ نظر پر غور کر کے یہ منظور کر دیا کہ اردو زبان میں جو علمی اصطلاحیں وضع کی جائیں ان کے لئے الفاظ عربی ، فارسی اور ہندی سے بے تکلف لیے جائیں مگر الفاظ کی ترکیب دیتے وقت اُردو زبان کی گرامر کا لحاظ رکھا جائے ۔“[2]
2 - وضع اصطلاحات ، مولوی وحید الدین سلیم ، ص 18-25 ، انجمن ترقی اُردو پاکستان (تیسرا ایڈیشن) کراچی ، 1965ء -
مولوی عبدالحق نے ، وضع اصطلاحات کے ان اصولوں کو جو دارالترجمہ میں کثرت رائے سے منظور ہوئے ، یوں بیان کیا ہے[3]:
3 - فرہنگ اصطلاحات علمیہ ، مرتبہ : انجمن ترقی اُردو ، اورنگ آباد (دکن) ، ص 3-4 ، انجمن ترقی اُردو پریس ، اورنگ آباد (دکن) ، 1925ء ۔
(1) اصطلاحات وضع کرنے کے لئے ماہران زبان اور ماہران فن دونوں کا ایک جا ہونا ضروری ہے ۔ اصطلاحات کے بنانے میں دونوں پہلوؤں کا خیال رکھنا لازم ہے تاکہ جو اصطلاح بنائی جائے وہ زبان کے سانچے میں بھی ڈھلی ہو اور فن کے اعتبار سے بھی ناموزوں نہ ہو ۔
(2) اردو زبان چونکہ کئی زبانوں سے مرکب ہے اس لیے اصطلاحات علمیہ کے لئے اُن سب زبانوں سے الفاظ وضع کر سکتے ہیں جن سے اُردو زبان مرکب ہے یعنی عربی ، فارسی ، ہندی ، ترکی سے بلا تکلف مدد لی جا سکتی ہے ۔
(3) الفاظ کے اشتقاق و ترکیب میں کسی خاص زبان کے قائدے کی پابندی نہ کی جائے اور جو الفاظ مستعمل ہیں اُن کی مثال کا لحاظ رکھا جائے اور جو لفظ زیادہ موزوں معلوم ہو اسے اختیار کیا جائے لیکن ان الفاظ سے ، اشتقاق یا ترکیب کے ذریعے سے ، جو الفاظ بنائے جائیں گے وہ اردو نحو کے قائدے کے بموجب ہوں گے یعنی لفظ دوسری زبان سے لے سکتے ہیں لیکن اس کے نحوی قاعدے نہیں لے سکتے ۔
(4) حتی الامکان مختصر الفاظ وضع کیے جائیں جو اصل مفہوم یا اس کے قریبی معنوں کو ادا کر سکیں ۔
(5) جس طرح اگلے زمانے میں اپنی زبان یا غیر زبانوں کے اسما سے مصادر بنائے جاتے تھے مثلاً بدلنا ، قبولنا ، بخشنا وغیرہ اسی طرح اب بھی ضرورت کے وقت اسما سے افعال بنا لینا جائز ہے چنانچہ اسی اصول سے برق سے برقانا وغیرہ بنا لیے گئے ۔ اسی طرح مصادر بنانے سے الفاظ مختصر بن جاتے ہیں اور اشتقاق میں آسانی ہوتی ہے ۔
(6) جو اصطلاحات قدیم سے رائج ہیں انھیں برقرار رکھا جائے ۔
(7) ایسے انگریزی اصطلاحی الفاظ جو عام طور پر رائج ہو گئے ہیں یا ایسے الفاظ جن کے اشتقاق مشکوک ہیں یا ایسی اصطلاحیں جو موجدوں یا تحقیق کر نے والوں کے نام پر رکھی گئی ہیں انھیں بدستور رہنے دیا جائے کیونکہ نہ ان کا ترجمہ ہو سکتا ہے اور نہ ترجمہ کی ضرورت ہے ۔
( 8 ) اصطلاحیں آسان اور عام فہم بنائی جائیں اور ایسے مادوں سے وضع کی جائیں جو زبان میں عام طور سے رائج ہیں ۔ اشتقاق و ترکیب میں کہیں اپنی زبان کے قوائد کو ترک نہیں کیا جائے خواہ لفظ عربی ہو یا فارسی یا کسی اور زبان کا ۔
ان تمام اصولوں پر عمل درآمد بھی ہوا اور انحراف بھی ۔ عملِ ارتقا اسی کا نام ہے ۔ اصطلاحات سازی کا یہ کام چونکہ باقائدگی کے ساتھ تدریسی ضرورت کے لئے کیا گیا تھا اس لئے یہ اصطلاحات یکسانیت کے ساتھ درسی کتب میں استعمال کی گئیں اور تیزی سے ان کا رواج اور چلن عام ہو گیا ۔ اردو زبان کو ذریعۂ تعلیم بنا کر جامعہ عثمانیہ نے طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کو بیدار کر دیا اور وہ رکاوٹ دور کر دی جو انگریزی زبان کی اجنبیت کی وجہ سے طلبہ عام طور پر محسوس کرتے تھے اور علم کے بنیادی تصورات ان کے ذہن میں پوری طرح صاف اور واضح نہیں ہوتے تھے ۔ اردو ذریعۂ تعلیم نے جس طرح طلبہ کے ذہن کو روشن اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو بیدار کیا اس بات سے ہم سب اچھی طرح واقف ہیں ۔ جامعہ عثمانیہ میں اردو زبان کے ذریعے تعلیم دینے کا ایک بڑا تجربہ کیا گیا تھا اور یہ تجربہ اتنا کامیاب ہوا کہ روشن ذہن ، اعلىٰ تعلیم یافتہ افراد کی ایک بڑی تعداد ، اپنی بھرپور تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ ، میدانِ عمل میں اتر آئی ۔ یہ اتنا بڑا اور کامیاب تجربہ تھا کہ اس سے پاکستان میں پوری طرح استفادے کی ضرورت تھی لیکن چونکہ ایسا نہیں ہوا اور ہم آج بھی انگریزی زبان کو ، غلامانہ افتخار کے ساتھ ذریعۂ تعلیم بنائے ہوئے ہیں ، اس لئے علمی و تعلیمی سطح پر ہم گہرے انتشار کا شکار ہیں اور اسی لئے آزادی کے بعد سے کسی شعبۂ زندگی میں ہم نے کوئی عظیم ہستی پیدا نہیں کی اور نہ کوئی قابلِ فخر عظیم کارنامہ انجام دیا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہم ذہنی قیادت کے لئے صرف اور صرف دوسری اقوام کی طرف دیکھنے اور ان پر تکیہ کرنے کی خدمت ضرور انجام دے رہے ہیں ۔ یاد رکھیے کہ یہ صورت حال ہمیں کہیں نہ لے جائے گی ۔
