حسان خان
لائبریرین
میں جہاں بھی گیا ارضِ وطن
تیری تذلیل کے داغوں کی جلن دل میں لئے
تری حرمت کے چراغوں کی لگن دل میں لئے
تیری الفت، تری یادوں کی کسک ساتھ گئی
تیرے نارنج شگوفوں کی مہک ساتھ گئی
سارے اَن دیکھے رفیقوں کی جِلو ساتھ رہا
کتنے ہاتھوں سے ہم آغوش مرا ہاتھ رہا
دور پردیس کی بے مہر گذر گاہوں میں
اجنبی شہر کی بے نام و نشاں راہوں میں
جس زمیں پر بھی کھُلا میرے لہو کا پرچم
لہلہاتا ہے وہاں ارضِ فلسطیں کا عَلَم
تیرے اعدا نے کیا ایک فلسطیں برباد
میرے زخموں نے کئے کتنے فلسطیں آباد
(فیض احمد فیض)
بیروت ۸۰ ء