اس سلسلے میں ایک قاعدہ یاد رکھیے۔ فارسی یا عربی الاصل الفاظ کا ایک بھی حرف آپ نہیں گرا سکتے سوائے دو صورتوں کے:
۱۔ اگر ان کے آخر میں ہائے مختفی ہو۔ مثلاً فارسی کے الفاظ راستہ، دیدہ، خفتہ، سادہ وغیرہ اور عربی کے الفاظ عمدہ، مدینہ، وغیرہ، حملہ، وغیرہ کے آخر میں آنے والی ہائے ہوز گرانی جائز ہے۔
۲۔ اگر اس لفظ کے بعد الف سے شروع ہونے والا لفظ آ جائے۔ مثلاً:
خلل پذیر بود ہر بنا کہ می بینی
بجز بنائے محبت کہ خالی از خلل ست
حافظؔ کے اس شعر کے مصرعِ ثانی میں خالی عربی لفظ ہے جس کی یائے تحتانی بظاہر تقطیع میں گر گئی ہے۔
بجز بنا = مفاعلن
ئِ محبت = فعلاتن
کخالِیَز = مفاعلن
خَلَلَست = فَعِلان
مگر درحقیقت یہ گری نہیں ہے بلکہ، جیسا کہ تقطیع سے ظاہر ہے، اگلے الف سے مل گئی ہے۔ اسی لیے اس الف کو الفِ وصل کہتے ہیں۔ ی حرفِ علت تھی۔ اس کی دوسری مثال حروفِ صحیح سے دیکھیے تو اصول واضح ہو جائے گا:
حالِ دل نہیں معلوم لیکن اس قدر یعنی
ہم نے بارہا ڈھونڈا، تم نے بارہا پایا
غالبؔ کے اس شعر کے مصرعِ اولیٰ کی تقطیع ملاحظہ ہو:
حالِ دل = فاعلن
نہیں معلوم = مفاعیلان
لیکِنِس = فاعلن
قدر یعنی = مفاعیلن
اس میں لیکن، جو عربی الاصل لفظ ہے، کا نون "اس" کی الفِ وصل کے ساتھ مل گیا ہے۔
مندرجہ بالا صورتوں کے علاوہ اگر آپ عربی یا فارسی اصل کے الفاظ کا کوئی بھی حرف گراتے ہیں تو ظلم ہے۔