کاشفی

محفلین
غزل
(سُرُور بارہ بنکوی)
فصلِ گُل کیا کر گئی آشفتہ سامانوں کے ساتھ
ہاتھ ہیں الجھے ہوئے اب تک گریبانوں کے ساتھ


تیرے مے خانوں کی اک لغزش کا حاصل کچھ نہ پوچھ
زندگی ہے آج تک گردش میں پیمانوں کے ساتھ


دیکھنا ہے تا بہ منزل ہم سفر رہتا ہے کون
یوں تو عالم چل پڑا ہے آج دیوانوں کے ساتھ


ان حسیں آنکھوں سے اب للہ آنسو پوچھ لو
تم بھی دیوانے ہوئے جاتے ہو دیوانوں کے ساتھ


زندگی نذر حرم تو ہو چکی لیکن سرورؔ
ہر عقیدت قازۂ عالم صنم خانے کے ساتھ
 

کاشفی

محفلین
غزل
(سُرُور بارہ بنکوی)
فصلِ گُل کیا کر گئی آشفتہ سامانوں کے ساتھ
ہاتھ ہیں الجھے ہوئے اب تک گریبانوں کے ساتھ

 
لیجیے ہم تو سُرور بارہ بنکوی کے نام کو صرف خوب صورت فلمی نغموں کے ساتھ جوڑتے تھے۔ اب پتہ چلا کہ وہ ایک خوب صورت غزل گو شاعر بھی تھے۔ اور ترنم تو سونے پر سُہاگہ ہے۔

اتنی خوب صورت غزل شریک کرنے پر شکریہ قبول فرمائیے کاشفی بھائی
 
Top