فطرت ( استاد مرتضیٰ مطہری )

صرف علی

محفلین
اب ان صاحب نے جو مختلف اقوال و آراء نقل کی ہیں‘ جب اس نظریے کو نقل کرتے ہیں تو زیادہ رد نہیں کرتے‘ صرف اتنا کہتے ہیں کہ البتہ یہ نظریہ بھی شکوک و شبہات اور اعتراضات سے خالی نہیں ہے‘ لہٰذا ڈورکہیم کے پیروکاروں نے گویا اس کی اصلاح کر دی ہے (یعنی دورکہیم کے پیروکاروں کا اصلاح شدہ نظریہ غلطیوں سے پاک ہے)۔ تقریباً یہ وہ رائے ہے کہ جو خود ان صاحب نے انتخاب کی ہے اور اس سے انہوں نے نتیجہ بھی اخذ کیا ہے اور وہ نتیجہ یہ ہے کہ اس نظریے کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ دین کی پیدائش کا سبب جہالت ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جہالت کے دور ہونے سے دین ختم ہو جاتا ہے‘ کیونکہ علت کے خاتمے سے معلول کا خاتمہ ہو جاتا ہے‘ حالانکہ عملاً ایسا نہیں ہے‘ لہٰذا ثابت ہو گیا کہ یہ نظریہ باطل ہے۔ وہ نظریہ کہ جو کہتا ہے کہ ”دین کی پیدائش کا سبب طبیعی قوتوں کا خوف ہے“، اس کے مطابق جس دین طبیعی قوتوں سے انسان کا خوف ختم ہو جائے‘ دین کو بھی ختم ہو جانا چاہئے‘ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ عملاً ایسا نہیں ہے اور دین ختم نہیں ہوتا‘ غربت‘ امارت اور طبقاتی اختلاف کی بھی یہی صورت ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں بھی طبقات ختم ہو گئے ہیں اور مساوات قائم ہو گئی ہے‘ وہاں بھی دین ختم نہیں ہوتا‘ ایسے ممالک میں بھی یہ معرکہ اب بھی موجود ہے‘ جبکہ ان ممالک میں جہاں نام نہاد مساوات قائم ہو گئی ہے‘ پھر بھی وہ پریشان ہیں کہ دین کے خلاف پیکار کیسے کی جائے؟ پھر بھی آپ دیکھ رہے ہیں کہ روز بروز جوانوں کا دین کی طرف رجحان اور زیادہ ہوتا جا رہا ہے‘ یہاں تک خود روسیوں کے بقول روس میں بھی۔ لیکن اگر اس نظریے کو منتخب کریں تو ایسا نہیں ہے‘ یہ ایک ایسا اصول ہے جو ہمیشہ انسان کے ساتھ ہے۔ مذہب کی بنیاد یہی ہے اور اسی دلیل کی بناء پر یہ انسانی معاشرے سے ختم نہیں ہوگا‘ لہٰذا یہ وہ واحد نظریہ ہے کہ جو مذہب کے لئے کسی ماورائی و الٰہی بنیاد کا قائل نہیں اور اس کے باوجود اس امر کا اعتراف کرتا ہے کہ مذہب ختم ہونے والی چیز نہیں‘ ایسی بات کی جاتی ہے اور یہ بھی ایک بے بنیاد بات ہے۔
ڈورکہیم کے نظریے کا تنقیدی جائزہ
اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ معاشرہ ایک حقیقی اکائی ہے‘ نہ کہ اعتباری۔ ”تفسیرالمیزان“ میں بھی اور مختلف جگہوں پر اس امر پر گفتگو کی گئی ہے کہ معاشرہ ایک وحدت رکھتا ہے اور اپنی ایک مخصوص انداز زندگی کا حامل ہے اور چونکہ اس کی اپنی ایک وحدت اور مخصوص حیات ہے‘ لہٰذا اس کی ایک موت بھی ہے۔ اس میں قوت ہوتی ہے‘ ضعف ہوتا ہے‘ ایک مشترک انجام ہوتا ہے‘ وغیرہ۔ ایک کتابچہ کہ جو حال ہی میں‘ میں نے ”قیام و انقلاب مہدی علیہ السلام از دیدگاہ فلسفہ تاریخ“ (امام زمانہ کے قیام کے بارے میں فلسفہ تاریخ کا نظریہ) کے نام سے شائع کیا ہے‘ میں نے کچھ اس مسئلے کی طرف مختلف مقامات پر اشارہ کیا ہے۔ تفصیل اس لئے نہیں دی‘ چونکہ یہ چھوٹا سا کتابچہ ہے وہاں بھی میں نے حاشیے میں تفسیرالمیزان کی طرف رجوع کرنے کو کہا ہے۔ قرآن میں اس طرح کی تعبیرات ہیں:
لکل امة احل‘ اذا جاء اجلھم فلا یستاخرون ساعة ولا یستقدمون(یونس‘ ۴۹)
”ہر امت کے لئے موت کا ایک وقت مقرر ہے‘ جب وہ وقت آ جاتا ہے تو ایک گھڑی بھی دیر نہیں کر سکتے اور نہ جلدی کر سکتے ہیں۔“
قرآن بنیادی طور پر اپنے کسی حکم کا پوری قوم پر اطلاق کرتا ہے‘ مثلاً بعض اقوام فلاں راستے پر تھیں اور ایسی تھیں اور ہم نے انہیں ہلاک کر دیا‘ قرآنی نکتہ نگاہ سے مختلف اقوام کا اپنے اپنے لحاظ سے کوئی نہ کوئی انجام ہوتا ہے‘ یعنی سب کا انجام ایک جیسا ”مشترک“ نہیں ہوتا‘ لہٰذا اگر کسی قوم کے درمیان کوئی نیک گروہ موجود ہو‘ تو وہ اپنی قوم پر اثرانداز نہیں ہو سکتی اور اس مسئلہ کو اگر معکوس انداز میں لیں‘ اس کا بھی مصداق ایسا ہی ہو گا۔ اب چونکہ قوم اور ملت ایک ہی سمجھی جاتی ہے تو اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ معاشرہ یا سماج ایک حقیقی نہ کہ اعتباری اکائی ہے۔
مذکورہ نظریے کے بارے میں جو کچھ اب تک بیان کیا گیا‘ مکمل طور پر درست ہے‘ لیکن معاشرے کی ساخت و ترکیب کی کیا نوعیت ہے؟ ہم نے اس موضوع پر جو بحث کی تھی‘ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ انسانی معاشرے کی ساخت و ترکیب تیسری نوعیت کی ہے‘ یعنی نہ تو اس کی اعتباری ترکیب ہے‘ کیونکہ واقعاً وہ ایک حقیقی ترکیب ہے اور نہ ہی اس کی کیمیائی یا طبیعی ترکیب ہے‘ کیونکہ ان دونوں ترکیبوں میں اکائیوں کا تشخص کسی صورت میں مستقل نہیں ہوتا اور یہ امر ناممکنات میں ہے‘ جبکہ معاشرے میں افراد کے تشخص کا باقی رہنا‘ اس حد تک ناممکن نہیں ہے‘ جبکہ ڈورکہیم اور وہ لوگ جو اس حد تک اجتماعی اصالت (یعنی معاشرے کو بنیاد سمجھتا نہ کہ فرد کو) کے نظریے کے قائل ہیں‘ کے مطابق ایسی صورت میں فرد کا معاشرے میں کوئی اپنا ذاتی تشخص باقی نہیں رہتا‘ یعنی کہ جب معاشرے کا کوئی فرد کسی بات کو محسوس کرتا ہے یا یہ فرد کوئی ارادہ کرتا ہے‘ درحقیقت اس کا معاشرہ محسوس کرتا ہے اور ارادہ کرتا ہے۔ اس طرح سے فرد کی معاشرے میں کوئی مستقل حیثیت کا حامل نہیں ہوتا‘ جبکہ حقیقت میں معاشرہ اپنے مقام پر ایک حقیقی ترکیب ہونے کے ساتھ ساتھ‘ فرد بھی اپنے استقلال اور تشخص کو اپنے معاشرے میں ایک متعین حد تک محفوظ رکھتا ہے‘ لہٰذا فرد اپنے معاشرے پر اثرانداز ہو سکتا ہے اور اسے تبدیل کر سکتا ہے (جبکہ ان کے نظریے کے مطابق فرد جو معاشرے میں ایک مجبور محض ہوتا ہے‘ ناممکن تمام معاشرے کو تبدیل کر سکے)۔ کیمیائی یا طبیعی ترکیب میں کوئی ناممکن الوجود حصہ تمام ترکیب کو مکمل طور پر بدل سکے‘ لیکن فرد معاشرے کے دھارے کا رخ بدل سکتا ہے اور معاشرے کے بہاؤ کے مخالف سمت میں بھی حرکت کر سکتا ہے‘ اسی طرح اس کے بہاؤ میں تیزی بھی لا سکتا ہے اور سستی بھی اور ایک بہاؤ کو روک بھی سکتا ہے اور نتیجتاً تاریخ کے دھارے کو بھی بدل سکتا ہے اور یہ وہی مسئلہ ہے کہ انسان آزادی اور اختیارات کا حامل ہے اور معاشرے کے جبر کے مقابلے میں اپنی‘ اس کی آزادی اور استقلال ایک حد تک محفوظ ہوتا ہے۔
انسانی ”انا“، ”خودی“، ”میں“ کے کئی مدارج ہیں
