فلسفی کیسے سوچتا ہے ؟

اظہرالحق

محفلین
کسی نے ایک فلسفی سے پوچھا کہ ایک عام آدمی اور فلسفی کی سوچ میں کیا فرق ہے ؟

فلسفی نے کہا کہ وہ دیکھو دیوار پر اوپلے لگے ہوئے ہیں ، عام آدمی کے لئے کوئی نئی چیز نہیں ، مگر فلسفی یہ سوچے گا کہ آخر گائے دیوار پر چڑھی کیسے ؟
-----------------------------------

اوپلے = گائے کے گوبر کو دیوار پر لگا کر سکھایا جاتا ہے اور ایندھن کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے
 

سیفی

محفلین
ایک دفعہ ایک فلسفی کا گزر ایک گاؤ‌ں میں ہوا جہاں ایک کولہو میں بیل چل رہا تھا اور اس کے گلے میں گھنٹیاں بندھی تھیں جو اس کے چلنے سے بج رہی تھیں۔

فلسفی نے کسان سے پوچھا
“یہ بیل کے گلے میں گھنٹیاں کس لئے باندھی ہوئی ہیں“
کسان نے جواب دیا
“میں ادھر اپنا کام کر رہا ہوں۔ اگر بیل چلتے چلتے رک جائے تو گھنٹیوں کی آواز بند ہو جائے گی۔ اور مجھے پتا چل جائے گا۔ “
فلسفی تھوڑی دیر تک سوچتا رہا اور پھر پوچھا
“لیکن اگر بیل ایک جگہ ہی کھڑا ہو کر سر ہلانا شروع کر دے تو تمہیں کیسے پتا چلے گا“

“ یہ بیل ہے جناب ۔۔۔فلسفی نہیں۔۔۔۔“ کسان نے جواب دیا :D
 
اظہرالحق نے کہا:
کسی نے ایک فلسفی سے پوچھا کہ ایک عام آدمی اور فلسفی کی سوچ میں کیا فرق ہے ؟

فلسفی نے کہا کہ وہ دیکھو دیوار پر اوپلے لگے ہوئے ہیں ، عام آدمی کے لئے کوئی نئی چیز نہیں ، مگر فلسفی یہ سوچے گا کہ آخر گائے دیوار پر چڑھی کیسے ؟
-----------------------------------

اوپلے = گائے کے گوبر کو دیوار پر لگا کر سکھایا جاتا ہے اور ایندھن کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے

عنوان پڑھ کر میں سمجھا کہ محب علوی تیار ہو جاؤ نعیم نے موضوع کا آغاز کر دیا ہے ذرا سوچنے کے عمل پر خیالات کو ترتیب دے لو مگر یہاں آ کر پتہ چلا کہ یہاں تو فلسفیوں کا ٹھٹہ لگا ہوا ہے۔

خیر اس سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے

“ ایک مشہور فلسفی کا ڈرائیور اپنے مالک سے بے حد متاثر تھا اور ہر مجلس کو بہت غور سے سنا کرتا تھا جہاں فلسفی اخلاقیات اور اصولوں پر با آسانی سوالات کے جواب دیا کرتا تھا۔
ایک دن ڈرائیور نے فلسفی کے سامنے تجویز رکھی کہ اگر وہ رضامند ہو تو وہ دونوں شام کے لیکچر کے لئے اپنے کردار بدل لیتے ہیں۔ فلسفی اس پر رضامند ہو گیا اور ڈرائیور نے لیکچر دینا شروع کر دیا اور معاملات کو بخوبی سنبھالے رکھا۔ سوالات کا دور شروع ہوتے ہی ایک خاتون نے سوال کیا
“کیا کائنات کے متعلق علمی نظریہ آزادیِ عمل کی دنیا میں اب بھی قابل عمل ہے؟“

“یہ تو بہت ہی آسان سوال ہے “، اس نے کہا۔ “اتنا آسان سوال ہے کہ میرا ڈرائیور بھی اس کا جواب دے سکتا ہے ، ابھی آکر وہ اس کا جواب دیتا ہے۔“
 
دوستوں صرف مسکرانے سے کام نہیں چلے گا کچھ پوسٹ کرنا پڑے گا۔ کیا اور فلسفیانہ لطیفے چلائے جائیں :)
 

زیک

مسافر
یہ تو مزاح ہے اسلئے اسے تاریخ اور فلسفے کے فورم میں نہیں بلکہ طنزومزاح کے فورم میں ہونا چاہیئے۔
 

دوست

محفلین
ایک بار ایک فلسفی،ایک گنجا اور ایک نائی لمبے سفر پر نکلے۔
راستے میں‌رات ہوگئی ۔ طے پایا کہ تمام لوگ باری باری پہرہ دیں‌گے۔ پہلی باری نائی کی تھی۔
کچھ دیر تک تو نائی نے آرام سے پہرہ دیا مگر پھر اس کے ہاتھ میں‌کھجلی ہونے لگی۔
کچھ نہ سوجھا تو استرا پکڑ کر فلسفی کا سر مونڈ دیا۔
نائی کے بعد فلسفی کی باری تھی۔ نائی نے اسے اٹھایا اور خود سو گیا۔
اب فلسفی سوچتے ہوئے سر پر ہاتھ پھیر رہا ہے۔
دفعتًا چونک جاتاہے۔
“بیڑہ غرق“ اس کے منہ سے نکلتا ہے۔ “اٹھانا مجھے تھا اٹھا گنجے کو دیا۔“
 

جیہ

لائبریرین
محب علوی نے کہا:
اظہرالحق نے کہا:
کسی نے ایک فلسفی سے پوچھا کہ ایک عام آدمی اور فلسفی کی سوچ میں کیا فرق ہے ؟

فلسفی نے کہا کہ وہ دیکھو دیوار پر اوپلے لگے ہوئے ہیں ، عام آدمی کے لئے کوئی نئی چیز نہیں ، مگر فلسفی یہ سوچے گا کہ آخر گائے دیوار پر چڑھی کیسے ؟
-----------------------------------

اوپلے = گائے کے گوبر کو دیوار پر لگا کر سکھایا جاتا ہے اور ایندھن کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے

عنوان پڑھ کر میں سمجھا کہ محب علوی تیار ہو جاؤ نعیم نے موضوع کا آغاز کر دیا ہے ذرا سوچنے کے عمل پر خیالات کو ترتیب دے لو مگر یہاں آ کر پتہ چلا کہ یہاں تو فلسفیوں کا ٹھٹہ لگا ہوا ہے۔

خیر اس سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے

“ ایک مشہور فلسفی کا ڈرائیور اپنے مالک سے بے حد متاثر تھا اور ہر مجلس کو بہت غور سے سنا کرتا تھا جہاں فلسفی اخلاقیات اور اصولوں پر با آسانی سوالات کے جواب دیا کرتا تھا۔
ایک دن ڈرائیور نے فلسفی کے سامنے تجویز رکھی کہ اگر وہ رضامند ہو تو وہ دونوں شام کے لیکچر کے لئے اپنے کردار بدل لیتے ہیں۔ فلسفی اس پر رضامند ہو گیا اور ڈرائیور نے لیکچر دینا شروع کر دیا اور معاملات کو بخوبی سنبھالے رکھا۔ سوالات کا دور شروع ہوتے ہی ایک خاتون نے سوال کیا
“کیا کائنات کے متعلق علمی نظریہ آزادیِ عمل کی دنیا میں اب بھی قابل عمل ہے؟“

“یہ تو بہت ہی آسان سوال ہے “، اس نے کہا۔ “اتنا آسان سوال ہے کہ میرا ڈرائیور بھی اس کا جواب دے سکتا ہے ، ابھی آکر وہ اس کا جواب دیتا ہے۔“

محب صاحب۔ یہ لطیفہ نہیں، حقیقت ہے اور یہ واقعہ مشہور سائنسدان آئن سٹائن کے ساتھ اس وقت پیش آیا تھا جب اس کو اپنے نظریہ اضافیت Special theory of Relativity پر لکچر دینے ہوتے تھے۔
 
کچھ لطیفے بر مبنی حقیقت بھی ہوتے ہیں اور یہ ایسا ہی لطیفہ تھا جویریہ۔ میں جانتا ہوں کہ یہ آئن سٹائن اور اس کے ڈرائیور کے متعلق تھا مگر میں نے سوچا اسے عمومی رنگ دیا جائے ، ویسے اچھا ہے کہ معلومات میں اس طرح سے بھی اضافہ کردیا جائے۔
 

جیہ

لائبریرین
دو فلسفی دنیا کے شور و غل سے تنگ آکر ایک سنسان جزیرے پر چلے گئے تاکہ ان کےغور و فکر میں خلل نہ پڑے۔

جب ایک سال گزر کیا تو ایک نے دوسرے سے کہا۔۔

“واقعی یہاں بہت سکون ہے“

ایک سال بعد دوسرے نے جواب دیا

“ اگر تم اتنا شور کروگے تو میری تیری راہیں جدا“







( بھئی اگر ہنسی نہیں آئی تو میری خاطر ہی تھوڑا ہنس لینے میں کیا حرج ہے :( )
 

شمشاد

لائبریرین
یہ ہنسنے کا تو نہیں البتہ واقعی سوچنے کا مقام ہے۔

اور میں نے بھی کہیں لکھا تھا ایک فلسفی کے متعلق :

دعوا بڑا ہے ریاضی میں آپ کو
طولِ شبِ فراق ذرا ناپ دیجیئے
 

جیہ

لائبریرین
آپ کے شعر میں ریاضی لفظ سے ایک ریاضی دان کا لطیفہ یاد آیا۔۔۔۔

ایک شریف ریاضی دان کو اپنے ملازم کے کسی بات پر غصہ آگیا۔ مگر اپنی شرافت کی وجہ سے اور کچھ نہ کہ سکے تو اس سے کہا:

“ تو بڑا متوازی الاضلاع مثلث ہے“
 

شمشاد

لائبریرین
ہمارے ہاں بھی ایک صاحب تھے، ایک دفعہ ایک امریکی سے غصہ ہوئے تو اسے تو کچھ نہ کہا، کہنے لگے

لعنت ہو کولمبس پر جس نے امریکہ دریافت کیا۔
:lol:
 
Top