محمداحمد
لائبریرین
فریاد کی لے
از محمد احمدؔ
وہ اِس وقت ذہنی اور جسمانی طور پر بالکل مستعد تھا۔ بس انتظار تھا کہ مولوی صاحب سلام پھیریں اور وہ نماز ختم کرکے اپنا کام شروع کر دے۔ اُس نے اپنے ذہن میں اُن لفظوں کو بھی ترتیب دے لیا تھا جو اُس نے حاضرینِ مسجد سے مخاطب ہو کر کہنا تھے۔ جیسے ہی مولوی صاحب نے سلام پھیر ااُس نے بھی تقریباً ساتھ ساتھ ہی سلام پھیرا اور ایک جھٹکے سے اُٹھا لیکن عین اُس وقت کہ جب اُس کو کھڑا ہو کر اپنی فریاد لوگوں تک پہنچانی تھی اُس کی قمیص کا دامن اُسی کے پاؤں تلے آ گیا اور ایک دم سے اُٹھنے کی کوشش کے باعث دامن چاک سے لے کر کافی اُوپر تک پھٹ گیا۔ ابھی وہ قمیص کا جائزہ ہی لے رہا تھا کہ ہال کے دوسرے کنارے سے ایک آواز سُنائی دی۔
"میرے بھائیو! میں اور میرے گھر والے تین روز سے ۔۔۔۔" رُندھی ہوئی آواز میں شروع ہوا یہ جملہ بیچ راستے میں ہی دم توڑ گیا۔ اِس وقت کسی غیر متوقع "حریف" سے ٹکراؤ کا اُسے خیال تک نہیں تھا۔ اُس نے دیکھا کہ ہال کے دوسرے دروازے کے پاس ایک خستہ حال لڑکے نے حاضرین کو متوجہ کیا لیکن وہ جملہ مکمل کیے بغیر ہی رونے لگا ابھی وہ اس نئے سائل کی ڈرامے بازی کو سمجھنے کی کوشش ہی کر رہا تھا کہ اچانک فریاد کرنے والا لڑکا جو اپنا جملہ مکمل کرنے کے بجائے رونے لگا تھا لوگوں کو پھلانگتے ہوئے بھاگنا شروع ہو گیا۔
نہ جانےاُسے کیا ہوا کہ اُس نے بھی نئے سائل کے پیچھے دوڑ لگا دی، کہ جیسے عین "دھندے" کے وقت پہنچ کر اُس کے حریف نے اُسے دعوتِ پیکار دے دی ہو اور پھر میدانِ جنگ سے فرنٹ ہو گیا ہو۔ اور جیسے اب اُس کی پہلی ذمہ داری ہی یہ ہو کہ پسپا ہوتے دشمن کو قریب ہی کہیں چھاپ لے اور پھر ایک ایک کرکے سارے بدلے چُکائے۔
صورتِ حال اب یہ تھی کہ آگے آگے خستہ حال نوجوان لڑکا روتا جاتا اور دوڑتا جاتا تھا اور وہ اُس کے پیچھے پیچھے ایک غیر ارادی تعاقب میں دوڑ رہا تھا ۔ دوڑتے دوڑتے اُس نے سوچا بھی کہ جب نیا لڑکا دوڑ ہی گیا تھا تو اُسے اپنا کام شروع کرنا چاہیے تھا بجائے اِس کے کہ وہ اُس کے پیچھے اپنا وقت برباد کرنے آگیا۔ لیکن یہ سوچ بھی اُس کے قدم روکنے کا حیلہ نہ بن سکی اور وہ اندھا دھند دوڑتا رہا۔
مختلف چھوٹی چھوٹی گلیوں سے گزر کر مفرور سائل ایک گھر کے دروازے میں داخل ہونا ہی چاہتا تھا کہ اُس نے اُسے جا ہی لیا ۔ اُس کی گرفت میں آکر مفرور لڑکا شدید پریشانی کا شکار نظر آتا تھا اور اُسے سمجھ نہیں آتا تھا کہ اُس کا اندھا دھند تعاقب کرنے والا یہ شخص کون تھا اور آخر اُس سے ایسا کیا قصور ہوا تھا کہ اُسے نجات ملنے کا کوئی امکان ہی نظر نہیں آتا تھا۔
"کون ہے بے تو؟؟؟" اُس نے حقارت سے لڑکے سے پوچھا