جامعہ عثمانیہ کی اسی روایت کے زیر اثر پاکستان میں اصطلاحات سازی کا کام مختف علمی و تعلیمی اداروں میں ضرور ہوتا رہا جن میں انجمن ترقی اردو پاکستان ، شعبۂ تصنیف و تالیف و ترجمہ ، جامعہ کراچی ، ادارہ تالیف و ترجمہ ، جامعہ پنجاب ، مجلسِ زبانِ دفتری پنجاب ، مرکزی اردو بورڈ (حال اردو سائنس بورڈ) ، زرعی یونیورسٹی فیصل آباد ، پاکستان سائنٹفک سوسائٹی کراچی ، مجلس ترقی ادب لاہور ، مغربی پاکستان اردو اکیڈمی لاہور ، اردو اکیڈمی بہاولپور ، سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ ، پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ ، سرحد ٹیکسٹ بک بورڈ ، بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ اور مقتدرہ قومی زبان کے نام ممتاز و قابلِ ذکر ہیں ۔ ان علمی اداروں اور بہت سے نجی ناشرین کی اصطلاحات کے علاوہ ”اردو اصطلاحات سازی (کتابیات)“[4] میں 134 لغات اصطلاحات اور 320 ایسی کتابوں کا ذکر ملتا ہے جن کے آخر میں فرہنگ اصطلاحات دی گئی ہیں ۔ ایک اور مقالے[5] میں اصطلاحات کی 233 لغات اور کتابوں کے آخر میں دی گئی 387 فرہنگ اصطلاحات کا ذکر ملتا ہے ۔ وہ ستانوے (97) اردو انگریزی ، انگریزی اردو لغات ان کے علاوہ ہیں جن کا ذکر ”کتابیاتِ لغات اردو“[6] میں کیا گیا ہے ۔ بہرحال اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اردو میں سائنسی تعلیم نہیں دی جا سکتی یا اصطلاحات موجود نہیں ہیں یا وضع نہیں کی جا سکتیں بلکہ اصل مسئلہ اس طبقۂ خواص کے اختیار و اقتدار کا ہے جو انگریزوں کا جانشین بن کر اقتدار کی باگ ڈور ہر قیمت پر اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک عوام ، جن کا چرچا ہر دم اور ہر قدم پر ہوتا ہے ، بڑے قومی دھارے سے الگ اور دور ہیں ۔ ہمارے سارے معاشی ، سماجی ، لسانی ، تہذیبی ، علمی اور تعلیمی بحران اسی لئے ہمیں مسلسل گھیرے ہوئے ہیں ۔
4 - اردو اصطلاحات سازی (کتابیات) ، مرتبہ ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہانپوری ، مقتدرہ قومی زبان ، اسلام آباد ، 1984ء ۔
5 - پی ۔ ایچ ۔ ڈی ، عطش درانی (غیر مطبوعہ) ۔
6 - کتابیات لغات اردو ، مرتبہ ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہانپوری ، مقتدرہ قومی زبان ، اسلام آباد ، 1986ء ۔
آزادی (1947ء) کے بعد پاکستان میں سینکڑوں علمی کتابوں کے اردو تراجم ہوئے ، مختلف علوم و فنون پر اردو میں متعدد کتابیں تصنیف ہوئیں لیکن کوئی بااختیار مرکز نہ ہونے کی وجہ سے اصطلاحات کے استعمال میں یکسانیت پیدا نہ ہو سکی ۔ اردو زبان کو اگر باقائدگی کے ساتھ ذریعۂ تعلیم بنایا جاتا تو اصطلاحات کے کام میں نہ صرف یکسانیت پیدا ہو سکتی تھی بلکہ اصطلاحات کا چلن اور سائنسی تحقیق کا رواج بھی عام ہو سکتا تھا ۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ مختلف مصنف یا مترجم اپنی سہولت کے مطابق اصطلاحات وضع کر لیتے ہیں اور ان کی معیار بندی و یکساں طور پر استعمال کرانے کا اختیار کسی کے پاس نہیں ہے جب کہ قدیم و جدید اردو اصطلاحات کی تعداد کم و بیش تین لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے ۔ اتنا بڑا ذخیرہ سارے برصغیر کی کسی ایک بھی زبان کے پاس موجود نہیں ہے اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔ یونیسکو کی سفارشات کے مطابق (جو Unisist Guidelines میں درج ہیں) کسی اصطلاحی ادارے کو تصنیف و تالیف کے لئے تین سے چار لاکھ اصطلاحوں کی ضرورت پڑتی ہے[7] ۔ یورپ میں اصطلاحات کے سب سے بڑے مرکز[8] کے پاس چار لاکھ ساٹھ ہزار اصطلاحات اور ایک لاکھ دس ہزار مخففات کا ذخیرہ کمپیوٹر میں محفوظ ہے ۔
7 - Translating & the Computer By J. Goetschalick, p. 75. Amsterdam, 1979. ۔
8 - Commission of the European Communities Specialized Department, Terminology & Computer application, Luxembourg.
