محمد امین صدیق
محفلین
قربانی کرنے کی رسم زمانہ جاہلیت میں بھی مروج تھی۔ من گھڑت دیوتاؤں کی خوشنودی کے لئے یا نذر و شکر کے سبب قربانی کا عمل جاری و ساری رہتا تھا۔ البتہ زمانہ جاہلیت کی قربانی یہ تھی ذبیحہ کو بت کے سامنے رکھ دیا جاتا، یا پہاڑوں پر چھوڑ دیا جاتا۔ اس قربانی کا تصور جو غیر اﷲ کے نام پر کی جاتی تھی مقصد صرف یہی ہوتا تھا کہ آفات و بلیات سے محفوظ رہ سکیں دیوتاؤں کی خدمت میں قربانی کردی اب ہم مامون و محفوظ ہیں۔
حضرت ابراھیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کے بعد فلسفہ قربانی تبدیل کردیا گیا ۔ اﷲ تعالیٰ نے حضرت ابراھیم علیہ السلام کو بڑھاپے میں اولاد عطا کی حضرت اسماعیل علیہ السلام کی صورت میں۔ مختلف امتحانوں سے گزرنے کے بعد جب حضرت اسماعیل علیہ السلام لڑکپن کو پہنچے اور حضرت ابراھیم علیہ السلام کے قلب مبارک میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی بے انتہا محبت پیدا ہوچکی تھی تو اﷲ تعالی نے ان کی محبت کا امتحان لینے کے لئے انہیں حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان یعنی ذبح کرنے کا حکم دیا ۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام نے یہ خواب اپنے صاحبزادے کو سنایا تو انہوں نے بھی فرمانبرداری اور اطاعت کے جذبے سے کہا کہ آپ کو جو حکم دیا گیا ہے اس پر عمل کر گزریں آپ مجھے شاکر و صابر پائیں گے۔
شیطان نے لاکھ جتن کیے کہ دونوں نبیوں اور حضرت ہاجرہ کے دل میں وسوسے ڈال کر ان کو اس قربانی اور اﷲ کے حکم کی تعمیل سے روک دے مگر انبیا پر شیطان کو زور چل ہی نہیں سکتا کیوں کہ وہ معصوم ہوتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لئے لٹا دیا ہاتھ پاؤں باندھ کر تاکہ شدت الم و تکلیف سے مزاحمت نہ ہو(اسی لئے قربانی کے جانوروں کو ذبح کرتے وقت ان کومضبوطی کے ساتھ باندھ لینے کا حکم ہے کہ جانوروں کو اذیت نہ پہنچے اور خوب اچھے طریقے سے ذبح کیے جاسکیں) لیکن اﷲ تعالیٰ کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی مقصود نہ تھی بلکہ یہ ایک امتحان تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے ادھیڑ عمر کے بیٹے کے مقابل اﷲ کی محبت و اطاعت کو غالب کرتے ہیں یا مغلوب۔۔۔۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنا ارادہ انجام دینے کے لئے چھری چلاتے تو چھری نہ چلتی اتنے میں جنت سے مینڈھا فرشتے لے کر حاضر ہوئے اور چھری چلی تو دیکھا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام قریب بیٹھے ہوئے ہیں ااور مینڈھا ذبح ہواہوا ہے اور اﷲ نے فرمایا کہ آپ نے خواب سچ کر دکھایا ہے اور آپ سچوں میں سے ہیں۔
اﷲ رب العزت نے آخری امت پر بھی قربانی لازم قرار دیا اجماع امت ہے کہ قربانی ہر صاحبِ ثروت پر واجب ہے جس پر مقدار زکواۃ مال و دولت موجود ہو۔نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ طیبہ قیام کی تمام مدت میں قربانی کا فریضہ اور سنت ابراہیمی ادا کرتے رہے۔ اصل میں جو نحر کا حکم حج کے بعد تھا اور مشرکین مسلمانوں کو مکہ نہ جانے دیتے تھے تو اﷲ نے حج کی نیابت و قائم مقامی کی انجام دہی کے لئے قربانی کا حکم جاری کیا ۔امت محمدیہ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کا امتیاز ہے کہ اﷲ رب العزت نے سورہ حج میں بیان کردیا کہ ہمیں جانوروں کے گوشت و خون سے کوئی سروکار نہیں بلکہ ہم تو پرہیزگاری چاہتے ہیں اپنے بندوں سے۔ یعنی اس فرمان سے ظاہر ہوا کہ اﷲ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ زمانہ جاہلیت اور قبل اسلام کی قربانی ہمیں نہیں چاہیے کہ جانور ذبح کر کے اسے پہاڑوں پر رکھ دیا جائے یا بتوں کے سامنے میں رکھ دیا جائے، نہیں ہر گز نہیں ہمیں تو صرف تقویٰ اور پرہیزگاری مطلوب ہے۔ قربانی کے جانور کا گوشت اور اس کی کھال سے انسانوں کو استفادہ کرنے کی اجازت دی گئی بس یہ شرط عائد کردی گئی ہے کہ قربانی کرنے والے کی نیت خالص ہونی چاہیے کہ وہ اﷲ کی رضا و منشا کو پورا کرنے کے لئے اور اپنی عاجزی و خود سپردگی کا عملی مظاہرہ پیش کرے۔اگر یہ امر موجود ہے تو قربانی مقبول ہے اور یہ عمل روز محشر میں باعث نجات ہوگا خداناخواستہ اگر اس میں کہیں ٹیڑھ پن یعنی لوگوں کی دیکھا دیکھی یا گوشت کھانے کی نیت سے قربانی کی گئی تو یہ قربانی مسترد کی جائے گی ۔(خاص طور پر اجتماعی قربانی میں حصہ لینے والے سبھی شرکاء کی نیت کا خالص و نیک ہونا ضروری ہے کیونکہ اگر نیت میں خلل کا وبال صرف اس بدنیت پر ہی نہ پڑے گا بلکہ سب کی قربانی ضائع جائے گی اور اس کی ذمہ داری بھی اسی بدنیت پر پڑے گی)-
قربانی کا جو حکم دیا گیا ہے اس سے دو اہم دروس ملتے ہیں اول یہ کہ قربانی کرنے والے کو قربانی کرتے وقت یہ احساس و ادراک ہونا چاہیئے کہ صرف سال بعد قربانی کرلینا کافی نہیں ہے بلکہ سال بھر کی زندگی کو اﷲ کی مرضی و منشا کے مطابق قربان کرنے کا جذبہ ہونا لازمی ہے، مال و اولاد، زر، زن اور زمین کی محبت انسان کو اس کے خالق و مالک کی یاد سے غافل نہ کرنے پائے یہی اصل روح ہے قربانی کی جیسے ہم دیکھ چکے ہیں حضرت ابرہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے عمل کو یہ ہمارے لیے مشعل راہ ہ ہے۔
دوسرا امر یہ یقینی بنانا چاہیے قربانی کرتے وقت اپنی ناجائز خواہشات کو قربان کرنے کے ساتھ ساتھ بے سہارا، دکھی انسانیت کی مدد کرنے کا جذبہ اس کے سینے میں موجزن ہوجانا چاہیے کہ اس کے اردگرد پڑوسی، اعزہ و اقارب کی دیکھ بھال کرنا اور ان کی ضروری حاجتوں کی تکمیل کے لئے ان کی مدد و معاونت کرنا لازمی ہے کیونکہ مسلمانوں کی یہ صفت ہے کہ وہ ایک جسم کی مانند ہیں کائنات کے کسی بھی حصے میں ایک مسلمان پر مصیبت و مشکل آتی ہے تو دوسرا مسلمان اپنے بھائی کی مدد کرنے کے لئے بے چین ہوجاتا ہے اگر یہ صفت قربانی کا فریضہ انجام دینے والوں کے دلوں میں پیدا ہوگیا تو دنیا کے سبھی مسلمان خوش وخرم اور عزت کی زندگی بسر کرنے کے ساتھ ساتھ کائنات میں اپنا قائدانہ کردار اداکرسکنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اگر یہ دو صفتیں قربانی کرنے والے میں پیدا نہ ہوں تو خطرہ ہے کہ ان کی قربانی کو مسترد کر کے مردود کردی جائے۔
حضرت ابراھیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کے بعد فلسفہ قربانی تبدیل کردیا گیا ۔ اﷲ تعالیٰ نے حضرت ابراھیم علیہ السلام کو بڑھاپے میں اولاد عطا کی حضرت اسماعیل علیہ السلام کی صورت میں۔ مختلف امتحانوں سے گزرنے کے بعد جب حضرت اسماعیل علیہ السلام لڑکپن کو پہنچے اور حضرت ابراھیم علیہ السلام کے قلب مبارک میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی بے انتہا محبت پیدا ہوچکی تھی تو اﷲ تعالی نے ان کی محبت کا امتحان لینے کے لئے انہیں حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان یعنی ذبح کرنے کا حکم دیا ۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام نے یہ خواب اپنے صاحبزادے کو سنایا تو انہوں نے بھی فرمانبرداری اور اطاعت کے جذبے سے کہا کہ آپ کو جو حکم دیا گیا ہے اس پر عمل کر گزریں آپ مجھے شاکر و صابر پائیں گے۔
شیطان نے لاکھ جتن کیے کہ دونوں نبیوں اور حضرت ہاجرہ کے دل میں وسوسے ڈال کر ان کو اس قربانی اور اﷲ کے حکم کی تعمیل سے روک دے مگر انبیا پر شیطان کو زور چل ہی نہیں سکتا کیوں کہ وہ معصوم ہوتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لئے لٹا دیا ہاتھ پاؤں باندھ کر تاکہ شدت الم و تکلیف سے مزاحمت نہ ہو(اسی لئے قربانی کے جانوروں کو ذبح کرتے وقت ان کومضبوطی کے ساتھ باندھ لینے کا حکم ہے کہ جانوروں کو اذیت نہ پہنچے اور خوب اچھے طریقے سے ذبح کیے جاسکیں) لیکن اﷲ تعالیٰ کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی مقصود نہ تھی بلکہ یہ ایک امتحان تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے ادھیڑ عمر کے بیٹے کے مقابل اﷲ کی محبت و اطاعت کو غالب کرتے ہیں یا مغلوب۔۔۔۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنا ارادہ انجام دینے کے لئے چھری چلاتے تو چھری نہ چلتی اتنے میں جنت سے مینڈھا فرشتے لے کر حاضر ہوئے اور چھری چلی تو دیکھا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام قریب بیٹھے ہوئے ہیں ااور مینڈھا ذبح ہواہوا ہے اور اﷲ نے فرمایا کہ آپ نے خواب سچ کر دکھایا ہے اور آپ سچوں میں سے ہیں۔
اﷲ رب العزت نے آخری امت پر بھی قربانی لازم قرار دیا اجماع امت ہے کہ قربانی ہر صاحبِ ثروت پر واجب ہے جس پر مقدار زکواۃ مال و دولت موجود ہو۔نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ طیبہ قیام کی تمام مدت میں قربانی کا فریضہ اور سنت ابراہیمی ادا کرتے رہے۔ اصل میں جو نحر کا حکم حج کے بعد تھا اور مشرکین مسلمانوں کو مکہ نہ جانے دیتے تھے تو اﷲ نے حج کی نیابت و قائم مقامی کی انجام دہی کے لئے قربانی کا حکم جاری کیا ۔امت محمدیہ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کا امتیاز ہے کہ اﷲ رب العزت نے سورہ حج میں بیان کردیا کہ ہمیں جانوروں کے گوشت و خون سے کوئی سروکار نہیں بلکہ ہم تو پرہیزگاری چاہتے ہیں اپنے بندوں سے۔ یعنی اس فرمان سے ظاہر ہوا کہ اﷲ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ زمانہ جاہلیت اور قبل اسلام کی قربانی ہمیں نہیں چاہیے کہ جانور ذبح کر کے اسے پہاڑوں پر رکھ دیا جائے یا بتوں کے سامنے میں رکھ دیا جائے، نہیں ہر گز نہیں ہمیں تو صرف تقویٰ اور پرہیزگاری مطلوب ہے۔ قربانی کے جانور کا گوشت اور اس کی کھال سے انسانوں کو استفادہ کرنے کی اجازت دی گئی بس یہ شرط عائد کردی گئی ہے کہ قربانی کرنے والے کی نیت خالص ہونی چاہیے کہ وہ اﷲ کی رضا و منشا کو پورا کرنے کے لئے اور اپنی عاجزی و خود سپردگی کا عملی مظاہرہ پیش کرے۔اگر یہ امر موجود ہے تو قربانی مقبول ہے اور یہ عمل روز محشر میں باعث نجات ہوگا خداناخواستہ اگر اس میں کہیں ٹیڑھ پن یعنی لوگوں کی دیکھا دیکھی یا گوشت کھانے کی نیت سے قربانی کی گئی تو یہ قربانی مسترد کی جائے گی ۔(خاص طور پر اجتماعی قربانی میں حصہ لینے والے سبھی شرکاء کی نیت کا خالص و نیک ہونا ضروری ہے کیونکہ اگر نیت میں خلل کا وبال صرف اس بدنیت پر ہی نہ پڑے گا بلکہ سب کی قربانی ضائع جائے گی اور اس کی ذمہ داری بھی اسی بدنیت پر پڑے گی)-
قربانی کا جو حکم دیا گیا ہے اس سے دو اہم دروس ملتے ہیں اول یہ کہ قربانی کرنے والے کو قربانی کرتے وقت یہ احساس و ادراک ہونا چاہیئے کہ صرف سال بعد قربانی کرلینا کافی نہیں ہے بلکہ سال بھر کی زندگی کو اﷲ کی مرضی و منشا کے مطابق قربان کرنے کا جذبہ ہونا لازمی ہے، مال و اولاد، زر، زن اور زمین کی محبت انسان کو اس کے خالق و مالک کی یاد سے غافل نہ کرنے پائے یہی اصل روح ہے قربانی کی جیسے ہم دیکھ چکے ہیں حضرت ابرہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے عمل کو یہ ہمارے لیے مشعل راہ ہ ہے۔
دوسرا امر یہ یقینی بنانا چاہیے قربانی کرتے وقت اپنی ناجائز خواہشات کو قربان کرنے کے ساتھ ساتھ بے سہارا، دکھی انسانیت کی مدد کرنے کا جذبہ اس کے سینے میں موجزن ہوجانا چاہیے کہ اس کے اردگرد پڑوسی، اعزہ و اقارب کی دیکھ بھال کرنا اور ان کی ضروری حاجتوں کی تکمیل کے لئے ان کی مدد و معاونت کرنا لازمی ہے کیونکہ مسلمانوں کی یہ صفت ہے کہ وہ ایک جسم کی مانند ہیں کائنات کے کسی بھی حصے میں ایک مسلمان پر مصیبت و مشکل آتی ہے تو دوسرا مسلمان اپنے بھائی کی مدد کرنے کے لئے بے چین ہوجاتا ہے اگر یہ صفت قربانی کا فریضہ انجام دینے والوں کے دلوں میں پیدا ہوگیا تو دنیا کے سبھی مسلمان خوش وخرم اور عزت کی زندگی بسر کرنے کے ساتھ ساتھ کائنات میں اپنا قائدانہ کردار اداکرسکنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اگر یہ دو صفتیں قربانی کرنے والے میں پیدا نہ ہوں تو خطرہ ہے کہ ان کی قربانی کو مسترد کر کے مردود کردی جائے۔