فنا فی العشق ہونے کو جو بربادی سمجھتے ہو (علی زریون)

نیرنگ خیال

لائبریرین
فنا فی العشق ہونے کو جو بربادی سمجھتے ہو
تو پھر یہ طے ہے کہ تم دنیا کو بنیادی سمجھتے ہو

تمہیں ہم عشق کی سرگم سناتے ہیں، یہ بتلاؤ
فنا کے راگ سے واقف ہو، سم وادی سمجھتے ہو

کسی صاحبِ جنوں سے عقل کی تعریف سن لینا
نری رہزن ہے جس کو مرشد و ہادی سمجھتے ہو

اسی کی شوخیٔ تحریر کا ایک نقش ہوں میں بھی
بقول میرزا تم جس کو فریادی سمجھتے ہو

حقیقت تو کجا! تم تو طریقت بھی نہیں سمجھے
کہ تم تو جسم سے جانے کو آزادی سمجھتے ہو

اسی کے خوانِ نعمت کے سگانِ لقمۂ تر ہو
تعجب کیا! جو تم دنیا کو شہزادی سمجھتے ہو

عجب ہو تم بھی اہلِ منبر و محراب، جو ہم کو
کبھی کافر سمجھتے تھے، اب الحادی سمجھتے ہو

تو پھر تم ہی بتادو ہم کہاں جائیں علی زریون
ہماری سادگی کو بھی تم استادی سمجھتے ہو​
 

x boy

محفلین
زبردست
اسی کے خوانِ نعمت کے سگانِ لقمۂ تر ہو
تعجب کیا! جو تم دنیا کو شہزادی سمجھتے ہو
 

تلمیذ

لائبریرین
کسی صاحبِ جنوں سے عقل کی تعریف سن لینا
نری رہزن ہے جس کو مرشد و ہادی سمجھتے ہو

بہت عمدہ کلام ہے۔ شراکت کا شکریہ، نین جی۔
 

غدیر زھرا

لائبریرین
کسی صاحبِ جنوں سے عقل کی تعریف سن لینا
نری رہزن ہے جس کو مرشد و ہادی سمجھتے ہو

حقیقت تو کجا! تم تو طریقت بھی نہیں سمجھے
کہ تم تو جسم سے جانے کو آزادی سمجھتے ہو

کیا کہنے۔۔۔۔عمدہ۔۔۔ لاجواب
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
زبردست
اسی کے خوانِ نعمت کے سگانِ لقمۂ تر ہو
تعجب کیا! جو تم دنیا کو شہزادی سمجھتے ہو

کسی صاحبِ جنوں سے عقل کی تعریف سن لینا
نری رہزن ہے جس کو مرشد و ہادی سمجھتے ہو

بہت عمدہ کلام ہے۔ شراکت کا شکریہ، نین جی۔

تو پھر تم ہی بتادو ہم کہاں جائیں علی زریون
ہماری سادگی کو بھی تم استادی سمجھتے ہو

بہت عمدہ شراکت

کسی صاحبِ جنوں سے عقل کی تعریف سن لینا
نری رہزن ہے جس کو مرشد و ہادی سمجھتے ہو

حقیقت تو کجا! تم تو طریقت بھی نہیں سمجھے
کہ تم تو جسم سے جانے کو آزادی سمجھتے ہو

کیا کہنے۔۔۔۔عمدہ۔۔۔ لاجواب

انتخاب سراہنے پر تمام احباب کا شکرگزار ہوں۔
 
بہت خوب کیا کہنے بہت عمدہ کلام۔ شریک محفل کرنے پر شکریہ!
یہ مصرعے کچھ ثقیل لگ رہے ہیں پڑھنے میں۔ ہمیں شاعری کا علم تو نہیں صحیح سے پڑھے نہیں جا رہے رہنمائی فرما دیں۔
تو پھر یہ طے ہے کہ تم دنیا کو بنیادی سمجھتے ہو
کسی صاحبِ جنوں سے عقل کی تعریف سن لینا
راحیل فاروق استاد محترم کلام ملاحظہ فرمائيں۔۔۔۔
 