بہر حال ، جیسا کہ میں نے عرض کیا ”فرہنگ اصطلاحات جامعہ عثمانیہ“ کو مرتب کرتے وقت ان تمام مطبوعات سے استفادہ کیا گیا ہے جو جامعہ عثمانیہ کے لئے لکھی ، ترجمہ کی گئیں اور وہاں سے شائع ہوئیں ۔ ان مطبوعات میں 122 کتابیں ایسی تھیں جن کے آخر میں فرہنگ اصطلاحات دی گئی تھیں ۔ ان کتابوں کی فہرست اس کتاب کے آخر میں ”فہرست مآخذ“ کے عنوان سے شامل کر دی گئی ہے ۔ اس فہرست کو ڈیوی کے اصول درجہ بندی کے مطابق ترتیب دیا گیا ہے ۔ بنیادی طور پر زیر نظر فرہنگ انھیں اصطلاحات پر مشتمل ہے ۔ وہ رسائل جن میں مختلف علوم کی اصطلاحات الگ الگ شائع کی گئی تھیں اس لیے شامل فہرست نہیں ہیں کہ یہ ساری اصطلاحات ان کتابوں سے اس مجموعے میں براہ راست شامل ہو گئی ہیں ، جن کی فرہنگوں کو الگ سے بھی شائع کر دیا گیا تھا مثلاً جارج ڈبلیو پارکر کی علم ہیئت پر کتاب جب اردو میں ترجمہ کی گئی تو اصطلاحات کی فرہنگ اس کتاب کے آخر میں شامل کی گئی ۔ بعد میں اسی فرہنگ کو ”اصطلاحاتِ ہیئت“ کے نام سے بھی شائع کیا گیا ۔ میں نے براہ راست پارکر کی کتاب سے یہ اصطلاحات شامل کی ہیں اور اسی لئے فہرست مآخذ میں اسی کا نام دیا گیا ہے ۔ یہی صورت اور بہت سی کتابوں کی ہے ۔ ایک کتاب کے آخر میں سائنس و ریاضی کی ترقیمات دی گئی تھیں اسے چھوڑ دیا گیا ہے لیکن ”فرہنگ اصطلاحات علمیہ“ کی تمام اصطلاحات جنہیں انجمن ترقی اردو ہند نے 1925ء میں اورنگ آباد سے بابائے اردو مولوی عبدالحق مرحوم کے پیش لفظ کے ساتھ شائع کیا تھا ، شامل کر لی گئی ہیں کہ یہ بھی شعبۂ تالیف و ترجمہ/دارلترجمہ کا کام تھا ۔ اسی طرح ”مجموعہ اصطلاحات“ شائع کردہ جامعہ عثمانیہ (1926ء) کی اصطلاحات بھی شامل کر لی گئی ہیں ۔
اس فرہنگ میں تمام علوم کی اصطلاحات کو انگریزی حروف تہجی کے اعتبار سے مرتب کیا گیا ہے ۔ علوم کے انگریزی مخففات اصطلاح کے ساتھ قوسین میں دے دیے گئے ہیں اور مخففات کی فہرست اس کتاب کے ابتدائی صفحات میں دے دی گئی ہے ۔ اگر کوئی اصطلاح مختلف علوم میں ایک ہی معنی میں مستعمل ہوئی ہے تو وہ تمام علوم مخففات کی صورت میں اس اصطلاح کے ساتھ یکجا قوسین میں دے دیے گئے ہیں ۔ الفاظ کا املا جامعہ عثمانیہ کی روایت املا کے مطابق رکھا گیا ہے ۔ جن الفاظ کو دو طرح سے لکھا گیا ہے وہ دونوں صورتیں اس مجموعے میں شامل کر دی گئی ہیں تاکہ ورثے کی عکاسی ہو سکے ۔ اشخاص ، مقامات اور کیمیائی مرکبات کے ناموں کو اردو میں ان کے تلفظ کی ادائیگی کی غرض سے اس مجموعے میں شامل کیا گیا ہے ۔ مجھے اس کا دعوىٰ نہیں ہے کہ اس مجموعے میں ساری اصطلاحات جامعہ عثمانیہ آ گئی ہیں لیکن یہ ضرور ہے کہ ان کا بڑا اور بنیادی حصہ اس میں ضرور شامل ہے ۔ مقتدرہ قومی زبان کی طرف سے میں اس کوشش کو اس اُمید کے ساتھ اہلِ علم کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں کہ وہ اس روایت کو آگے بڑھائیں گے جس کا آغاز ”فرہنگ اصطلاحات جامعہ عثمانیہ“ سے ہوا ہے اور ساتھ ساتھ مجھے اپنی رائے اور مفید مشوروں سے بھی سرفراز فرمائیں گے ۔
میں ان تمام احباب کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس مجموعے کے لئے مواد فراہم کرنے میں میری مدد کی جن میں مقتدرہ قومی زبان کے دارالترجمہ کے مہتمم جناب عطش درانی کے علاوہ انجمن ترقی اردو پاکستان ، کراچی کے مشیر علمی ڈاکٹر اسلم فرخی اور مہتمم کتب خانۂ خاص جناب توقیر احمد صدیقی ، محمود حسین لائبریری ، جامعہ کراچی کے مہتمم کتب خانہ خورشید عالم صاحب ، مرکزی کتب خانہ ، جامعہ پنجاب لاہور کے ڈپٹی چیف لائبریرین جناب جمیل احمد رضوی ، مجلسِ زبان دفتری ، لاہور کے ڈاکٹر انیس ناگی اور مقتدرہ قومی زبان ، لاہور کے افسر انتظامی قاضی عزیز الرحمٰن عاصم شامل ہیں ۔ اس مجموعے کی ترتیب اور پروف خوانی میں سب سے زیادہ تعاون مقتدرہ قومی زبان کے معاونینِ علمی جناب عبدالرحیم خان اور جناب محمد اسلام نشتر اور افسر تحقیق جناب شکیل احمد منگلوری کا بھی شکر گزار ہوں جنھوں نے اس مجموعے کے پروف توجہ اور دلچسپی سے پڑھے ۔
