حسان خان
لائبریرین
فلک سے گر گے بھی ٹوٹا نہ شیشۂ چینی
کہ راس آ ہی گیا اہتمامِ خود بینی
رہِ فرار سے اُس تک کوئی پہنچ نہ سکا
کہ بے دلی سے تھا برتر مقامِ بے دینی
ابھی تو تیشہ بھی ہے اور کوہکن بھی ہے
عبث ہے حسن کا پندارِ کوہِ تمکینی
وہ ایک جرعہ جو تیری نگاہ نے بخشا
تمام زہرِ ہلاہل، تمام شیرینی
رہِ تلاش میں گزری تمام عمر مگر
ملا نہ کچھ بھی ہوس کو بجز خذف بینی
وہ آئے خواب میں یوں، بے صدا چلے جیسے
کنارِ کوثر و تسنیم، روحِ گل چینی
ہے سب فسردہ دلوں کی نظر کی نقشگری
رخِ نگار کی یہ آب و تاب و رنگینی
میں شعرِ نو کا خدا ہی سہی مگر راشد
مری غزل بھی ہے اُن کے حضور لاطینی
(ن م راشد)