صرف علی
محفلین
اب ان صاحب نے جو مختلف اقوال و آراء نقل کی ہیں‘ جب اس نظریے کو نقل کرتے ہیں تو زیادہ رد نہیں کرتے‘ صرف اتنا کہتے ہیں کہ البتہ یہ نظریہ بھی شکوک و شبہات اور اعتراضات سے خالی نہیں ہے‘ لہٰذا ڈورکہیم کے پیروکاروں نے گویا اس کی اصلاح کر دی ہے (یعنی دورکہیم کے پیروکاروں کا اصلاح شدہ نظریہ غلطیوں سے پاک ہے)۔ تقریباً یہ وہ رائے ہے کہ جو خود ان صاحب نے انتخاب کی ہے اور اس سے انہوں نے نتیجہ بھی اخذ کیا ہے اور وہ نتیجہ یہ ہے کہ اس نظریے کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ دین کی پیدائش کا سبب جہالت ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جہالت کے دور ہونے سے دین ختم ہو جاتا ہے‘ کیونکہ علت کے خاتمے سے معلول کا خاتمہ ہو جاتا ہے‘ حالانکہ عملاً ایسا نہیں ہے‘ لہٰذا ثابت ہو گیا کہ یہ نظریہ باطل ہے۔ وہ نظریہ کہ جو کہتا ہے کہ ”دین کی پیدائش کا سبب طبیعی قوتوں کا خوف ہے“، اس کے مطابق جس دین طبیعی قوتوں سے انسان کا خوف ختم ہو جائے‘ دین کو بھی ختم ہو جانا چاہئے‘ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ عملاً ایسا نہیں ہے اور دین ختم نہیں ہوتا‘ غربت‘ امارت اور طبقاتی اختلاف کی بھی یہی صورت ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں بھی طبقات ختم ہو گئے ہیں اور مساوات قائم ہو گئی ہے‘ وہاں بھی دین ختم نہیں ہوتا‘ ایسے ممالک میں بھی یہ معرکہ اب بھی موجود ہے‘ جبکہ ان ممالک میں جہاں نام نہاد مساوات قائم ہو گئی ہے‘ پھر بھی وہ پریشان ہیں کہ دین کے خلاف پیکار کیسے کی جائے؟ پھر بھی آپ دیکھ رہے ہیں کہ روز بروز جوانوں کا دین کی طرف رجحان اور زیادہ ہوتا جا رہا ہے‘ یہاں تک خود روسیوں کے بقول روس میں بھی۔ لیکن اگر اس نظریے کو منتخب کریں تو ایسا نہیں ہے‘ یہ ایک ایسا اصول ہے جو ہمیشہ انسان کے ساتھ ہے۔ مذہب کی بنیاد یہی ہے اور اسی دلیل کی بناء پر یہ انسانی معاشرے سے ختم نہیں ہوگا‘ لہٰذا یہ وہ واحد نظریہ ہے کہ جو مذہب کے لئے کسی ماورائی و الٰہی بنیاد کا قائل نہیں اور اس کے باوجود اس امر کا اعتراف کرتا ہے کہ مذہب ختم ہونے والی چیز نہیں‘ ایسی بات کی جاتی ہے اور یہ بھی ایک بے بنیاد بات ہے۔
ڈورکہیم کے نظریے کا تنقیدی جائزہ
اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ معاشرہ ایک حقیقی اکائی ہے‘ نہ کہ اعتباری۔ ”تفسیرالمیزان“ میں بھی اور مختلف جگہوں پر اس امر پر گفتگو کی گئی ہے کہ معاشرہ ایک وحدت رکھتا ہے اور اپنی ایک مخصوص انداز زندگی کا حامل ہے اور چونکہ اس کی اپنی ایک وحدت اور مخصوص حیات ہے‘ لہٰذا اس کی ایک موت بھی ہے۔ اس میں قوت ہوتی ہے‘ ضعف ہوتا ہے‘ ایک مشترک انجام ہوتا ہے‘ وغیرہ۔ ایک کتابچہ کہ جو حال ہی میں‘ میں نے ”قیام و انقلاب مہدی علیہ السلام از دیدگاہ فلسفہ تاریخ“ (امام زمانہ کے قیام کے بارے میں فلسفہ تاریخ کا نظریہ) کے نام سے شائع کیا ہے‘ میں نے کچھ اس مسئلے کی طرف مختلف مقامات پر اشارہ کیا ہے۔ تفصیل اس لئے نہیں دی‘ چونکہ یہ چھوٹا سا کتابچہ ہے وہاں بھی میں نے حاشیے میں تفسیرالمیزان کی طرف رجوع کرنے کو کہا ہے۔ قرآن میں اس طرح کی تعبیرات ہیں:
لکل امة احل‘ اذا جاء اجلھم فلا یستاخرون ساعة ولا یستقدمون(یونس‘ ۴۹)
”ہر امت کے لئے موت کا ایک وقت مقرر ہے‘ جب وہ وقت آ جاتا ہے تو ایک گھڑی بھی دیر نہیں کر سکتے اور نہ جلدی کر سکتے ہیں۔“