تاریخ : یکم فروری 1991ء ------------- ڈاکٹر جمیل جالبی
مرتّبہ ڈاکٹر جمیل جالبی ستارۂ امتیاز
مقتدرہ قومی زبان - اسلام آباد 1991ء
پیش لفظ
اصطلاحاتِ جامعہ عثمانیہ ہمارا علمی سرمایہ اور تاریخی ورثہ ہیں ۔ اس سرمائے میں برِ صغیر کے بہترین دماغوں کی انفرادی و اجتمائی کاوشیں شامل ہیں ۔ سقوطِ حیدر آباد (دکن) کے فوراً بعد جب اُردو ذریعۂ تعلیم کی روایت وہاں ٹوٹی تو یہ سارا علمی سرمایہ بھی منتشر ہو گیا ۔ اب جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے اس سر مائے کی شیرازہ بندی دشوارتر ہوتی جاتی ہے ۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ یہ سرمایہ یکجا و مرتب کر کے شائع کیا جاتا تاکہ یہ نہ صرف محفوظ ہو جاتا بلکہ وضع اصطلاحات کی جدید روایت سے بھی اس کا رشتہ قائم ہو جاتا ۔ اسی خیال کے پیش نظر میں نے کم و بیش اس سارے سرمائے کو کھنگالا جو پاکستان کے مختلف کتب خانوں میں محفوظ تھا اور اسے یکجا کر کے مرتب کر دیا ۔ ”فرہنگِ اصطلاحات جامعہ عثمانیہ“ انہی اصطلاحات کا مجموعہ ہے ۔
ہر زندہ زبان میں ، علوم و فنون کی سطح پر ، اصطلاحات بنیادی اہمیت رکھتی ہیں ۔ اگر مروج معنی کے علاوہ کسی لفظ کے کوئی اور معنی صلاح و مشورہ سے مقرر کر لیے جائیں تو معنی کی اس صورت کو اصطلاح کہتے ہیں ۔ اس طرح کئی تصورات یا خیالات اس لفظ سے ادا ہو جاتے ہیں ۔ پروفیسر وحید الدین سلیم نے اسی لئے کہا تھا کہ ”اصطلاحیں دراصل اشارے ہیں جو خیالات کے مجموعوں کی طرف ذہن کو منتقل کر دیتی ہیں ۔“ [1]
1 - وضع اصطلاحات ، مولوی وحید الدین سلیم ، ص 12 ، انجمن ترقی اُردو پاکستان (تیسرا ایڈیشن) کراچی ، 1965ء ۔
اُردو زبان میں اصطلاحات کا سرمایہ تو اسی وقت سے پیدا ہونے لگا تھا جب یہ زبان علوم و فنون کے اظہار کا وسیلہ بنی تھی ۔ اس دور میں اصطلاحات عربی ، فارسی ، ترکی اور سنسکرت وغیرہ سے لی یا وضع کی جاتی تھیں لیکن اٹھارویں صدی عیسوی میں جب برِ صغیر میں مسلم سلطنت کا سورج غروب ہونے لگا اور انگریزی تسلط رفتہ رفتہ قائم ہو کر انیسویں صدی میں پوری طرح مستحکم ہو گیا تو ایک نیا مسئلہ اس وقت سامنے آیا جب جدید مغربی علوم کو اردو زبان کے ذریعے حاصل کرنے کا عمل شروع ہوا ۔ اس دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ اصطلاحات اور وضع اصطلاحات کے مسئلے نے ایک نئی اہمیت اختیار کر لی ہے ۔ دہلی کالج 1825ء میں قائم ہوا اور اسی کے ساتھ وہاں ”دہلی ورنیکلر ٹرانسلیشن سوسائٹی“ قائم ہوئی اور درسی کتب کی ضرورت کے لئے کیمیا ، نباتیات ، معدنیات ، ریاضی ، طب ، علم ہندسہ اور دوسرے علوم کی اصطلاحات وضع ہوئیں ۔ حیدر آباد میں شمس الامراء نے انگریزی و فرانسیسی سے اہم کتابوں کے اردو تراجم میں گہری دلچسپی لی اور 1834 - 1850ء کے درمیان بیس سے زیادہ سائنسی کتابیں اردو میں منتقل ہوئیں ۔ سر سید احمد خان نے 1863ء میں ”سائنٹفک سوسائتی“ قائم کی جس کا مقصد یہ تھا کہ جدید سائنسی کتابوں اور امہات الکتب کو اردو میں ترجمہ کرایا جائے ۔ وضع اصطلاحات کی کمیٹی بھی اسی زمانے میں سر سید احمد خان نے قائم کی ۔ رڑکی انجینئرنگ کالج میں 1856ء سے 1888ء تک ایک ذریعۂ تعلیم اردو زبان تھی ۔ درسی ضروریات کے پیش نظر وہاں بھی متعدد کتابیں اُردو میں لکھیں اور اصطلاحات وضع کی گئیں - اسی طرح آگرہ میڈیکل کالج میں بھی ایک ذریعۂ تعلیم اُردو تھی۔ وہاں بھی طلبہ کی درسی ضرورت کے لئے کتابیں لکھیں اور جدید طبی اصطلاحات اردو میں وضع کی گئیں ۔ یہ ذخیرہ آج بھی پاکستان کے بعض کتب خانوں میں محفوظ ہے ۔ سائنٹفک سوسائٹی مظفر پور (1868ء) نے بھی فلکیات ، معدنیات ، طبیعات ، جغرافیہ اور فنِ تعمیر وغیرہ پر بہت سی کتابیں نہ صرف ترجمہ کرائیں یا لکھوائیں بلکہ وضع اصطلاحات کے کام کو بھی آگے بڑھایا ۔ شاہان اودھ غازی الدین حیدر اور نصیر الدین حیدر کے دورِ حکومت میں بہت سی علمی و سائنسی کتابیں اُردو میں ترجمہ ہوئیں اور بہت سی نئی اصطلاحات وجود میں آئیں ۔ 1865ء میں انجمنِ پنجاب لاہور میں قائم ہوئی اور اس کے تحت بھی ترجمہ و اصطلاحات کا بہت سا قابلِ ذکر کام ہوا ۔ میں یہاں اصطلاحات سازی و ترجمہ کی تاریخ مرتب نہیں کر رہا ہوں بلکہ صرف یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ انگریزی سے اُردو تراجم اور علمی اصطلاحات کی روایت کو اب کم و بیش دو سو سال کا عرصہ ہو چکا ہے ۔