راحیل فاروق استاد محترم کلام ملاحظہ فرمائيں۔۔۔۔
یعنی کہ حد ہو گئی مبالغہ آرائی کی۔ یہ استاد اور پھر محترم؟
ایک شعر سناتا ہوں آپ کو۔
گر ہمیں مکتب و ہمیں ملا
کارِ طفلاں تمام خواہد شد!​
:ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO:
تو پھر یہ طے ہے کہ تم دنیا کو بنیادی سمجھتے ہو
اس میں "کہ" اضافی ہے۔ غلطی سے ٹائپ ہو گیا ہو گا۔
کسی صاحبِ جنوں سے عقل کی تعریف سن لینا
اصل میں صاحبِ جنوں میں صاحب کے بعد کسرۂِ اضافت علی زریون نے نہیں لگایا۔ یا نیرنگ خیال بھائی کی کرم فرمائی ہے یا پھر جہاں سے انھوں نے پڑھا ہے وہاں یہ قہر ڈھایا گیا ہو گا۔ :):):)
شاعر نے اسے صاحب جنوں باندھا ہے۔ بغیر اضافت کے۔ تقطیع کچھ یوں ہو گی:
کسی صاحب = مفاعیلن
جنوں سے عق = مفاعیلن
لکی تعری = مفاعیلن
فسن لینا = مفاعیلن
فارسی کی یہ روایت رہی ہے کہ بعض اوقات تراکیب میں سے ضرورتِ شعری کے تحت کسرۂِ اضافت حذف کر دیا جاتا ہے۔ اردو میں بھی گاہے گاہے فارسی کے تتبع میں ایسا کر لیا جاتا ہے مگر یہ رویہ عام طور پر معروف نہیں۔ ہما حمید ناز صاحبہ سے میری کچھ عرصہ قبل ایک اسی قسم کے ایک معاملے میں خاصی بحث بھی ہوئی تھی۔
فارسی اور اردو سے بالفعل ایک ایک نظیر یاد آ رہی ہے۔ پیشِ خدمت ہیں:
حافظؔ کا شعر ہے:
دل می رود زدستم، صاحب دلاں خدارا
دردا کہ رازِ پنہاں خواہد شد آشکارا ! ! !
یہ شعر مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن کے وزن پر ہے۔
اردو میں اقبالؒ کا شعر دیکھیے:
خرد کی گتھیاں سلجھا چکا میں-----
مرے مولا! مجھے صاحب جنوں کر​
اس شعر کا وزن مفاعیلن مفاعیلن فعولن ہے۔
 
یعنی کہ حد ہو گئی مبالغہ آرائی کی۔ یہ استاد اور پھر محترم؟
ایک شعر سناتا ہوں آپ کو۔
گر ہمیں مکتب و ہمیں ملا
کارِ طفلاں تمام خواہد شد!​
قبلہ اب دل کی بات سنیں!
ہم نے آپ کو ٹیگ فقط کلام پڑھنے کے لیے کیا تھا کہ اچھا کلام ہے آپ بھی نظر فرما لیں۔ آپ ٹھہرے نا استاد۔ ہمارے سوال پر بھی عنایت فرما دی۔ تو اب کیا کہا جائے آپ کو؟؟ استاد محترم!!
تو پھر یہ طے ہے کہ تم دنیا کو بنیادی سمجھتے ہو
مجھے یہ اضافی لگے کہ پڑھنے میں رواں نہیں ہیں ان دونوں میں سے کسی ایک کو ہونا چاہیے!! اس پر ارشاد فرما دیں "کہ" کیوں نہیں اور یہ دونوں بیک وقت کیوں!!
شاعر نے اسے صاحب جنوں باندھا ہے۔ بغیر اضافت کے۔
فقیر اسے ایسے ہی پڑھ رہا تھا!
اس بندہ پروری پر شکریہ قبلہ!
 
