فطری جذبے

عشرت فاطمہ پاکستان ٹیلی ویژن کے اس دور کی مشہور نیوز کاسٹر ہیں جب صرف پی ٹی وی واحد چینل تھا جو پاکستانی دیکھتے تھے۔ کسی نے ایک انٹرویو میں ان سے پوچھا کہ Any regret in her life تو وہ بولیں ہاں ،ایک دفعہ سردی کے موسم میں میں پی ٹی وی سےگاڑی پر اپنے گھرجارہی تھی ۔راستے میں معذوروں کی ایک تختے والی گاڑی جسے پہیے لگے ہوتے ہیں اور معذور اسے اپنے ہاتھوں سے دھکیلتے ہوئے چلاتا ہےاس پر ایک معذور ٹھٹھرا ہوا شخص بیٹھا تھا اس نے ہاتھ سے مجھے رکنے کا اشارہ کیالیکن میں نے نظرانداز کرتے ہوئے گاڑی نہیں روکی تھی۔شاید وہ شدید سردی سے بچنے کے لیے مجھ سے لفٹ لینا چاہتا تھا۔ اس بات کا افسوس مجھے ساری زندگی رہا اور آج بھی ہے۔ کاش میں گاڑی روک کر اسے لفٹ دےدیتی!

محبت، ہمدردی، رحمدلی وغیرہ فطری جذبے ہیں جو اللہ تعالٰی نے انسان کی تسکین کے لیے اس کے اندر رکھے ہیں۔ یہ جذبےانسان میں کسی کے لیے کہیں بھی ظاہر ہو سکتے ہیں۔ یہ کسی رشتے یا بندھن کے قیدی یا محتاج نہیں۔ جہاں کہیں ان جذبات کو ابھارنے والا ماحول ہوگا وہیں یہ ظاہر ہوجائیں گے۔ انہیں ابھارنے میں ہمارا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔یہ خود بخود بے اختیاری میں پیدا ہوجاتے ہیں۔

میاں بیوی، والدین اور اولاد، بہن بھائی، دوست احباب وغیرہ رشتے یا بندھن ہیں۔ یہ ایک عمرانی یا سماجی معاہدہ ہوتے ہیں جو ہم خود طے کرتے ہیں- ہم چونکہ مسلمان ہیں اس لیے یہ معاہدہ ا اللہ تعالٰی کی طرف سے دیے گئے احکام کے مطابق طےکرتے ہیں اور اس کے پابند ہوتے ہیں۔ یہ معاہدہ خالص حقوق اور فرائض کی بنیاد پر طے پاتا ہے۔ اس میں جذبات کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔اگر اس کو معاہدے کے طورپر چلایا جائے تویہ اچھے طریقےسے چل سکتا ہے۔جذبات جیسے بھی ہوں ہم معاہدے کے پابند ہوتے ہیں۔اگر کوئی خلاف ورزی کرتا ہے تو سزا کا مستحق ٹھہرتا ہے۔

اکثراوقات ہم ان جذبات کو رشتے یا بندھن میں باندھنا چاہتے ہیں۔ یعنی ان کو صرف کچھ خاص ہستیوں کے لیے مخصوص کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جیسے میاں بیوی، والدین اور اولاد، بہن بھائی، دوست احباب وغیرہ۔ لیکن چونکہ یہ ہم فطرت کے خلاف کررہے ہوتے ہیں اس لیے ناکام ہوتے ہیں اور نتیجے کے طور پر ہمارا جذبوں ںپر ایمان متزلزل ہوجاتا ہے۔دراصل ہم جذبات اور معاہدے کو گڈمڈکرنے کی کوشش کررہےہوتے ہیں اس لئے مسائل پیدا ہونے شروع ہوجاتے ہیں۔

ہم کوشش کرتے ہیں کہ محبت وقف کردیں اپنی بیوی کے لیے، بچوں کے لیے، ماں باپ کے لیے، بہن بھائیوں کے لیےاور ویسا ہی اظہار ہم دوسری طرف سے بھی چاہتے ہیں۔ یہ ہماری خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن محبت کا جذبہ تو تب ابھرے گا جب اس کو ماحول ملے گا۔ اگر وہ مذکور رشتوں میں ملتا ہے تو محبت ہوگی اگر نہیں تو صرف عمرانی معاہدہ ہوگا اور محبت وہیں ہوگی جہاں ماحول ہوگا۔باقی تمام جذبات بھی اسی اصول پر کام کرتے ہیں۔

حاصلِ بحث یہ ہے کہ جو لوگ جذبوں کو بندھن میں باندھنے کی کوشش کرتے ہیں وہ خود تو قیدی بن جاتے ہیں لیکن جذبے آزاد ہی رہتے ہیں۔
 
Top