بیسویں صدی کے اوائل میں یہ روایت اس وقت زیادہ اہمیت اختیار کر گئی جب 26 اپریل 1917ء کو نظام دکن نے یہ فرمان جاری کیا کہ ”اپنی تخت نشینی کی یادگار میں سلطنت آصفیہ میں ایک جامعہ کے قیام کا حکم دیتا ہوں جس کا نام جامعہ عثمانیہ ہو گا“ ۔ اس فرمان کے چار مہینے کے اندر اندر 14 اگست 1917ء کو شعبہ تالیف و ترجمہ کا قیام عمل میں آ گیا جس کے سربراہ مولوی عبدالحق مقرر کیے گئے ۔ اس شعبے کا مقصد یہ تھا کہ جامعہ عثمانیہ کے لئے ضروری کتب لکھوائی اور ترجمہ کرائی جائیں تاکہ یہ کتابیں جامعہ عثمانیہ میں درسی کتب کے طور پر استعمال کی جا سکیں ۔ جامعہ عثمانیہ کا آغاز 1919ء میں ہوا ۔ جامعہ عثمانیہ میں ذریعۂ تعلیم چونکہ اُردو زبان تھی ، اس لیے وہاں اصطلاح سازی کے کام میں بھی غیر معمولی اور مفیدِ مقصد پیش رفت ہوئی ۔ دارالترجمہ کے صاحبان علم نے ، جیسا کہ مولوی وحید الدین سلیم نے لکھا ہے ، وضع اصطلاحات کے مختلف پہلوؤں پر غور و فکر اور بحث و مباحثہ کر کے کثرت رائے سے طے کیا کہ ”انگریزی زبان کی اصطلاحیں بجنسہٖ یا کسی تغیر و تبدل کے ساتھ اُردو زبان میں نہ لی جائیں بلکہ علمی اصطلاحات کے مقابلے میں اُردو علمی اصطلاحات وضع کی جائیں ۔ اس مرحلے پر پہنچ کر اصطلاح سازوں کے دو گروہ ہو گئے ۔ ایک گروہ کی رائے یہ تھی کہ تمام اصطلاحی الفاظ عربی زبان سے بنائے جائیں ۔ دوسرے گروہ کی رائے یہ تھی کہ اصطلاحات کے وضع کرنے میں ان تمام زبانوں کے لفظوں سے کام لینا چاہیے جو اُردو زبان میں بطور عنصر کے شامل ہیں اور ان لفظوں کی ترکیب میں اردو گرامر سے مدد لینی چاہیے ۔ دوسرے گروہ نے یہ بھی کہا کہ اُردو زبان آریائی خاندان سے اور عربی زبان سامی خاندان سے تعلق رکھتی ہے ۔ دونوں خاندانوں میں الفاظ بنانے کے جدا جدا قاعدے ہیں ۔ آریائی خاندانوں کی زبانوں میں مرکب الفاظ بنانے اور ان الفاظ سے پھر نئے الفاظ مشتق کرنے کے خاص قائدے ہیں اور یہی وہ چیز ہے جس کی ضرورت علمی اصطلاحات میں پیش آتی ہے ۔ سامی زبانوں میں یہ قائدے نہیں ہیں ، اس لئے مرکب الفاظ اور ان کے مشتقات کو معرب کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے ۔ دوسرے گروہ نے اس بات پر زور دیا کہ کسی زبان کی ترقی کے یہ معنی ہرگز نہیں ہیں کہ اس زبان میں غیر زبانوں کے بے شمار الفاظ بجنسہٖ یا بعد تصرف کے داخل کر لیے جائیں ۔ زبان کی ترقی اسی حالت میں ترقی کہلا سکتی ہے جب کہ وہ الفاظ جو اس میں بڑھائے جائیں اس زبان کی قدرتی ساخت اور اس کی اصلی گرامر کے مطابق بنائے گئے ہوں اور ان الفاظ کے مادے ان زبانوں سے لیے گئے ہوں جو اس زبان کی بناوٹ اور ترکیب میں قدرتی طور سے دخل رکھتی ہوں ۔ اُردو زبان میں علمی اصطلاحات وضع کرنا اسی حالت میں اس کی ترقی کا باعث ہو سکتا ہے جب کہ اس اصول پر عمل کیا جائے ۔ اُردو زبان کے قدرتی عنصر عربی ، فارسی اور ہندی زبانیں ہیں ۔ ہمارے لئے سہولت اسی میں ہے کہ ہم جو نئے الفاظ بنائیں ان کے مادے تینوں زبانوں سے لیں اور اپنی زبان کو ترقی کی اس طبعی رفتار پر آگے بڑھنے دیں جس پر وہ آج تک چلتی رہی ہے ۔ جامعہ عثمانیہ کی وضع اصطلاحات کمیٹی نے دونوں نقطۂ نظر پر غور کر کے یہ منظور کر دیا کہ اردو زبان میں جو علمی اصطلاحیں وضع کی جائیں ان کے لئے الفاظ عربی ، فارسی اور ہندی سے بے تکلف لیے جائیں مگر الفاظ کی ترکیب دیتے وقت اُردو زبان کی گرامر کا لحاظ رکھا جائے ۔“[2]
2 - وضع اصطلاحات ، مولوی وحید الدین سلیم ، ص 18-25 ، انجمن ترقی اُردو پاکستان (تیسرا ایڈیشن) کراچی ، 1965ء -
مولوی عبدالحق نے ، وضع اصطلاحات کے ان اصولوں کو جو دارالترجمہ میں کثرت رائے سے منظور ہوئے ، یوں بیان کیا ہے[3]:
3 - فرہنگ اصطلاحات علمیہ ، مرتبہ : انجمن ترقی اُردو ، اورنگ آباد (دکن) ، ص 3-4 ، انجمن ترقی اُردو پریس ، اورنگ آباد (دکن) ، 1925ء ۔
(1) اصطلاحات وضع کرنے کے لئے ماہران زبان اور ماہران فن دونوں کا ایک جا ہونا ضروری ہے ۔ اصطلاحات کے بنانے میں دونوں پہلوؤں کا خیال رکھنا لازم ہے تاکہ جو اصطلاح بنائی جائے وہ زبان کے سانچے میں بھی ڈھلی ہو اور فن کے اعتبار سے بھی ناموزوں نہ ہو ۔
(2) اردو زبان چونکہ کئی زبانوں سے مرکب ہے اس لیے اصطلاحات علمیہ کے لئے اُن سب زبانوں سے الفاظ وضع کر سکتے ہیں جن سے اُردو زبان مرکب ہے یعنی عربی ، فارسی ، ہندی ، ترکی سے بلا تکلف مدد لی جا سکتی ہے ۔
(3) الفاظ کے اشتقاق و ترکیب میں کسی خاص زبان کے قائدے کی پابندی نہ کی جائے اور جو الفاظ مستعمل ہیں اُن کی مثال کا لحاظ رکھا جائے اور جو لفظ زیادہ موزوں معلوم ہو اسے اختیار کیا جائے لیکن ان الفاظ سے ، اشتقاق یا ترکیب کے ذریعے سے ، جو الفاظ بنائے جائیں گے وہ اردو نحو کے قائدے کے بموجب ہوں گے یعنی لفظ دوسری زبان سے لے سکتے ہیں لیکن اس کے نحوی قاعدے نہیں لے سکتے ۔
(4) حتی الامکان مختصر الفاظ وضع کیے جائیں جو اصل مفہوم یا اس کے قریبی معنوں کو ادا کر سکیں ۔
(5) جس طرح اگلے زمانے میں اپنی زبان یا غیر زبانوں کے اسما سے مصادر بنائے جاتے تھے مثلاً بدلنا ، قبولنا ، بخشنا وغیرہ اسی طرح اب بھی ضرورت کے وقت اسما سے افعال بنا لینا جائز ہے چنانچہ اسی اصول سے برق سے برقانا وغیرہ بنا لیے گئے ۔ اسی طرح مصادر بنانے سے الفاظ مختصر بن جاتے ہیں اور اشتقاق میں آسانی ہوتی ہے ۔
(6) جو اصطلاحات قدیم سے رائج ہیں انھیں برقرار رکھا جائے ۔
(7) ایسے انگریزی اصطلاحی الفاظ جو عام طور پر رائج ہو گئے ہیں یا ایسے الفاظ جن کے اشتقاق مشکوک ہیں یا ایسی اصطلاحیں جو موجدوں یا تحقیق کر نے والوں کے نام پر رکھی گئی ہیں انھیں بدستور رہنے دیا جائے کیونکہ نہ ان کا ترجمہ ہو سکتا ہے اور نہ ترجمہ کی ضرورت ہے ۔
( 8 ) اصطلاحیں آسان اور عام فہم بنائی جائیں اور ایسے مادوں سے وضع کی جائیں جو زبان میں عام طور سے رائج ہیں ۔ اشتقاق و ترکیب میں کہیں اپنی زبان کے قوائد کو ترک نہیں کیا جائے خواہ لفظ عربی ہو یا فارسی یا کسی اور زبان کا ۔
ان تمام اصولوں پر عمل درآمد بھی ہوا اور انحراف بھی ۔ عملِ ارتقا اسی کا نام ہے ۔ اصطلاحات سازی کا یہ کام چونکہ باقائدگی کے ساتھ تدریسی ضرورت کے لئے کیا گیا تھا اس لئے یہ اصطلاحات یکسانیت کے ساتھ درسی کتب میں استعمال کی گئیں اور تیزی سے ان کا رواج اور چلن عام ہو گیا ۔ اردو زبان کو ذریعۂ تعلیم بنا کر جامعہ عثمانیہ نے طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کو بیدار کر دیا اور وہ رکاوٹ دور کر دی جو انگریزی زبان کی اجنبیت کی وجہ سے طلبہ عام طور پر محسوس کرتے تھے اور علم کے بنیادی تصورات ان کے ذہن میں پوری طرح صاف اور واضح نہیں ہوتے تھے ۔ اردو ذریعۂ تعلیم نے جس طرح طلبہ کے ذہن کو روشن اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو بیدار کیا اس بات سے ہم سب اچھی طرح واقف ہیں ۔ جامعہ عثمانیہ میں اردو زبان کے ذریعے تعلیم دینے کا ایک بڑا تجربہ کیا گیا تھا اور یہ تجربہ اتنا کامیاب ہوا کہ روشن ذہن ، اعلىٰ تعلیم یافتہ افراد کی ایک بڑی تعداد ، اپنی بھرپور تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ ، میدانِ عمل میں اتر آئی ۔ یہ اتنا بڑا اور کامیاب تجربہ تھا کہ اس سے پاکستان میں پوری طرح استفادے کی ضرورت تھی لیکن چونکہ ایسا نہیں ہوا اور ہم آج بھی انگریزی زبان کو ، غلامانہ افتخار کے ساتھ ذریعۂ تعلیم بنائے ہوئے ہیں ، اس لئے علمی و تعلیمی سطح پر ہم گہرے انتشار کا شکار ہیں اور اسی لئے آزادی کے بعد سے کسی شعبۂ زندگی میں ہم نے کوئی عظیم ہستی پیدا نہیں کی اور نہ کوئی قابلِ فخر عظیم کارنامہ انجام دیا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہم ذہنی قیادت کے لئے صرف اور صرف دوسری اقوام کی طرف دیکھنے اور ان پر تکیہ کرنے کی خدمت ضرور انجام دے رہے ہیں ۔ یاد رکھیے کہ یہ صورت حال ہمیں کہیں نہ لے جائے گی ۔