قرآن بنیادی طور پر اپنے کسی حکم کا پوری قوم پر اطلاق کرتا ہے‘ مثلاً بعض اقوام فلاں راستے پر تھیں اور ایسی تھیں اور ہم نے انہیں ہلاک کر دیا‘ قرآنی نکتہ نگاہ سے مختلف اقوام کا اپنے اپنے لحاظ سے کوئی نہ کوئی انجام ہوتا ہے‘ یعنی سب کا انجام ایک جیسا ”مشترک“ نہیں ہوتا‘ لہٰذا اگر کسی قوم کے درمیان کوئی نیک گروہ موجود ہو‘ تو وہ اپنی قوم پر اثرانداز نہیں ہو سکتی اور اس مسئلہ کو اگر معکوس انداز میں لیں‘ اس کا بھی مصداق ایسا ہی ہو گا۔ اب چونکہ قوم اور ملت ایک ہی سمجھی جاتی ہے تو اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ معاشرہ یا سماج ایک حقیقی نہ کہ اعتباری اکائی ہے۔
مذکورہ نظریے کے بارے میں جو کچھ اب تک بیان کیا گیا‘ مکمل طور پر درست ہے‘ لیکن معاشرے کی ساخت و ترکیب کی کیا نوعیت ہے؟ ہم نے اس موضوع پر جو بحث کی تھی‘ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ انسانی معاشرے کی ساخت و ترکیب تیسری نوعیت کی ہے‘ یعنی نہ تو اس کی اعتباری ترکیب ہے‘ کیونکہ واقعاً وہ ایک حقیقی ترکیب ہے اور نہ ہی اس کی کیمیائی یا طبیعی ترکیب ہے‘ کیونکہ ان دونوں ترکیبوں میں اکائیوں کا تشخص کسی صورت میں مستقل نہیں ہوتا اور یہ امر ناممکنات میں ہے‘ جبکہ معاشرے میں افراد کے تشخص کا باقی رہنا‘ اس حد تک ناممکن نہیں ہے‘ جبکہ ڈورکہیم اور وہ لوگ جو اس حد تک اجتماعی اصالت (یعنی معاشرے کو بنیاد سمجھتا نہ کہ فرد کو) کے نظریے کے قائل ہیں‘ کے مطابق ایسی صورت میں فرد کا معاشرے میں کوئی اپنا ذاتی تشخص باقی نہیں رہتا‘ یعنی کہ جب معاشرے کا کوئی فرد کسی بات کو محسوس کرتا ہے یا یہ فرد کوئی ارادہ کرتا ہے‘ درحقیقت اس کا معاشرہ محسوس کرتا ہے اور ارادہ کرتا ہے۔ اس طرح سے فرد کی معاشرے میں کوئی مستقل حیثیت کا حامل نہیں ہوتا‘ جبکہ حقیقت میں معاشرہ اپنے مقام پر ایک حقیقی ترکیب ہونے کے ساتھ ساتھ‘ فرد بھی اپنے استقلال اور تشخص کو اپنے معاشرے میں ایک متعین حد تک محفوظ رکھتا ہے‘ لہٰذا فرد اپنے معاشرے پر اثرانداز ہو سکتا ہے اور اسے تبدیل کر سکتا ہے (جبکہ ان کے نظریے کے مطابق فرد جو معاشرے میں ایک مجبور محض ہوتا ہے‘ ناممکن تمام معاشرے کو تبدیل کر سکے)۔ کیمیائی یا طبیعی ترکیب میں کوئی ناممکن الوجود حصہ تمام ترکیب کو مکمل طور پر بدل سکے‘ لیکن فرد معاشرے کے دھارے کا رخ بدل سکتا ہے اور معاشرے کے بہاؤ کے مخالف سمت میں بھی حرکت کر سکتا ہے‘ اسی طرح اس کے بہاؤ میں تیزی بھی لا سکتا ہے اور سستی بھی اور ایک بہاؤ کو روک بھی سکتا ہے اور نتیجتاً تاریخ کے دھارے کو بھی بدل سکتا ہے اور یہ وہی مسئلہ ہے کہ انسان آزادی اور اختیارات کا حامل ہے اور معاشرے کے جبر کے مقابلے میں اپنی‘ اس کی آزادی اور استقلال ایک حد تک محفوظ ہوتا ہے۔
انسانی ”انا“، ”خودی“، ”میں“ کے کئی مدارج ہیں
یہ بات واضح رہے کہ اس شخص کے کہنے کے مطابق کہ انسان اپنے اندر دو ”انائیں“ رکھتا ہے‘ درست نہیں ہے‘ یعنی ایک انفرادی اور ایک سماجی ”انا“۔ انسان کی انفرادی انا معاشرے کے مطابق تشکیل پاتی ہے‘ اس کی پرورش ہوتی ہے اور قالب میں ڈھلتی ہے‘ لیکن ساتھ ہی ساتھ اس کا استقلال‘ آزادی اور ذاتی تشخص کسی حد تک محفوظ رہتا ہے‘ لیکن انسان حقیقی طور پر دو ”اناؤں“ کا حامل نہیں ہو سکتا ہے‘ یعنی جب وہ جانثاری اور جانفشانی کرتا ہے‘ وہ کوئی اور ہے اور جب اپنا ذاتی کام کرتا ہے تو کوئی اور ”انا“ ہوتی ہے‘ یعنی یہ کہ اس میں دو ”انائیں“ وجود رکھتی ہوں‘ جب ہم اپنا ذاتی کام کرتے ہیں تو ہم اپنی ذاتی ضرورتیں پوری کر رہے ہوتے ہیں‘ مثلاً برائی کرتے ہیں‘ ظلم کرتے ہیں‘ اپنی ذات کو دوسرے پر مقدم کرتے ہیں۔ یہ سب باتیں وہ ”انا“ کرتی ہے جو ہمارے اندر موجود ہے اور جب ہم معاشرے کی خدمت میں مصروف ہوتے ہیں‘ جانثاری کرتے ہیں‘ احسان کرتے ہیں‘ اچھے کام کرتے ہیں‘ عبادت کرتے ہیں تو یہ سب کام ایک اور ”انا“ جو ہمارے اندر موجود ہے‘ کرتی ہے۔