یہ بات واضح رہے کہ اس شخص کے کہنے کے مطابق کہ انسان اپنے اندر دو ”انائیں“ رکھتا ہے‘ درست نہیں ہے‘ یعنی ایک انفرادی اور ایک سماجی ”انا“۔ انسان کی انفرادی انا معاشرے کے مطابق تشکیل پاتی ہے‘ اس کی پرورش ہوتی ہے اور قالب میں ڈھلتی ہے‘ لیکن ساتھ ہی ساتھ اس کا استقلال‘ آزادی اور ذاتی تشخص کسی حد تک محفوظ رہتا ہے‘ لیکن انسان حقیقی طور پر دو ”اناؤں“ کا حامل نہیں ہو سکتا ہے‘ یعنی جب وہ جانثاری اور جانفشانی کرتا ہے‘ وہ کوئی اور ہے اور جب اپنا ذاتی کام کرتا ہے تو کوئی اور ”انا“ ہوتی ہے‘ یعنی یہ کہ اس میں دو ”انائیں“ وجود رکھتی ہوں‘ جب ہم اپنا ذاتی کام کرتے ہیں تو ہم اپنی ذاتی ضرورتیں پوری کر رہے ہوتے ہیں‘ مثلاً برائی کرتے ہیں‘ ظلم کرتے ہیں‘ اپنی ذات کو دوسرے پر مقدم کرتے ہیں۔ یہ سب باتیں وہ ”انا“ کرتی ہے جو ہمارے اندر موجود ہے اور جب ہم معاشرے کی خدمت میں مصروف ہوتے ہیں‘ جانثاری کرتے ہیں‘ احسان کرتے ہیں‘ اچھے کام کرتے ہیں‘ عبادت کرتے ہیں تو یہ سب کام ایک اور ”انا“ جو ہمارے اندر موجود ہے‘ کرتی ہے۔
یہ کیسی باتیں ہیں! ان مسائل کہ ان لوگوں نے لیبارٹریوں میں ثابت نہیں کیا ہے‘ یہ تمام مسائل استدلالی ہیں۔ انسان جب کوئی برائی کرتا ہے تو تھوڑی دیر بعد جب وہ کوئی اچھا اور نیکی کا کام انجام دیتا ہے‘ درحقیقت یہ دونوں کام ایک ہی انسان انجام دیتا ہے‘ یعنی یہ دونوں فعل ایک ہی انسان سے سرزد ہوتے ہیں‘ لہٰذا یہ ایک ہی شخص کے مختلف درجے ہیں‘ نہ کہ دو اشخاص کے۔ ایک ہی چیز کے کئی درجات ہوتے ہیں‘ مثال کے طور پر ایک درخت میں تنا ہوتا ہے اور اس کی کئی شاخیں اوپر کی جانب اور دائیں بائیں پھیلی ہوئی ہوتی ہیں‘ لیکن درحقیقت مجموعی طور پر ایک ہی چیز ہے‘ یقیناً ایک ہی کے مختلف درجات اور دو چیزوں کے درجات میں فرق ہے۔ نتیجتاً یہ بات واضح ہے کہ یہ تمام ”انائیں“ ایک ہی چیز کے مختلف درجات ہیں‘ نہ کہ کئی چیزوں کے۔
قرآن کا نظریہ
یہ وہ مقام ہے جہاں انسان کو قرآنی منطق کی گہرائی سمجھ آتی ہے۔ قرآن حکیم ان تمام تر مسائل کو اٹھائے تعبیر کہتا ہے:
”نفس امارہ“، ”نفس لوامہ“، ”نفس مطمئنہ“
فلسفی اس کو وحدت کثرت میں کثرت وحدت میں سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس بات کا کوئی وجود نہیں کہ انسان متعدد ”اناؤں“ کا حامل ہو‘ یعنی ایک کام نفس امارہ سے سرزد ہوتا ہو اور دوسرا کام نفس لوامہ انجام دیتی ہو اور تیسرا کام نفس مطمئنہ۔ حقیقت یہ نہیں بلکہ انسان جب اپنی عقل کے خلاف چلتا ہے یا اس کی حکم عدولی کر رہا ہوتا ہے تو ایسے موقع پر وہ انتہائی چھوٹے کام انجام دیتا ہے۔ ایسے موقع پر وہ نفس امارہ کے زیر فرمان ہوتا ہے‘ یہی نفس امارہ جب بلند تر درجے پر ہوتی ہے تو اس کی بصارت تیز ہو جاتی ہے اور زیادہ ہوشمند ہو جاتی ہے‘ یہاں پر وہ نفس لوامہ بن جاتی ہے‘ یعنی وہ خود ہی خود کو ملامت و سرزنش کرنے لگتی ہے۔ اس امر سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگر ان کے دو الگ الگ وجود ہوتے تو ملامت یا سرزنش بے معنی ہو جاتی ہے۔ اسی نفس نے برے فعل کا ارتکاب کیا‘ بعد میں اپنے آپ کو زیرعتاب قرار دیا (انسان جب بھی کسی موضوع پر گفتگو کرتا ہے تو یہ بات اس پر واضح ہو جاتی ہے کہ آخرکار قرآن اس کا حل پیش کر دیتا ہے)۔
اس طرح سے یہ نفس ایک وقت میں منصف‘ انصاف طلب اور ملزم بن جاتا ہے اور اپنے ہی خلاف فیصلے سنا دیتا ہے‘ نفس کا محاسبہ اسے ہی کہتے ہیں:
لا اقسم بیوم القیامة ولا اقسم بالنفس اللو امة
(قیامة‘ ۱‘ ۲)
”میں روز قیامت کی قسم کھاتا ہوں اور ملامت کرنے والے نفس کی قسم کھاتا ہوں۔“
یہ آیت روز قیامت کے باب میں آتی ہے‘ جس روز اللہ تعالیٰ لوگوں کا حساب کرے گا۔ اللہ نے انسان کو روح اور ضمیر کا ایک درجہ عطا کیا ہے‘ جس کے ذریعے انسان کا دنیا میں ہی حساب ہوتا رہتا ہے:
یا ایتھا النفس المطمئنة ارجعی الی ربک(فجر‘ ۲۷‘ ۲۸)
”اے نفس مطمئنہ! اپنے پروردگار کی طرف لوٹ جا۔“
ان تمام دلائل سے واضح ہوتا ہے‘ جس انسان کا ایک ہی وجود ہے اور ایک ہی ذات ہے‘ یہ تمام درجات و مراحل طے کرتا ہے۔ ”نفس امارہ“ وہی ”نفس لوامہ“ ہے اور ”نفس لوامہ“ وہی ”نفس مطمئنہ“ ہے‘ لیکن ان سب کے مدارج مختلف ہیں۔ اس کے مدارج میں توجہ‘ آگاہی ”تذکر“، ”یاددہانی“، ”صفای باطن“، حجابوں کا نہ ہونا اور ایمان و یقین کا زیادہ ہونا شامل ہے۔
خلاصہ
ڈورکہیم کا نظریہ جو ایک معاشرہ شناسی یا ”معاشرتی آگاہی“ کا نظریہ ہے‘ ایک نفسیات شناسی کا بھی نظریہ ہونے کے مدعی ہے۔ یہ بات درست نہیں ہے‘ انسان دو جداگانہ اور دو مستقل بالذات شخصیتوں کا حامل نہیں ہے‘ انسان میں ایک ہی ”انا“ ہے جو تمام متضاد کاموں کو بیک وقت انجام دیتی ہے‘ لہٰذا یہ بات کہ انسان میں دو ”انائیں“ ہیں‘ ایک ”انا“ اپنے آپ کو بھول گئی ہے اور وہ ”انا“ جو کام بعد میں انجام دیتی ہے وہ کوئی اور ”انا“ ہے اور جسے ذاتی انا کا ایک حصہ قرار دیا گیا ہے اور جس کا تعلق عالم ماوراء سے ہے‘ درست نہیں ہے۔ کسی بھی لحاظ سے اس شکل میں دو ”اناؤں“ کا وجود نہیں ہے۔
ثانیاً اگر آپ کی بات کو درست تسلیم کر لیا جائے تو مذہبی لوگوں اور دیندار طبقے کا شمار آپ کے قول کے مطابق زیادہ اپنے آپ سے بیگانہ‘ یعنی جو افراد اجتماعی روح یا جوہر سے غافل ہو چکے ہوں اور ان میں یہ روح مر چکی ہو اور ان میں اجتماعی اور سماجی احساس کم ہو تو‘ میں شمار ہونا چاہئے اور ایسے ہی لوگوں کو زیادہ دیندار اور مذہبی ہونا چاہئے‘ حالانکہ بات اس کے برعکس ہے‘ کیونکہ جو لوگ حقیقت میں مذہبی اور دیندار ہوتے ہیں‘ انہیں معاشرتی یا اجتماعی احساس دوسروں سے بدرجہا زیادہ ہوتا ہے۔ کیا حضرت علی علیہ السلام زیادہ دینی احساس رکھتے تھے یا معاویہ؟ کیا حضرت علی علیہ السلام زیادہ معاشرتی احساس نہیں رکھتے تھے کہ آپ فرماتے تھے‘ اگر میری مملکت کے کسی دور افتادہ حصے میں بھوکا ہو‘ مجھے اس کا رنج اور دکھ ہوتا ہے۔ کیا اس سے بھی زیادہ کوئی معاشرتی اور اجتماعی احساس کا حامل ہو سکتا ہے؟
و حسبک داء ان تبیت ببطنة
وحو لک اکباد تحن الی القد(نہج البلاغہ‘ خط ۴۵)
”تمہارے گرد کچھ لوگ شدید بھوک سے دوچار ہوں اور تم سیر ہو کر سو جاؤ!“
کیا امیرالمومنین(علی ) جن کے فرامین ایسے ہوں‘ زیادہ معاشرتی احساس رکھتے تھے یا معاویہ؟
یہی لوگ جن میں معاشرتی احساس شدت کے ساتھ پایا جاتا ہو‘ مذہبی اور دین دار ہوتے ہیں‘ چنانچہ جو لوگ اپنی سماجی ”انا“ کو بھول چکے ہوں اور صرف اپنی ذاتی انا میں محصور ہو چکے ہوں‘ کس طرح دوسروں پر اپنی فوقیت ظاہر کرتے ہیں؟ حقیقت تو یہ ہے جن لوگوں میں انسانی احساسات زیادہ ہوتے ہیں‘ وہی لوگ زیادہ مذہبی اور دیندار ہوتے ہیں۔ نتیجتاً وہ شخص جو دلیل پیش کر رہا ہے‘ اس کی خواہش دراصل یہ ہے کہ لادین افراد کو مزید مضبوط بنائے اور یہ وہ بات ہے جس کی بناء پر ان لادینی لوگوں نے رٹ لگا رکھی ہے‘ یعنی دین ختم ہوا‘ مذہب رخصت ہوا اور یہ دونوں روبہ زوال ہیں اور جیسا کہ نظر آ رہا ہے اور دنیا کے حالات سے بھی یہ پتہ چل رہا ہے کہ دین عنقریب رخصت ہو جائے گا‘ علم کی روشنی آنے کے بعد مذہب ختم ہو گیا‘ سماجی انصاف آنے کے بعد مذہب اضمحلال کا شکار ہو گیا… لیکن جیسا کہ دین و مذہب کے آثار سے ظاہر ہوتا ہے‘ ان کی باتیں غلط ثابت ہو رہی ہیں‘ ان کے اندازے غلط ثابت ہوتے نظر آ رہے ہیں‘ کیونکہ دین موجود ہے اور یہ لوگ مطمئن رہیں‘ ختم ہونے والی چیز نہیں‘ بلکہ باقی رہے گا۔ اب یہ لوگ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ دین باقی ہے اور ختم نہیں ہو سکتا‘ لیکن اس کی بنیادی الٰہی نہیں۔ آخر میں یہ بات کرتے ہیں کہ نظریات عمومی طور پر اور دین یا مذہب بالخصوص سماجی زندگی کے بنیادی مظاہر ہیں اور جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انسان اور علم کی ترقی کے بعد دین و مذہب کا خاتمہ ہو جائے گا‘ درحقیقت انہوں نے تو سماجی ساخت کو اور نہ ہی دینی نظریات کی ماہیت کو سمجھا ہے۔