فنا فی العشق ہونے کو جو بربادی سمجھتے ہو
تو پھر یہ طے ہے کہ تم دنیا کو بنیادی سمجھتے ہو
اسی کی شوخیٔ تحریر کا ایک نقش ہوں میں بھی
بقول میرزا تم جس کو فریادی سمجھتے ہو
اسی کے خوانِ نعمت کے سگانِ لقمۂ تر ہو
تعجب کیا! جو تم دنیا کو شہزادی سمجھتے ہو
عجب ہو تم بھی اہلِ منبر و محراب، جو ہم کو
کبھی کافر سمجھتے تھے، اب الحادی سمجھتے ہو
اس میں "کہ" اضافی ہے۔ غلطی سے ٹائپ ہو گیا ہو گا
راحیل بھائی آپ سے گفتگو تو پہلے خیر کسی اور موضوع پر کرنی تھی . مگر یہاں آپ کا جواب دیکھ کر یہاں زحمت دینے کا ارادہ کرلیا.
پہلے شعر کی نسبت یہ سمجھنا ہے کہ "بنیادی دنیا" سے کیا مراد ہے؟ یا شاعری کی روائت میں یہ الفاظ یا ترکیب کیا معنی رکھتی ہے یا جدید شاعری میں یہ الفاظ کیا اثر رکھتے ہیں ...................
دوسرے شعر کی نسبت یہ کہ شاعر کا اشارہ غالب کے جس شعر کی جانب ہے وہ واضح ہے اس میں غالب نے "فریاد" کو "نقش" کی صفت کے طور برتا ہے . نقش اور فریاد میں کہیں سے تضاد کی کوئی کیفیت نہیں ہے.ایسے میں دوسرے شعر میں کیا معنی ہونگے؟ سوائے ایک صورت کے جس میں اس شعر کو غالب ہی شعر میں الفاظ کی غیرضروری تبدیلی سمجھ لیا جائے. کیونکہ دوسری صورت میں جو معنی شعر کے نکل سکتے ہیں وہ .....
پھر اگلے شعر میں "شہزادی" سے کیا مراد ہے؟
اور اگر پرسنل نہ لیں تو یہ بھی بتادیں کہ کفر و الحاد میں کیا فرق ہے :D
الحاد کفر کی ہی ایک قسم ہے . اب اس آخری شعر کا کیا مطلب ہوا؟
 