یہ کیسی باتیں ہیں! ان مسائل کہ ان لوگوں نے لیبارٹریوں میں ثابت نہیں کیا ہے‘ یہ تمام مسائل استدلالی ہیں۔ انسان جب کوئی برائی کرتا ہے تو تھوڑی دیر بعد جب وہ کوئی اچھا اور نیکی کا کام انجام دیتا ہے‘ درحقیقت یہ دونوں کام ایک ہی انسان انجام دیتا ہے‘ یعنی یہ دونوں فعل ایک ہی انسان سے سرزد ہوتے ہیں‘ لہٰذا یہ ایک ہی شخص کے مختلف درجے ہیں‘ نہ کہ دو اشخاص کے۔ ایک ہی چیز کے کئی درجات ہوتے ہیں‘ مثال کے طور پر ایک درخت میں تنا ہوتا ہے اور اس کی کئی شاخیں اوپر کی جانب اور دائیں بائیں پھیلی ہوئی ہوتی ہیں‘ لیکن درحقیقت مجموعی طور پر ایک ہی چیز ہے‘ یقیناً ایک ہی کے مختلف درجات اور دو چیزوں کے درجات میں فرق ہے۔ نتیجتاً یہ بات واضح ہے کہ یہ تمام ”انائیں“ ایک ہی چیز کے مختلف درجات ہیں‘ نہ کہ کئی چیزوں کے۔
قرآن کا نظریہ
یہ وہ مقام ہے جہاں انسان کو قرآنی منطق کی گہرائی سمجھ آتی ہے۔ قرآن حکیم ان تمام تر مسائل کو اٹھائے تعبیر کہتا ہے:
”نفس امارہ“، ”نفس لوامہ“، ”نفس مطمئنہ“
فلسفی اس کو وحدت کثرت میں کثرت وحدت میں سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس بات کا کوئی وجود نہیں کہ انسان متعدد ”اناؤں“ کا حامل ہو‘ یعنی ایک کام نفس امارہ سے سرزد ہوتا ہو اور دوسرا کام نفس لوامہ انجام دیتی ہو اور تیسرا کام نفس مطمئنہ۔ حقیقت یہ نہیں بلکہ انسان جب اپنی عقل کے خلاف چلتا ہے یا اس کی حکم عدولی کر رہا ہوتا ہے تو ایسے موقع پر وہ انتہائی چھوٹے کام انجام دیتا ہے۔ ایسے موقع پر وہ نفس امارہ کے زیر فرمان ہوتا ہے‘ یہی نفس امارہ جب بلند تر درجے پر ہوتی ہے تو اس کی بصارت تیز ہو جاتی ہے اور زیادہ ہوشمند ہو جاتی ہے‘ یہاں پر وہ نفس لوامہ بن جاتی ہے‘ یعنی وہ خود ہی خود کو ملامت و سرزنش کرنے لگتی ہے۔ اس امر سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگر ان کے دو الگ الگ وجود ہوتے تو ملامت یا سرزنش بے معنی ہو جاتی ہے۔ اسی نفس نے برے فعل کا ارتکاب کیا‘ بعد میں اپنے آپ کو زیرعتاب قرار دیا (انسان جب بھی کسی موضوع پر گفتگو کرتا ہے تو یہ بات اس پر واضح ہو جاتی ہے کہ آخرکار قرآن اس کا حل پیش کر دیتا ہے)۔
اس طرح سے یہ نفس ایک وقت میں منصف‘ انصاف طلب اور ملزم بن جاتا ہے اور اپنے ہی خلاف فیصلے سنا دیتا ہے‘ نفس کا محاسبہ اسے ہی کہتے ہیں:
لا اقسم بیوم القیامة ولا اقسم بالنفس اللو امة
(قیامة‘ ۱‘ ۲)
”میں روز قیامت کی قسم کھاتا ہوں اور ملامت کرنے والے نفس کی قسم کھاتا ہوں۔“
یہ آیت روز قیامت کے باب میں آتی ہے‘ جس روز اللہ تعالیٰ لوگوں کا حساب کرے گا۔ اللہ نے انسان کو روح اور ضمیر کا ایک درجہ عطا کیا ہے‘ جس کے ذریعے انسان کا دنیا میں ہی حساب ہوتا رہتا ہے:
یا ایتھا النفس المطمئنة ارجعی الی ربک(فجر‘ ۲۷‘ ۲۸)
”اے نفس مطمئنہ! اپنے پروردگار کی طرف لوٹ جا۔“