"میں ! میں!" لڑکے کو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ اس اچانک آ پڑنے والی اُفتاد سے کیسے نمٹا جائے۔
پھر شاید اُسے ہی خیال آیا کہ وہ ضرورت سے زیادہ ہی جارح ہو رہا ہے تو اُس نے اپنے لہجے کو کچھ بہتر بناتے ہوئے پوچھا" مسجد میں کیا کرنے آیا تھا؟"
"وہ ، میں۔۔۔! مجھے پیسے چاہیےتھے" لڑکے نے ہکلاتے ہوئے بتانا شروع کیا۔
"ہمارے پاس کچھ نہیں ہے کھانے کو ، پیسے بھی نہیں ہیں" وہ سسکتا جاتا اور بتاتا جاتا۔
"میں نے۔۔۔۔ میری امی نے، میرے بھائی نے ۔۔۔ ہم نے کچھ نہیں کھایا " رو رو کر لڑکے کا بُرا حال تھا اور اُس کی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ یہ سوال جواب کیوں کر رہا ہے۔
"تین دن سے ہمیں پانی کے علاوہ کچھ نہیں ملا، میں نے سوچا مسجد میں جا کر ۔۔ جیسے دوسرے لوگ ۔۔۔ " لڑکا پھر دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔
اُس کے ہونٹوں سے سارے سوال غائب ہو گئے تھے اور آنکھوں میں آنسو چمک رہے تھے۔
پھر اچانک اُس نے آگے بڑھ کر لڑکے کو گلے سے لگا لیا، اور پھر وہ دونوں رونے لگے ۔ جیسے جیسے اُن کا کوئی مر گیا ہو۔ لیکن اُن کا اس دنیا میں تھا ہی کون جو مرتا۔ اور اُن کا کوئی ہوتا تو کیا وہ اس طرح روتے؟
وہ روتے جاتے اور ایک دوسرے کو بھینچتے جاتے کہ جیسےکوئی سالوں برسوں بعد ملا ہو اور اس بات کا یقین ہی نہ آ رہا ہو کہ ملن کا لمحہ واقعی آن پہنچا ہے۔
آس پاس جمع ہوتے بچوں کو دیکھ کر اُسے کچھ ہوش آیا۔ اُس نے لڑکے کو خود سے جدا کیا اور ہتھیلیوں کی پشت سے آنسو پوچھتے ہوئے بولا ۔ "میرے ساتھ آ" اور اُس کا ہاتھ پکڑکر چلنے لگا۔
سائل لڑکا میکانیکی انداز میں اُس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا ۔ راستے میں وہ دونوں بالکل خاموش تھے۔کہتے بھی تو کیا۔
اُن کا یہ مختصر سفر ایک چھوٹے سے ہوٹل پر ختم ہوا اور اُس نے لڑکے کو ہوٹل پر ایک تخت پر لا کر بٹھا دیا۔ ادھر اُدھر دیکھنے پر اُسے ایک پانی کا ڈرم نظر آیا۔ اُس نے ڈرم سے پانی جگ میں نکالا اور منہ دھونے لگا۔ منہ ہاتھ دھو کر اُس نے ایک جگ اور بھرا اور لڑکے کو بُلا کر اُس کا منہ بھی دھلوا دیا۔
کچھ تازہ دم ہو کر وہ پھر سے تخت پر بیٹھے تو بیرا اُن کے سر پر نازل ہو چکا تھا۔ "ہاں اُستاد ! کیا لاؤں؟"
"ایک دال فرائی لے آ اور روٹی گرم لانا ۔ " اُس نے بیرے کو دیکھا اور سوچتے ہوئے کہا۔
کچھ ہی دیر میں بیرا کھانا لے آیا۔ کھجور کے پتوں سے بنی رکابی میں تندور کی تازہ روٹیاں اور اسٹیل کی پلیٹ میں چنے کی دال ، فرائی کی ہوئی۔ سائل لڑکے کے آنسو اب تک تھم گئے تھے لیکن اُس کا چہرہ سُرخ ہو رہا تھا۔ اُس نے لڑکے کی طرف دیکھا اور کھانے کی طرف اشارہ کرکے کہا "گرو ، ہو جا شروع۔۔۔!"