قبلہ اب دل کی بات سنیں!
ہم نے آپ کو ٹیگ فقط کلام پڑھنے کے لیے کیا تھا کہ اچھا کلام ہے آپ بھی نظر فرما لیں۔ آپ ٹھہرے نا استاد۔ ہمارے سوال پر بھی عنایت فرما دی۔ تو اب کیا کہا جائے آپ کو؟؟ استاد محترم!!
حد ہو گئی! :)
مجھے یہ اضافی لگے کہ پڑھنے میں رواں نہیں ہیں ان دونوں میں سے کسی ایک کو ہونا چاہیے!! اس پر ارشاد فرما دیں "کہ" کیوں نہیں اور یہ دونوں بیک وقت کیوں!!
تو پھر یہ طے ہے کہ تم دنیا کو بنیادی سمجھتے ہو
اگر دونوں کو حذف کر دیا جائے تو مصرع ساقط ہو جاتا ہے۔ البتہ
تو پھر طے ہے کہ تم دنیا کو بنیادی سمجھتے ہو​
اس صورت میں مصرع موزوں ہے۔
ہمیں شبہ تھا کہ "کہ" ہی اضافی ہو گا۔ عموماً ایسے الفاظ یا حروف اوازن سے بےخبر قاری خود شامل کر دیتے ہیں۔ اصل صورت کا علم تو علی زریون صاحب ہی کو ہو گا۔
راحیل بھائی آپ سے گفتگو تو پہلے خیر کسی اور موضوع پر کرنی تھی . مگر یہاں آپ کا جواب دیکھ کر یہاں زحمت دینے کا ارادہ کرلیا.
موضوع پر گفتگو کرنے کے تو ہم عادی ہی نہیں۔ آپ نے اچھا کیا! :LOL::LOL::LOL:
پہلے شعر کی نسبت یہ سمجھنا ہے
استغفراللہ۔ سیدھا سیدھا کہیے کہ اعتراض ہے اس شعر پر۔ ہمیں ساتھ گنہگار کرنے کا فائدہ؟ :eek::eek::eek:
فنا فی العشق ہونے کو جو بربادی سمجھتے ہو
تو پھر یہ طے ہے کہ تم دنیا کو بنیادی سمجھتے ہو
"بنیادی دنیا" سے کیا مراد ہے؟
میرا خیال ہے کہ شاعر نے یہاں بنیادی کا لفظ دنیا کی نہیں بلکہ سمجھنے کی نسبت استعمال کیا ہے۔ یعنی تمھارا دنیا کا فہم بنیادی ہے۔ تعقید ہے کسی قدر بیان میں مگر اب کیا کریں؟ کس منہ سے کہیں؟ ہم خود بھی تو اکثر ایسا ہی لکھتے ہیں! :ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO:
دوسرے شعر کی نسبت یہ کہ شاعر کا اشارہ غالب کے جس شعر کی جانب ہے وہ واضح ہے اس میں غالب نے "فریاد" کو "نقش" کی صفت کے طور برتا ہے . نقش اور فریاد میں کہیں سے تضاد کی کوئی کیفیت نہیں ہے.ایسے میں دوسرے شعر میں کیا معنی ہونگے؟ سوائے ایک صورت کے جس میں اس شعر کو غالب ہی شعر میں الفاظ کی غیرضروری تبدیلی سمجھ لیا جائے. کیونکہ دوسری صورت میں جو معنی شعر کے نکل سکتے ہیں وہ .....
متفق۔ اس شعر کے الفاظ تو میرزا کے شعر سے مستعار ہو سکتے ہیں مگر مفہوم نہ صرف یہ کہ کوئی تعلق نہیں رکھتا بلکہ یہ گمان گزرتا ہے کہ موصوف شاید دیوانِ غالبؔ کے پہلے شعر ہی کو درست طور پر سمجھ نہیں پائے۔
پھر اگلے شعر میں "شہزادی" سے کیا مراد ہے؟
ہمارا کیا قصور ہے؟ :cry2::cry2::cry2:
اور اگر پرسنل نہ لیں تو یہ بھی بتادیں کہ کفر و الحاد میں کیا فرق ہے :D
اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے! :rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
الحاد کفر کی ہی ایک قسم ہے . اب اس آخری شعر کا کیا مطلب ہوا؟
علما کے ہاں قوی امید ہے کہ دونوں کے اصطلاحی مفاہیم میں امتیاز مل جائے گا۔ یہ رعایت تو شاعر کو دی جا سکتی ہے کہ انھوں نے یہ امتیاز باور کرانے کی کوشش کی ہے۔ مگر ہمیں لفظ "الحادی" پر شدید اعتراض ہے۔ جدت اور بدعت کا فرق اب آپ بتائیے! :laughing::laughing::laughing:
 