ان تمام دلائل سے واضح ہوتا ہے‘ جس انسان کا ایک ہی وجود ہے اور ایک ہی ذات ہے‘ یہ تمام درجات و مراحل طے کرتا ہے۔ ”نفس امارہ“ وہی ”نفس لوامہ“ ہے اور ”نفس لوامہ“ وہی ”نفس مطمئنہ“ ہے‘ لیکن ان سب کے مدارج مختلف ہیں۔ اس کے مدارج میں توجہ‘ آگاہی ”تذکر“، ”یاددہانی“، ”صفای باطن“، حجابوں کا نہ ہونا اور ایمان و یقین کا زیادہ ہونا شامل ہے۔
خلاصہ
ڈورکہیم کا نظریہ جو ایک معاشرہ شناسی یا ”معاشرتی آگاہی“ کا نظریہ ہے‘ ایک نفسیات شناسی کا بھی نظریہ ہونے کے مدعی ہے۔ یہ بات درست نہیں ہے‘ انسان دو جداگانہ اور دو مستقل بالذات شخصیتوں کا حامل نہیں ہے‘ انسان میں ایک ہی ”انا“ ہے جو تمام متضاد کاموں کو بیک وقت انجام دیتی ہے‘ لہٰذا یہ بات کہ انسان میں دو ”انائیں“ ہیں‘ ایک ”انا“ اپنے آپ کو بھول گئی ہے اور وہ ”انا“ جو کام بعد میں انجام دیتی ہے وہ کوئی اور ”انا“ ہے اور جسے ذاتی انا کا ایک حصہ قرار دیا گیا ہے اور جس کا تعلق عالم ماوراء سے ہے‘ درست نہیں ہے۔ کسی بھی لحاظ سے اس شکل میں دو ”اناؤں“ کا وجود نہیں ہے۔
ثانیاً اگر آپ کی بات کو درست تسلیم کر لیا جائے تو مذہبی لوگوں اور دیندار طبقے کا شمار آپ کے قول کے مطابق زیادہ اپنے آپ سے بیگانہ‘ یعنی جو افراد اجتماعی روح یا جوہر سے غافل ہو چکے ہوں اور ان میں یہ روح مر چکی ہو اور ان میں اجتماعی اور سماجی احساس کم ہو تو‘ میں شمار ہونا چاہئے اور ایسے ہی لوگوں کو زیادہ دیندار اور مذہبی ہونا چاہئے‘ حالانکہ بات اس کے برعکس ہے‘ کیونکہ جو لوگ حقیقت میں مذہبی اور دیندار ہوتے ہیں‘ انہیں معاشرتی یا اجتماعی احساس دوسروں سے بدرجہا زیادہ ہوتا ہے۔ کیا حضرت علی علیہ السلام زیادہ دینی احساس رکھتے تھے یا معاویہ؟ کیا حضرت علی علیہ السلام زیادہ معاشرتی احساس نہیں رکھتے تھے کہ آپ فرماتے تھے‘ اگر میری مملکت کے کسی دور افتادہ حصے میں بھوکا ہو‘ مجھے اس کا رنج اور دکھ ہوتا ہے۔ کیا اس سے بھی زیادہ کوئی معاشرتی اور اجتماعی احساس کا حامل ہو سکتا ہے؟
و حسبک داء ان تبیت ببطنة
وحو لک اکباد تحن الی القد(نہج البلاغہ‘ خط ۴۵)
”تمہارے گرد کچھ لوگ شدید بھوک سے دوچار ہوں اور تم سیر ہو کر سو جاؤ!“
کیا امیرالمومنین(علی ) جن کے فرامین ایسے ہوں‘ زیادہ معاشرتی احساس رکھتے تھے یا معاویہ؟
یہی لوگ جن میں معاشرتی احساس شدت کے ساتھ پایا جاتا ہو‘ مذہبی اور دین دار ہوتے ہیں‘ چنانچہ جو لوگ اپنی سماجی ”انا“ کو بھول چکے ہوں اور صرف اپنی ذاتی انا میں محصور ہو چکے ہوں‘ کس طرح دوسروں پر اپنی فوقیت ظاہر کرتے ہیں؟ حقیقت تو یہ ہے جن لوگوں میں انسانی احساسات زیادہ ہوتے ہیں‘ وہی لوگ زیادہ مذہبی اور دیندار ہوتے ہیں۔ نتیجتاً وہ شخص جو دلیل پیش کر رہا ہے‘ اس کی خواہش دراصل یہ ہے کہ لادین افراد کو مزید مضبوط بنائے اور یہ وہ بات ہے جس کی بناء پر ان لادینی لوگوں نے رٹ لگا رکھی ہے‘ یعنی دین ختم ہوا‘ مذہب رخصت ہوا اور یہ دونوں روبہ زوال ہیں اور جیسا کہ نظر آ رہا ہے اور دنیا کے حالات سے بھی یہ پتہ چل رہا ہے کہ دین عنقریب رخصت ہو جائے گا‘ علم کی روشنی آنے کے بعد مذہب ختم ہو گیا‘ سماجی انصاف آنے کے بعد مذہب اضمحلال کا شکار ہو گیا… لیکن جیسا کہ دین و مذہب کے آثار سے ظاہر ہوتا ہے‘ ان کی باتیں غلط ثابت ہو رہی ہیں‘ ان کے اندازے غلط ثابت ہوتے نظر آ رہے ہیں‘ کیونکہ دین موجود ہے اور یہ لوگ مطمئن رہیں‘ ختم ہونے والی چیز نہیں‘ بلکہ باقی رہے گا۔ اب یہ لوگ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ دین باقی ہے اور ختم نہیں ہو سکتا‘ لیکن اس کی بنیادی الٰہی نہیں۔ آخر میں یہ بات کرتے ہیں کہ نظریات عمومی طور پر اور دین یا مذہب بالخصوص سماجی زندگی کے بنیادی مظاہر ہیں اور جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انسان اور علم کی ترقی کے بعد دین و مذہب کا خاتمہ ہو جائے گا‘ درحقیقت انہوں نے تو سماجی ساخت کو اور نہ ہی دینی نظریات کی ماہیت کو سمجھا ہے۔
