پیاسا صحرا
محفلین
فلسطینی شاعرکی ایک نظم
نہیں سلاخوں کے بس میں مجھ کو ہلاک کرنا
فصیلِ زنداں نہ روک پائے گی راہ میری
فضول ہے یہ شبِ سیہ کی تباہ کاری
کہ میرے خوں میں چمکتے دن کی نفیریاں ہیں
نظر میں اپنے ہی رنگ چھائے ہیں
اور ہونٹوں پہ جو صدا ہے وہ حرف جاں ہے
گئے ہوؤں کی عزیز روحو!
کبھی تو برزخ کی سرحدوں سے نکل کے آؤ
کبھی تو میرے زفاف کی شب میں مجھ کو دیکھو
کبھی تو دیکھو کہ کیسے میں نے فنا کی شب میں
جبین اپنی بلند رکھی
کبھی تو دیکھو کہ کیسے میں نے
سپیدہء غم میں جانے والوں کی مغفرت کی دعائیں مانگیں
مغنیوں کی صدائیں راتوں میں گونجتی ہیں
لرز رہے ہیں تمام سازوں کے تار جیسے
کبھی نہ سوئیں گے اہل نغمہ
مرے وطن، اے متاع ہستی۔۔۔ کبھی تو سن لے
کہ ذرہ ذرہ تری سماعت کا منتظر ہے
قبول کرلے ہمارا نغمہ
جو پھول بن کر نواحِ زنداں کی شور مٹی میں کھل اٹھاہے
بہت بڑی ہیں قفس نشینوں کی داستانیں
اور ایک بے باک قہقہہ ہے یہ گیت ان پر
جو اس کی بندش کے مدعی ہیں
بہت بڑی ہیں قفس نشینوں کی داستانیں
میں ان کے آخر کے ظلم صفحوں کو ایک اک کر کے پھاڑتا ہوں
کبھی کبھی جب مری بصیرت شکست کھاتی ہے،
اور سوچیں، جہت بھلا کر بھٹکنے لگتی ہیں،
میری آنکھوں میں کوندجاتا ہے اپنے والد کا وہ تبسم
جو موت لمحے میں اس کے چہرے پہ ضو فگن تھا
دکھائی دیتے ہیں قاتلوں کے سیاہ چہرے
جو خوف ودہشت کے سرد جالے میں کانپتے ہیں
مجھے قفس کے محافظوں سے خطرہی کیا ہے
کہ ان کے بس میں نہ گیت میرے نہ پھول میرے،
نہ میری چاہت
مجھے قفس کے محافظوں سے خطر ہی کیا ہے!
کہ دستر س میں نہیں ہیں ان کی
وہ کنجیاں، جن سے میری جیبیں بھری ہوئی ہیں
مجھے کسی عارضے کا ڈر ہے،
نہ ان فیصلوں میں بربریت کے شاہکاروں کاخوف کوئی
کہ جب بھی چاہوں
نئی مسرت سے پرزمینوں کی سرخ مٹی میں منہ چھپانا
ہے میرے بس میں
نہیں ہے کہ کچھ بھی سلاک زنداں کی دسترس میں
کہ میری ساری حیات لمحہ ہے۔۔۔ ایک لمحہ
زمان چاہت کے لاکھ قرنوں میں ایک لمحہ
یہ قیدمیری ، مرے لیے ہے فقط تماشا
قضا ہے جس طرح کھیل کوئی
شاعر :سمیع القاسم
نہیں سلاخوں کے بس میں مجھ کو ہلاک کرنا
فصیلِ زنداں نہ روک پائے گی راہ میری
فضول ہے یہ شبِ سیہ کی تباہ کاری
کہ میرے خوں میں چمکتے دن کی نفیریاں ہیں
نظر میں اپنے ہی رنگ چھائے ہیں
اور ہونٹوں پہ جو صدا ہے وہ حرف جاں ہے
گئے ہوؤں کی عزیز روحو!
کبھی تو برزخ کی سرحدوں سے نکل کے آؤ
کبھی تو میرے زفاف کی شب میں مجھ کو دیکھو
کبھی تو دیکھو کہ کیسے میں نے فنا کی شب میں
جبین اپنی بلند رکھی
کبھی تو دیکھو کہ کیسے میں نے
سپیدہء غم میں جانے والوں کی مغفرت کی دعائیں مانگیں
مغنیوں کی صدائیں راتوں میں گونجتی ہیں
لرز رہے ہیں تمام سازوں کے تار جیسے
کبھی نہ سوئیں گے اہل نغمہ
مرے وطن، اے متاع ہستی۔۔۔ کبھی تو سن لے
کہ ذرہ ذرہ تری سماعت کا منتظر ہے
قبول کرلے ہمارا نغمہ
جو پھول بن کر نواحِ زنداں کی شور مٹی میں کھل اٹھاہے
بہت بڑی ہیں قفس نشینوں کی داستانیں
اور ایک بے باک قہقہہ ہے یہ گیت ان پر
جو اس کی بندش کے مدعی ہیں
بہت بڑی ہیں قفس نشینوں کی داستانیں
میں ان کے آخر کے ظلم صفحوں کو ایک اک کر کے پھاڑتا ہوں
کبھی کبھی جب مری بصیرت شکست کھاتی ہے،
اور سوچیں، جہت بھلا کر بھٹکنے لگتی ہیں،
میری آنکھوں میں کوندجاتا ہے اپنے والد کا وہ تبسم
جو موت لمحے میں اس کے چہرے پہ ضو فگن تھا
دکھائی دیتے ہیں قاتلوں کے سیاہ چہرے
جو خوف ودہشت کے سرد جالے میں کانپتے ہیں
مجھے قفس کے محافظوں سے خطرہی کیا ہے
کہ ان کے بس میں نہ گیت میرے نہ پھول میرے،
نہ میری چاہت
مجھے قفس کے محافظوں سے خطر ہی کیا ہے!
کہ دستر س میں نہیں ہیں ان کی
وہ کنجیاں، جن سے میری جیبیں بھری ہوئی ہیں
مجھے کسی عارضے کا ڈر ہے،
نہ ان فیصلوں میں بربریت کے شاہکاروں کاخوف کوئی
کہ جب بھی چاہوں
نئی مسرت سے پرزمینوں کی سرخ مٹی میں منہ چھپانا
ہے میرے بس میں
نہیں ہے کہ کچھ بھی سلاک زنداں کی دسترس میں
کہ میری ساری حیات لمحہ ہے۔۔۔ ایک لمحہ
زمان چاہت کے لاکھ قرنوں میں ایک لمحہ
یہ قیدمیری ، مرے لیے ہے فقط تماشا
قضا ہے جس طرح کھیل کوئی
شاعر :سمیع القاسم