فسانہ میرا دمِ گفتگو نہیں آیا
بلا جواز ہی تو روبرو نہیں آیا
تجھے تو علم بھی تھا میری ناتوانی کا
پکارتا رہا میں اور تو نہیں آیا
غزل سے کیوں مجھے تیری مہک سی آتی ہے
مرا قلم ترا رخسار چھو نہیں آیا
بڑے جتن سے، محبت سے خط لکھا اس کو
جواب آیا مگر ہوبہو نہیں آیا
اسے یہ چاہئے اپنے خلاف جنگ کرے
کسی محاذ سے جو سرخرو نہیں آیا
میں شاہکار تراشوں تو معجزہ ٹھہرے
یہ زعم دستِ ہنر میں کبھو نہیں آیا
اگر پیوں تو مری تشنگی دو آتشہ ہو
کمالِ ضبطِ طلسمِ سبو نہیں آیا