فضائل تجارت-3: اسلام میں مال کی حیثیت

دیوان

محفلین
(((پچھلا مضمون: فضائل تجارت-2: تمہید)))
اسلام میں مال کی حیثیت
رسول اللہ ﷺ کے بہت سے ارشادات سے مسلمان کی زندگی میں مال کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ مثلًا آپ ﷺ کا ارشاد عالی ہے:
عن حكيم بن حزام عن النبي ﷺ قال ‏ اليد العليا خير من اليد السفلى وابدا بمن تعول وخير الصدقة عن ظهر غنى ومن يستعفف يعفه الله ومن يستغن يغنه الله (صحیح البخاری، كتاب الزكوة)
ترجمہ: حکیم بن حزامؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے اور پہلے انہیں دو جو تمہارے بال بچے اور عزیز ہیں اور بہترین صدقہ وہ ہے جسے دے کر آدمی مالدار رہے اور جو کوئی سوال سے بچنا چاہے گا اسے اللہ تعالی بھی محفوظ رکھتا ہے اور جو دوسروں (کے مال) سے بےنیاز رہتا ہے، اسے اللہ تعالی بےنیاز ہی بنا دیتا ہے
اور اس حدیث شریف پر غور فرمائیں جس میں رسول اللہ ﷺ نے انسان کی فضیلت کا ایک معیار اس کا اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے والا واضح فرمایا ہے۔
عن ابن مسعود قال سمعت النبي ﷺ يقول ‏ ‏ لا حسد الا في اثنتين رجل آتاه الله مالا فسلطه على هلكته في الحق ورجل آتاه الله حكمة فهو يقضي بها ويعلمها (صحیح البخاری، كتاب الزكاة)
ترجمہ: ابن مسعودؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ حسد (رشک) کرنا صرف دو ہی آدمیوں کے ساتھ جائز ہو سکتا ہے۔ ایک تو اس شخص کے ساتھ جسے اللہ نے مال دیا اور اسے حق اور مناسب جگہوں میں خرچ کرنے کی توفیق دی دوسرے اس شخص کے ساتھ جسے اللہ تعالی نے حکمت دی اور وہ اپنی حکمت کے مطابق حق فیصلے کرتا ہے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہے۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت سعدؓ بن ابی وقاصؓ، شدید بیمار تھے اور آپ ﷺ ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ حضرت سعدؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا:
اني قد بلغ بي من الوجع وانا ذو مال ولا يرثني الا ابنة افاتصدق بثلثي مالي قال لا فقلت بالشطر فقال لا ثم قال الثلث والثلث كبير او كثير انك ان تذر ورثتك اغنياء خير من ان تذرهم عالة يتكففون الناس وانك لن تنفق نفقة تبتغي بها وجه الله الا اجرت بها حتى ما تجعل في في امراتك (صحیح البخاری، کتاب المرضی)
ترجمہ: میرا مرض شدت اختیار کر چکا ہے میرے پاس مال و اسباب بہت ہے اور میری صرف ایک لڑکی ہے جو وارث ہوگی تو کیا میں اپنے دو تہائی مال کو خیرات کر دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے کہا آدھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک تہائی کر دو اور یہ بھی بڑی خیرات ہے یا بہت خیرات ہے اگر تو اپنے وارثوں کو اپنے پیچھے مالدار چھوڑ جائے تو یہ اس سے بہتر ہو گا کہ محتاجی میں انہیں اس طرح چھوڑ کر جائے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ یہ یاد رکھو کہ جو خرچ بھی تم اللہ کی رضا کی نیت سے کرو گے تو اس پر بھی تمہیں ثواب ملے گا۔ حتی کہ اس لقمہ پر بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں رکھو
قرآن پاک میں مال کو اللہ تعالی نے خیر سے تعبیر فرمایا ہے:
كتب عليكم اذا حضر احدكم الموت ان ترك خيرا الوصية للوالدين والاقربين بالمعروف حقا على المتقين (البقرة: 180)
ترجمہ: جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آپہنچے اور وہ کچھ مال چھوڑ رہا ہو تو تم پر فرض کردیا گیا ہے والدین اور رشتہ داروں کے حق میں انصاف کے ساتھ وصیت کرنا اللہ تعالیٰ کا تقویٰ رکھنے والوں پر یہ حق ہے
مال اللہ کی عطا ہے اور انسان پر اس کی رحمت کا اظہار ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا گیا:
ووجدك عائلا فاغنى() (الضحى : 8 )
ترجمہ: اور تمہیں نادار پایا تو غنی کردیا
اسلام کی نظر میں مال کا اصل مالک اللہ تعالی ہے۔ انسان کے پاس جو مال ہے وہ اصلًا اللہ تعالی کا ہے انسان کو اللہ نے اس پر نگران مقرر کیا ہے۔ فرمان باری تعالی ہے:
آمنوا بالله ورسوله وانفقوا مما جعلكم مستخلفين فيه فالذين آمنوا منكم وانفقوا لهم اجر كبير (الحديد: 7)
ترجمہ: اللہ پر اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لے آؤ اور اس مال میں سے خرچ کرو جس میں اللہ نے تمہیں (دوسروں کا) جانشین بنایا ہے پس تم میں سے جو ایمان لائیں اور خیرات کریں انہیں بہت بڑا ثواب ملے گا
ایک اور آیت میں آتا ہے:
وآتوهم من مال الله الذي آتاكم (النور: 33)
ترجمہ: اللہ نے جو مال تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے انہیں بھی دو
یہاں اللہ تعالی نے بندوں کے ہاتھوں میں جو مال ہے اس کو اپنا مال بتایا ہے۔ یعنی انسان کو جو مال دیا جاتا ہے وہ امانت ہے اور اس کو صحیح انداز میں خرچ کرنے کا حکم ہے۔ مال سے تو آخرت کمانے کا حکم ہے۔ اس دنیا میں رہتے ہوئے یہاں کی ذمہ داریاں پوری کرنا خود دین کا تقاضا ہے لیکن ان دونوں تقاضوں کو بہترین طریقے سے پورا کرنا یہی مومن کی شان ہے۔ فرمان باری تعالی ہے:
وابتغ فيما آتاك الله الدار الآخرة ولا تنس نصيبك من الدنيا واحسن كما احسن الله اليك ولا تبغ الفساد في الارض ان الله لا يحب المفسدين (القصص: 77)
ترجمہ: اور جو (مال) تم کو اللہ نے عطا فرمایا ہے اس سے آخرت کی بھلائی طلب کیجئے اور دنیا سے اپنا حصہ نہ بھلائیے اور جیسی اللہ نے تم سے بھلائی کی ہے (ویسی) تم بھی (لوگوں سے) بھلائی کرو
 