لڑکے نے جھجکتے ہوئے ایک نوالہ بنایا اور دال کی پلیٹ سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے اپنے منہ میں رکھ لیا۔ نوالے کے منہ میں جاتے ہی اُس کی ساری جھجک رُخصت ہوگئی اور وہ بے صبری سے کھانا کھانے لگا۔ اُسے کوئی خاص بھوک نہیں تھی لیکن لڑکے کا ساتھ دینے کے لئے وہ بھی چھوٹے چھوٹے نوالے لیتا رہا۔
کھانا ختم ہونے پر اُس نے بیرے کو آواز دے کر چائے منگوائی اور مسجد سے فرار اختیار کرنے والے سائل کی طرف متوجہ ہوا۔
"تم مسجد سے بھاگ کیوں گئے تھے۔ "وہ اب تو سے تم پر آ گیا۔
لڑکے نے اُس کی طرف دیکھا اور پھر نظریں جھکا کر کہا "مجھے شرم آگئی تھی۔ میں نے، میرے خاندان والوں نے کسی نے بھی کبھی کسی سے کچھ نہیں مانگا۔ اگر حالات اس قدر خراب نہ ہوتے تو شاید میں مسجد میں اس غرض سے آنے کی ہمت بھی نہ کر پاتا۔"
"شرم ! " اُس نے حیرت اور غصے سے لڑکے کی طرف دیکھا۔
"تمھیں کیوں شرم آ ئی!" اُس کی آواز غیض سے بھرّا رہی تھی۔
"شرم تو تمھارے پڑوسیوں کو آنی چاہیے، تمھارے رشتہ داروں کو آنی چاہیے کہ تمھارے ہاں تین روز سے کھانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور وہ بے خبر ہیں۔"
"تمھاری پڑوسی اپنی زندگی جی رہے ہیں، کھا رہے پی رہے ہیں عیش کر رہے ہیں۔ کیا اُن کا فرض نہیں کہ اڑوس پڑوس کا بھی حال پوچھیں۔ کس پر کیا گزر رہی ہے۔ کس پر کیا مصیبت آن پڑی ہے" ذرا توقف کے بعد وہ پھر شروع ہوا۔
"شرم تو تمھارے رشتہ داروں کو آنی چاہیے ۔ کوئی تمھیں پوچھنے نہیں آیا" اُس نے زور سے سر کو جھٹکا دیا۔
"کیسی رشتہ داری ہے آج کل کی۔ وقت اچھا ہو تو صبح شام چکر لگائیں اور جہاں بُرے دنوں نے رستہ دیکھاوہیں گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہو جائیں گے۔"
"لعنت ہے ایسی رشتہ داری پر اور لعنت ہےایسے پڑوسیوں پر۔" اُس نے زور سے چائے کا کپ تخت پر پٹخا اور اُٹھ کھڑا ہوا۔
اُس نے ہوٹل کے مالک سے کہہ کر کچھ کھانا لڑکے کے گھر والوں کے لئے بھی پیک کروایا اور بل ادا کرنے کے بعد کچھ پیسے لڑکے کی جیب میں بھی ٹھونس دیے۔
"میں اسی ہوٹل پر بیٹھتا ہوں شام کے بعد ، کبھی بھی کوئی مسئلہ ہو تو میرے پاس آ جانا۔ اور ویسے بھی ملتے رہنا " اُس نے لڑکے کو رخصت کرتے ہوئے کہا۔ " میں ویسے بھی چھڑا چھانٹ ہوں، میرا گزارا جیسے تیسے چل ہی جاتا ہے"۔ اب اُس کے چہرے پر مُسکراہٹ نے جگہ بنا لی تھی۔
*****
عصر کی نماز اُس نے ایک اور مسجد میں پڑھی ۔ یہ مسجد بازار کے بیچ و بیچ تھی اور اس میں نمازیوں کی تعداد کہیں زیادہ تھی۔ نماز ختم ہوئی تو اُس نے اپنی درد ناک آواز میں فریاد شروع کر دی۔ آج اُس کی آواز میں الگ ہی کرب تھا۔ اُس کی آنکھوں سے بے تحاشا آنسو بہہ رہے تھے اور اُس کے رٹے رٹے جملے آج تاثیر میں گُندھے ہوئے تھے ۔ اُس کے پیروں میں بچھے رومال پر چھوٹے بڑے نوٹ جمع ہو رہے تھے۔ وہ مستقل رو رہا تھا اور اندر سے ایک اطمینان اُ س کے اندر اُتر رہا تھا کہ رومال پر جمع ہونے والے نوٹ اب اُس کے لئے پہلے سے کہیں زیادہ اہم تھے ۔ اُس کی آنکھوں کے آنسو خوشی سے چمک رہے تھے اور اُس کا پھٹا ہوا دامن ہوا میں لہرا لہرا کر مسرت کا اظہار کر رہا تھا۔
*****