محمل ابراہیم
لائبریرین
تایخ ولاوت- 7 جنوری 1923 بہ مقام مئو
فضا ابن فیضی (وفات: 17جنوری 2009ء) فضا صاحب کا نام تو فیض الحسن تھا مگر اپنے قلمی نام فضا ابن فیضی سے مشہور ہوئے یہاں تک کہ لوگ ان کا اصلی نام بھول گئے۔ یکم جولائی 1923ءکو مئوناتھ بھنجن یوپی میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم کے بعد مئو کے معروف دینی ادارہ جامعہ عالیہ عربیہ مئو میں درس نظامی میں داخلہ لیا اور 1942ءمیں فراغت حاصل کی۔ آپ کی رسمی تعلیم بس اتنی ہی ہے بعد میں فضا صاحب نے پرائیویٹ طور پر انگریزی سیکھنے کی طرف توجہ کی مگر آبائی تجارت نے ان کو موقع نہ دیا اور تجارت میں لگ گئے کرانہ کی ایک دکان سے ہونے والی آمدنی ذریعہ معاش تھی اس کے علاوہ آمد نی کا ایک ذریعہ پاکستانی رسائل و جرائد تھے جہاں وہ باقاعدگی سے اپنے اشعار اشاعت کے لیے بھیجا کرتے تھے افسوس کہ ہندو پاک کی باہمی چپقلش کی وجہ سے یہ سلسلہ بھی منقطع ہو گیا۔ زندگی بھر کسی کی ملازمت نہ کی ،فرماتے ہیں۔۔۔۔۔۔
تھا شوق بہت شہ کا مصاحب بن جاوں
خیر گزری کہ فضا نوکری کرنے سے بچا
فضا ابن فیضی کی شاعری مثبت فکر کی ترجمان ہے آپ نے حالات و زمانہ کو جیسا دیکھا اپنے اشعار میں بے تکلف بیان کر دیا، نظم، غزل ،نعت اور حمد ہر صنف شاعری پر آپ نے خامہ فرسائی کی۔مخمور سعیدی صاحب کہتے ہیں کہ ان کی غزلوں میں نظموں کے مقابلہ میں تنوع زیادہ ہے ان کی نظم گوئی چند ایک موضوعات کے دائرے میں گھومتی ہے۔ غالبا مخمور سعیدی صاحب نے فضا صاحب کے نعتیہ مجموعہ کلام ”سرشاخ طوبی “کو سامنے رکھ کر یہ بات کہی ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کی نظموں میں بھی کی غزلوں کی طرح مضامین کا تنوع موجود ہے ان کا مجموعہ کلام ”شعلہ نیم سوز “جو نظموں کا مجموعہ ہے اس پر شاہد ہے۔ فضا صاحب مشاعرے میں بلائے جاتے تھے اور اشعار بھی پڑھتے تھے مگر سب سے بڑی مجبوری فضا صاحب کے ساتھ یہ تھی کہ وہ مشاعروں کی سطح تک گر کر اشعار پڑھنے کے قائل نہ تھے۔ فضا صاحب ہمیشہ معیاری شاعری کرتے تھے خواہ اس پر انہیں داد ملے یا نہ ملے۔ فضا صاحب چونکہ عربی و فارسی زبان کے ماہر تھے اس وجہ سے ان کی شاعری میں عربی و فارسی تراکیب کی کثرت ہے یہی وجہ ہے کہ فضا صاحب کی شاعری سمجھنے کے لیے عربی اور فارسی زبان کی واقفیت بھی ضروری ہے۔ فارسی اور عربی نہ جاننے والوں کے لیے ان کی شاعری سے حقیقی معنوں میں لطف اندوز نہیں ہوسکتے۔ مگر عجیب بات یہ کہ فضا کے ترانے اس سے مختلف ہیں۔ فضا صاحب نے جامعہ سلفیہ بنارس ،جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاوں اور جامعہ اسلامیہ سنابل اور کئی دیگر اداروں کا ترانہ لکھا ہے اس کے اندر الفاظ انتہائی سہل تراکیب آسان اور فکر کی بلندی اپنے عروج پر ہے۔ جامعہ سلفیہ بنارس کے ترانہ کے چند بند ملاحظہ فرمائیں:
سحر کا پیرہن ہیں ہم، بہار کی ردا ہیں ہم
بدن پہ زندگی کے رنگ و نور کی قبا ہیں ہم
چراغ کی طرح سرِدریچہ وفا ہیں ہم
مغنیِ حرم ہیں، بربط لبِ حرا ہیں ہم
کہ گلشن رسول کے طیورِ خوش نوا ہیں ہم
خدا کرے فضا یوں ہی خواب جاگتے رہیں
یہ خوشبوئیں جواں رہیں گلاب جاگتے رہیں
ہنرورانِ سنت و کتاب جاگتے رہیں :
چمن چمن بشارتِ نسیم جاں فزا ہیں ہم
کہ گلشنِ رسول کے طیورِ خوش نوا ہیں ہم
مذکورہ دو بندوں میں ردا، قبا اور مغنی عربی الفاظ ہیں مگر ان کو فضا صاحب کے نہایت خوبصورتی سے باندھا ہے بلکہ ان عربی الفاظ کی اضافت فارسی کی طرف کرکے ایک خوش کن نغمگی پیدا کردی ہے’ مغنی حرم‘ اور’ طیور خوش نوا‘ جیسی تراکیب فضا کی شعری مہارت کو واضح کرتی ہیں۔ فضا صاحب کا رشتہ ایک طرف قدیم کلاسیکی شاعری سے ملتا ہے تو دوسری طرف جدید لب و لہجہ کی شاعری سے بھی انہوں نے اپنا تعلق جوڑے رکھا، بجا طور پر فضا کی شاعری قدیم وجدید کا سنگم ہے۔ فضا نے اپنا رشتہ میر و داغ سے بنائے رکھا اور اسی معیار کی شاعری پوری زندگی کرتے رہے۔ نمو نے کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں::
غیر مشروط مسائل لب و لہجہ مشروط
چلو اچھا ہے کہ وہ ہم سے مخاطب ہی نہ تھا
چلتے پھرتے پاؤں میں لفظوں نے بیڑی ڈال دی
اب کہاں دہلیزِ معنی چھوڑ کر جاؤں گا میں
مجھے پکار رہی ہے زمیں کی پہنائی
یہ در تو کھول کہ میں آسمان سے نکلوں
بہت قریب رہا مجھ سے وہ مگر پھر بھی
یہ فاصلہ سا مرے آس پاس کیسا ہے
چاند کا درد سمجھ دن میں چمکنے والے
تو تو اک پل کو کبھی منظر شب میں نہ کھلا
اس کی قربت کا نشہ کیا چیز ہے
ہاتھ پھر جلتے توے پر رکھ دیا
خاکسترِحیات ہوں دامن میں باندھ لے
پیارے تو مجھ کو شعلہ سمجھ کر ہوا نہ دے۔
فضا کی شاعری اپنے معاصرین سے بہت الگ قسم کی ہے ، ان کے یہاں بہت آسانی سے کسی تحریک یا کسی نظریے کی چھاپ تلاش نہیں کی جاسکتی ۔ فضا نے ایک آزاد تخلیقی ذہن کے ساتھ شاعری کی ان کے کلام میں ایک پختہ کلاسیکی شعور کے ساتھ نئے زمانے کی گہری حساسیت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ ایک پرفکر شعری بیانیہ ان کی نظموں اور غزلوں میں پھیلا ہوا ہے ۔
فضا نے زیادہ تر غزلیں کہیں لیکن ساتھ ہی نظم اور رباعی کی صنف کو بھی ان کے یہاں خاصی اہمیت حاصل رہی۔
*فضاؔ ابن فیضی ، ١٧ جنوری ٢٠٠٩ء* کو مئو ناتھ بھنجن میں انتقال کر گئے۔
فضا کے متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے ۔ کچھ یہ ہیں ۔
*سفینۂ زرِ گل* (غزلیں اور رباعیاں) *شعلہ نیم روز* ( نظمیں) *دریچہ سیم سمن* (غزلیں ) *سرشاخِ طوبیٰ* ( حمد ونعت اور نظمیں) *پس دیوارِ حرف* (غزلیں ) *سبزہ معنی بیگانہ* ( غزلیں )۔
فضاؔ ابن فیضی کے منتخب اشعار...
اب مناسب نہیں ہم عصر غزل کو یارو
کسی بجتی ہوئی پازیب کا گھنگھرو لکھنا
---
آنکھوں کے خواب دل کی جوانی بھی لے گیا
وہ اپنے ساتھ میری کہانی بھی لے گیا
---
اچھا ہوا میں وقت کے محور سے کٹ گیا
قطرہ گہر بنا جو سمندر سے کٹ گیا
---
ایک دن غرق نہ کر دے تجھے یہ سیلِ وجود
دیکھ ہو جائے نہ پانی کہیں سر سے اونچا
---
*اے فضاؔ اتنی کشادہ کب تھی معنی کی جہت*
*میرے لفظوں سے افق اک دوسرا روشن ہوا*
---
تجھے ہوس ہو جو مجھ کو ہدف بنانے کی
مجھے بھی تیر کی صورت کماں میں رکھ دینا
---
*تو ہے معنی پردۂ الفاظ سے باہر تو آ*
*ایسے پس منظر میں کیا رہنا سر منظر تو آ*
---
*خاک شبلیؔ سے خمیر اپنا بھی اٹھا ہے فضاؔ*
*نام اردو کا ہوا ہے اسی گھر سے اونچا*
---
دیکھنا ہیں کھیلنے والوں کی چابک دستیاں
تاش کا پتا سہی میرا ہنر تیرا ہنر
---
*شخصیت کا یہ توازن تیرا حصہ ہے فضاؔ*
*جتنی سادہ ہے طبیعت اتنا ہی تیکھا ہنر*
---
*غزل کے پردے میں بے پردہ خواہشیں لکھنا*
*نہ آیا ہم کو برہنہ گزارشیں لکھنا*
---
وقت نے کس آگ میں اتنا جلایا ہے مجھے
جس قدر روشن تھا میں اس سے سوا روشن ہوا
---
کہاں وہ لوگ جو تھے ہر طرف سے نستعلیق
پرانی بات ہوئی چست بندشیں لکھنا
---
*ہر اک قیاسِ حقیقت سے دور تر نکلا*
*کتاب کا نہ کوئی درس معتبر نکلا*
---
چند سانسیں ہیں مرا رختِ سفر ہی کتنا
چاہئے زندگی کرنے کو ہنر ہی کتنا
---
*یہ کیا بتائیں کہ کس رہ گزر کی گرد ہوئے*
*ہم ایسے لوگ خود اپنے سفر کی گرد ہوئے*
---
ترے خلوص نے پہنچا دیا کہاں مجھ کو
کسی زمیں پہ رہوں، آسماں نظر آؤں
---
پِھرا ہُوں کاسہ لئے لفظ لفظ کے پیچھے
تمام عمر یہ سودا نہ سر سے نکلے گا
---
*اس کے انا کی وضع تھی سب سے الگ فضاؔ*
*کیا شخص تھا کہ اپنے ہی تیور سے کٹ گی
فضا ابن فیضی (وفات: 17جنوری 2009ء) فضا صاحب کا نام تو فیض الحسن تھا مگر اپنے قلمی نام فضا ابن فیضی سے مشہور ہوئے یہاں تک کہ لوگ ان کا اصلی نام بھول گئے۔ یکم جولائی 1923ءکو مئوناتھ بھنجن یوپی میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم کے بعد مئو کے معروف دینی ادارہ جامعہ عالیہ عربیہ مئو میں درس نظامی میں داخلہ لیا اور 1942ءمیں فراغت حاصل کی۔ آپ کی رسمی تعلیم بس اتنی ہی ہے بعد میں فضا صاحب نے پرائیویٹ طور پر انگریزی سیکھنے کی طرف توجہ کی مگر آبائی تجارت نے ان کو موقع نہ دیا اور تجارت میں لگ گئے کرانہ کی ایک دکان سے ہونے والی آمدنی ذریعہ معاش تھی اس کے علاوہ آمد نی کا ایک ذریعہ پاکستانی رسائل و جرائد تھے جہاں وہ باقاعدگی سے اپنے اشعار اشاعت کے لیے بھیجا کرتے تھے افسوس کہ ہندو پاک کی باہمی چپقلش کی وجہ سے یہ سلسلہ بھی منقطع ہو گیا۔ زندگی بھر کسی کی ملازمت نہ کی ،فرماتے ہیں۔۔۔۔۔۔
تھا شوق بہت شہ کا مصاحب بن جاوں
خیر گزری کہ فضا نوکری کرنے سے بچا
فضا ابن فیضی کی شاعری مثبت فکر کی ترجمان ہے آپ نے حالات و زمانہ کو جیسا دیکھا اپنے اشعار میں بے تکلف بیان کر دیا، نظم، غزل ،نعت اور حمد ہر صنف شاعری پر آپ نے خامہ فرسائی کی۔مخمور سعیدی صاحب کہتے ہیں کہ ان کی غزلوں میں نظموں کے مقابلہ میں تنوع زیادہ ہے ان کی نظم گوئی چند ایک موضوعات کے دائرے میں گھومتی ہے۔ غالبا مخمور سعیدی صاحب نے فضا صاحب کے نعتیہ مجموعہ کلام ”سرشاخ طوبی “کو سامنے رکھ کر یہ بات کہی ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کی نظموں میں بھی کی غزلوں کی طرح مضامین کا تنوع موجود ہے ان کا مجموعہ کلام ”شعلہ نیم سوز “جو نظموں کا مجموعہ ہے اس پر شاہد ہے۔ فضا صاحب مشاعرے میں بلائے جاتے تھے اور اشعار بھی پڑھتے تھے مگر سب سے بڑی مجبوری فضا صاحب کے ساتھ یہ تھی کہ وہ مشاعروں کی سطح تک گر کر اشعار پڑھنے کے قائل نہ تھے۔ فضا صاحب ہمیشہ معیاری شاعری کرتے تھے خواہ اس پر انہیں داد ملے یا نہ ملے۔ فضا صاحب چونکہ عربی و فارسی زبان کے ماہر تھے اس وجہ سے ان کی شاعری میں عربی و فارسی تراکیب کی کثرت ہے یہی وجہ ہے کہ فضا صاحب کی شاعری سمجھنے کے لیے عربی اور فارسی زبان کی واقفیت بھی ضروری ہے۔ فارسی اور عربی نہ جاننے والوں کے لیے ان کی شاعری سے حقیقی معنوں میں لطف اندوز نہیں ہوسکتے۔ مگر عجیب بات یہ کہ فضا کے ترانے اس سے مختلف ہیں۔ فضا صاحب نے جامعہ سلفیہ بنارس ،جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاوں اور جامعہ اسلامیہ سنابل اور کئی دیگر اداروں کا ترانہ لکھا ہے اس کے اندر الفاظ انتہائی سہل تراکیب آسان اور فکر کی بلندی اپنے عروج پر ہے۔ جامعہ سلفیہ بنارس کے ترانہ کے چند بند ملاحظہ فرمائیں:
سحر کا پیرہن ہیں ہم، بہار کی ردا ہیں ہم
بدن پہ زندگی کے رنگ و نور کی قبا ہیں ہم
چراغ کی طرح سرِدریچہ وفا ہیں ہم
مغنیِ حرم ہیں، بربط لبِ حرا ہیں ہم
کہ گلشن رسول کے طیورِ خوش نوا ہیں ہم
خدا کرے فضا یوں ہی خواب جاگتے رہیں
یہ خوشبوئیں جواں رہیں گلاب جاگتے رہیں
ہنرورانِ سنت و کتاب جاگتے رہیں :
چمن چمن بشارتِ نسیم جاں فزا ہیں ہم
کہ گلشنِ رسول کے طیورِ خوش نوا ہیں ہم
مذکورہ دو بندوں میں ردا، قبا اور مغنی عربی الفاظ ہیں مگر ان کو فضا صاحب کے نہایت خوبصورتی سے باندھا ہے بلکہ ان عربی الفاظ کی اضافت فارسی کی طرف کرکے ایک خوش کن نغمگی پیدا کردی ہے’ مغنی حرم‘ اور’ طیور خوش نوا‘ جیسی تراکیب فضا کی شعری مہارت کو واضح کرتی ہیں۔ فضا صاحب کا رشتہ ایک طرف قدیم کلاسیکی شاعری سے ملتا ہے تو دوسری طرف جدید لب و لہجہ کی شاعری سے بھی انہوں نے اپنا تعلق جوڑے رکھا، بجا طور پر فضا کی شاعری قدیم وجدید کا سنگم ہے۔ فضا نے اپنا رشتہ میر و داغ سے بنائے رکھا اور اسی معیار کی شاعری پوری زندگی کرتے رہے۔ نمو نے کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں::
غیر مشروط مسائل لب و لہجہ مشروط
چلو اچھا ہے کہ وہ ہم سے مخاطب ہی نہ تھا
چلتے پھرتے پاؤں میں لفظوں نے بیڑی ڈال دی
اب کہاں دہلیزِ معنی چھوڑ کر جاؤں گا میں
مجھے پکار رہی ہے زمیں کی پہنائی
یہ در تو کھول کہ میں آسمان سے نکلوں
بہت قریب رہا مجھ سے وہ مگر پھر بھی
یہ فاصلہ سا مرے آس پاس کیسا ہے
چاند کا درد سمجھ دن میں چمکنے والے
تو تو اک پل کو کبھی منظر شب میں نہ کھلا
اس کی قربت کا نشہ کیا چیز ہے
ہاتھ پھر جلتے توے پر رکھ دیا
خاکسترِحیات ہوں دامن میں باندھ لے
پیارے تو مجھ کو شعلہ سمجھ کر ہوا نہ دے۔
فضا کی شاعری اپنے معاصرین سے بہت الگ قسم کی ہے ، ان کے یہاں بہت آسانی سے کسی تحریک یا کسی نظریے کی چھاپ تلاش نہیں کی جاسکتی ۔ فضا نے ایک آزاد تخلیقی ذہن کے ساتھ شاعری کی ان کے کلام میں ایک پختہ کلاسیکی شعور کے ساتھ نئے زمانے کی گہری حساسیت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ ایک پرفکر شعری بیانیہ ان کی نظموں اور غزلوں میں پھیلا ہوا ہے ۔
فضا نے زیادہ تر غزلیں کہیں لیکن ساتھ ہی نظم اور رباعی کی صنف کو بھی ان کے یہاں خاصی اہمیت حاصل رہی۔
*فضاؔ ابن فیضی ، ١٧ جنوری ٢٠٠٩ء* کو مئو ناتھ بھنجن میں انتقال کر گئے۔
فضا کے متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے ۔ کچھ یہ ہیں ۔
*سفینۂ زرِ گل* (غزلیں اور رباعیاں) *شعلہ نیم روز* ( نظمیں) *دریچہ سیم سمن* (غزلیں ) *سرشاخِ طوبیٰ* ( حمد ونعت اور نظمیں) *پس دیوارِ حرف* (غزلیں ) *سبزہ معنی بیگانہ* ( غزلیں )۔
فضاؔ ابن فیضی کے منتخب اشعار...
اب مناسب نہیں ہم عصر غزل کو یارو
کسی بجتی ہوئی پازیب کا گھنگھرو لکھنا
---
آنکھوں کے خواب دل کی جوانی بھی لے گیا
وہ اپنے ساتھ میری کہانی بھی لے گیا
---
اچھا ہوا میں وقت کے محور سے کٹ گیا
قطرہ گہر بنا جو سمندر سے کٹ گیا
---
ایک دن غرق نہ کر دے تجھے یہ سیلِ وجود
دیکھ ہو جائے نہ پانی کہیں سر سے اونچا
---
*اے فضاؔ اتنی کشادہ کب تھی معنی کی جہت*
*میرے لفظوں سے افق اک دوسرا روشن ہوا*
---
تجھے ہوس ہو جو مجھ کو ہدف بنانے کی
مجھے بھی تیر کی صورت کماں میں رکھ دینا
---
*تو ہے معنی پردۂ الفاظ سے باہر تو آ*
*ایسے پس منظر میں کیا رہنا سر منظر تو آ*
---
*خاک شبلیؔ سے خمیر اپنا بھی اٹھا ہے فضاؔ*
*نام اردو کا ہوا ہے اسی گھر سے اونچا*
---
دیکھنا ہیں کھیلنے والوں کی چابک دستیاں
تاش کا پتا سہی میرا ہنر تیرا ہنر
---
*شخصیت کا یہ توازن تیرا حصہ ہے فضاؔ*
*جتنی سادہ ہے طبیعت اتنا ہی تیکھا ہنر*
---
*غزل کے پردے میں بے پردہ خواہشیں لکھنا*
*نہ آیا ہم کو برہنہ گزارشیں لکھنا*
---
وقت نے کس آگ میں اتنا جلایا ہے مجھے
جس قدر روشن تھا میں اس سے سوا روشن ہوا
---
کہاں وہ لوگ جو تھے ہر طرف سے نستعلیق
پرانی بات ہوئی چست بندشیں لکھنا
---
*ہر اک قیاسِ حقیقت سے دور تر نکلا*
*کتاب کا نہ کوئی درس معتبر نکلا*
---
چند سانسیں ہیں مرا رختِ سفر ہی کتنا
چاہئے زندگی کرنے کو ہنر ہی کتنا
---
*یہ کیا بتائیں کہ کس رہ گزر کی گرد ہوئے*
*ہم ایسے لوگ خود اپنے سفر کی گرد ہوئے*
---
ترے خلوص نے پہنچا دیا کہاں مجھ کو
کسی زمیں پہ رہوں، آسماں نظر آؤں
---
پِھرا ہُوں کاسہ لئے لفظ لفظ کے پیچھے
تمام عمر یہ سودا نہ سر سے نکلے گا
---
*اس کے انا کی وضع تھی سب سے الگ فضاؔ*
*کیا شخص تھا کہ اپنے ہی تیور سے کٹ گی
آخری تدوین: