شیزان
لائبریرین
فلک پہ گونج رہی ہے مری صدا، کوئی ہے؟
مرے علاوہ بھی اِس دہر میں بتا کوئی ہے؟
ترے ابد کے مضافات سے گزرتا ہُوا
یہیں کہیں مری دُنیا میں راستہ کوئی ہے
بغیر اُس کے مری راکھ بُجھنے لگتی ہے
کُھلا کہ میرا بھی سُورج سے واسطہ کوئی ہے
سماعتوں پہ کب اُترے گا اُس کی چاپ کا رِزق
میں کیوں جہاں میں اکیلا ہوں گر مرا کوئی ہے
ٹھہر سکی نہ کسی ایک چاک پر مری خاک
سو میرے پیشِ نظر اب بھی مرحلہ کوئی ہے
اکیلا کب ہے سرِ ریگ زار میرا جُنوں
نواحِ جاں میں کہیں اور قافلہ کوئی ہے
جواز آنکھ میں ٹُوٹا جو خُواب کا کانٹا
کُھلا کہ میرے تعاقب میں رتجگا کوئی ہے
جواز جعفری