سیما علی

لائبریرین
فرمایا ہے اس سے آخرت کی بھلائی طلب کیجئے اور دنیا سے اپنا حصہ نہ بھلائیے اور جیسی اللہ نے تم سے بھلائی کی ہے (ویسی) تم بھی (لوگوں سے) بھلائی کرو
پروردگار سے دعا ہے کہ وہ بھلائی عطا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
 

سید عمران

محفلین
مضمون تو بہت اچھا ہے۔۔۔
مگر اس کا عنوان فضائل تجارت نہیں فضائل صدقات ہونا چاہیے۔۔۔
نیز اسلام میں مال کی حیثیت کیا ہے یہ بھی واضح نہ ہوسکا!!!
 
آخری تدوین:

دیوان

محفلین
مضمون تو بہت اچھا ہے۔۔۔
مگر اس کا عنوان فضائل تجارت نہیں فضائل صدقات ہونا چاہیے۔۔۔
نیز اسلام میں مال کی حیثیت کیا ہے یہ بھی واضح نہ ہوسکا!!!
پسند کرنے کا شکریہ۔
یہ ایک مسلسل مضمون ہے جس کا موضوع تجارت ہے۔
 
(((پچھلا مضمون: فضائل تجارت-2: تمہید)))
اسلام میں مال کی حیثیت
رسول اللہ ﷺ کے بہت سے ارشادات سے مسلمان کی زندگی میں مال کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ مثلًا آپ ﷺ کا ارشاد عالی ہے:
عن حكيم بن حزام عن النبي ﷺ قال ‏ اليد العليا خير من اليد السفلى وابدا بمن تعول وخير الصدقة عن ظهر غنى ومن يستعفف يعفه الله ومن يستغن يغنه الله (صحیح البخاری، كتاب الزكوة)
ترجمہ: حکیم بن حزامؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے اور پہلے انہیں دو جو تمہارے بال بچے اور عزیز ہیں اور بہترین صدقہ وہ ہے جسے دے کر آدمی مالدار رہے اور جو کوئی سوال سے بچنا چاہے گا اسے اللہ تعالی بھی محفوظ رکھتا ہے اور جو دوسروں (کے مال) سے بےنیاز رہتا ہے، اسے اللہ تعالی بےنیاز ہی بنا دیتا ہے
اور اس حدیث شریف پر غور فرمائیں جس میں رسول اللہ ﷺ نے انسان کی فضیلت کا ایک معیار اس کا اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے والا واضح فرمایا ہے۔
عن ابن مسعود قال سمعت النبي ﷺ يقول ‏ ‏ لا حسد الا في اثنتين رجل آتاه الله مالا فسلطه على هلكته في الحق ورجل آتاه الله حكمة فهو يقضي بها ويعلمها (صحیح البخاری، كتاب الزكاة)
ترجمہ: ابن مسعودؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ حسد (رشک) کرنا صرف دو ہی آدمیوں کے ساتھ جائز ہو سکتا ہے۔ ایک تو اس شخص کے ساتھ جسے اللہ نے مال دیا اور اسے حق اور مناسب جگہوں میں خرچ کرنے کی توفیق دی دوسرے اس شخص کے ساتھ جسے اللہ تعالی نے حکمت دی اور وہ اپنی حکمت کے مطابق حق فیصلے کرتا ہے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہے۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت سعدؓ بن ابی وقاصؓ، شدید بیمار تھے اور آپ ﷺ ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ حضرت سعدؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا:
اني قد بلغ بي من الوجع وانا ذو مال ولا يرثني الا ابنة افاتصدق بثلثي مالي قال لا فقلت بالشطر فقال لا ثم قال الثلث والثلث كبير او كثير انك ان تذر ورثتك اغنياء خير من ان تذرهم عالة يتكففون الناس وانك لن تنفق نفقة تبتغي بها وجه الله الا اجرت بها حتى ما تجعل في في امراتك (صحیح البخاری، کتاب المرضی)
ترجمہ: میرا مرض شدت اختیار کر چکا ہے میرے پاس مال و اسباب بہت ہے اور میری صرف ایک لڑکی ہے جو وارث ہوگی تو کیا میں اپنے دو تہائی مال کو خیرات کر دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے کہا آدھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک تہائی کر دو اور یہ بھی بڑی خیرات ہے یا بہت خیرات ہے اگر تو اپنے وارثوں کو اپنے پیچھے مالدار چھوڑ جائے تو یہ اس سے بہتر ہو گا کہ محتاجی میں انہیں اس طرح چھوڑ کر جائے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ یہ یاد رکھو کہ جو خرچ بھی تم اللہ کی رضا کی نیت سے کرو گے تو اس پر بھی تمہیں ثواب ملے گا۔ حتی کہ اس لقمہ پر بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں رکھو
قرآن پاک میں مال کو اللہ تعالی نے خیر سے تعبیر فرمایا ہے:
كتب عليكم اذا حضر احدكم الموت ان ترك خيرا الوصية للوالدين والاقربين بالمعروف حقا على المتقين (البقرة: 180)
ترجمہ: جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آپہنچے اور وہ کچھ مال چھوڑ رہا ہو تو تم پر فرض کردیا گیا ہے والدین اور رشتہ داروں کے حق میں انصاف کے ساتھ وصیت کرنا اللہ تعالیٰ کا تقویٰ رکھنے والوں پر یہ حق ہے
مال اللہ کی عطا ہے اور انسان پر اس کی رحمت کا اظہار ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا گیا:
ووجدك عائلا فاغنى() (الضحى : 8 )
ترجمہ: اور تمہیں نادار پایا تو غنی کردیا
اسلام کی نظر میں مال کا اصل مالک اللہ تعالی ہے۔ انسان کے پاس جو مال ہے وہ اصلًا اللہ تعالی کا ہے انسان کو اللہ نے اس پر نگران مقرر کیا ہے۔ فرمان باری تعالی ہے:
آمنوا بالله ورسوله وانفقوا مما جعلكم مستخلفين فيه فالذين آمنوا منكم وانفقوا لهم اجر كبير (الحديد: 7)
ترجمہ: اللہ پر اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لے آؤ اور اس مال میں سے خرچ کرو جس میں اللہ نے تمہیں (دوسروں کا) جانشین بنایا ہے پس تم میں سے جو ایمان لائیں اور خیرات کریں انہیں بہت بڑا ثواب ملے گا
ایک اور آیت میں آتا ہے:
وآتوهم من مال الله الذي آتاكم (النور: 33)
ترجمہ: اللہ نے جو مال تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے انہیں بھی دو
یہاں اللہ تعالی نے بندوں کے ہاتھوں میں جو مال ہے اس کو اپنا مال بتایا ہے۔ یعنی انسان کو جو مال دیا جاتا ہے وہ امانت ہے اور اس کو صحیح انداز میں خرچ کرنے کا حکم ہے۔ مال سے تو آخرت کمانے کا حکم ہے۔ اس دنیا میں رہتے ہوئے یہاں کی ذمہ داریاں پوری کرنا خود دین کا تقاضا ہے لیکن ان دونوں تقاضوں کو بہترین طریقے سے پورا کرنا یہی مومن کی شان ہے۔ فرمان باری تعالی ہے:
وابتغ فيما آتاك الله الدار الآخرة ولا تنس نصيبك من الدنيا واحسن كما احسن الله اليك ولا تبغ الفساد في الارض ان الله لا يحب المفسدين (القصص: 77)
ترجمہ: اور جو (مال) تم کو اللہ نے عطا فرمایا ہے اس سے آخرت کی بھلائی طلب کیجئے اور دنیا سے اپنا حصہ نہ بھلائیے اور جیسی اللہ نے تم سے بھلائی کی ہے (ویسی) تم بھی (لوگوں سے) بھلائی کرو
ہمیں چاھئیے کہ اپنے مال میں سے ایک حصہ غریبوں اور یتیموں کے لئے نکال دیں اُن کا بھی حق ہے ہماری کمائی پر اگر ہم اُن کا حق نہیں دیں گے تو کہیں اور بھی نکل سکتا ہے
 

سید رافع

محفلین
اس مضمون کی ابتدائی بیس سطروں میں گھر والوں پر خرچ کرنے کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ طویل موضوعات کو ہیڈنگز میں توڑنا دلچسپی والے حصے تک رسائی آسان بناتا ہے۔

بہرحال آپکے توسط سے آنحضور ص کی احادیث پڑھنے کا شرف مل گیا یہی بہت ہے۔
 

دیوان

محفلین
اس مضمون کی ابتدائی بیس سطروں میں گھر والوں پر خرچ کرنے کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ طویل موضوعات کو ہیڈنگز میں توڑنا دلچسپی والے حصے تک رسائی آسان بناتا ہے۔

بہرحال آپکے توسط سے آنحضور ص کی احادیث پڑھنے کا شرف مل گیا یہی بہت ہے۔
یہ ایک طویل مضمون کا ا یک چھوٹا سا حصہ ہے۔ اصل مضمون میں سرخیوں کا بھرپور اہتمام کیا گیا ہے اور یہاں ان سرخیوں کے تحت سلسلہ وار پیش کررہا ہوں۔ ایک سرخی اس مضمون کی (اسلام میں مال کی حیثیت) بھی ہے جو تیسری قسط ہے۔ پچھلی قسط پڑھنے کے لیے مضمون کے بالکل شروع میں سرخ بین القوسین میں نیلے رنگ میں دیے گئے لنک پر کلک کرلیں۔
 
Top