فعولن فعولن فعولن فعولن برائے اصلاح

فیضان قیصر

محفلین

سنا ہے کہ تم نے یہ دل دے دیا ہے
یہ کس کے بھروسے پہ تم نے کیا ہے؟
گویا کہ میرے لئے لازمی تھی
تری بے وفائی مرا ارتقا ہے
کسی شہر میں بھی یہ بے زار دل تو
نہ پہلے لگا ہے نہ اب لگ رہا ہے
کوئی بات ہے جو تمھیں ہو گوار؟ا
تمھاری انا کی کوئی انتہا ہے؟
ذرا تم بتائو کہ تم کیا کروگے
اسے جو بھی کرنا تھا وہ کر چکا ہے
مرے گھر کا رستہ جو ٹوٹا ہوا تھا
بڑی مشکلوں سے دوبارہ بنا ہے
میں فیضان اب بھی وہیں پہ کھڑا ہوں
جہاں سے مری بود کی ابتدا ہے
 
اچھی غزل ہے، فیضان بھائی۔ مشق کے لیے ٹھیک ہے گو مجھے بہت پسند نہیں آئی۔ شاید اس میں میری بدذوقی کو دخل ہو۔ :):):)
گویا کہ میرے لئے لازمی تھی
تری بے وفائی مرا ارتقا ہے
آپ نے مصرعِ اولیٰ میں گویا کو فَعَل کے وزن پر باندھا ہے جس میں اس لفظ کی واؤ ساقط ہو رہی ہے۔ اس کا اصول ملاحظہ کیجیے:
اس سلسلے میں ایک قاعدہ یاد رکھیے۔ فارسی یا عربی الاصل الفاظ کا ایک بھی حرف آپ نہیں گرا سکتے سوائے دو صورتوں کے:
۱۔ اگر ان کے آخر میں ہائے مختفی ہو۔ مثلاً فارسی کے الفاظ راستہ، دیدہ، خفتہ، سادہ وغیرہ اور عربی کے الفاظ عمدہ، مدینہ، وغیرہ، حملہ، وغیرہ کے آخر میں آنے والی ہائے ہوز گرانی جائز ہے۔
۲۔ اگر اس لفظ کے بعد الف سے شروع ہونے والا لفظ آ جائے۔ مثلاً:
خلل پذیر بود ہر بنا کہ می بینی
بجز بنائے محبت کہ خالی از خلل ست​
حافظؔ کے اس شعر کے مصرعِ ثانی میں خالی عربی لفظ ہے جس کی یائے تحتانی بظاہر تقطیع میں گر گئی ہے۔
بجز بنا = مفاعلن
ئِ محبت = فعلاتن
کخالِیَز = مفاعلن
خَلَلَست = فَعِلان
مگر درحقیقت یہ گری نہیں ہے بلکہ، جیسا کہ تقطیع سے ظاہر ہے، اگلے الف سے مل گئی ہے۔ اسی لیے اس الف کو الفِ وصل کہتے ہیں۔ ی حرفِ علت تھی۔ اس کی دوسری مثال حروفِ صحیح سے دیکھیے تو اصول واضح ہو جائے گا:
حالِ دل نہیں معلوم لیکن اس قدر یعنی
ہم نے بارہا ڈھونڈا، تم نے بارہا پایا​
غالبؔ کے اس شعر کے مصرعِ اولیٰ کی تقطیع ملاحظہ ہو:
حالِ دل = فاعلن
نہیں معلوم = مفاعیلان
لیکِنِس = فاعلن
قدر یعنی = مفاعیلن
اس میں لیکن، جو عربی الاصل لفظ ہے، کا نون "اس" کی الفِ وصل کے ساتھ مل گیا ہے۔
مندرجہ بالا صورتوں کے علاوہ اگر آپ عربی یا فارسی اصل کے الفاظ کا کوئی بھی حرف گراتے ہیں تو ظلم ہے۔ :):):)
میری خواہش ہو گی کہ آپ اپنی غزلوں پر اصلاح کے علاوہ بھی اصلاحِ سخن کا زمرہ دیکھتے رہا کیجیے۔ دوسرے احباب کی شاعری پر دی جانے والی آرا کبھی نہ کبھی ضرور آپ کے کام آئیں گی۔
مرے گھر کا رستہ جو ٹوٹا ہوا تھا
بڑی مشکلوں سے دوبارہ بنا ہے
دونوں مصرعوں میں پنجابیت سی معلوم ہوتی ہے۔ اردو میں راستہ ٹوٹتا نہیں بلکہ خراب ہوتا ہے۔ اسی طرح دشوار کام بڑی مشکلوں کی بجائے بڑی مشکل سے ہوتے ہیں۔ ممکن ہے کہ میرے یہ قیاسات غلط ہوں۔ بہرحال قاعدہ علی العموم یہ ہے کہ جہاں اردو کا محاورہ ساتھ نہ دے وہاں پنجابی، سندھی، بلوچی، پشتو، بنگالی، گجراتی، مراٹھی، انگریزی وغیرہ کسی زبان سے طرزِ بیان مستعار لینے میں ہرج نہیں۔ بلکہ بہت فائدہ ہے۔ لیکن اگر اردو کا محاورہ اسی تناظر میں موجود ہے تو اسے نظرانداز کر کے دوسری زبانوں کے محاورے کا تتبع زیادتی ہے۔ :):):)
 

فیضان قیصر

محفلین
راحیل فاروق بھائی آپکا بہت شکریہ نظرِ کرم فرمانے کے لیے۔ حضرت اپنی شاعری کے حوالےسے یقین مانے کوئی غلظ فہمی نہیں۔ یہاں غزل پیش کرنے کا اصل مقصود سوائے اصلاح اور کچھ بھی نہیں۔ تعریفی کلمات دل رکھنے کو اگر آپ کہ بھی دیں توماسوائے مجھے غلط فہمی میں مبتلا کرنے اور کسی طرح بھی مجھے فیضیاب نہیں کر پائیں گے۔ لہذا آپ کی تنقید ہی مطلوب ہے۔ قاعدہ بتا کر آپ نے میری بہت بڑی الجھن دور کر دی آئیندہ خیال رہے گا۔ اور میں پہلے ہی آپکے مشورے کے عین مطابق عمل کر رہا ہوں ۔ اصلاح کے سیکشن میں ہر غزل پر آپکے اور محترم الف عین صاحب کے تبصرے انتہائی ذوق سے پڑھتا ہوں۔ بہت ساری باتیں وہیں سے چپکے چپکے سیکھتا رہتا ہوں ۔ ویسےایک بات کہنی پڑے گی بہت حسساس دل ہے آپکے سینے میں۔ اللہ سلامت رکھے۔
 

الف عین

لائبریرین
سنا ہے کہ تم نے یہ دل دے دیا ہے
یہ کس کے بھروسے پہ تم نے کیا ہے؟
مطلع میں ایطا کا عیب ہے۔ دونوں مصرعوں کے قوافی ’یا‘ پر ختم ہوتے ہیں۔ اور کیونکہ یہ مطلع ہے جس سے قوافی کا اعلان ہوتا ہے، اس لیے یا تو سارے قوافی دیا، کیا، لیا ہونا چاہئے (حیا یرہ بھی نہیں چلے گا۔ کہ ’حیا‘ کی ’ح‘ پر فتح یا زبر ہے، یہاں دال اور کاف پر زیر ہے!! یا مطلع کے قوافی بدلنے ہوں گے، تاکہ سارے قوافی محض ’الف‘ پر ختم ہونے والے ہوں۔
ان اشعار میں:

کوئی بات ہے جو تمھیں ہو گوار؟ا
تمھاری انا کی کوئی انتہا ہے؟
ذرا تم بتائو کہ تم کیا کروگے
اسے جو بھی کرنا تھا وہ کر چکا ہے
مرے گھر کا رستہ جو ٹوٹا ہوا تھا
بڑی مشکلوں سے دوبارہ بنا ہے
میں فیضان اب بھی وہیں پہ کھڑا ہوں
جہاں سے مری بود کی ابتدا ہے
دست ابلاغ نہیں ہو سکا۔ یا دونوں مصرعوں میں جو بات کہی ج رہی ہے، ان کا آپسی ربط محسوس نہیں ہوتا۔
گھر کاراستہ ٹوٹا ہوا مان بھی لیا جائے تو بھی اس شعر میں کہنا کیا چاہتے ہو؟
مقطع میں ’پر‘ کے معنوں میں ’پہ‘ کا استعمال ہے۔ یہاں مکمل ’پر‘ آ سکتا ہے۔ جہاں نہ آ سکے وہاں تو ’پہ‘ کیا جا سکتا ہے، یہاں نہیں۔ اس شعر میں کیا فلسفہ بیان کیا گیا ہے، وہ میری سمجھ میں نہیں آیا۔
 

فیضان قیصر

محفلین
سنا ہے کہ تم نے یہ دل دے دیا ہے
یہ کس کے بھروسے پہ تم نے کیا ہے؟
مطلع میں ایطا کا عیب ہے۔ دونوں مصرعوں کے قوافی ’یا‘ پر ختم ہوتے ہیں۔ اور کیونکہ یہ مطلع ہے جس سے قوافی کا اعلان ہوتا ہے، اس لیے یا تو سارے قوافی دیا، کیا، لیا ہونا چاہئے (حیا یرہ بھی نہیں چلے گا۔ کہ ’حیا‘ کی ’ح‘ پر فتح یا زبر ہے، یہاں دال اور کاف پر زیر ہے!! یا مطلع کے قوافی بدلنے ہوں گے، تاکہ سارے قوافی محض ’الف‘ پر ختم ہونے والے ہوں۔
ان اشعار میں:

کوئی بات ہے جو تمھیں ہو گوار؟ا
تمھاری انا کی کوئی انتہا ہے؟
ذرا تم بتائو کہ تم کیا کروگے
اسے جو بھی کرنا تھا وہ کر چکا ہے
مرے گھر کا رستہ جو ٹوٹا ہوا تھا
بڑی مشکلوں سے دوبارہ بنا ہے
میں فیضان اب بھی وہیں پہ کھڑا ہوں
جہاں سے مری بود کی ابتدا ہے
دست ابلاغ نہیں ہو سکا۔ یا دونوں مصرعوں میں جو بات کہی ج رہی ہے، ان کا آپسی ربط محسوس نہیں ہوتا۔
گھر کاراستہ ٹوٹا ہوا مان بھی لیا جائے تو بھی اس شعر میں کہنا کیا چاہتے ہو؟
مقطع میں ’پر‘ کے معنوں میں ’پہ‘ کا استعمال ہے۔ یہاں مکمل ’پر‘ آ سکتا ہے۔ جہاں نہ آ سکے وہاں تو ’پہ‘ کیا جا سکتا ہے، یہاں نہیں۔ اس شعر میں کیا فلسفہ بیان کیا گیا ہے، وہ میری سمجھ میں نہیں آیا۔
مطلع کے حوالے سے میرے زہن میں بھی یہ خدشہ موجود تھا اب جو آپ نے توجہ فرمائی تو یقین ہوگیا کہ خدشہ درست تھا۔
باقی اشعار
کوئی بات ہے جو تمھیں ہو گوارا
تمھاری انا کی کوئی انتہا ہے؟
خود کلامی ہے ۔ شاعر اپنے مزاج پر آپ برہم ہے کہ آخر ہر چیز کو اپنی انا کا مسئلہ کیوں بنا لیتا ہے۔
ذرا تم بتائو کہ تم کیا کروگے
اسے جو بھی کرنا تھا وہ کر چکا ہے
اس شعر میں متکلم اور مخاطب مختلف ہوسکتے ہیں۔ یعنی کہ کسی شخص نے اپنے عمل سے خود کو سہی یا غلط ثابت کر دیا ہے۔ اب مخاطب سے پوچھا جارہا ہے کہ تمھیں اس شخص کے حوالے سے جو الجھن تھی چونکہ اب وہ تو دور ہوچکی لہذا اب تم اپنا ٖفیصلہ ارشاد کرو۔
مرے گھر کا رستہ جو ٹوٹا ہوا تھا
بڑی مشکلوں سے دوبارہ بنا ہے
یہاں گھر سے مراد دل کو لیا گیا ہے اور رستے سے مراد اعتماد۔۔ یعنی چونکہ ہمارا رشتوں سے اعتماد اٹھ گیا تھا اس لئے کوئی بھی ہمارے دل تک رسائی حاصل نہیں کر پاتا تھا ۔ مگر اب ہمارا اعتماد بہیت مشکلوں سے بحال ہوا ہے۔
میں فیضان اب بھی وہیں پہ کھڑا ہوں
جہاں سے مری بود کی ابتدا ہے
بود کی ابتدا سے مراد عمر کا وہ حصہ لیا ہے جہاں سے ہمیں غم اور خوشی کا مظلب سمجھ میں آتا ہے رشتوں کی باریکیاں اور مختلف جزباتی کیفییات کا ادراک شروع ہوجاتا ہے۔ اپنی ایسی ہی ایک کیفیت کو بیان کرنے کی کوشش کی کہ گو وقت آگے بڑھ چکا ہے، عمر میں بھی اضافہ ہوگیا ہے مگر مجھے اپنوں سے جو شکایت تھی جوکبھی میں بیان نہیں کر سکا وہ شکایت مجھے اب بھی باقی ہے۔ لوگ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ اب تو بہت وقت گزر چکا اور باتیں پرانی ہو چکی ہیں لہذا سب اسے بھول چکے ہیں تو ایسا نہیں ہے۔ میں ابھی بھی اسی مقام پہ انھی شکایت کے ساتھ موجود ہوں زندگی اور وقت اگرچہ گزرتے جارہے ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
جب شاعر سے اس کے اشعار کے معنی پوچھے جائیں تو سمجھ لو کہ شعر کمزور ہے۔ ججو مفہوم تم بتا رہے ہو، اس کو سمجھنے کے لیے غلط الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے۔ جیسے
کوئی بات ہے جو تمھیں ہو گوارا
سے یہ کب ظاہر ہوتا ہے جو تم نے لکھا ہے، اس لحاظ سے تو کچھ یوں ہونا چاہیے تھا ’ کوئی ایسی بات بھی ہے جو تم کو گوارا ہو!!‘ اسی طرح دل کو گھر سمجھنے کا کوئی قرینہ نہیں، کوئی کیسے سمجھے گا جب تک تم بتاؤ نہیں۔
 

فیضان قیصر

محفلین
جی استادِ محترم میں آپ کا اشارہ سمجھ گیا تھا۔ یہاں تک کہ بارہاں ان اشعارپر غور کرنے کے بعد میں بھی اسی نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ان اشعار میں ’
دست ابلاغ نہیں ہو سکا۔ یا دونوں مصرعوں میں جو بات کہی جا رہی ہے، ان کا آپسی ربط محسوس نہیں ہوتا۔‘ آئندہ اس بات کا خیال رہے گا۔ بہت شکریہ آپ کی ذرا سی توجہ بڑا کچھ سکھا دیتی ہے۔​
 
Top