عاطف بٹ
محفلین
ڈاکٹر فقیر محمد فقیر مرحوم کی پنجابی شعر و ادب میں تخلیقی خدمات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ مرحوم نے اس وقت پنجابی لکھنے، پڑھنے اور بولنے کا عَلم بلند کیا جب ادیب اور شاعر پنجابی میں لکھنا کسرِ شان سمجھتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم نہ صرف خود پنجابی لکھتے تھے بلکہ بڑے بڑوں کو پنجابی لکھنے پر مجبور کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ مرحوم، علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہیں پنجابی میں شاعری کرنے کی ترغیب دلائی۔ علامہ نے پنجابی میں شاعری کرنے سے معذوری ظاہر کی اور فرمایا، ایک تو میرا مزاج اردو، فارسی پڑھتے اور لکھتے ایسا بن چکا ہے، دوسرے پنجابی زبان میرے افکار و خیالات کے اظہار پر قادر نہیں۔ اس پر ڈاکٹر فقیر محمد فقیر جوش میں آگئے اور کہنے لگے ’یہ آپ کیوں کہتے ہیں کہ پنجابی میں قوتِ اظہار نہیں۔ لائیے، میں آپ کے جس شعر کا کہیں پنجابی ترجمہ کیے دیتا ہوں۔‘ علامہ نے کہا کہ میرے اس شعر کا ترجمہ کردیجئے:
گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر
ہوش و خرد شکار کر، قلب و نظر شکار کر
ڈاکٹر فقیر محمد فقیر نے فوراً یہ مصرع موزوں کردیا:
لشکن والیاں زلفاں نوں توں ہور ذرا لشکاندا جا
علامہ اقبال نے یہ ترجمہ سنتے ہی ڈاکٹر فقیر مرحوم سے کہا کہ ہم ہارے اور آپ جیتے۔ لیکن اصل بات یہ تھی کہ علامہ کے نزدیک یہ ترجمہ درست نہیں تھا۔ میں نے جب اسیر عابد کے ترجمہء ’بالِ جبریل‘ میں اس شعر کا ترجمہ پڑھا تو مجھے یہ خیال آیا کہ اگر علامہ مرحوم اسیر عابد کا ترجمہ سن لیتے تو مزید ترجمے کی فرمائش کرتے۔ آپ بھی ترجمہ دیکھیں:
کُنڈلائیاں ہوئیاں زلفاں نوں توں ہور ذرا کُنڈلا سجنا
عقلاں نوں جال پھسا سجنا، عشقاں نوں پھاہیاں پا سجنا
ڈاکٹر فقیر مرحوم نے ’تابدار‘ کا ترجمہ ’لشکن والیاں‘ کیا تھا جبکہ اسیر عابد نے اس کا ترجمہ ’کُنڈلائیاں ہوئیاں‘ کیا ہے۔ شعر کی صنعت گریوں اور ہنرمندیوں سے واقف فیصلہ کرسکیں گے کہ ہوش و خرد شکار کرنے کے لئے زلفوں کے جال کی ضرورت ہوتی ہے یا زلفوں کے چمکنے کی۔
(اسیر عابد کی ’جبریل اُڈاری‘ پر ڈاکٹر وحید عشرت کے دیباچہ سے اقتباس)