باب اول
فطرت کے معنی
ہمارا موضوع بحث ”فطرت“ ہے۔ فطرت بحث ایک لحاظ سے فلسفیانہ بحث ہے۔ فلسفے کے اہم موضوعات تین ہیں:
۱۔ خدا ۲۔ کائنات ۳۔ انسان
ہماری یہ بحث انسان سے متعلق ہے ایک لحاظ سے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ انسان اور خدا سے متعلق ہے۔ موضوع کے ایک طرف انسان ہے اور دوسری طرف خدا ہے اسلامی مآخذ یعنی قرآن و سنت میں فطرت کا بہت ذکر ملتا ہے۔ اس ضمن میں میں نے پہلے سے کچھ یادداشتیں مرتب کر رکھی ہیں کہ جن کے بارے میں اس نشست میں گفتگو ہو گی کہ کیا قرآن انسان کے لئے فطرت کا قائل ہے؟ انسان کے بارے میں ایک خاص نکتہ نظر ہے۔ لفظ فطرت سے کیا مراد ہے؟ کیا قرآن سے پہلے کسی نے انسان کے بارے میں یہ لفظ استعمال کیا ہے؟ یا پھر یہ ایسے پہلوؤں میں سے ایک ہے جن کا قرآن نے ہی پہلی مرتبہ انسان کے متعلق ذکر کیا ہے؟ بظاہر قرآن سے پہلے اس لفظ کے استعمال کی کوئی مثال موجود نہیں ہے چنانچہ قرآن نے ہی اسے پہلی مرتبہ انسان کے لئے استعمال کیا ہے۔ اس کے قرائن کا بعد میں ذکر ہو گا۔
پہلے ہمیں لفظ فطرت کے لغوی پہلو کا جائزہ لینا چاہئے اور گہری نظر سے دیکھنا چاہئے کہ اس کی لغوی بنیاد کیا ہے۔ دوسرا مسئلہ جس کے بارے میں ہمیں اس مقام پر گفتگو کرنا چاہئے وہ یہ ہے کہ کیا انسان اصولی طور پر فطریات کے ایک سلسلے کا حامل ہے یا نہیں؟ یا یہ کہ کیا انسان ہر قسم کی فطرت سے عاری ہے؟ البتہ فطریات کی تعریف اس کے بعد بیان کریں گے۔
ہماری تیسری بحث بالخصوص دین کے بارے میں ہو گی کہ کیا دین فطری ہے یا نہیں؟ قرآن نے واضح طور پر بیان کیا ہے کہ دین فطری ہے۔ ہمیں انسان اور دین کے بارے میں ایک علمی بحث کرنا چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ کیا دین بنیادی طور پر فطری ہے یا نہیں؟ قرآن نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ دین دین فطرت ہے۔ ہمیں انسان اور دین کے بارے میں ایک علمی بحث کرنا ہے اور دیکھنا ہے کہ دین بنیادی طور پر فطری ہے یا نہیں۔
فطرت اور تربیت
البتہ اس مسئلے کے بہت سے پہلو مختلف حوالوں سے وجود میں آتے ہیں ان میں سے ایک تعلیم و تربیت کا پہلو ہے جو ازخود ایک وسیع بحث کا حامل ہے۔ اس حوالے سے گفتگو یہ ہے کہ اگر انسان فطریات کے ایک سلسلے کا حامل ہے تو پھر اس کی تربیت قطعی طور پر انہیں فطریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کی جانی چاہئے اور جو لفظ فطرت استعمال کیا جاتا ہے چاہے شعوری طور پر یا لاشعوری طور پر اس کی بنیاد یہی ہے کیونکہ تربیت کے معنی ہیں پروان چڑھانا اور پرورش کرنا اور یہ اس بنیاد پر ہے کہ انسان کے اندر صلاحیتوں کے ایک سلسلے کو جسے آج کی زبان میں امتیازی خصوصیات کہا جاتا ہے تسلیم کر لیا جائے۔
تربیت اور صنعت میں یہ فرق ہے کہ صنعت میں کسی ”مادی“ چیز کو وجود میں لایا جاتا ہے یعنی انسان کا ابتداء میں ایک مطمع نظر ہوتا ہے اس کے بعد وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے مختلف چیزوں سے کام لیتا ہے جبکہ ان چیزوں کی اصل ماہیت سے اسے کوئی غرض نہیں ہوتی اسے اپنے مقصد کے حصول کے لئے مختلف ساز و سامان کی شکل و صورت کو بگاڑنے یا سنوارنے سے کوئی غرض نہیں ہوتی اس کو صرف اور صرف اپنے مقصد کے حصول سے غرض ہوتی ہے۔
ایک بڑھئی یا ایک معمار جس کا کام ایک طرح کی ساخت یا تعمیر ہے جو اس کا کام ہونا چاہئے اسے اس سے مطلب نہیں کہ لکڑی لوہا سیمنٹ وغیرہ اپنی ذات اور ماہیت کے لحاظ سے پروان چڑھتے ہیں اور کمال پاتے ہیں یا ناقص ہو جاتے ہیں بلکہ اصولی طور پر کبھی تو ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ اس ساز و سامان کو شکل و صورت کو ناقص اور تبدیل کرے تاکہ اپنے مقصد کو حاصل کر سکے۔ لیکن ایک مالی اگرچہ اس کا اپنا ایک مطمع نظر ہدف اور فائدہ ہوتا ہے لیکن اس کے کام کی بنیاد یہ ہے کہ وہ پھول یا پودے کو فطری اور قدرتی تقاضوں کے مطابق پروان چڑھائے اور ایک لحاظ سے وہ پھول اور پودے کے قدرتی تقاضوں کو نظر میں رکھتے ہوئے انہیں پروان چڑھاتا ہے۔
میں نے یہ مثال پہلے بھی دی تھی کہ کبھی انسان کسی مینڈھے کو اس کے ذاتی حوالے سے دیکھتا ہے اور کبھی انسان اسے ایک چیز کے حوالے سے دیکھتا ہے اگر مینڈھے کو اس کے ذاتی حوالے سے دیکھا جائے تو کیا مینڈھے کے مفاد میں ہے کہ اسے جنسی طور پر ناقص کر دیا جائے؟ ہرگز نہیں کیونکہ ہم اس عمل سے ایک طرف اسے اذیت دیتے ہیں اور دوسری طرف ہم اسے جنسی لحاظ سے ناقص کر دیتے ہیں۔ اس طرح ہم اسے اس کے ایک اہم قدرتی عضو سے جو کہ اس کے کمال اور ارتقاء کا باعث ہے سے محروم کر دیتے ہیں اس لحاظ سے یہاں پر ہم اسے ایک چیز کے طور پر سمجھتے ہیں۔ ہمیں اس سے مطلب نہیں ہوتا کہ اس عمل سے مینڈھا کامل ہوتا ہے یا ناقص۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ فربہ اور موٹا تازہ ہو جائے اور اس کا گوشت زیادہ ہو جائے اس لئے ضروری ہے کہ میں اسے جنسی طور پر ناقص کر دوں تاکہ اس کی توجہ بھیڑ کی طرف نہ جائے اور وہ صرف کھانے اور چرنے کی طرف ہی توجہ رکھے اس طرح وہ زیادہ کھائے گا اور زیادہ فربہ اور موٹا ہو گا نتیجتاً اس کا گوشت بھی زیادہ ہو جائے گا اور جب ہم اس کو ذبح کریں گے تو ہمیں اس کا زیادہ گوشت میسر آ سکے گا۔
انسانوں کا مسئلہ بھی ایسے ہی ہے انسانوں کی تعمیر دو طرح سے کی جا سکتی ہے:
ایک تو یوں کہ جس طرح چیزوں کی تعمیر کی جاتی ہے یعنی جو تعمیر کرنے والا ہے وہ فقط اپنے ہی مقصد کو پیش نظر رکھے اور کسی شے کو ایسا بنا دے کہ اس کا مقصد حاصل ہو جائے چاہے اس کا یہ مقصد چیزوں کو ناقص کرنے سے حاصل ہوتا ہو یا کامل کرنے سے۔
جو لوگ اجتماعیت کے قائل ہیں (یعنی فرد کی نفی کر کے معاشرے ہی کو اصل سمجھنا اور انفرادی کمال کو اہمیت نہ دینا) جیسے اشتراکی نظام کہ جو بذات خود ایک خاص طبقے (حکمران طبقے) کی حاکمیت پر مکمل ہوتا ہے وہ چاہتے ہیں کہ انسانوں کی تعمیر یوں کریں کہ حکمران طبقے کا مقصد بہتر طور پر حاصل ہو یا ان کے بقول معاشرے کے لئے مفید ہو۔ اس کے بارے میں ہم بعد میں بحث کریں گے کہ آیا فرد کے کمال اور معاشرے کے کمال میں کوئی تضاد ہے یا نہیں؟ اور کیا بہت سے مسائل میں معاشرے کو کمال تک پہنچانے کے لئے ہم فرد کو ناقص کرنے پر مجبور ہیں یا نہیں؟
کہا جاتا ہے کہ ہمیں معاشرے کے لئے فلاں فلاں افراد کی ضرورت ہے مثال کے طور پر کہتے ہیں کہ معاشرے کو نظم و ضبط کے سو فیصد پابند سپاہیوں کی ضرورت ہے جو اوپر سے آنے والے حکم کی بلا حیل و حجت تعمیل کریں اور اپنے سالار کے حکم کے علاوہ کسی چیز کے بارے میں غور و فکر نہ کریں۔ چنانچہ اگر کوئی انسان اپنے ذاتی ارادے اور عقل کو کام میں لاتا ہے یعنی عقل و فکر کے اعتبار سے آزاد ہے اور سوچتا ہے کہ میں فلاں کام کیوں کروں یا وہ انسان جذبات کا حامل ہے تو پھر ایسا فرد ان کے نزدیک کسی کام کا نہیں اور ان کے بقول معاشرے کے لئے بے کار ہے۔ ان کے مطابق معاشرے کے لئے وہی لوگ کارآمد ہیں جو فکر اور جذبہ سے عاری ہوں وہ چاہتے ہیں کہ سپاہی ایسا ہو کہ یہ اسے ایک بم دیں اور کہیں کہ جاؤ فلاں شہر پر گرا آؤ اور وہ یہ نہ سوچے کہ وہاں کے عوام کا کیا قصور ہے؟ اور میں ان پر بم کیوں گراؤں؟ وہ یہ نہ سوچے کہ آخر اس شہر میں جو مرد ہیں عورتیں ہیں بوڑھے ہیں جوان ہیں یا بچے ہیں وہ بے گناہ ہیں یا قصوروار۔ اس بارے میں اسے نہ سوچنا چاہئے نہ ذرہ بھر محسوس کرنا چاہئے بالکل ایسے ہی جیسے مینڈھے کی تناسلی صلاحیت کو ختم کر دیتے ہیں تاکہ وہ خوب چرے اور خوب موٹا تازہ ہو۔ یہ لوگ انسانی جذبوں اور احساسات کو ختم کر دیتے ہیں اور اس میں درندگی کی کیفیت پیدا کر دیتے ہیں اس طرح فکری حریت اور استقلال کو پوری طرح اس سے چھین لیتے ہیں اور اس صورت میں یہ انسان ان کے لئے کارآمد ہو جاتا ہے لیکن یہ سب کچھ ”تربیت“ کے حقیقی مفہوم کی بنیاد پر نہیں ہوتا۔ تربیت کے معنی انسان کی حقیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانا ہے اگر وہ عقل و فکر کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کے ذہن میں چون و چرا ابھرتے ہیں تو پھر چاہئے کہ ان کی بھی پرورش کی جائے نہ کہ اس کی ان صلاحیتوں کو ختم کر دیا جائے اگر اس کے اندر انسانی جذبہ مثال کے طور پر رحم کا جذبہ موجود ہو تو چاہئے کہ اسے پروان چڑھایا جائے تاہم ان چیزوں کی بھی افراط و تفریط کے حوالے ہی سے حدود مقرر ہیں۔ یہ بات اس لئے بیان کی گئی ہے کہ مسئلہ فطرت کا تربیت سے بہت قریبی رشتہ ہے جس کے بارے میں ہم جداگانہ گفتگو کریں گے۔
دور حاضر کے انسانی فلسفوں میں اور معاشرہ شناسی کے علوم میں تاریخ کے ارتقاء کے مسئلہ کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اگر ہم فطرت کے قائل ہوں تو تاریخ کے ارتقاء کے ایک خاص اعتبار سے توجیہہ کریں گے اور اگر ہم فطرت کے قائل نہ ہوں جیسا کہ دور حاضر میں بہت سے مکاتب فکر انسان کے لئے کسی فطرت کی مجموعی طور پر نفی کرتے ہیں تو اس صورت میں تاریخ کے ارتقاء کی توجیہہ کسی اور طرح سے کریں گے۔ ان تمام امور پر تفصیلی بحثیں ہیں جن کی جانب ہم نے اجمالی طور پر اشارہ کیا ہے۔
لفظ فطرت کا لغوی مفہوم
اب ہم پہلے مسئلے سے بات شروع کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ لفظ ”فطرت“کہ جو قرآن میں آیا ہے اس سے کیا مراد ہے؟
ارشاد خداوندی ہے:
فطرة اللہ التی فطر الناس علیھا(روم ۳۰)
مادہ ”فطر“ (ف۔ ط۔ ر) قرآن میں متعدد بار استعمال ہوا ہے کبھی ”فطر ھن“(انبیاء ۵۶)
کبھی ”فاطر السموات و الارض“(انعام ۱۴) اور دیگر پانچ آیات۔
کبھی ”انفطرت“ (انفطار ۱)
اور کبھی ”منفطر بہ (مزمل ۱۸)
ہر مقام پر اسی لفظ کے معنی ہیں ابداع اور خلق بلکہ خلق بھی ابداع کے معنی میں ہی ہے۔ ابداع کے معنی کسی سابقہ نمونے کو پیش نظر رکھے بغیر پیدا کرنے کے ہیں۔ لفظ ”فطرة“ اس صیغے میں یعنی بروزن ”فعلة“ صرف ایک آیت میں آیا ہے کہ جو انسان اور دین کے بارے میں ہے جس کے مطابق دین ”فطرة اللّہ“ ہے۔
فا قم و جھک للدین حنیفا فطرة اللہ التی فطر الناس علیھا لا تبدیل لخلق اللہ(روم ۳۰)
اس آیت کی تشریح ہم بعد میں عرض کریں گے۔ جو لوگ عربی زبان سے آشنا ہیں وہ جانتے ہیں کہ ”فعلة“ کا وزن نوعیت اور کیفیت پر دلالت کرتا ہے۔ ”جلسة“ یعنی بیٹھنا اور ”جلسة“ یعنی بیٹھنے کا خاص انداز جیسے ”جلست جلسة زید“ یعنی میں زید کے انداز میں بیٹھا یعنی جیسے زید بیٹھتا ہے میں ایسے بیٹھا۔ ابن مالک نے الفیہ میں کہا ہے:
و فعلۃ لمرة کجلسۃ و فعلۃ لھبیۃ کجلسۃ
جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ قرآن میں لفظ ”فطرت“ انسان اور دین کے ساتھ اس کے رابطے کے بارے میں آیا ہے۔ ”فطرة اللہ التی فطر الناس علیھا“ یعنی وہ خاص خلقت کہ جو ہم نے انسان کو دی یعنی انسان ایک خاص انداز سے پیدا ہوا ہے۔ یہ جو آج کل کہا جاتا ہے کہ ”انسانی امتیازات“ تو اس سے فطرت کا مفہوم نکلتا ہے اور یہ اس صورت میں ہے کہ جب ہم انسان کی اصل خلقت میں کچھ امتیازات اور خصوصیات کے قائل ہوں یعنی فطرت انسان کے معنی ہوئے خلقت و آفرینش کے اعتبار سے انسان کے امتیازات و خصوصیات۔
ابن اثیر کا قول
حدیث کی لغات کے بارے میں لکھی جانے والی معتبر کتب میں ایک کتاب ابن اثیر کی ”النہایہ“(۱) ہے جو معروف ہے۔ ہم چونکہ معتبر مدارک سے ثبوت پیش کرنا چاہتے ہیں اس لئے اس کتاب کا بھی حوالہ پیش کرتے ہیں جیسے لغات قرآن کے لئے ”راغب“ کی کتاب ”مفردات“ نہایت عمدہ ہے کیونکہ راغب نے قرآنی الفاظ کے بنیادی معانی کا اچھی طرح تجزیہ کیا ہے۔ یہی کام ابن اثیر نے حدیث کی لغات کے لئے انجام دیا ہے۔ ”النہایہ“ میں ابن اثیر نے اس معروف حدیث کو ذکر کیا ہے:
کل مولود یولد علی الفطرة…(۱)
”ہر مولود فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے والدین (بیرونی عوامل) اسے منحرف کر کے یہودی عیسائی یا آتش پرست بنا دیتے ہیں۔“
اس حدیث کے بارے میں ہم بعد میں بحث کریں گے۔ ابن اثیر نے یہ حدیث نقل کر کے لفظ ”فطرت“ کے معنی یوں بیان کئے ہیں کہ الفطر: الابتداء والاختراع (فطر) یعنی ابتداء و اختراع یعنی خلقت ابتدائی کہ جسے ایجاد بھی کہتے ہیں اس سے مراد ایسی خلقت جس میں کسی کی تقلید نہ کی گئی ہو۔ اللہ کا کام فطر ہے اختراع لیکن انسان کا کام عموماً تقلید ہے یہاں تک کہ انسان جو ایجاد بھی کرتا ہے اس میں بھی تقلید کے عناصر موجود ہوتے ہیں۔
انسان عالم طبیعی کی تقلید کرتا ہے یعنی عالم طبیعی پہلے سے موجود ہے اور انسان اسے نمونہ قرار دے کر اس کی بنیاد پر تصویر بناتا ہے صناعی کرتا ہے مجسمہ سازی کرتا ہے انسان کبھی ایجاد و اختراع بھی کرتا ہے اور ایجاد و اختراع کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن انسانی ایجاد و اختراع کا اصل سرچشمہ عالم طبیعی ہی ہے اور اسی سے وہ رہنمائی حاصل کرتا ہے۔ معارف اسلامی میں اس بات پر بہت زور دیا گیا ہے نہج البلاغہ اور دیگر اسلامی کتب میں اس سلسلے میں بہت کچھ موجود ہے اور لازمی طور پر ایسا ہی ہے۔ البتہ اللہ تعالی نے اپنے کام کے لئے کسی کی صناعی کی تقلید نہیں کی کیونکہ جو کچھ ہے اسی کا بنایا ہوا ہے۔ اس کی صناعی سے کوئی چیز مقدم نہیں ہے لہذا لفظ فطر ابتداء اور اختراع کے مساوی ہے یعنی ایسا عمل کہ جس میں کسی اور کی تقلید نہ کی گئی ہو۔ ابن اثیر اس کے بعد لکھتے ہیں:
والفطرة الحالہ منہ کا لجلسہ و الرکبۃ
فطرت: یعنی خلقت کی ایک خاص حالت اور ایک خاص نوعیت کے معنی ہوتے ہیں۔ (یہ خاص طور پر اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ جب ہم بعد میں وضاحت کریں گے تو ہمیں معلوم ہو گا کہ یہ معنی ان کلمات کے لئے ان کے مفہوم کی بناء پر ہیں اور یہ کہ اس صحیح لغوی مفہوم کو نہایت معتبر اہل لغت نے بہت پہلے بیان کیا ہے)۔
وہ مزید لکھتے ہیں:
والمعنی انہ یولد علی نوع من الجبلہ والطبع المتھیی لقبول الدین فلو ترک علیھا لا ستمر علی لزومہا
”یعنی انسان ایک خاص طرح کی سرشت اور طبیعت کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے اس طرح سے کہ وہ دین کو قبول کرنے کی قابلیت رکھتا ہے اور اگر اسے اسی کے حال پر اور طبیعت پر چھوڑ دیا جائے تو وہ اسی راستے کا انتخاب کرے گا بشرطیکہ بیرونی اور خارجی طور پر متاثر کرنے والے عوامل اسے اس راستے سے نہ بھٹکا دیں۔“
اس کے بعد ابن اثیر کہتے ہیں کہ حدیث میں فطرت کا لفظ کئی بار آیا ہے۔ مثال کے طور پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث کہ جس کا ابتدائی حصہ ابن اثیر نے نہیں لکھا یوں بیان ہوا ہے:
علی غیر فطرة محمد یعنی علی غیر دین محمد
مقصد یہ ہے کہ اس مقام پر لفظ دین کے بجائے ”فطرت“ کا لفظ آیا ہے۔ اسی طرح ابن اثیر نے حضرت علی علیہ السلام سے نقل کیا ہے:
و جبار القلوب علی فطراتہا
(نہج البلاغہ میں اس سے ملتا جلتا جملہ آیا ہے: ”و جابل القلوب علی فطراتھا“) اللہ تعالی جس نے دلوں کو پیدا کیا ہے وہ ان دلوں کی فطرتوں کی بنیادوں پر ان کا جبار ہے۔ یعنی تلافی کرنے والا یا تکمیل کرنے والا اس سے مراد اخلاق ہے۔
ابن اثیر کہتے ہیں:
علی فطراتہا ای علی خلقہا(نہایہ ابن اثیر جلد ۳ ص ۴۵۰)
ابن عباس کا قول
ابن عباس سے ایک عجیب حدیث منقول ہے۔ اس حدیث کو میں اس امر کے لئے قرینہ سمجھتا ہوں کہ فطرت کا لفظ ان الفاظ میں سے ہے جنہیں قرآن نے ہی پہلی مرتبہ استعمال کیا ہے۔ ابن عباس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد تھے قریش تھے اور صاحب علم و فضل انسان تھے وہ کوئی عجمی نہ تھے کہ ہم کہیں کہ عربی زبان سے واقف نہ تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے قرآن میں آنے والے لفظ فطرت کو پہلی بار اس وقت سمجھا جب ایک مرتبہ میری ایک بادیہ نشین بدو اعرابی سے ملاقات ہوئی۔(”اعرابی“ یعنی بادیہ نشین قرآن میں آنے والا لفظ اعراب اس معنی میں نہیں کہ جس میں آج ہم استعمال کرتے ہیں۔ ہم لفظ اعراب کو عرب کی جمع کے طور پر استعمال کرتے ہیں جبکہ عرب کی جمع عُرُب ہے۔ اعراب اور اعرابی عام طور پر بادیہ نشینوں کو کہتے ہیں۔ یاد رہے کہ فارسی زبان میں آج کل لفظ اعراب عرب کی جمع کے لئے بولا جاتا ہے)۔
اور اس نے ایک مسئلہ میں اس لفظ کو استعمال کیا۔ جب اس نے اس مسئلے میں یہ لفظ استعمال کیا تو مجھ پر آیت کا مفہوم واضح ہوا۔
ابن عباس کے الفاظ یوں ہیں:
ما کنت ادری ما فاطر السموات والارض حتی احتکم الی اعرابیان فی بئر
یعنی قرآن میں آنے والے لفظ فاطر کو میں صحیح طور پر نہیں سمجھا تھا یہاں تک کہ دو بادیہ نشین میرے پاس آئے کہ جن کا پانی کے ایک کنوئیں کے مسئلے پر اختلاف تھا۔ ان میں سے ایک نے کہا ”انا فطرتھا“، وہ کہنا چاہ رہا تھا کہ کنواں میرا ہے اور اس کی مراد یہ تھی کہ اسے شروع میں میں نے کھودا ہے۔ (آپ جانتے ہیں کہ جب کسی کنویں کو کھودا جاتا ہے تو ایک عرصے کے بعد اس کے پانی کی سطح نیچی ہو جاتی ہے لہذا اسے دوبارہ مزید نیچے گہرا کرنا پڑتا ہے تاکہ پانی دوبارہ حاصل کیا جا سکے)۔
وہ کہنا چاہ رہا تھا کہ میں اس کا پہلا مالک ہوں یعنی میں نے اسے پہلے کھودا ہے۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ میں اس سے سمجھا کہ قرآن میں ”فطرت“ کے کیا معنی ہیں یعنی انسان کی ایک ایسی سو فیصد ابتدائی خلقت کہ غیر انسان میں جس کی کوئی مثال نہیں دیگر مواقع پر بھی عربی زبان میں جہاں ”فطر“ کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں بھی یہ ابتدائی ہونے اور سابقہ نہ رکھنے کا مفہوم رکھتا ہے۔ مثلاً عرب کہتے ہیں:
فطر ناب البعیر فطرا اذا شق اللحم و طلع
اونٹ کے دانت جب نکلتے ہیں اور وہ پہلی بار گوشت کو چیر کر نمایاں ہوتے ہیں تو ابتداء۱ً ان کے نکلنے کو ”فطر“ کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
اسی طرح سے کسی جانور کے پستان سے جو پہلا دودھ حاصل کیا جاتا ہے اسے اسی اعتبار سے فُطرہ کہتے ہیں (یعنی بولی یا کھیس)۔
راغب اصفہانی نے بھی اس لفظ کا اسی طرح تجزیہ کیا ہے جیسے ”النہایہ“ میں ابن اثیر نے اس کو واضح کیا ہے چونکہ اسے دوبارہ بیان کرنے سے تکرار ہوتی ہے اس لئے اس کی جانب اشارہ کرنا ضروری نہیں ہے۔
شیخ عباس قمی کی گفتگو
شیخ عباس قمی نے اپنی سفینۃالبحار (شیخ عباس قمی کی بہترین مفید ترین اور ایک اہم کتاب یہی ہے کہ حدیث کے بارے میں ہے اور اس کتاب میں انہوں نے مجلسی مرحوم کی کتاب ”بحار“ کی احادیث کو لغوی اعتبار سے واضح کیا ہے۔ درحقیقت یہ مجلسی مرحوم کی ”بحار“ کی احادیث کی ایک فہرست ہے اس کتاب میں انہوں نے کسی حد تک ابن اثیر کی پیروی کی ہے اس فرق کے ساتھ کہ ابن اثیر کی زیادہ توجہ لغت کی طرف ہے اور ان کی احادیث کی طرف) میں ایک اہم ماہر لغت ”مطرزی“ سے نقل کرتے ہیں کہ اس میں اس نے کہا ہے کہ فطرت یعنی خلقت۔ اس کے بعد ”غوالی اللیالی“ سے یہ حدیث نقل کرتے ہیں:
کل مولود یولد علی الفطرة
”یعنی ہر مولود فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔“
اس کے بعد انہوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک حدیث نقل کی ہے جس میں آپ ے ایک مناسبت کے لحاظ سے لفظ ”فطرة“ استعمال کیا ہے لیکن فطرت کے اس استعمال سے ہٹ کر کہ جس میں ہم استعمال کرتے ہیں۔ ابی بصیر کہتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں موجود تھا اونٹ کا گوشت لایا گیا اور ہم نے کھایا پھر دودھ لایا گیا نے اس میں سے کچھ نوش فرمایا اور مجھ سے کہا کہ تم بھی پیئو میں نے بھی پیا۔ میں نے پوچھا:
”ایش“ یہ کیا ہے؟
اس میں ایک خاص قسم کا مزہ تھا۔ نے فرمایا ”انھا الفطرة“ یہ فُطرة ہے (دودھ دوہتے وقت اس کی جو جھاگ بن جاتی ہے وہ مراد ہے) پھر بھی اس لفظ میں وہی ابتدائیت کا مفہوم ہی موجود ہے۔ اب ہم لفظ فطرت کی لغوی بحث سے آگے بڑھتے ہیں۔
فطرت صبغہ حنیف
قرآن حکیم میں تین الفاظ ایسے استعمال ہوئے ہیں کہ قرآن نے دین کے معنی اور مفہوم کے لحاظ سے انہیں ہم معنی اور مفہوم کے لحاظ سے انہیں ہم معنی الفاظ کے طور پر استعمال کیا ہے یعنی تین ایسے مختلف مفہوم ہیں کہ ان کا مصداق ایک ہے۔ ان میں سے ایک یہی لفظ ”فطرت“ ہے۔
فطرة اللہ التی فطر الناس علیھا(روم ۳۰)
دوسرا لفظ ”صبغہ“ ہے اور تیسرا ”حنیف“ یعنی دین کے لئے ”فطرة اللہ“ بھی کہا گیا ہے ”صبغة اللہ“ بھی اور ”للدین حنیفا“ بھی۔
اب ہم کچھ ”صبغہ“ اور ”حنیفا“ کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں۔ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:
صبغۃاللہ ومن احسن من اللہ صبغۃالبقرة ۱۳۸)
”اللہ کا رنگ اور اللہ کے رنگ سے بہتر کیا ہے۔“
”صبغہ“، ”فعلۃ کے وزن پر ہے۔ یہ صبغہ اور صباغ کے مادہ سے ہے۔ ”صبغہ“ کے معنی ہیں رنگ کرنا اور ”صباغ“ یعنی رنگ ریز یا رنگ کرنے والا صبغہ یعنی رنگ کرنے کی ایک خاص کیفیت خاص طرح سے رنگنا ”صبغة اللہ“ یعنی وہ خاص رنگ جو اللہ نے کائنات میں بھرا ہے یعنی الہی رنگ۔ دین کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ الہی رنگ ہے یہ وہ رنگ ہے کہ جسے دست قدرت نے کائنات اور خلقت میں بھرا ہے اس نے انسان کو اس رنگ میں ڈھالا ہے۔ مفسرین نے کہ جن میں راغب بھی شامل ہیں کہا ہے کہ قرآن میں یہ تعبیر اس غسل تعمید کی طرف اشارہ ہے کہ جو عیسائی انجام دیا کرتے تھے (کہتے ہیں کہ پانی میں چونکہ وہ لوگ ”عیسائی“ عموداً نہلاتے تھے اس لئے اسے غسل تعمید کہتے ہیں۔ بعض کتابوں میں ہے کہ غسل کے لئے پانی کا کوئی خاص رنگ مثلاً زرد جیسا ہوتا تھا)۔ عیسائی غسل تعمید پر اعتقاد رکھتے تھے اور آج بھی اسے انجام دیتے ہیں جب وہ کسی کو عیسائی بنانا چاہتے ہیں بلکہ یہاں تک کہ عیسائیوں کے ہاں جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو اسے عیسائی مذہب میں داخل کرنے کے لئے یہ غسل دیتے ہیں گویا اس طرح سے اس پر عیسائیت کا رنگ چڑھاتے ہیں اور اس نہلانے کو ایک طرح سے مسیحیت کا رنگ دینا سمجھتے ہیں۔ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:
”رنگ تو وہ رنگ ہے کہ اللہ نے جو خلقت کے اندر بھرا ہے۔“
ایک آیت میں ارشاد ہوتا ہے:
ما کان ابراہیمؑیہودیا ولا نصرانیا و لکن کان حنیفا مسلما(آل عمران ۶۷)
”ابراہیمؑیہودی اور نصرانی نہیں تھے بلکہ وہ تو حنیف مسلمان تھے۔“
قرآن کہتا ہے کہ انسان ایک فطرت کا حامل ہے اور وہ دین ہے اور دین بھی اسلام۔ اسلام ایک حقیقت ہے آدمؑسے خاتم تک قرآن ادبیات کا قائل نہیں ہے ایک دین کا قائل ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن اور حدیث میں لفظ دین کی جمع استعمال نہیں ہوئی کیونکہ دین فطرت ہے راستہ ہے انسان کی سرشت میں موجود ایک حقیقت ہے۔ انسانوں کو مختلف طرح سے پیدا نہیں کیا گیا ہے جتنے بھی انبیاءآئے ان کے تمام احکام کی بنیاد فطری احساس کو بیدار کرنے زندہ کرنے اور پروان چڑھانے پر تھی۔ جو کچھ وہ پیش کرتے تھے اس فطرت انسانی کا تقاضا ہے فطرت انسانی کے تقاضے مختلف طرح کے اور الگ الگ نہیں ہوتے لہذا قرآن فرماتا ہے کہ جس چیز کے نوح حامل تھے وہ دین تھا اور اس کا نام اسلام تھا اور جس چیز کے ابراہیمؑحامل تھے وہ بھی دین ہی تھا کہ جس کا نام اسلام ہے۔ یہ جو نام بعد میں پیدا ہوئے اور وجود میں آئے حقیقی دین اور اس کی فطرت سے انحراف ہے یعنی درحقیقت جس چیز کے نوح موسی عیسی اور ہر نبی حامل تھا وہ دین اسلام ہی تھا۔ (بعض لوگوں نے یہ سوال کیا ہے کہ کیا شریعتیں بھی فطری ہیں یا نہیں؟ ہم اس سلسلے میں بعد میں بیان کریں گے کہ یہ جو ہم کہتے ہیں کہ دین فطری ہے تو اس کی کون سی چیز فطری ہے۔ آیا اس کے اصول و معارف فطری ہیں یا احکام بھی فطری ہیں۔ یہ جزئیات ہیں ان پر بعد میں گفتگو کی جائے گی)۔
لہذا قرآن فرماتا ہے:
ما کان ابراہیمؑیہودیا ولا نصرانیا و لکن کان حنیفا مسلما
”ابراہیمؑیہودی اور نصرانی نہیں تھے بلکہ وہ تو حنیف مسلمان تھے۔“(آل عمران ۶۷)
قرآن یہ نہیں فرمانا چاہتا کہ ابراہیمؑرسول اللہ کے زمانے کے مسلمان کی طرح کسی پیغمبر آخرالزمان۱کی امت تھے بلکہ فرماتا ہے کہ یہودیت اور عیسائیت حقیقی اسلام سے انحراف ہے اور اسلام درحقیقت ایک ہی ہے۔ وہ آیت مبارکہ جو میں نے پہلے بیان کی ہے اس میں فرمایا گیا ہے کہ اس رنگ چڑھانے کا کیا فائدہ ہے؟ غسل تعمید اور اس جیسے غسلوں کی کیا تاثیر ہے؟ کیا غسل تعمید سے کسی کو وہ کچھ بنایا جا سکتا ہے جو کچھ وہ نہیں ہے؟ رنگ بھرنا تو وہ رنگ بھرتا ہے جو دست قدرت نے خود کائنات میں بھر دیا اور سمو دیا۔ اللہ یہ فرمانا چاہتا ہے کہ جو کچھ ہمارا نبی کہتا ہے وہی حقیقی اسلام ہے وہی فطرت حقیقی ہے۔ فطرت حقیقی یعنی وہ رنگ کہ جسے اللہ نے خلقت ”مخلوق“ میں بھر کر روح انسانی میں رچا دیا اور چڑھا دیا ہے۔
راغب اصفہانی کہتے ہیں:
صبغۃاللہ اشارة الی ما اوجدہ اللہ تعالی فی الناس من العقل المتمیزبہ عن البھائم کا لفطرة
(البتہ وہ فطرت کو عقل میں منحصر سمجھتا ہے)۔
و کانت النصاری اذا ولد لھم ولد غمسوہ فی الیوم السابع فی ماء عمودیۃیزعمون ان ذلک صبغۃل تعالی لہ ذلک من احسن من اللہ صبغۃ
یعنی قرآن کریم میں ”صبغۃاللہ“ کی عبارت اس چیز کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالی نے خصوصاً انسانوں میں پیدا کی ہے یعنی ”عقل“ جو انہیں حیوانوں سے اشرف افضل اور ممتاز کرتی ہے اور یہی فطرت ہے۔ عیسائیوں کے ہاں جب کوئی بچہ پیدا ہوتا تو وہ اسے ساتویں دن پانی میں عموداً ڈبوتے ہیں اس سے وہ یہ خیال کرتے کہ بچہ پر عیسائیت کا رنگ چڑھ گیا ہے۔ اس پر اللہ تعالی نے فرمایا:
”اللہ کے رنگ سے بہتر کیا ہو سکتا ہے؟“
حدیث میں ہے:
الدین الحنیف و الفطرة و صبغۃاللہ والتعریف فی المیثاق(معانی الاحبار بحوالہ بحارالانوار چاپ جدید ج ۳ باب ۱۱ ص ۲۷۶)
”دین حنیف اور دین فطرت اور صبغۃاللہ وہی ہے کہ جس سے اللہ نے انسان کو میثاق کے موقع پر آشنا کیا ہے۔(میثاق وہ پیمان یا عہد ہے کہ جو اللہ تعالی نے روح انسانی سے لیا ہے)۔“
یہ میثاق اسی ”چیز“ کی طرف اشارہ ہے کہ جسے عالم ذر سے تعبیر کیا جاتا ہے لہذا ضروری ہو جاتا ہے کہ اس مقام پر ہم عالم ذر کے مسئلہ پر گفتگو کریں اور دیکھیں کہ اس کا مفہوم اور معنی کیا ہیں۔ کیا انسان قبل ازیں اسی عالم مادہ میں چھوٹے چھوٹے جانداروں کی طرح تھے؟ اور پھر انہوں نے یہ ”موجودہ“ صورت اختیار کر لی ہے یا پھر اس کے کوئی دقیق تر معنی ہیں؟ ظاہر ہے کہ اس کا مفہوم اس سے کہیں زیادہ دقیق تر ہے۔