یہ لوگ اس قسم کی دلیل پیش کرتے ہیں۔ ان سے یہ کہنا چاہئے کہ اگر آپ کی بات درست ہے تو ڈورکہیم کی معاشرہ شناسی یا معاشرتی آگاہی کی ترقی کے ساتھ ساتھ دوسرے ادیان کا خاتمہ ہو جانا چاہئے‘ کیونکہ ڈورکہیم کے کہنے کے مطابق مذہب پر اعتقاد ایک قسم کی جہالت ہے اور یہی بات فویرباخ نے بھی کہی تھی‘ لیکن اتنے فرق کے ساتھ کہ وہ انسان کے لئے انفرادیت کا قائل تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ انسان فطرتاً خوبیوں اور برائیوں کے ایک سلسلے کا حامل ہے اور چونکہ معاشرتی زندگی میں اپنے آپ کو بری سرشت میں زیادہ گرفتار پاتا ہے‘ تو وہ اپنی پاک اور نیک سرشت کو اپنے آپ سے جدا کرتا ہے اور اسے ایک خیالی اور فرضی چیز تصور کرنے لگتا ہے۔
ڈورکہیم کے نظریے کا تنقیدی جائزہ
اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ معاشرہ ایک حقیقی اکائی ہے‘ نہ کہ اعتباری۔ ”تفسیرالمیزان“ میں بھی اور مختلف جگہوں پر اس امر پر گفتگو کی گئی ہے کہ معاشرہ ایک وحدت رکھتا ہے اور اپنی ایک مخصوص انداز زندگی کا حامل ہے اور چونکہ اس کی اپنی ایک وحدت اور مخصوص حیات ہے‘ لہٰذا اس کی ایک موت بھی ہے۔ اس میں قوت ہوتی ہے‘ ضعف ہوتا ہے‘ ایک مشترک انجام ہوتا ہے‘ وغیرہ۔ ایک کتابچہ کہ جو حال ہی میں‘ میں نے ”قیام و انقلاب مہدی علیہ السلام از دیدگاہ فلسفہ تاریخ“ (امام زمانہ کے قیام کے بارے میں فلسفہ تاریخ کا نظریہ) کے نام سے شائع کیا ہے‘ میں نے کچھ اس مسئلے کی طرف مختلف مقامات پر اشارہ کیا ہے۔ تفصیل اس لئے نہیں دی‘ چونکہ یہ چھوٹا سا کتابچہ ہے وہاں بھی میں نے حاشیے میں تفسیرالمیزان کی طرف رجوع کرنے کو کہا ہے۔ قرآن میں اس طرح کی تعبیرات ہیں:
لکل امة احل‘ اذا جاء اجلھم فلا یستاخرون ساعة ولا یستقدمون(یونس‘ ۴۹)
”ہر امت کے لئے موت کا ایک وقت مقرر ہے‘ جب وہ وقت آ جاتا ہے تو ایک گھڑی بھی دیر نہیں کر سکتے اور نہ جلدی کر سکتے ہیں۔“
قرآن بنیادی طور پر اپنے کسی حکم کا پوری قوم پر اطلاق کرتا ہے‘ مثلاً بعض اقوام فلاں راستے پر تھیں اور ایسی تھیں اور ہم نے انہیں ہلاک کر دیا‘ قرآنی نکتہ نگاہ سے مختلف اقوام کا اپنے اپنے لحاظ سے کوئی نہ کوئی انجام ہوتا ہے‘ یعنی سب کا انجام ایک جیسا ”مشترک“ نہیں ہوتا‘ لہٰذا اگر کسی قوم کے درمیان کوئی نیک گروہ موجود ہو‘ تو وہ اپنی قوم پر اثرانداز نہیں ہو سکتی اور اس مسئلہ کو اگر معکوس انداز میں لیں‘ اس کا بھی مصداق ایسا ہی ہو گا۔ اب چونکہ قوم اور ملت ایک ہی سمجھی جاتی ہے تو اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ معاشرہ یا سماج ایک حقیقی نہ کہ اعتباری اکائی ہے۔
