فضا میں کب رچی ہے اس کی خوشبو جان لیتی ہوں - عفت علوی

کاشفی

محفلین
غزل
(عفت علوی)

فضا میں کب رچی ہے اس کی خوشبو جان لیتی ہوں
میں بند آنکھوں سے بھی اس شخص کو پہچان لیتی ہوں

اگرچہ بات تو ہے اختلاف رائے کی لیکن
تمہارے منہ سے نکلی ہے تو میں سچ مان لیتی ہوں

مجھے جب بھی زمانے کے دکھوں نے گھیرنا چاہا
تمہاری یاد کی چادر کو خود پر تان لیتی ہوں

حسینی ہوں سو جب بھی ظلم کی دیوار اٹھتی ہے
میں اس کو ختم کرنے کے ارادے ٹھان لیتی ہوں


EffatAlwi.jpg
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ جناب شیئر کرنے کیلیے۔

اس زمین میں فراق گورکھپوری کی ایک خوبصورت غزل ہے، ایک مصرع ذہن میں ہے۔

تجھے اے زندگی ہم دُور سے پہچان لیتے ہیں

کوئی دوست اگر یہ شیئر کر سکیں تو نوازش۔
 
شکریہ جناب شیئر کرنے کیلیے۔

اس زمین میں فراق گورکھپوری کی ایک خوبصورت غزل ہے، ایک مصرع ذہن میں ہے۔

تجھے اے زندگی ہم دُور سے پہچان لیتے ہیں

کوئی دوست اگر یہ شیئر کر سکیں تو نوازش۔

بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں
تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں

میری نظریں بھی ایسے قاتلوں کا جان و ایمان ہیں
نگاہیں ملتے ہی جو جان اور ایمان لیتے ہیں

طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں
ہم ایسے میں تیری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں

خود اپنا فیصلہ بھی عشق میں کافی نہیں ہوتا
اسے بھی کیسے کر گزریں جو دل میں ٹھان لیتے ہیں

جسے صورت بتاتے ہیں پتا دیتی ہے سیرت کا
عبارت دیکھ کر جس طرح معنی جان لیتے ہیں

تجھے گھاٹا نہ ہونے دیں گے کاروبارِ الفت میں
ہم اپنے سر تیرا اے دوست ہر احسان لیتے ہیں

ہماری ہر نظر تجھ سے نئی سوگندھ کھاتی ہے
تو تیری ہر نظر سے ہم نیا پیغام لیتے ہیں

فراق اکثر بدل کر بھیس ملتا ہے کوئی کافر
کبھی ہم جان لیتے ہیں کبھی پہچان لیتے ہیں
 
یہ غزل انٹرنیٹ سے رومن اردو میں ملی جسے میں نے من و عن ٹائپ کر دیا۔ نئے دھاگے میں اس لئے پوسٹ نہیں کی کہ اس میں بے شمار اغلاط کے امکانات موجود ہیں۔ 
 
Top