یہ لوگ اس قسم کی دلیل پیش کرتے ہیں۔ ان سے یہ کہنا چاہئے کہ اگر آپ کی بات درست ہے تو ڈورکہیم کی معاشرہ شناسی یا معاشرتی آگاہی کی ترقی کے ساتھ ساتھ دوسرے ادیان کا خاتمہ ہو جانا چاہئے‘ کیونکہ ڈورکہیم کے کہنے کے مطابق مذہب پر اعتقاد ایک قسم کی جہالت ہے اور یہی بات فویرباخ نے بھی کہی تھی‘ لیکن اتنے فرق کے ساتھ کہ وہ انسان کے لئے انفرادیت کا قائل تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ انسان فطرتاً خوبیوں اور برائیوں کے ایک سلسلے کا حامل ہے اور چونکہ معاشرتی زندگی میں اپنے آپ کو بری سرشت میں زیادہ گرفتار پاتا ہے‘ تو وہ اپنی پاک اور نیک سرشت کو اپنے آپ سے جدا کرتا ہے اور اسے ایک خیالی اور فرضی چیز تصور کرنے لگتا ہے۔
 

صرف علی

محفلین
باب دہم

دین کی پیدائش کے بارے میں قرآنی نظریہ​
متعدد نشستوں میں ہم نے اس سلسلے میں گفتگو کی ہے کہ مذہبی عمرانیات کے لحاظ سے انسان کے دین و مذہب کی طرف رجحان یا دین و مذہب کی پیدائش کے بارے میں مختلف نظریات کیا ہیں؟ خاص طور پر ان حضرات کی باتوں کی روشنی میں ایک چیز واضح ہوتی ہے کہ جس نے بھی جو کچھ کہا ہے وہ چند مفروضوں کے علاوہ کچھ نہیں یعنی ان میں سے ہر ایک کی علمی لحاظ سے حیثیت زیادہ سے زیادہ ایک مفروضے کی ہے۔
کسی ایسے نظریے کی حیثیت نہیں کہ جو ایک مفروضے کے بعد ثابت ہو چکا ہو۔ نظریے اور مفروضے میں فرق ہے کبھی انسان کسی چیز کے بارے میں ایک فرض کرتا ہے یعنی اسے اس کا احتمال ہوتا ہے یہ احتمال پہلے مرحلے میں ایک عنوان کے طور پر ہوتا ہے تاکہ بعدازاں ہم دیکھیں کہ کیا دلائل اس کی تائید کرتے ہیں یا نہیں لیکن نظریہ جب ہوتا ہے کہ دلائل بھی اس کی تائید کریں بذات خود مفروضوں کا مختلف ہونا اس امر پر دلیل ہے کہ یہ نظریہ نہیں ہے۔ علاوہ ازیں ہم نے دیکھا ہے کہ کسی نے بھی اپنی بات کی تائید میں کوئی دلیل ذکر نہیں کی جس کا یہ کہنا ہے کہ انسان اپنی ذات میں ایک طرح کی دوگانگی رکھتا ہے۔ ایک اس کا وجود عالی و متعالی ہے اور ایک وجود دنی و پست آہستہ آہستہ وہ اپنے عالی وجود سے غافل ہو جاتا ہے اور جو کچھ اس کے لئے اپنے آپ میں ہوتا ہے اسے اپنے سے غیر کی طرف نسبت دیتا ہے۔ اس نظریے کے حامل سے ہم کہتے ہیں کہ آپ کے پاس اس کی کیا دلیل ہے؟ اس کی حیثیت ایک مفروضے سے بڑھ کر کچھ نہیں بلکہ ہم نے دیکھا ہے کہ دلیل اس کے برخلاف موجود ہے۔ ہماری ایک دلیل کہ جس سے ہم ہمیشہ استثناء کرتے ہیں یہ ہے کہ دین کے طرفدار و حامی یعنی دین کی طرف رجحان رکھنے والے کن گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں؟ کیا یہ ایسے لوگ ہیں طبیعتاً ابتدائی ساخت سرشت آپ اس کا جو بھی نام رکھیں کے لحاظ سے نحیف و شریف ہیں؟ یا کیا ایسے لوگ کہ جو اپنی بزرگی اور مقام کا احساس رکھتے ہیں وہ دین کی طرف بالکل توجہ نہیں کرتے صرف وہ لوگ جو اپنی حیثیت و مقام گنوا چکے ہیں اور فراموش کر چکے ہیں دین کی طرف متوجہ ہوتے ہیں؟ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض یہ اعتراض کرتے ہیں اور یہ اعتراض بھی ایک بات ہی ہے کہ آپ جنہیں دیکھتے ہیں کہ وہ ”مومن“ ہیں۔ یہ اس قدر پاک لوگ ہیں کہ دین نے انہیں یوں پاکیزہ نہیں بنایا یہ تو پہلے ہی پاک تھے بعد میں دین کی طرف آئے ہیں۔ اگر کوئی اس طرح سے اعتراض کرے تو قبولیت سے کچھ نزدیک تر ہے اس صورت کے مقابلے میں کہ کہا جائے کہ جو افراد پاکیزگی مقام و شرافت اور دیگر تمام خوبیوں کے حامل ہوتے ہیں اور انہیں فراموش کر دیتے ہیں اور چونکہ انہیں گنوا بیٹھتے ہیں ان بزرگیوں اور خوبیوں کو کسی اور طرف منسوب کر دیتے کہ جسے خدا کہتے ہیں۔ لہٰذا آپ دیکھیں کہ قرآن کے لطیف نکات کیسے ہیں ایک مسئلہ زیر سوال ہے۔ زیادہ تر کہتے ہیں کہ قرآن ایسا کیوں کہتا ہے کہ
ذلک الکتاب لا ریب فیہ ھدی للمتقین
”یہ ایسی کتاب ہے کہ اس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں متقیوں کے لئے ہدایت ہے۔“
اور ایسی آیات قرآن میں بے شمار ہیں یہ متقیوں کے لئے ہدایت ہے۔ سوال کیا جاتا ہے کہ اس جگہ پر فرض کیا گیا ہے پہلے لوگ متقی ہیں بعد میں قرآن متقیوں کو ہدایت کرتا ہے۔
یا سورئہ مبارکہ ”یس“ میں ہے:
یس۔ والقرآن الحکیم۔ انک لمن المرسلین۔ علی صراط مستقیم۔ تنزیل العزیز الرحیم۔ لتنذرہ فوما ما انذر آباؤ ھم فہم غافلون۔ انما تنذر من اتبع الذکر وحشی الرحمن بالغیب(یس ۱۔۱۱)
میرا مقصود آخری آیت ہے اس کا جواب دیا گیا ہے:
”تم تو بس اس شخص کو ڈرا سکتے ہو جو نصیحت مانے اور بے دیکھے خدا کا خوف رکھے۔“
میرا خیال ہے کہ تفسیرالمیزان میں بھی یہ بات ہے کہ انسانوں کے لئے دو طرح کی ہدایت ہے ہدایت فطری اور ہدایت اکتسابی۔ قرآن کہنا چاہتا ہے کہ جب تک کسی کی ہدایت فطری کی قندیل روشن نہ ہو تو ہدایت اکتسابی کا اس کے لئے کوئی فائدہ نہیں۔ اس کا مطلب درحقیقت یہی ہے کہ جب تک کسی شخص کی فطری انسانیت موجود نہ ہو (انبیاء کی تعلیمات کا اس کیلئے) کوئی فائدہ نہیں یعنی انبیاء کی تعلیمات مسخ شدہ افراد اور اپنی انسانیت گنوائے بیٹھے لوگوں کے لئے مفید نہیں۔ یہ بات ان کے نظریے کے بالکل برعکس ہے تجربے اور واقعیت نے بھی یہی بات ثابت کی ہے۔ مثلاً سورئہ ماعون سے میں نے اخذ کیا:
ار ایت الذی یکذب بالدین(الماعون ۱)
”کیا تو نے اس شخص کو دیکھا کہ جو دین کو جھٹلاتا ہے۔“
پہلے تو تعجب کی صورت میں بات کی گئی ہے کہ انسان انسان ہو اور دین کو جھٹلائے؟ اس کے بعد اس کی علامات بیان کی گئی ہیں کہ چونکہ یہ شخص انسانیت سے نکل گیا ہے اس لئے دین کی تکذیب کرتا ہے:
فذ لک الذی یدع الیتیم(الماعون ۲)
”یہی وہ شخص ہے کہ جو یتیم کو دھتکارتا ہے۔“
یعنی یہ امر انسانیت کی شرط ہے اور انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ انسان کو یتیم سے ہمدردی ہو:
ولا یحض علی طعام المسکین(الماعون ۳)
”یہی وہ شخص ہے کہ جو مسکین کو کھلانے اور بھوکوں کو سیر کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔“