مذکورہ نظریے کے بارے میں جو کچھ اب تک بیان کیا گیا‘ مکمل طور پر درست ہے‘ لیکن معاشرے کی ساخت و ترکیب کی کیا نوعیت ہے؟ ہم نے اس موضوع پر جو بحث کی تھی‘ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ انسانی معاشرے کی ساخت و ترکیب تیسری نوعیت کی ہے‘ یعنی نہ تو اس کی اعتباری ترکیب ہے‘ کیونکہ واقعاً وہ ایک حقیقی ترکیب ہے اور نہ ہی اس کی کیمیائی یا طبیعی ترکیب ہے‘ کیونکہ ان دونوں ترکیبوں میں اکائیوں کا تشخص کسی صورت میں مستقل نہیں ہوتا اور یہ امر ناممکنات میں ہے‘ جبکہ معاشرے میں افراد کے تشخص کا باقی رہنا‘ اس حد تک ناممکن نہیں ہے‘ جبکہ ڈورکہیم اور وہ لوگ جو اس حد تک اجتماعی اصالت (یعنی معاشرے کو بنیاد سمجھتا نہ کہ فرد کو) کے نظریے کے قائل ہیں‘ کے مطابق ایسی صورت میں فرد کا معاشرے میں کوئی اپنا ذاتی تشخص باقی نہیں رہتا‘ یعنی کہ جب معاشرے کا کوئی فرد کسی بات کو محسوس کرتا ہے یا یہ فرد کوئی ارادہ کرتا ہے‘ درحقیقت اس کا معاشرہ محسوس کرتا ہے اور ارادہ کرتا ہے۔ اس طرح سے فرد کی معاشرے میں کوئی مستقل حیثیت کا حامل نہیں ہوتا‘ جبکہ حقیقت میں معاشرہ اپنے مقام پر ایک حقیقی ترکیب ہونے کے ساتھ ساتھ‘ فرد بھی اپنے استقلال اور تشخص کو اپنے معاشرے میں ایک متعین حد تک محفوظ رکھتا ہے‘ لہٰذا فرد اپنے معاشرے پر اثرانداز ہو سکتا ہے اور اسے تبدیل کر سکتا ہے (جبکہ ان کے نظریے کے مطابق فرد جو معاشرے میں ایک مجبور محض ہوتا ہے‘ ناممکن تمام معاشرے کو تبدیل کر سکے)۔ کیمیائی یا طبیعی ترکیب میں کوئی ناممکن الوجود حصہ تمام ترکیب کو مکمل طور پر بدل سکے‘ لیکن فرد معاشرے کے دھارے کا رخ بدل سکتا ہے اور معاشرے کے بہاؤ کے مخالف سمت میں بھی حرکت کر سکتا ہے‘ اسی طرح اس کے بہاؤ میں تیزی بھی لا سکتا ہے اور سستی بھی اور ایک بہاؤ کو روک بھی سکتا ہے اور نتیجتاً تاریخ کے دھارے کو بھی بدل سکتا ہے اور یہ وہی مسئلہ ہے کہ انسان آزادی اور اختیارات کا حامل ہے اور معاشرے کے جبر کے مقابلے میں اپنی‘ اس کی آزادی اور استقلال ایک حد تک محفوظ ہوتا ہے۔
انسانی ”انا“، ”خودی“، ”میں“ کے کئی مدارج ہیں
یہ بات واضح رہے کہ اس شخص کے کہنے کے مطابق کہ انسان اپنے اندر دو ”انائیں“ رکھتا ہے‘ درست نہیں ہے‘ یعنی ایک انفرادی اور ایک سماجی ”انا“۔ انسان کی انفرادی انا معاشرے کے مطابق تشکیل پاتی ہے‘ اس کی پرورش ہوتی ہے اور قالب میں ڈھلتی ہے‘ لیکن ساتھ ہی ساتھ اس کا استقلال‘ آزادی اور ذاتی تشخص کسی حد تک محفوظ رہتا ہے‘ لیکن انسان حقیقی طور پر دو ”اناؤں“ کا حامل نہیں ہو سکتا ہے‘ یعنی جب وہ جانثاری اور جانفشانی کرتا ہے‘ وہ کوئی اور ہے اور جب اپنا ذاتی کام کرتا ہے تو کوئی اور ”انا“ ہوتی ہے‘ یعنی یہ کہ اس میں دو ”انائیں“ وجود رکھتی ہوں‘ جب ہم اپنا ذاتی کام کرتے ہیں تو ہم اپنی ذاتی ضرورتیں پوری کر رہے ہوتے ہیں‘ مثلاً برائی کرتے ہیں‘ ظلم کرتے ہیں‘ اپنی ذات کو دوسرے پر مقدم کرتے ہیں۔ یہ سب باتیں وہ ”انا“ کرتی ہے جو ہمارے اندر موجود ہے اور جب ہم معاشرے کی خدمت میں مصروف ہوتے ہیں‘ جانثاری کرتے ہیں‘ احسان کرتے ہیں‘ اچھے کام کرتے ہیں‘ عبادت کرتے ہیں تو یہ سب کام ایک اور ”انا“ جو ہمارے اندر موجود ہے‘ کرتی ہے۔
یہ کیسی باتیں ہیں! ان مسائل کہ ان لوگوں نے لیبارٹریوں میں ثابت نہیں کیا ہے‘ یہ تمام مسائل استدلالی ہیں۔ انسان جب کوئی برائی کرتا ہے تو تھوڑی دیر بعد جب وہ کوئی اچھا اور نیکی کا کام انجام دیتا ہے‘ درحقیقت یہ دونوں کام ایک ہی انسان انجام دیتا ہے‘ یعنی یہ دونوں فعل ایک ہی انسان سے سرزد ہوتے ہیں‘ لہٰذا یہ ایک ہی شخص کے مختلف درجے ہیں‘ نہ کہ دو اشخاص کے۔ ایک ہی چیز کے کئی درجات ہوتے ہیں‘ مثال کے طور پر ایک درخت میں تنا ہوتا ہے اور اس کی کئی شاخیں اوپر کی جانب اور دائیں بائیں پھیلی ہوئی ہوتی ہیں‘ لیکن درحقیقت مجموعی طور پر ایک ہی چیز ہے‘ یقیناً ایک ہی کے مختلف درجات اور دو چیزوں کے درجات میں فرق ہے۔ نتیجتاً یہ بات واضح ہے کہ یہ تمام ”انائیں“ ایک ہی چیز کے مختلف درجات ہیں‘ نہ کہ کئی چیزوں کے۔