جامعہ عثمانیہ کی اسی روایت کے زیر اثر پاکستان میں اصطلاحات سازی کا کام مختف علمی و تعلیمی اداروں میں ضرور ہوتا رہا جن میں انجمن ترقی اردو پاکستان ، شعبۂ تصنیف و تالیف و ترجمہ ، جامعہ کراچی ، ادارہ تالیف و ترجمہ ، جامعہ پنجاب ، مجلسِ زبانِ دفتری پنجاب ، مرکزی اردو بورڈ (حال اردو سائنس بورڈ) ، زرعی یونیورسٹی فیصل آباد ، پاکستان سائنٹفک سوسائٹی کراچی ، مجلس ترقی ادب لاہور ، مغربی پاکستان اردو اکیڈمی لاہور ، اردو اکیڈمی بہاولپور ، سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ ، پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ ، سرحد ٹیکسٹ بک بورڈ ، بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ اور مقتدرہ قومی زبان کے نام ممتاز و قابلِ ذکر ہیں ۔ ان علمی اداروں اور بہت سے نجی ناشرین کی اصطلاحات کے علاوہ ”اردو اصطلاحات سازی (کتابیات)“[4] میں 134 لغات اصطلاحات اور 320 ایسی کتابوں کا ذکر ملتا ہے جن کے آخر میں فرہنگ اصطلاحات دی گئی ہیں ۔ ایک اور مقالے[5] میں اصطلاحات کی 233 لغات اور کتابوں کے آخر میں دی گئی 387 فرہنگ اصطلاحات کا ذکر ملتا ہے ۔ وہ ستانوے (97) اردو انگریزی ، انگریزی اردو لغات ان کے علاوہ ہیں جن کا ذکر ”کتابیاتِ لغات اردو“[6] میں کیا گیا ہے ۔ بہرحال اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اردو میں سائنسی تعلیم نہیں دی جا سکتی یا اصطلاحات موجود نہیں ہیں یا وضع نہیں کی جا سکتیں بلکہ اصل مسئلہ اس طبقۂ خواص کے اختیار و اقتدار کا ہے جو انگریزوں کا جانشین بن کر اقتدار کی باگ ڈور ہر قیمت پر اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک عوام ، جن کا چرچا ہر دم اور ہر قدم پر ہوتا ہے ، بڑے قومی دھارے سے الگ اور دور ہیں ۔ ہمارے سارے معاشی ، سماجی ، لسانی ، تہذیبی ، علمی اور تعلیمی بحران اسی لئے ہمیں مسلسل گھیرے ہوئے ہیں ۔
4 - اردو اصطلاحات سازی (کتابیات) ، مرتبہ ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہانپوری ، مقتدرہ قومی زبان ، اسلام آباد ، 1984ء ۔
5 - پی ۔ ایچ ۔ ڈی ، عطش درانی (غیر مطبوعہ) ۔
6 - کتابیات لغات اردو ، مرتبہ ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہانپوری ، مقتدرہ قومی زبان ، اسلام آباد ، 1986ء ۔
آزادی (1947ء) کے بعد پاکستان میں سینکڑوں علمی کتابوں کے اردو تراجم ہوئے ، مختلف علوم و فنون پر اردو میں متعدد کتابیں تصنیف ہوئیں لیکن کوئی بااختیار مرکز نہ ہونے کی وجہ سے اصطلاحات کے استعمال میں یکسانیت پیدا نہ ہو سکی ۔ اردو زبان کو اگر باقائدگی کے ساتھ ذریعۂ تعلیم بنایا جاتا تو اصطلاحات کے کام میں نہ صرف یکسانیت پیدا ہو سکتی تھی بلکہ اصطلاحات کا چلن اور سائنسی تحقیق کا رواج بھی عام ہو سکتا تھا ۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ مختلف مصنف یا مترجم اپنی سہولت کے مطابق اصطلاحات وضع کر لیتے ہیں اور ان کی معیار بندی و یکساں طور پر استعمال کرانے کا اختیار کسی کے پاس نہیں ہے جب کہ قدیم و جدید اردو اصطلاحات کی تعداد کم و بیش تین لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے ۔ اتنا بڑا ذخیرہ سارے برصغیر کی کسی ایک بھی زبان کے پاس موجود نہیں ہے اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔ یونیسکو کی سفارشات کے مطابق (جو Unisist Guidelines میں درج ہیں) کسی اصطلاحی ادارے کو تصنیف و تالیف کے لئے تین سے چار لاکھ اصطلاحوں کی ضرورت پڑتی ہے[7] ۔ یورپ میں اصطلاحات کے سب سے بڑے مرکز[8] کے پاس چار لاکھ ساٹھ ہزار اصطلاحات اور ایک لاکھ دس ہزار مخففات کا ذخیرہ کمپیوٹر میں محفوظ ہے ۔
7 - Translating & the Computer By J. Goetschalick, p. 75. Amsterdam, 1979. ۔
8 - Commission of the European Communities Specialized Department, Terminology & Computer application, Luxembourg.
بہر حال ، جیسا کہ میں نے عرض کیا ”فرہنگ اصطلاحات جامعہ عثمانیہ“ کو مرتب کرتے وقت ان تمام مطبوعات سے استفادہ کیا گیا ہے جو جامعہ عثمانیہ کے لئے لکھی ، ترجمہ کی گئیں اور وہاں سے شائع ہوئیں ۔ ان مطبوعات میں 122 کتابیں ایسی تھیں جن کے آخر میں فرہنگ اصطلاحات دی گئی تھیں ۔ ان کتابوں کی فہرست اس کتاب کے آخر میں ”فہرست مآخذ“ کے عنوان سے شامل کر دی گئی ہے ۔ اس فہرست کو ڈیوی کے اصول درجہ بندی کے مطابق ترتیب دیا گیا ہے ۔ بنیادی طور پر زیر نظر فرہنگ انھیں اصطلاحات پر مشتمل ہے ۔ وہ رسائل جن میں مختلف علوم کی اصطلاحات الگ الگ شائع کی گئی تھیں اس لیے شامل فہرست نہیں ہیں کہ یہ ساری اصطلاحات ان کتابوں سے اس مجموعے میں براہ راست شامل ہو گئی ہیں ، جن کی فرہنگوں کو الگ سے بھی شائع کر دیا گیا تھا مثلاً جارج ڈبلیو پارکر کی علم ہیئت پر کتاب جب اردو میں ترجمہ کی گئی تو اصطلاحات کی فرہنگ اس کتاب کے آخر میں شامل کی گئی ۔ بعد میں اسی فرہنگ کو ”اصطلاحاتِ ہیئت“ کے نام سے بھی شائع کیا گیا ۔ میں نے براہ راست پارکر کی کتاب سے یہ اصطلاحات شامل کی ہیں اور اسی لئے فہرست مآخذ میں اسی کا نام دیا گیا ہے ۔ یہی صورت اور بہت سی کتابوں کی ہے ۔ ایک کتاب کے آخر میں سائنس و ریاضی کی ترقیمات دی گئی تھیں اسے چھوڑ دیا گیا ہے لیکن ”فرہنگ اصطلاحات علمیہ“ کی تمام اصطلاحات جنہیں انجمن ترقی اردو ہند نے 1925ء میں اورنگ آباد سے بابائے اردو مولوی عبدالحق مرحوم کے پیش لفظ کے ساتھ شائع کیا تھا ، شامل کر لی گئی ہیں کہ یہ بھی شعبۂ تالیف و ترجمہ/دارلترجمہ کا کام تھا ۔ اسی طرح ”مجموعہ اصطلاحات“ شائع کردہ جامعہ عثمانیہ (1926ء) کی اصطلاحات بھی شامل کر لی گئی ہیں ۔
اس فرہنگ میں تمام علوم کی اصطلاحات کو انگریزی حروف تہجی کے اعتبار سے مرتب کیا گیا ہے ۔ علوم کے انگریزی مخففات اصطلاح کے ساتھ قوسین میں دے دیے گئے ہیں اور مخففات کی فہرست اس کتاب کے ابتدائی صفحات میں دے دی گئی ہے ۔ اگر کوئی اصطلاح مختلف علوم میں ایک ہی معنی میں مستعمل ہوئی ہے تو وہ تمام علوم مخففات کی صورت میں اس اصطلاح کے ساتھ یکجا قوسین میں دے دیے گئے ہیں ۔ الفاظ کا املا جامعہ عثمانیہ کی روایت املا کے مطابق رکھا گیا ہے ۔ جن الفاظ کو دو طرح سے لکھا گیا ہے وہ دونوں صورتیں اس مجموعے میں شامل کر دی گئی ہیں تاکہ ورثے کی عکاسی ہو سکے ۔ اشخاص ، مقامات اور کیمیائی مرکبات کے ناموں کو اردو میں ان کے تلفظ کی ادائیگی کی غرض سے اس مجموعے میں شامل کیا گیا ہے ۔ مجھے اس کا دعوىٰ نہیں ہے کہ اس مجموعے میں ساری اصطلاحات جامعہ عثمانیہ آ گئی ہیں لیکن یہ ضرور ہے کہ ان کا بڑا اور بنیادی حصہ اس میں ضرور شامل ہے ۔ مقتدرہ قومی زبان کی طرف سے میں اس کوشش کو اس اُمید کے ساتھ اہلِ علم کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں کہ وہ اس روایت کو آگے بڑھائیں گے جس کا آغاز ”فرہنگ اصطلاحات جامعہ عثمانیہ“ سے ہوا ہے اور ساتھ ساتھ مجھے اپنی رائے اور مفید مشوروں سے بھی سرفراز فرمائیں گے ۔
میں ان تمام احباب کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس مجموعے کے لئے مواد فراہم کرنے میں میری مدد کی جن میں مقتدرہ قومی زبان کے دارالترجمہ کے مہتمم جناب عطش درانی کے علاوہ انجمن ترقی اردو پاکستان ، کراچی کے مشیر علمی ڈاکٹر اسلم فرخی اور مہتمم کتب خانۂ خاص جناب توقیر احمد صدیقی ، محمود حسین لائبریری ، جامعہ کراچی کے مہتمم کتب خانہ خورشید عالم صاحب ، مرکزی کتب خانہ ، جامعہ پنجاب لاہور کے ڈپٹی چیف لائبریرین جناب جمیل احمد رضوی ، مجلسِ زبان دفتری ، لاہور کے ڈاکٹر انیس ناگی اور مقتدرہ قومی زبان ، لاہور کے افسر انتظامی قاضی عزیز الرحمٰن عاصم شامل ہیں ۔ اس مجموعے کی ترتیب اور پروف خوانی میں سب سے زیادہ تعاون مقتدرہ قومی زبان کے معاونینِ علمی جناب عبدالرحیم خان اور جناب محمد اسلام نشتر اور افسر تحقیق جناب شکیل احمد منگلوری کا بھی شکر گزار ہوں جنھوں نے اس مجموعے کے پروف توجہ اور دلچسپی سے پڑھے ۔
تاریخ : یکم فروری 1991ء ------------- ڈاکٹر جمیل جالبی
آخری تدوین: