کاشفی
محفلین
غزل
(جلال الدین اکبر)
فنا اُسی رنگ پر ہے قائم، فلک وہی چال چل رہا ہے
شکستہ و منتشر ہے وہ کل، جو آج سانچے میں ڈھل رہا ہے
یہ دیکھتے ہو جو کاسہء سر، غرور و غفلت سے کل تھا مملو
یہی بدن ناز سے پلا تھا، جو آج مٹی میں گَل رہا ہے
سمجھ ہو جسکی بلیغ سمجھے، نظر ہو جس کی وسیع دیکھے
کبھی یہاں خاک بھی اُڑے گی جہاں یہ قلزم اُبل رہا ہے
کہاں کے شرقی، کہاں کے غربی، تمام دُکھ سُکھ ہیں یہ مساوی
یہاں بھی اک بامُراد خوش ہے، وہاں بھی اک غم سے جل رہا ہے
ہوس پرستوں کو کیوں یہ کد ہے، ان انقلابوں کی کیا سند ہے
اگر زمانہ بدل رہا ہے، بدلنے ہی کو بدل رہا ہے
جنہوں نے طاعت میں جان دی ہے، انہی کے حصے میں زندگی ہے
مقدموں کی ہوں لاکھ شکلیں، یہی نتیجہ نکل رہا ہے
خدا سے تم دل ملاؤ اپنا، زبان کو پھر ملاؤ دل سے
تو دیکھ لو گے کہ پُر اثر ہے زبان سے جو نکل رہا ہے