قرآن کا نظریہ
یہ وہ مقام ہے جہاں انسان کو قرآنی منطق کی گہرائی سمجھ آتی ہے۔ قرآن حکیم ان تمام تر مسائل کو اٹھائے تعبیر کہتا ہے:
”نفس امارہ“، ”نفس لوامہ“، ”نفس مطمئنہ“
فلسفی اس کو وحدت کثرت میں کثرت وحدت میں سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس بات کا کوئی وجود نہیں کہ انسان متعدد ”اناؤں“ کا حامل ہو‘ یعنی ایک کام نفس امارہ سے سرزد ہوتا ہو اور دوسرا کام نفس لوامہ انجام دیتی ہو اور تیسرا کام نفس مطمئنہ۔ حقیقت یہ نہیں بلکہ انسان جب اپنی عقل کے خلاف چلتا ہے یا اس کی حکم عدولی کر رہا ہوتا ہے تو ایسے موقع پر وہ انتہائی چھوٹے کام انجام دیتا ہے۔ ایسے موقع پر وہ نفس امارہ کے زیر فرمان ہوتا ہے‘ یہی نفس امارہ جب بلند تر درجے پر ہوتی ہے تو اس کی بصارت تیز ہو جاتی ہے اور زیادہ ہوشمند ہو جاتی ہے‘ یہاں پر وہ نفس لوامہ بن جاتی ہے‘ یعنی وہ خود ہی خود کو ملامت و سرزنش کرنے لگتی ہے۔ اس امر سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگر ان کے دو الگ الگ وجود ہوتے تو ملامت یا سرزنش بے معنی ہو جاتی ہے۔ اسی نفس نے برے فعل کا ارتکاب کیا‘ بعد میں اپنے آپ کو زیرعتاب قرار دیا (انسان جب بھی کسی موضوع پر گفتگو کرتا ہے تو یہ بات اس پر واضح ہو جاتی ہے کہ آخرکار قرآن اس کا حل پیش کر دیتا ہے)۔
اس طرح سے یہ نفس ایک وقت میں منصف‘ انصاف طلب اور ملزم بن جاتا ہے اور اپنے ہی خلاف فیصلے سنا دیتا ہے‘ نفس کا محاسبہ اسے ہی کہتے ہیں:
لا اقسم بیوم القیامة ولا اقسم بالنفس اللو امة
(قیامة‘ ۱‘ ۲)
”میں روز قیامت کی قسم کھاتا ہوں اور ملامت کرنے والے نفس کی قسم کھاتا ہوں۔“
یہ آیت روز قیامت کے باب میں آتی ہے‘ جس روز اللہ تعالیٰ لوگوں کا حساب کرے گا۔ اللہ نے انسان کو روح اور ضمیر کا ایک درجہ عطا کیا ہے‘ جس کے ذریعے انسان کا دنیا میں ہی حساب ہوتا رہتا ہے:
یا ایتھا النفس المطمئنة ارجعی الی ربک(فجر‘ ۲۷‘ ۲۸)
”اے نفس مطمئنہ! اپنے پروردگار کی طرف لوٹ جا۔“
ان تمام دلائل سے واضح ہوتا ہے‘ جس انسان کا ایک ہی وجود ہے اور ایک ہی ذات ہے‘ یہ تمام درجات و مراحل طے کرتا ہے۔ ”نفس امارہ“ وہی ”نفس لوامہ“ ہے اور ”نفس لوامہ“ وہی ”نفس مطمئنہ“ ہے‘ لیکن ان سب کے مدارج مختلف ہیں۔ اس کے مدارج میں توجہ‘ آگاہی ”تذکر“، ”یاددہانی“، ”صفای باطن“، حجابوں کا نہ ہونا اور ایمان و یقین کا زیادہ ہونا شامل ہے۔
خلاصہ
ڈورکہیم کا نظریہ جو ایک معاشرہ شناسی یا ”معاشرتی آگاہی“ کا نظریہ ہے‘ ایک نفسیات شناسی کا بھی نظریہ ہونے کے مدعی ہے۔ یہ بات درست نہیں ہے‘ انسان دو جداگانہ اور دو مستقل بالذات شخصیتوں کا حامل نہیں ہے‘ انسان میں ایک ہی ”انا“ ہے جو تمام متضاد کاموں کو بیک وقت انجام دیتی ہے‘ لہٰذا یہ بات کہ انسان میں دو ”انائیں“ ہیں‘ ایک ”انا“ اپنے آپ کو بھول گئی ہے اور وہ ”انا“ جو کام بعد میں انجام دیتی ہے وہ کوئی اور ”انا“ ہے اور جسے ذاتی انا کا ایک حصہ قرار دیا گیا ہے اور جس کا تعلق عالم ماوراء سے ہے‘ درست نہیں ہے۔ کسی بھی لحاظ سے اس شکل میں دو ”اناؤں“ کا وجود نہیں ہے۔
ثانیاً اگر آپ کی بات کو درست تسلیم کر لیا جائے تو مذہبی لوگوں اور دیندار طبقے کا شمار آپ کے قول کے مطابق زیادہ اپنے آپ سے بیگانہ‘ یعنی جو افراد اجتماعی روح یا جوہر سے غافل ہو چکے ہوں اور ان میں یہ روح مر چکی ہو اور ان میں اجتماعی اور سماجی احساس کم ہو تو‘ میں شمار ہونا چاہئے اور ایسے ہی لوگوں کو زیادہ دیندار اور مذہبی ہونا چاہئے‘ حالانکہ بات اس کے برعکس ہے‘ کیونکہ جو لوگ حقیقت میں مذہبی اور دیندار ہوتے ہیں‘ انہیں معاشرتی یا اجتماعی احساس دوسروں سے بدرجہا زیادہ ہوتا ہے۔ کیا حضرت علی علیہ السلام زیادہ دینی احساس رکھتے تھے یا معاویہ؟ کیا حضرت علی علیہ السلام زیادہ معاشرتی احساس نہیں رکھتے تھے کہ آپ فرماتے تھے‘ اگر میری مملکت کے کسی دور افتادہ حصے میں بھوکا ہو‘ مجھے اس کا رنج اور دکھ ہوتا ہے۔ کیا اس سے بھی زیادہ کوئی معاشرتی اور اجتماعی احساس کا حامل ہو سکتا ہے؟
و حسبک داء ان تبیت ببطنة
وحو لک اکباد تحن الی القد(نہج البلاغہ‘ خط ۴۵)
”تمہارے گرد کچھ لوگ شدید بھوک سے دوچار ہوں اور تم سیر ہو کر سو جاؤ!“
کیا امیرالمومنین(علی ) جن کے فرامین ایسے ہوں‘ زیادہ معاشرتی احساس رکھتے تھے یا معاویہ؟
یہی لوگ جن میں معاشرتی احساس شدت کے ساتھ پایا جاتا ہو‘ مذہبی اور دین دار ہوتے ہیں‘ چنانچہ جو لوگ اپنی سماجی ”انا“ کو بھول چکے ہوں اور صرف اپنی ذاتی انا میں محصور ہو چکے ہوں‘ کس طرح دوسروں پر اپنی فوقیت ظاہر کرتے ہیں؟ حقیقت تو یہ ہے جن لوگوں میں انسانی احساسات زیادہ ہوتے ہیں‘ وہی لوگ زیادہ مذہبی اور دیندار ہوتے ہیں۔ نتیجتاً وہ شخص جو دلیل پیش کر رہا ہے‘ اس کی خواہش دراصل یہ ہے کہ لادین افراد کو مزید مضبوط بنائے اور یہ وہ بات ہے جس کی بناء پر ان لادینی لوگوں نے رٹ لگا رکھی ہے‘ یعنی دین ختم ہوا‘ مذہب رخصت ہوا اور یہ دونوں روبہ زوال ہیں اور جیسا کہ نظر آ رہا ہے اور دنیا کے حالات سے بھی یہ پتہ چل رہا ہے کہ دین عنقریب رخصت ہو جائے گا‘ علم کی روشنی آنے کے بعد مذہب ختم ہو گیا‘ سماجی انصاف آنے کے بعد مذہب اضمحلال کا شکار ہو گیا… لیکن جیسا کہ دین و مذہب کے آثار سے ظاہر ہوتا ہے‘ ان کی باتیں غلط ثابت ہو رہی ہیں‘ ان کے اندازے غلط ثابت ہوتے نظر آ رہے ہیں‘ کیونکہ دین موجود ہے اور یہ لوگ مطمئن رہیں‘ ختم ہونے والی چیز نہیں‘ بلکہ باقی رہے گا۔ اب یہ لوگ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ دین باقی ہے اور ختم نہیں ہو سکتا‘ لیکن اس کی بنیادی الٰہی نہیں۔ آخر میں یہ بات کرتے ہیں کہ نظریات عمومی طور پر اور دین یا مذہب بالخصوص سماجی زندگی کے بنیادی مظاہر ہیں اور جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انسان اور علم کی ترقی کے بعد دین و مذہب کا خاتمہ ہو جائے گا‘ درحقیقت انہوں نے تو سماجی ساخت کو اور نہ ہی دینی نظریات کی ماہیت کو سمجھا ہے۔
یہ لوگ اس قسم کی دلیل پیش کرتے ہیں۔ ان سے یہ کہنا چاہئے کہ اگر آپ کی بات درست ہے تو ڈورکہیم کی معاشرہ شناسی یا معاشرتی آگاہی کی ترقی کے ساتھ ساتھ دوسرے ادیان کا خاتمہ ہو جانا چاہئے‘ کیونکہ ڈورکہیم کے کہنے کے مطابق مذہب پر اعتقاد ایک قسم کی جہالت ہے اور یہی بات فویرباخ نے بھی کہی تھی‘ لیکن اتنے فرق کے ساتھ کہ وہ انسان کے لئے انفرادیت کا قائل تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ انسان فطرتاً خوبیوں اور برائیوں کے ایک سلسلے کا حامل ہے اور چونکہ معاشرتی زندگی میں اپنے آپ کو بری سرشت میں زیادہ گرفتار پاتا ہے‘ تو وہ اپنی پاک اور نیک سرشت کو اپنے آپ سے جدا کرتا ہے اور اسے ایک خیالی اور فرضی چیز تصور کرنے لگتا ہے۔