حسن علوی
محفلین
(ایک ویب سائٹ کا تراشہ)
سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صبیح الدین احمد نے فلم ’خدا کے لیے‘ کی نمائش بند کرانے کی درخواست دینے والے ایک مدرس کے وکیل سے کہا ہے کہ وہ قرآن و سنت کی روشنی میں ثابت کریں کہ خدا موسیقی اور مصوری کو ناپسند کرتا ہے۔
جسٹس صبیح الدین احمد نے یہ ہدایت منگل کو فلم کی نمائش کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران اس وقت کی جب درخواست گزار کے وکیل نے موسیقی اور مصوری کے خلاف مختلف فتووں کا حوالہ دیا۔
یہ درخواست جامعہ بنوری العالمی سائیٹ کراچی کے مدرس سیف اللہ ربانی نے داخل کی ہے جس میں محکمۂ ثقافت حکومت سندھ، جیو ٹی وی، پیمرا، فلم سنسر بورڈ اور فلم کے ڈائریکٹر شعیب منصور کے علاوہ فلم سٹارز شان اور ایمان علی اور پرنس سنیما کراچی کے مالک کو جوابدہ بنایا گیا ہے۔
درخواست گزار کا موقف ہے کہ فلم ’خدا کے لیے‘ اسلامی تعلیمات کے منافی خیالات پر مبنی ہے، لہذا اس کی نمائش فوری طور پر بند کرائی جائے اور فلم بنانے اور اس میں کام کرنے والوں کے علاوہ فلم کی نمائش اور تشہیر کرنے والوں کے خلاف تعزیرات پاکستان کے تحت اسلام کو نقصان پہنچانے اور مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کے جرم میں کارروائی کی جائے۔
جسٹس صبیح الدین احمد اور جسٹس افضل سومر پر مشتمل ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ نے جب درخواست کی سماعت شروع کی تو درخواست گزار کے وکیل مقبول الرحمن نے فلم کے اس جملے کا حوالہ دیا جس میں بھارتی اداکار نصیرالدین شاہ ایک عالم کا کردار نبھاتے ہوئے کہتے ہیں: ’میں یہ کیسے مان لوں کہ خدا موسیقی اور مصوری سے نفرت کرتا ہے۔‘
مقبول الرحمن نے موسیقی اور مصوری کے خلاف مختلف علما کے فتووں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسلام میں موسیقی اور مصوری دونوں کی ممانعت ہے اور اس کے خلاف فتوے موجود ہیں۔
اس پر چیف جسٹس ہائی کورٹ صبیح الدین احمد نے ان سے کہا کہ وہ فتووں کا حوالہ نہ دیں بلکہ اگر قرآن و حدیث میں اس بارے میں کوئی شواہد پیش کرسکتے ہیں تو کریں۔ عدالت نے اس درخواست کی آئندہ سماعت کے لیے دس اگست کی تاریخ مقرر کی ہے۔
’خدا کے لیے‘ کی نمائش پرنس سنیما کراچی سمیت ملک کے مختلف سنیما گھروں میں جاری ہے جس میں لوگ غیرمعمولی دلچسپی کا اظہار کر رہے ہیں۔
یہ فلم آج کل اسلامی دنیا خاص طور پر پاکستان جیسے ممالک میں زیر بحث جہاد، موسیقی، مغربی لباس اور زبردستی کی شادی جیسے موضوعات کے گرد گھومتی ہے اور اس میں موسیقی اور مغربی لباس کو غیراسلامی قرار دینے والوں کے مقابلے میں ایسے علماء پر سامنے آنے کے لیے زور دیا گیا ہے جو اپنے موقف کو پیش کرنے میں اب تک سستی سے کام لیتے رہے ہیں۔
۔
۔
۔
اس موزوں پے آپ کی قیمتی رائے؟؟؟
سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صبیح الدین احمد نے فلم ’خدا کے لیے‘ کی نمائش بند کرانے کی درخواست دینے والے ایک مدرس کے وکیل سے کہا ہے کہ وہ قرآن و سنت کی روشنی میں ثابت کریں کہ خدا موسیقی اور مصوری کو ناپسند کرتا ہے۔
جسٹس صبیح الدین احمد نے یہ ہدایت منگل کو فلم کی نمائش کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران اس وقت کی جب درخواست گزار کے وکیل نے موسیقی اور مصوری کے خلاف مختلف فتووں کا حوالہ دیا۔
یہ درخواست جامعہ بنوری العالمی سائیٹ کراچی کے مدرس سیف اللہ ربانی نے داخل کی ہے جس میں محکمۂ ثقافت حکومت سندھ، جیو ٹی وی، پیمرا، فلم سنسر بورڈ اور فلم کے ڈائریکٹر شعیب منصور کے علاوہ فلم سٹارز شان اور ایمان علی اور پرنس سنیما کراچی کے مالک کو جوابدہ بنایا گیا ہے۔
درخواست گزار کا موقف ہے کہ فلم ’خدا کے لیے‘ اسلامی تعلیمات کے منافی خیالات پر مبنی ہے، لہذا اس کی نمائش فوری طور پر بند کرائی جائے اور فلم بنانے اور اس میں کام کرنے والوں کے علاوہ فلم کی نمائش اور تشہیر کرنے والوں کے خلاف تعزیرات پاکستان کے تحت اسلام کو نقصان پہنچانے اور مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کے جرم میں کارروائی کی جائے۔
جسٹس صبیح الدین احمد اور جسٹس افضل سومر پر مشتمل ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ نے جب درخواست کی سماعت شروع کی تو درخواست گزار کے وکیل مقبول الرحمن نے فلم کے اس جملے کا حوالہ دیا جس میں بھارتی اداکار نصیرالدین شاہ ایک عالم کا کردار نبھاتے ہوئے کہتے ہیں: ’میں یہ کیسے مان لوں کہ خدا موسیقی اور مصوری سے نفرت کرتا ہے۔‘
مقبول الرحمن نے موسیقی اور مصوری کے خلاف مختلف علما کے فتووں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسلام میں موسیقی اور مصوری دونوں کی ممانعت ہے اور اس کے خلاف فتوے موجود ہیں۔
اس پر چیف جسٹس ہائی کورٹ صبیح الدین احمد نے ان سے کہا کہ وہ فتووں کا حوالہ نہ دیں بلکہ اگر قرآن و حدیث میں اس بارے میں کوئی شواہد پیش کرسکتے ہیں تو کریں۔ عدالت نے اس درخواست کی آئندہ سماعت کے لیے دس اگست کی تاریخ مقرر کی ہے۔
’خدا کے لیے‘ کی نمائش پرنس سنیما کراچی سمیت ملک کے مختلف سنیما گھروں میں جاری ہے جس میں لوگ غیرمعمولی دلچسپی کا اظہار کر رہے ہیں۔
یہ فلم آج کل اسلامی دنیا خاص طور پر پاکستان جیسے ممالک میں زیر بحث جہاد، موسیقی، مغربی لباس اور زبردستی کی شادی جیسے موضوعات کے گرد گھومتی ہے اور اس میں موسیقی اور مغربی لباس کو غیراسلامی قرار دینے والوں کے مقابلے میں ایسے علماء پر سامنے آنے کے لیے زور دیا گیا ہے جو اپنے موقف کو پیش کرنے میں اب تک سستی سے کام لیتے رہے ہیں۔
۔
۔
۔
اس موزوں پے آپ کی قیمتی رائے؟؟؟