اس میں تاکید و ترغیب نہیں ہے یعنی اس نے پہلے اپنی انسانیت گنوا دی ہے اور جو شخص اپنی انسانیت گنوا بیٹھے لازمی طور پر اپنی اسلامیت بھی پہلے ہی گنوا بیٹھا ہے یعنی اب وہ ایک معمول کا انسان نہیں ہے ایک مسخ شدہ انسان ہے۔ ہم اصل موضوع سے ایک بار پھر دور ہو گئے ہیں میں عرض کرنا چاہتا تھا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ ان کی باتیں نہ صرف بے دلیل مفروضے ہیں بلکہ ایسے مفروضے ہیں کہ دلیل ہمیشہ ان کے خلاف ہوتی ہے۔ کمیونسٹوں کا مفروضہ کہ ”دین استعماری طبقے کی ایجاد ہے“ مکمل طور پر تصورات پر مبنی ایک مفروضہ ہے۔ اس کی بھی کوئی دلیل نہیں ہے تاریخی اور موجودہ حقائق اس کی مکمل طور پر نفی کرتے ہیں اور سب دلیلیں اس کے خلاف ہیں۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ دین کی اساس اور بنیاد کے بارے میں قرآن کا نظریہ کیا ہے؟ کبھی ہم دین کو اس حوالے سے دیکھتے ہیں کہ یہ انبیاء کی طرف سے عوام کے سامنے پیش کیا گیا ہے؟ واضح ہے کہ اس کی اساس اور سرچشمہ وحی ہے لیکن کیا اس وحی کی اساس اور سرچشمہ بھی انسانوں کے اندر موجود ہے؟ جبکہ یہ وحی کچھ معارف کو معارف دین کے طور پر پیش کرتی ہے اخلاق اور نظام تربیت کو پیش کرتی ہے قانون اور قاعدے کو پیش کرتی ہے اور مجموعی طور پر یہی وحی انسانی فکر و عمل کے ایک راستے کا تعین کرتی ہے۔
قرآن کی خصوصی تعلیمات سے قطع نظر یہ امر طبیعت دین کے خلاف نہیں کہ کوئی یہ کہے کہ دین فقط ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ نے وحی کے ذریعے انسان کے سامنے پیش کیا لیکن اس کے پیش کئے جانے سے پہلے انسان دین اور لادینی کے بارے میں ایک لاپرواہی اور لاتعلقی کی حالت میں تھا۔
ہم کہہ چکے ہیں کہ اس صورت میں انسان کی مثال ایک دیوار کی سی ہو جائے گی جیسے ایک سفید صفحہ اور ایک کورے کاغذ کا تعلق ان نقوش سے ہوتا ہے کہ جو اس پر کھینچے جاتے ہیں اس لحاظ سے کہ اس کاغذ کی حالت ایک قابلیت و امکان کی ہے گویا وہ لاتعلق ہوتا ہے۔ اس کاغذ میں یہ استعداد اور قابلیت ہے کہ کچھ اس پر لکھا جائے یا اس پر کچھ نہ لکھا جائے یعنی لکھا جانا اور نہ لکھا جانا اس کے لئے برابر ہے۔ اب جو کچھ دیکھا جائے چاہے وہ قرآنی آیت یا خلاف قرآن کوئی چیز ہو کاغذ کے لئے مساوی ہے۔ ہو سکتا ہے کوئی یہ کہے کہ انسان اپنی سرشت کے اعتبار سے دین کے لئے صرف ایک امکانی حالت اور ایک لاتعلقی کی کیفیت کا حامل ہے۔
اللہ نے صرف انبیاء کو مبعوث کیا وہ آئے اور انہوں نے اس دین کی لوگوں کو دعوت دی کہ جس کے بارے میں وہ لاتعلقی کی کیفیت کے حامل تھے اگر کوئی یہ بات کرے تو اس کے بارے میں ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ منکر ادیان ہو گیا ہے یہ بھی ایک بحث ہے۔
لیکن دوسرا نظریہ یہ ہے کہ انبیاء نے جو کچھ پیش کیا ہے ایسی چیز نہیں کہ جس کے بارے میں انسان لاتعلقی کی حالت میں تھا اور ایک مساوی کیفیت کا حامل تھا بلکہ یہ ایک ایسی چیز ہے کہ جس کی آرزو انسان کی سرشت اور ذات کے اندر موجود ہے یعنی اس کی طلب اس کی خواہش اور اس کی جستجو انسانی طبیعت اور سرشت میں موجود ہے۔ اس صورت میں انبیاء کی حیثیت ایک باغبان کی سی ہو جائے گی کہ جو کسی پھول یا پودے کی پرورش کرتا ہے کہ خود اس پودے یا پھول میں ایک صلاحیت یعنی ایک خاص چیز کی طلب موجود ہے۔ اگر خوبانی کی گُٹھلیکو زمین میں بویا جائے تو یہ کھجور خوبانی یا آلوبخارا بننے سے لاتعلق نہیں ہوتی۔ باغبان کے ہاتھ میں اختیار نہیں ہے کہ آ کر خوبانی یا آلوبخارا یا کھجور بنا لے ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ جو کچھ چاہے بنا لے۔
انسان کے اندر بھی خواہش اور آرزو اور طلب کے معنی میں ایک فطرت موجود ہے انبیاء کی مبعث ایسی ضرورت کا جواب ہے کہ جو انسانی سرشت میں موجود ہے۔ درحقیقت انسان اپنی سرشت کے لحاظ سے جس چیز کی جستجو میں تھا اور ہے اور رہے گا وہی چیز انبیاء نے اس کے سامنے پیش کر دی ہے اور پیش کرتے ہیں یہی فطرت کا معنی ہے۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا معارف اسلامی میں مسئلہ فطرت کی طرف کوئی صراحت یا اشارہ موجود ہے یا نہیں؟ اس میں شک نہیں کہ اسلام میں فطرت کا مسئلہ بڑے شد و مد سے ذکر کیا گیا ہے البتہ فطرت کی تعبیر میں ممکن ہے کہ علماء کے استنباطات مختلف اور متعدد ہوں مگر اس اصل نظریے میں علماء اسلام میں چاہے وہ شیعہ ہوں یا سنی کوئی اختلاف نہیں کہ فطرت کا کہ جسے فطرت دین فطرت اسلامیت فطرت توحید غرض مختلف ناموں سے تعبیر کیا جا سکتا ہے انسانی سرشت میں موجود نہیں۔ اب ہم اس کی طرف کچھ اشارہ کرتے ہیں:
ان میں سے ایک وہی سورئہ مبارکہ روم کی مشہور آیت فطرت ہے:
فاقم و جھک للدین حنیفا
”اپنا رخ مضبوطی سے دین کی طرف کر لے۔“
یعنی دین کو مضبوط رکھ اسے پائیدار رکھ اپنی توجہ اس کی طرف رکھ ”حنیفاً“ یعنی حنیف ہونے کی حالت میں ہم کہہ چکے ہیں کہ شاید ”حنیف“ کا نزدیک ترین ترجمہ ہے ”حق کی طرف رجحان رکھنے والا“ یعنی اس حالت میں کہ تو مائل بہ حق اور مائل بہ حقیقت ہو:
فطرة اللہ التی فطر الناس علیھا
یعنی تجھے فطرت الٰہی عطا کی گئی ہے یعنی یہی دین تجھے دیا گیا ہے کہ جو فطرت الٰہی ہے۔ یہ خلقت (ہم کہہ چکے ہیں کہ فطرت سے مراد ایک خاص طرح کی خلقت ہے) یہ دین تخلیق کی وہ خاص نوعیت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب انسانوں کو جس پر پیدا کیا ہے:
لا تبدیل لخلق اللہ
اس میں ثبات اور استقلال ہے اور تغیر اور تبدل سے بالاتر ہے انسانی سرشت کا حصہ ہے جب تک انسان دنیا میں ہے اور جب تک انسان انسان ہے جو بھی انسان پیدا ہوتا ہے اسی سرشت پر پیدا ہوتا ہے یعنی انسانوں کی سرشت کو نہیں بدلا جا سکتا اسے کسی دوسری چیز میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا:
ذلک الدین القیم(روم ۳۰)
”یہ ہے صحیح دین غیر معمولی طور پر درست اور مستقیم۔“
یہ آیت کمال صراحت سے دین کو سب انسانوں کے لئے ”فطرة اللہ“ قرار دے رہی ہے۔ اگر ضروری ہوا تو ہم بعدازاں اس مسئلے پر مزید گفتگو کریں گے۔
اسی طرح سورئہ مبارکہ یٰسین میں فرمایا گیا ہے:
الم اعھد الیکم یا بنی آدم ان لا تعبدوا الشیطان انہ لکم عدو مبین و ان اعبدونی ھذا صراط مستقیم و لقد اضل منکم جبلا کثیرا افلم تکونوا تعقلون
(یٰسین ۷۰-۷۲)
ان آیات میں ایک عہد و پیمان ہے: اے بنی آدم! اے اولاد آدم (یہاں کسی ایک شخص دو شخص ایک امت یا دو امتوں کا ذکر نہیں) کیا میں نے تم سے عہد نہیں لیا؟ کہتا ہے کہ کیا میں نے اور تم نے پہلے ایک دوسرے سے عہد نہیں کیا ہے اور پیمان نہیں باندھا کہ تم شیطان کی پوجا نہ کرو گے؟ یہاں شیطان کی پرستش سے مراد یہ نہیں کہ ایک محراب میں چلے جائیں شیطان کا مجسمہ دیت بنائیں بلکہ مراد شیطان کی پیروی ہے ”و ان اعبدونی“ ہم نے ایک دوسرے سے پیمان باندھا ہے (سمجھوتہ کیا ہے) کہ تم شیطان کی پوجا نہ کرو گے بلکہ میری عبادت کرو گے۔ ”ھذا صراط مستقیم“ تمہارے لئے راستہ کہ جو تمہیں کمال و سعادت تک پہنچا دے یہی ہے۔
ایک اور آیت بھی ہے کہ جو ”آیہ ذر“ کے نام سے مشہور ہے:
واذ اخذ ربک من بنی آدم من ظہور ھم ذریتھم و اشہد ھم علی انفسھم الست بربکم قالوا بلی شہدنا ان تقولوا یوم القیمة انا کنا عن ھذا غافلین او تقولوا انما اشرک آباؤنا من قبل و کنا ذریة من بعد ھم افتھلکنا بما فعل المبطلون(اعراف ۱۷۲ ۱۷۳)
یہ ایک عجیب آیت ہے اس کی تفصیل رہنے دیجئے۔ دو تین حصے دیگر بیان کر لوں پھر اس آیت کی مفصل تر تفسیر کروں گا۔ کچھ اور بھی آیتیں قرآن میں ہیں لیکن شاید اتنی صراحت نہ ہو اگرچہ ان میں سے بعض کی صراحت کم بھی نہیں ہے جیسے یہ آیت:
افی اللہ شک فاطرالسموات و الارض(ابراہیم ۱۰)
”آیا اللہ میں شک ہے؟ وہ اللہ کہ جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے۔“
یعنی انسان اور اللہ کے رابطے کی صورت ایسی ہے کہ شک و تردد کی گنجائش ہی نہیں۔ گویا مسئلہ استدلالی و نظری نہیں کہ کوئی ایک نظریہ اپنا لے اور کوئی دوسرا بلکہ مسئلہ اگر اپنی صحیح صورت میں پیش کیا جائے تو کوئی شخص شک نہ کرے لہٰذا اگر کوئی شک کرے تو مسئلہ اس کے لئے صحیح صورت میں سامنے ہی نہیں آیا اسے دراصل غیر اللہ کے بارے میں شک ہوا ہے کہ جس کا نام اس نے ”اللہ“ رکھ دیا ہے یا پھر اسے شک نہیں ہے بلکہ عناد اور ہٹ دھرمی سے کام لے رہا ہے۔ اس آیت کو بھی ہم آیات فطرت میں سے شمار کر سکتے ہیں۔
ایک اور بھی آیت ہے کہ جس کے بارے میں کچھ زیادہ ہے۔ اس آیت میں موضوع کو کنایہ اور اشارے کی صورت میں "Symbolic" بیان کیا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
انا عرضنا الامانة علی السموات و الارض و الجبال فا بین ان یحملنھا و اشفقن منھا و حملھا الانسان انہ کان ظلوما جھولا(احزاب ۷۲)
”ہم نے وہ امانت (کہ جس کا قرآن نام نہیں لیتا) سب موجودات کو پیش کی۔ آسمان زمین پہاڑ (گویا بڑی بڑی چیزوں کے نام لیتا ہے مراد یہ ہے کہ ہر چیز کو پیش کیا) سب نے اس امانت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا (ایک موجود نے اسے اٹھانا قبول کر لیا) اور وہ انسان تھا (اس کے بعد فرماتا ہے) یہ انسان ظلوم و جہول تھا۔“
اس آیت کے بارے میں کافی بحث ہے۔ اب اس بارے میں بھی بحث ہے کہ کیا یہ آیت مسئلہ فطرت سے مربوط ہے یا نہیں؟ مجھے بس اتنا ہی اشارہ کرنا تھا۔
قرآن میں کچھ اور بھی آیات کہ جو اس قدر صریح نہیں ہیں لیکن بعض مفسرین نے ان کے لحاظ سے تفسیر کی ہے جیسے یہ آیت:
ولئن سئلتھم من خلق السموات و الارض لیقولن اللہ(لقمان ۲۰)
”اگر آپ ان لوگوں (کافروں اور مشرکوں) سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے؟ تو کہیں گے اللہ نے۔“
اس آیت کی دو طرح سے تعبیر کی گئی ہے بعض کہتے ہیں کہ مقصود قرآن یہ ہے کہ خالقیت الٰہی پر ان کا کامل ایمان ہے یعنی یہ اللہ کو خالق سمجھتے ہیں اور بتوں کو خالق اور خالقیت الٰہی میں شریک نہیں سمجھتے۔ خرابی ان میں یہ ہے کہ اس کے باوجود کہ اللہ کو خالق مطلق جانتے ہیں پھر بھی عبادت میں غیر خالق قرار دیتے ہیں اگر ایسا ہو تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کے مشرکین کا متعارف اور مروج اعتقاد تھا۔ لیکن بعض کہتے ہیں کہ قرآن یہ کہنا چاہتا ہے کہ یہ لوگ اپنے پست عقائد کے اعتبار سے نہیں کہ شرک پر ان کا اعتقاد ہے بلکہ اس سلسلے میں انہوں نے غور تک نہیں کیا لیکن اگر آپ ان سے یہ پوچھیں گے کہ خالق کون ہے؟ تو ان کی فطرت جواب دے گی ”اللہ“۔
یہ آیات بھی اس حوالے سے ذکر کی گئی ہیں لیکن فی الحال آیات کا ذکر رہنے دیتے ہیں۔ تین جملے میں آپ کے لئے نقل کرتا ہوں ایک حضرت رسول اللہ سے ایک نہج البلاغہ سے اور ایک صحیفہ سجادیہ سے۔ البتہ ان کا ذکر میں نمونے کے طور پر کر رہا ہوں وگرنہ فطرت کے بارے میں ہمارے پاس ان سے زیادہ احادیث و روایات ہیں۔ رسول اللہ سے منقول حدیث معروف (اس حدیث کو زیادہ تر اہل سنت نے روایت کیا ہے البتہ شیعوں نے بھی اسے نقل کیا ہے ان کے ہاں متعدد ہیں جبکہ شیعوں کے ہاں میں نے ایک جگہ سے زیادہ یہ حدیث نہیں دیکھی) یہ ہے:
کل مولود یولد علی الفطرة فابواہ یہودانہ او ینصرانہ او یمجسانہ
”جو بھی بچہ پیدا ہوتا ہے وہ فطرت الٰہی اور فطرت اسلامی پر دنیا میں آتا ہے اس کے ماں باپ (واضح رہے کہ ان کا ذکر خارجی عوامل کے نمونے کے طور پر کیا گیا ہے) اسے بدل دیتے ہیں۔ اگر وہ یہودی ہوں تو اسے یہودی بنا دیتے ہیں عیسائی ہوں تو اسے بھی عیسائی کر دیتے ہیں اور خود مجوسی ہوتے ہوں تو اسے بھی مجوسی بنا دیتے ہیں۔“
(صحیح بخاری کتاب الجنائز ابواب ۸۰ و ۹۳)
گویا وہ جس گروہ سے ہوں اسے اس گروہ میں لے جاتے ہیں۔
یہ حدیث اہل سنت کے ہاں صحیح بخاری میں ہے اور شیعوں کے ہاں ”کافی“ میں البتہ میں نے قبل ازیں اسے بحار میں دیکھا تھا لیکن بحار میں موجود احادیث (جو اس مضمون کی ہیں) کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ سب اہل تسنن کے مآخذ سے تھیں۔ کبھی میرا یہ خیال تھا کہ شیعوں نے اپنی معتبر کتب میں یہ حدیث نقل نہیں کی چونکہ بحار نے بھی اسے ابن ابی جمہور احسائی کی کتاب غوالی اللیالی سے نقل کیا ہے کہ جو حدیث کی معتبر کتاب ہرگز نہیں ہے لیکن بعد میں تفسیرالمیزان میں نظر پڑی کہ اسے ”کافی“ سے بھی نقل کیا گیا ہے۔ اس وقت مجھے یاد نہیں کہ میں نے اسے ”کافی“ میں خود بھی دیکھا ہے یا نہیں البتہ تفسیر المیزان میں اسے اسی آیت ”فاقھم و جھک للدین حنیفاً“ کے ذیل میں ”کافی“ سے نقل کیا گیا ہے۔
اہل تسنن کے ہاں منقول اس حدیث کے ذیل میں بھی ایک بات ہے وہ یہ کہ رسول اکرم نے یہ جملہ کہنے کے بعد ایک مثال ذکر فرمائی یہ مثال بھی اہم ہے۔ آپ نے فرمایا:
”کیا کبھی آپ نے کسی ایسی گوسفند کو دیکھا ہے کہ جو ماں کے پیٹ سے کان کٹی پیدا ہو؟ یا یہ کہ گوسفند ماں کے پیٹ سے سالم کان کے ساتھ دنیا میں آتی ہے بعد میں انسان حیوان کے کان کاٹ دیتے ہیں۔“
اسلامی فطرت کی مثال آپ نے سالم کان سے دی ہے اور یہی انسانی سرشت و طبیعت کا متقاضی ہے اور غیر اسلام کو آپ نے کٹے کان سے تشبیہ دی ہے کہ جسے ایک خارجی عامل کسی چاقو چھری سے کاٹ دیتا ہے یہ تو ہوئی ایک حدیث۔
نہج البلاغہ کے خطبہ اول میں عالم اور آدم کی خلقت کے بارے میں اشارہ کرنے کے بعد بعثت رسل کا ذکر کیا گیا ہے اور فرمایا گیا ہے:
فبعث فیھم رسلہ
”اللہ نے لوگوں کے درمیان اپنے رسولوں کو مبعوث کیا۔“
وواتر الیھم انبیاء ہ
”اور اس کے یکے بعد دیگرے اپنے نبیوں کو بھیجا۔“
یعنی اس نے ایک ہی پر اکتفا نہ کی بلکہ ایک کے بعد دوسرے کو بھیجا۔ اس طرح سے کہ جو بھی آیا اس نے پہلے کی تائید و تاکید کی۔ کیوں؟
لیستا دوھم میثاق فطرتہ و یذکروھم منسی نعمتہ و یحتجوا علیہم بالتبلیغ و یثیروا لھم دفائن العقول
فرمایا گیا ہے کہ اللہ نے انبیاء کو یکے بعد دیگرے بھیجا (یہاں وہ دو نظریے واضح ہوتے ہیں جن کے بارے میں ہم نے کہا ہے کہ کیا انبیاء اس لئے آئے ہیں کہ ایسی چیز لوگوں کو دیں جس کا پہلے کچھ نام و نشان نہیں یا پھر وہ اس لئے آئے ہیں کہ جس چیز کا پیمان ان کی سرشت میں موجود ہے وہ انہیں یاد دلائیں؟) ”لیستا دوھم میثاق فطرتہ“ تاکہ لوگ سے کہیں کہ جو عہد تمہاری فطرت میں ہے اسے وفا کرو۔ وہ آئے تاکہ لوگوں سے کہیں کہ اے انسان! تیری فطرت کی گہرائی میں اپنے خدا سے تیرا باندھا ہوا پیمان موجود ہے ہم آئے ہیں تاکہ تجھ سے اس عہد کے ایفاء کا تقاضا کریں یعنی بغیر کسی بنیاد کے ابتداء نہیں ہے ایک چیز موجود ہے۔ انبیاء آئے ہیں تاکہ اسے عملی شکل دیں جیسے کبھی یہ صورت ہے کہ آپ بعض افراد سے کسی کام کے لئے قول لیں اور آپ کہیں کہ ہم آئے ہیں تاکہ تم سے اس قول کے پورا کرنے کا تقاضا کریں۔
امیرالمومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ انبیاء اس لئے آئے تاکہ لوگوں سے اس عہد کے ایفاء کا تقاضا کریں جو ان کی فطرت کے اندر موجود ہے۔
و یذکر وھم منسی نعمتہ
”انہیں وہ نعمتیں یاد دلائیں کہ جن سے وہ غافل ہو چکے ہیں۔“
یعنی انبیاء متوجہ کرنے والے اور یاد دلانے والے ہیں۔ ان کا کام ہے کہ بشر کو وہ چیز یاد دلائیں جس سے وہ غافل ہو چکا ہے یعنی وہ مذکر (یاد دلانے والے اور تذکر دینے والے) یہاں معلم نہیں کہا البتہ انبیاء معلم بھی ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ قرآن میں نبی کو ”مذکر“ بھی کہا گیا ہے اور ”معلم“ بھی جو چیز لوگوں کی فطرت سے مربوط ہے اس کے لئے نبی ”مذکر“ ہے یعنی یاد دلانے والا۔
ویحتجوا علیہم بالتبلیغ
انبیاء لوگوں کے لئے مذکر ہیں۔ عوام کو تبلیغ کرتے ہیں اپنا پیغام لوگوں تک پہنچاتے ہیں اور اس طرح سے لوگوں پر اتمام حجت کرتے ہیں لوگوں کے لئے دلیل لاتے ہیں لوگوں کو مطمئن اور قانع کرتے ہیں اور لوگو ں کا عذر ختم کر دیتے ہیں۔
بعد کی تعبیر ان سب سے عمیق تر ہے۔
ویثیروا لھم دفائن العقول
”دفائن“ یعنی ”خزانے“، ”دفینے“، ”گنجینے“۔ آپ جانتے ہیں کہ گزشتہ زمانے میں خزانے کو زیر زمین دفن کر دیتے تھے اس لئے نہیں کہ خراب نہ ہو جائے بلکہ اس لئے کہ کسی کو اس کا پتہ نہ چل جائے لہٰذا لازماً اس پر مٹی ڈال دیتے تھے تاکہ کسی کو خبر نہ ہو کہ یہاں خزانہ ہے۔ جو کوئی بھی اس پر سے گزرتا اسے پتہ نہ چلتا کہ اس کے زیرپا کوئی خزانہ ہے۔ انبیاء آئے ہیں تاکہ لوگوں کو آگاہ کریں کہ تمہاری روح کی گہرائی میں تمہاری عقول کی تہوں میں اور تمہارے ضمیر باطن کے نہاں خانوں میں خزانے موجود ہیں اور تم ان سے غافل ہو۔ وہ آئے ہیں کہ خزانوں کے اوپر جو کچھ پڑا ہے اسے ہٹا دیں تاکہ انسان حیرت سے دیکھے کہ اس قدر خزانہ میرے اندر موجود تھا اور میں بے خبر تھا۱۱
سالہا دل طلب جام جام ازما می کرد
آنچہ خود داشت زبیگانہ تمنا می کرد
بی دلی در ہمہ احوال خدا با او بود
او نمی دیدش و از دور خدایا می کرد
”سال ہا سال دل ہم سے جام جم کا تقاضا کرتا رہا جو چیز خود اس کے اپنے پاس موجود تھی اس کی دوسرے سے تمنا کرتا رہا یقیناً سب حالتوں میں خدا اس کے ہمراہ تھا وہ اسے دیکھ نہیں پاتا تھا اور ”خدایا خدایا“ پکارتا رہا تھا۔“
 

صرف علی

محفلین
یہی وجہ ہے کہ قرآن میں ہمیں دو طرح کی آیات نظر آتی ہیں آیات آفاقی اور آیاتی انفسی۔ آیات آفاقی یعنی جو انسانی وجود سے باہر ہیں دیگر انسانوں کی خلقیت آسمان زمین ستارے پہاڑ سمندر نباتات حیوانات وغیرہ۔ لیکن آیات انفسی یعنی جو خود وجود انسانی میں موجود ہیں۔ قرآن کے نزدیک آیات انفسی کی اہمیت آیات آفاقی سے زیادہ ہے نیز آفات و انفس کی اصطلاح بھی خود قرآن سے حاصل کی گئی ہے کہ جس میں ارشاد ہوتا ہے:
سنر یھم آیاتنا فی الآفاق و فی انفسھم حتی یتبین لھم انہ الحق(حم سجدہ ۵۳)
اور جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ بعدازاں یہ جو آفاق و انفس کی اصطلاح علماء اسلام نے استعمال کی ہے اس کا مآخذ قرآن ہی ہے۔
آپ دیکھیں کہ اسلام انسان کے لئے کس قدر اصالت کا قائل ہے۔ انسان ایک فطری ضمیر یا باطن کا قائل ہے۔
و یثیروا لھم دفائن العقول
اور قرآن حکیم میں ہے:
وفی الارض آیات للموقنین وفی انفسکم افلا تبصرون(الذریت ۲۰-۲۱)
”اور یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں اور خود ان کے نفوس میں نشانیاں ہیں کیا تم دیکھتے نہیں ہو؟ اور کیوں دیکھتے نہیں ہو؟“
یہ تو ہو گئی نہج البلاغہ میں موجود ایک جملے کے بارے میں گفتگو۔ ایک جملہ صحیفہ سجادیہ میں ہے اتفاق کی بات ہے کہ جملہ بھی صحیفہ سجادیہ کی پہلی دعا میں ہے کہ جو ساری کی ساری حمد ہے۔ اس کے ابتداء میں چند جملے ہیں:
ابتدع بقدرتہ الخلق ابتداعا
”اس نے اپنی قدرت سے خلقت کی تخلیق کی۔“
ہم کہہ چکے ہیں کہ ”ابداع“ کا معنی ہے ایسی تخلیق کہ جو پہلے سے موجود کسی مثال اور تقلید کی بناء پر نہ ہو۔ نیز ہم عرض کر چکے ہیں کہ انسان بھی اپنے عالم میں ایک طرح کی تخلیق کا حامل ہے لیکن انسانی تخلیق کا نام اگرچہ ”ابداع“ رکھ لیں تاہم وہ طبیعت و خلقت کی مثال کی بنیاد پر ہوتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کہ جو خالق کائنات ہے اس سے پہلے کوئی چیز ہی نہ تھی کہ جسے وہ دیکھ کر تخلیق کی منصوبہ بندی کرتا (لہٰذا صحیفہ سجادیہ میں بعد کا جملہ یوں ہے:)
و اخترعہم علی مشیتہ اختراعا
”اس نے انہیں اپنی مشیت کے مطابق اختراع کیا۔“
”اختراع“ کے معنی بھی ”ابداع“ والے ہی ہیں یعنی صرف اللہ کی طرف سے اختراع ہے جسے ہم کہتے ہیں کہ فلاں نے ٹیپ ریکارڈ کو اختراع ”ایجاد“ کیا۔ اس کے بعد اسے لوگوں نے بنایا تو اسے اختراع نہیں کہا جا سکتا۔ (اس کے بعد ہے:)
ثم سلک بھم طریق ارادتہ وبعثھم فی سبیل محبتہ(”سلک“ سلوک کرنا یعنی راہ چلنا اور حرکت کرنا جب سلک باء سے متعدی ہو تو اس کا مطلب ہے راہ چلنا)
”ان کی تخلیق کے بعد انہیں اس نے اپنے ارادے کے راستے پر چلایا۔“
بعد کے جملے کو قرینہ قرار دیا جائے تو اس کا معنی یہ ہو گا جس راستے میں اس نے خلق کیا اس کا ارادہ کریں اس راستے میں نہیں کہ جس کا اس نے ارادہ کیا۔ جس راستے میں وہ اسے چاہیں انہیں اس پر ڈال دیا اور اس پر انہیں حرکت دی۔ بعد کا جملہ مطلب کو زیادہ واضح کرتا ہے:
و عثھم فی سبیل محبتہ
”اس نے مخلوق کو اپنی محبت کے راستے میں اٹھایا۔“
یہ جملہ بہت عجیب ہے یعنی اصلاً مخلوق کی یہ تمام تر حرکتیں اور جنبشیں چاہے خود کوئی سمجھے یا نہ سمجھے محبت خدا کے راستے پر ہیں۔ مسئلہ عشق میں ہم نے کچھ بحث کی ہے ہم نے وہاں کہا ہے کہ حتیٰ کہ جو غیر خدا کی تلاش میں ہے اس کا محرک حقیقی اللہ تعالیٰ کی جستجو ہی ہے اس نے مصداق کی شناخت میں دھوکہ کھایا ہے۔ اب جملے کی ابتداء میں جو لفظ ”خلق“ آیا ہے ”ابتدع بقدرتہ الخلق“ ہو سکتا ہے اس کا مقصود مطلق خلق و آفرینش ہو کہ لازمی طور پر انسان بھی جس میں شامل ہو جاتا ہے اس صورت میں جملے کا معنی یہ ہو گا کہ ہر موجود محبت الٰہی کے راستے پر رواں دواں ہے۔ یہ نباتات کہ جو حرکت کرتے ہیں ان کی اس حرکت میں عشق الٰہی کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ پتھر بھی کہ جس کے بارے میں ہم کہتے ہیں قوت ثقل کی وجہ سے حرکت کرتا ہے درحقیقت ذات حق کی جستجو میں ہے اور اس کی ذات میں اس کی محبت کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس ضمن میں آیات بھی ہیں:
و ان من شی الا یسبح بحمدہ و لکن لا تفقہون تسبیحھم(بنی اسرائیل ۴۴)
”اور کوئی ایسی چیز نہیں جو اس کی حمد (ثنا) کی تسبیح نہ کرتی ہو مگر تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے۔“
نیز یہ کہ
افغیر دین اللہ یبغون ولہ اسلم من فی السموات والارض(آل عمران ۸۳)
”تو کیا یہ لوگ خدا کے دین کے سوا کوئی اور دین ڈھونڈتے ہیں حالانکہ سب جو آسمانوں میں ہیں اور زمین میں ہیں خوشی یا زبردستی سے خدا کے فرمانبردار ہیں۔“
نیز یہ کہ
وللہ یسجد من فی السموات و الارض(رعد ۱۵)
”اور جتنی مخلوقات آسمانوں اور زمین میں ہے خوشی سے یا زبردستی سے خدا کے آگے سجدہ کرتی ہیں۔“
یا یہ کہ
سبح للہ ما فی السموات والارض(حدید ۱)
”جو مخلوق آسمانوں اور زمین میں ہے خدا کی تسبیح کرتی ہے۔“
نیز یہ بھی:
سبح للہ ما فی السموات وما فی الارض(حشر ۱)
”جو چیزیں آسمانوں میں ہیں اور جو چیزیں زمین میں ہیں سب خدا کی تسبیح کرتی ہیں۔“
ان آیات کی روشنی میں تو دائرہ بہت وسیع ہو جاتا ہے یعنی قرآن ہمیں ایک نہایت عجیب اور وسیع تصور کائنات دیتا ہے۔ عارف مسلک شعراء نے اس ضمن میں بہت کچھ کہا ہے مثلاً مشہور اشعار کہ جو ظاہراً نظامی کے ہیں:
خبرداری کہ سیاحان افلاک
چرا گردند گرد مرکز خاک
چہ می خواہند از این منزل بریدن
کہ می جو یند از این محمل کشیدن
در این محراب گہ معبود شان کیست
از این آمد شدن مقصود شان چیست
”یعنی کیا تجھے خبر ہے کہ افلاک کے سیاح اور گردش کرنے والے مرکز خاک (زمین) کے گرد کیوں گردش کناں ہیں؟ اس منزل سے وہ کیا لے جانا چاہتے ہیں کہ اس محمل سے جسے وہ نکال لانا چاہتے ہیں؟ اس مقام محراب میں ان کا معبود کون ہے؟ اس رفت و آمد سے ان کا مقصود کیا ہے؟“
اس کے بعد کہتا ہے:
ھمہ ہستند سرگردان چو پرگار
پدید آرندہ خود را طلب کار
”یہ سب کے سب پرکار کی مانند اپنے خالق کے متلاشی ہیں۔“
اسی طرح حافظ کا وہ معروف شعر جو اس مشہور غزل میں ہے کہ جو اس شعر سے شروع ہوتی ہے۱۱
مادر این در نہ پی حشمت و جاہ آمدہ ایم
از بد حادثہ انیجا بہ پناہ آمدہ ایم
”ہم یہاں پر جاہ و جلال قائم کرنے کے لئے نہیں آئے ہیں بلکہ ایک افتاد کے نتیجے میں یہاں پناہ لی ہے۔“
اس کے بعد کہتا ہے۱۱
رہرو منزل عشقیم ز سرحد عدم
تابہ اقلیم وجود این ہمہ راہ آمدہ ایم
”ہم ملک عدم سے عشق کی منزل کے راہی ہیں اور ہم اسی نتیجے میں چلتے چلتے عالم وجود میں آ گئے ہیں یعنی راز آفرینش محبت ہے۔“ (بہت عمدہ غزل ہے)
آبرو می رود ای ابر خطا شوی ببار
کہ بہ دیوان عمل نامہ سیاہ آمدہ ایم
”اے خطاؤں کے دھونے والے! بادل تو مینہ برسا کیونکہ ہمارا نامہ اعمال سیاہ کارناموں سے پُر ہے اور منہ دکھانے کے قابل نہیں ہیں۔“
اس ضمن میں حافظ نے بہت کچھ کہا ہے کوئی ایک دو شعر نہیں ہیں اس کی جو غزل کچھ واضح تر ہے اس کا میں ذکر کرتا ہوں۱۱
روشن از پرتوی رویت نظری نیست کہ نیست
منت خاک درت یر بصری نیست کہ نیست
”کہنا چاہتا ہے کہ کوئی نہیں یہاں تک جو منکر بھی ہے کہ جس کی نظر تیرے رخ کے پرتو سے روشن نہ ہو لیکن خود نہیں جانتا اور نہیں سمجھتا۔“
(پہلی بات کی تاکید اس انداز سے کر رہا ہے)
ناظر روی تو صاحب نظران آری
سر گیسوی تو در ہیچ سری نیست کہ نیست
”کچھ صاحبان نظر ایسے ہیں کہ جو تجھے دیکھتے ہیں اور جانتے بھی ہیں کہ تجھے دیکھ رہے ہیں اور کچھ ایسے ہیں کہ دیکھ تو رہے ہیں لیکن خود نہیں جانتے کہ دیکھ رہے ہیں۔“
مصلحت نیست کہ از پردہ برون افتد راز
ورنہ در مجلس رندان خبری نیست کہ نیست
”یہ کہ راز سے پردہ اٹھایا جائے مناسب نہیں ہے اور خلاف مصلحت ہے وگرنہ رندوں کی محفل میں (عرفاء) نہ جاننے اور نہ سمجھنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور ہر چیز واضح اور عیاں ہے۔“
جناب سبزواری صاحب کتاب منظومہ حکیم فلسفی عارف اور ایک غیر معمولی متقی شخص ہیں اگرچہ ان کی شہرت علم کی وجہ سے ہے لیکن ان کا مقام عمل ان کے مقام علم سے بالاتر ہے۔ شعر بھی کہتے ہیں فارسی میں بھی اور عربی میں بھی البتہ ان کا شمار صف اول کے شعراء میں نہیں ہوتا تاہم ان کے اچھے شعر بھی بہت ہیں ان کے بعض اشعار واقعاً بہت عمدہ ہیں۔ حافظ کی اس غزل کا انہوں نے استقبال کیا ہے ایک دو شعر اس میں ایسے ہیں کہ تقریباً حافظ کے پائے کے ہیں اور انہوں نے شہرت بھی بہت پائی ہے۔ کہتے ہیں۱۱
شورش عشق تو در ہیچ سری نیست کہ نیست
منظر روی تو زیب نظری نیست کہ نیست
”تیرے عشق کا چرچا برپا ہے اور تیرے چہرے کا پرتو ہر نگاہ و نظر میں ہے لیکن کوئی جانتا اور سمجھتا نہیں ہے۔“
وہی حافظ کی بات کو اس انداز سے کہتے ہیں۱۱
نیست یک مرغ دلی کش نفکندی بہ قفس
تیر بیداد تو تا پر بہ پری نیست کہ نیست
نہ ھمیں از غم او سینہ ما صد چاک است
داغ او لالہ صفت بر جگری نیست کہ نیست
وہ شعر جو بہت مشہور ہے اور جو حاصل غزل ہے یہ ہے۱۱
موسیٰ ای نیست کہ دعوی انا الحق شنود
ورنہ این زمزمہ اندر شجری نیست کہ نیست
چشم ما دیدئہ خفاش بود ورنہ تو را
پر تو حسن بہ دیوار ودری نیست کہ نیست
گوش اسرار شنو نیست وگر نہ اسرار
برش از عالم معنا خبری نیست کہ نیست
(اسرار جناب سبزواری کا تخلص ہے)۔
بہرحال صحیفہ سجادیہ کا یہ جملہ غیر معمولی طور پر عجیب اور پرمعنی ہے۔ اب اگر ہم ”ابتداع بقدرتہ الخلق“ میں ”خلق“ مطلق خلقت کے معنی میں لے لیں تو پھر یہ جملے تمام تر خلقت کے لئے ایک عمومی فلسفے کی حکایت کرتے ہیں کہ جس میں انسان بھی شامل ہے اور اگر ”خلق“ سے مراد صرف انسان لیں تب بھی واضح ہے کہ انسان تو شامل ہی ہیں۔
یہ وہ چیزیں تھیں کہ جنہیں میں مدارک اسلامی میں موجود ایسے موضوعات کے نمونے کے طور پر عرض کرنا چاہتا تھا۔ اب ایک بات کو مقدمتاً عرض کرنے کے بعد آیت فطرت اور آیت ذر کی شرح کروں گا۔
فطرت دو طرح کی ہو سکتی ہے اور یہ دونوں باہم مانعة الجمع نہیں ہیں (یعنی ایسی نہیں کہ آپس میں جمع نہ ہو سکیں) بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔ ایک فطرت ادراکی ہے اور دوسری فطرت احساس احساس سے مراد وہی ہے جس کی جمع ہم محسوسات کرتے ہیں۔ فطرت ادراکی سے مراد یہ ہے کہ دین یا خاص طور پر توحید ادراک کی نظر سے یعنی فکری حوالے سے انسان کے لئے فطری ہے۔ دین یا خاص طور پر توحید کے حوالے سے ہم ”فاقم و جھک للدین حنیفا“ پر گفتگو کے ضمن میں کچھ کہیں گے۔ فطرت ادراکی یعنی ایک ایسی فکر ہے کہ عقل انسانی فطرتی طور پر اسے قبول کرتی ہے اور اسے قبول کرنے کے لئے اسے تعلیم و تعلم اور مدرسے کی ضرورت نہیں ہے۔ مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ جسے ہم ادراک کی نظر سے فطری کہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ یا اسے دلیل کی ضرورت نہیں یا وہ ایک کلیہ ہے یا اس کا تعلق ایسے امور سے ہے کہ جنہیں اگر دلیل کی ضرورت ہو بھی تو ان کی دلیل ہمیشہ ان کے ہمراہ ہوتی ہے ”قضایا قیاساتھا معھا“ یعنی وہ امور جن کے دلائل ان کے ہمراہ ہوتے ہیں۔
چونکہ ان کی دلیل ہمیشہ ان کے ہمراہ ہوتی ہے لہٰذا ان کے لئے بھی کسی ایسے معلم کی ضرورت نہیں کہ جو انسان کو مدرسے میں ان کی تعلیم دے اسے ہم ادراک فطری کہتے ہیں کہ جو فکر ادراک اور عقل کی دنیا سے مربوط ہے۔
اب ہم اس کے لئے بھی حدیث سے کچھ نمونے پیش کرتے ہیں:
تفسیر صافی میں امام حسن عسکری علیہ السلام سے ایک مفصل حدیث نقل ہوئی ہے۔ اس حدیث کی سند اگرچہ بالکل معتبر نہیں ہے لیکن اس کے معانی کچھ ایسے ہیں کہ شیخ انصاری کہتے ہیں کہ اس کے مطالب سے اس کی درستی اور صحت کی علامتیں ظاہر ہوتی ہیں حدیث ہے بھی بہت جاذب فکر۔ یہ حدیث اس آیت کے ذیل میں ہے:
و منہم امیون لا یعلمون الکتاب الا امانی(بقرہ ۲۸)
”ان میں سے ایک گروہ امی اور ان پڑھ لوگوں کا بھی ہے کہ آرزوؤں اور تصورات کے علاوہ تورات کی کچھ خبر نہیں۔“
جیسے آج کے مسلمان عوام ہیں۔ یہ امی لوگ صرف اتنا جانتے ہیں کہ تورات ہے لیکن اگر آپ پوچھیں کہ تورات کیا ہے؟ تو انہیں کچھ پتہ نہیں۔ بعض چیزوں کے بارے میں ممکن ہے خیال کریں کہ یہ تورات میں ہیں کہ جو تورات میں نہ ہوں اور جو چیزیں تورات میں ہیں ان کا انہیں علم نہیں یہ ایسے بے خبر ہیں۔ مذکورہ حدیث کچھ یوں ہے:
”ایک شخص نے امام صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ عوام کا کیا قصور ہے خود قرآن تسلیم کرتا ہے کہ یہ لوگ تو جاہل ہیں اور بے معرفت ہیں جو کچھ بھی انہیں نصیب ہوا وہ تو علماء کا کیا دھرا تھا لہٰذا سب مذمتوں کا رخ علماء کی طرف ہونا چاہئے۔ عام لوگوں کا تو کوئی قصور نہیں انہیں تو عنداللہ معذور ہونا چاہئے قرآن ان پر کیوں تنقید کرتا ہے؟“
اس سوال کے جواب میں امام نے تفصیلی گفتگو فرمائی ہے۔ اس حدیث کا تقریباً پندرہ برس قبل ایک تقریر میں ذکر کر چکا ہوں جب ماہانہ دینی اجتماعات میں تقریروں کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا تھا (مذکورہ تقریر کتاب ”دہ گفتار“ میں ”اصل اجتہاد در اسلام“ کے زیرعنوان درج کی گئی ہے) اس میں میں نے حدیث کے بہت سے حصے ذکر کئے تھے۔ اس میں امام نے ایک نہایت عمدہ موضوع اٹھایا ہے آپ نے علماء کی تقسیم بندی کی ہے کہ وہ کیسے کیسے ہیں اور کیسے نہیں ہیں اور یہ کہ علماء سوء ایسے ہوتے ہیں اور علماء غیر سو ایسے اور جو علماء برے ہوتے ہیں ان کا ضرر و نقصان اسلام کے لئے یزید بن معاویہ کے اس لشکر سے زیادہ ہے کہ جو حسین بن علی علیہ السلام پر حملہ آور ہوا۔
غرض امام گفتگو کرتے کرتے اس مقام پر پہنچتے ہیں رہی بات عام لوگوں کی امام باقر۱ فرماتے ہیں:
”نہیں ایسا نہیں ہے بعض مسائل ایسے ہیں کہ جن کے لئے حصول تعلیم کی کوئی ضرورت نہیں کہ ہم کہیں کہ چونکہ انہوں نے تعلیم حاصل نہیں کی لہٰذا ان کا عذر قابل قبول ہے۔ بعض مسائل میں عوام کا عذر قابل قبول ہے بعض ایسے مسائل ہیں کہ جن کے لئے حصول علم ضروری ہے انہوں نے اگر ان کے لئے تعلیم حاصل نہیں کی کیونکہ بعض لوگ ان کے حصول علم میں حائل ہو گئے ہیں تو یقینا ان کا عذر قابل قبول ہے لیکن بعض مسائل ایسے ہیں کہ جن کے لئے حصول تعلیم کی ضرورت نہیں انسان کا دل انہیں معارف فطری ہونے کی وجہ سے خود سے مجبوراً سمجھ لیتا ہے۔“
اس کے بعد امام مثال ذکر کرتے ہیں کتنی عمدہ مثال ہے فرماتے ہیں:
”یہودی عوام یہودی علماء کو دیکھتے تھے کہ وہ انہیں تقویٰ اور پاکیزگی کا حکم دیتے ہیں انہیں سئور نہ کھانے کا حکم دیتے ہیں لیکن خود اس پر عمل پیرا نہیں ہوتے بلکہ اس کے برخلاف عمل کرتے ہیں عوام اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھتے تھے۔“
اس کے بعد فرماتے ہیں:
و قد اضطروا بمعارف قلوبھم
”انسان خود سرشت و قلب کے معارف کے زیر حکم سمجھتا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک حکم دے اور خود عمل اس کے برخلاف کرے تو اس کی بات پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے اور ٹھکرا دینا چاہئے اس کے لئے حصول تعلیم کی ضرورت نہیں کہ کہا جائے کہ کس یونیورسٹی نے عوام کو یہ بات سکھائی ہے کہ اگر تم نے دیکھا کہ کوئی عالم تمہیں تقویٰ کا حکم دیتا ہے لیکن خود اس میں تقویٰ نہیں ہے تو اس کی پیروی نہ کرنا اس کے لئے کسی یونیورسٹی یا مدرسے میں جانے کی ضرورت نہیں ہر کسی کی فطرت اتنی بات سمجھ لیتی ہے۔“
انہیں ہم ابتدائی فطری ادراکات کہتے ہیں کہ اگر ان کی کوئی شخص بھی انسان کو تعلیم نہ دے تو بھی انسان فطری طور پر سمجھ لیتا ہے۔
لہٰذا فطرت کا ایک معنی فطرت ادراکی ہے ”دین فطری ہے“، اس معنی میں ہے ”توحید فطری ہے“ کا یہ مطلب ہے یعنی ادراک کی نظر سے فطری ہے (جیسا کہ استاد شہید مطہری کی اپنی عبارت سے واضح ہے بحث فطرت بالخصوص آیات قرآنی کے حوالے سے ابھی جاری تھی لیکن ظاہراً یہ نشستیں یہیں پر تمام ہو گئیں اور مزید جاری نہ رہ سکیں۔”ناشر فارسی“)
دوسری فطرت احساس ہے یعنی اللہ کی طرف توجہ بلکہ یہاں تک کہ دینی احکام کی طرف توجہ سے یہ تاثیر پیدا ہوتی ہے کہ انسان کے احساسات اسے اللہ اور دین کی طرف کھینچتے ہیں یہ دو جدا جدا باتیں ہیں۔ کبھی ہم کہتے ہیں کہ انسان فطرتاً اللہ کو سمجھتا ہے اور کبھی ہم کہتے ہیں کہ انسان فطری طور پر اللہ کی طرف رجحان رکھتا ہے اس کی طرف کھینچتا ہے اور جذب ہو جاتا ہے۔
اب ہمیں دیکھنا چاہئے کہ قرآن نہج البلاغہ صحیفہ سجادیہ اور آئمہ اطہار کے کلمات و اقوال میں جو کچھ دین کے فطری ہونے اور مجموعی طور پر توحید کے بارے میں آیا ہے کیا مقصود یہ ہے کہ دین و توحید ادراکی حوالے سے فطری ہیں ادراک فطری صورت میں موجود ہیں یا مقصود یہ ہے کہ یہ ایک فطری رجحان اور فطری کشش کی صورت میں انسان میں موجود ہیں یا پھر یہ دونوں باتیں ہیں؟ آئندہ نشست سے کہ جب ہم آیات کے بارے میں گفتگو کریں گے اس بارے میں بحث کریں گے اور شاید لازمی طور پر انہی عبارتوں کی مزید تفصیل کی طرف پلٹ آئیں۔ ہم اس موضوع پر بحث کریں گے کہ کیا دین یا توحید فطری ہے؟ بذات خود یہ مسئلہ بھی قابل بحث ہے کہ کیا دین مجموعی طور پر فطری ہے؟ یا خاص طور پر توحید ہی فطری ہے کہ جو ا۸صول دین کی بنیاد ہے؟ سوال یہ ہے کہ کیا دین یا توحید انسان میں ایک ادراک فطری کی حیثیت سے ہے یا ایک فطری احساس اور رجحان کی صورت میں؟
 

صرف علی

محفلین
مجھے افسوس ہے کہ یہ کتاب میں کامل پیش نہیں کرسکا کیوں کہ میرے پاس صرف یہی تک اس کتاب کا مواد موجود تھا اگر کسی اور کہ پاس ہے تو اس کو مکمل کردے ۔شکریہ
 
Top