الہٰی! تیری چوکھٹ پر بھکاری بن کے آیا ہوں
سراپا فقر ہوں ، عجز و ندامت ساتھ لایا ہوں
بھکاری وہ کہ جس کے پاس جھولی ہے نہ پیالہ ہے
بھکاری وہ جسے حرص و ہوس نے مارڈالا ہے
متاعِ دین و دانش نفس کے ہاتھوں سے لٹواکر
سکونِ قلب کی پونجی ہوس کی بھینٹ چڑھوا کر
لٹاکر ساری پونجی غفلت و عصیاں کی دلدل میں
سہارا لینے آیا ہوں ترے کعبے کے آنچل میں
گناہوں کی لپٹ سے کائناتِ قلب افسردہ
ارادے مضمحل ، ہمت شکستہ ، حوصلے مردہ
کہاں سے لاؤں طاقت دل کی سچی ترجمانی کی
کہ کس جنجال میں گزری ہیں گھڑیاں زندگانی کی
خلاصہ یہ کہ بس جل بھن کے اپنی روسیاہی سے
سراپا فقر بن کر اپنی حالت کی تباہی سے
ترے دربار میں لایا ہوں اب اپنی زبوں حالی
تری چوکھٹ کے لائق ہر عمل سے ہاتھ ہے خالی
تری چوکھٹ کے جو آداب ہیں میں ان سے خالی ہوں
نہیں جس کو سلیقہ مانگنے کا وہ سوالی ہوں
یہ تیرا گھر ہے ، تیرے مہر کا دربار ہے مولیٰ!
سراپا نور(/مہر )ہے اک مہبطِ انوار ہے مولیٰ!
یہ آنکھیں خشک ہیں یارب! انھیں رونا نہیں آتا
سلگتے داغ ہیں دل میں جنھیں دھونا نہیں آتا
زباں غرقِ ندامت دل کی ناقص ترجمانی پر
خدایا رحم میری اس زبانِ بے زبانی پر
خود مفتی صاحب کی آواز میں یہ کلام
جنید جمشید کی آواز میں یہ کلام