محمد وارث

لائبریرین
راحیل بھائی آپ سے گفتگو تو پہلے خیر کسی اور موضوع پر کرنی تھی . مگر یہاں آپ کا جواب دیکھ کر یہاں زحمت دینے کا ارادہ کرلیا.
پہلے شعر کی نسبت یہ سمجھنا ہے کہ "بنیادی دنیا" سے کیا مراد ہے؟ یا شاعری کی روائت میں یہ الفاظ یا ترکیب کیا معنی رکھتی ہے یا جدید شاعری میں یہ الفاظ کیا اثر رکھتے ہیں ...................
دوسرے شعر کی نسبت یہ کہ شاعر کا اشارہ غالب کے جس شعر کی جانب ہے وہ واضح ہے اس میں غالب نے "فریاد" کو "نقش" کی صفت کے طور برتا ہے . نقش اور فریاد میں کہیں سے تضاد کی کوئی کیفیت نہیں ہے.ایسے میں دوسرے شعر میں کیا معنی ہونگے؟ سوائے ایک صورت کے جس میں اس شعر کو غالب ہی شعر میں الفاظ کی غیرضروری تبدیلی سمجھ لیا جائے. کیونکہ دوسری صورت میں جو معنی شعر کے نکل سکتے ہیں وہ .....
پھر اگلے شعر میں "شہزادی" سے کیا مراد ہے؟
اور اگر پرسنل نہ لیں تو یہ بھی بتادیں کہ کفر و الحاد میں کیا فرق ہے :D
الحاد کفر کی ہی ایک قسم ہے . اب اس آخری شعر کا کیا مطلب ہوا؟
آپ کی باتیں بجا ہیں، ایک بات دوسرے شعر کے متعلق

تمہیں ہم عشق کی سرگم سناتے ہیں، یہ بتلاؤ
فنا کے راگ سے واقف ہو، سم وادی سمجھتے ہو

اس شعر میں سم وادی الفاظ کے استعمال کا محل نہیں ہے۔ کسی بھی راگ کا ایک بنیادی سُر ہوتا ہے جسے اس راگ میں بار بار لگاتے ہیں، اُس سُر کو "وادی" سُر کہتے ہیں۔ "سم وادی" اہمیت میں دوسرے نمبر پر ہوتا ہے یعنی وہ سُر جو وادی سُر کے بعد زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ یعنی وادی کا محل ہے سم وادی کا نہیں۔

دوسرا یہ کہ چاہے وادی ہوتا یا سم وادی، شعر کے مفہوم میں پھر بھی ابہام ہے۔ ہر راگ کے وادی اور سم وادی سُر بتائے جاتے ہیں کہ وہ کون سے ہیں لیکن یہاں شاعر فنا کے راگ میں جو عشق کی سرگم سنا رہے ہیں اُس میں کیا چیز وادی یا سم وادی ہے وہ کدھر ہے؟ اور اُس کا فنا اور عشق کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ شعر پڑھ کر یہ بات کہیں بھی واضح نہیں ہوتی، فقط قافیے کے گرد شعر کی کوکون سی بنا دی گئی ہے۔
 
فنا کے راگ سے واقف ہو، سم وادی سمجھتے ہو
دوسرا یہ کہ چاہے وادی ہوتا یا سم وادی، شعر کے مفہوم میں پھر بھی ابہام ہے۔ ہر راگ کے وادی اور سم وادی سُر بتائے جاتے ہیں کہ وہ کون سے ہیں لیکن یہاں شاعر فنا کے راگ میں جو عشق کی سرگم سنا رہے ہیں اُس میں کیا چیز وادی یا سم وادی ہے وہ کدھر ہے؟ اور اُس کا فنا اور عشق کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ شعر پڑھ کر یہ بات کہیں بھی واضح نہیں ہوتی، فقط قافیے کے گرد شعر کی کوکون سی بنا دی گئی ہے۔
یہ غالبا استفہام ہے!!
 
موضوع پر گفتگو کرنے کے تو ہم عادی ہی نہیں۔ آپ نے اچھا کیا
راحیل بھائی محفل سے آپ کی "جامد" سے متعلق گفتگو ہے وہ الگ پوسٹ میں۔۔۔
استغفراللہ۔ سیدھا سیدھا کہیے کہ اعتراض ہے اس شعر پر۔ ہمیں ساتھ گنہگار کرنے کا فائدہ
اے ذوق تکلف میں ہے تکلیف سراسر
آرام سے ہے وہ جو تکلف نہیں کرتا
:):)
میرا خیال ہے کہ شاعر نے یہاں بنیادی کا لفظ دنیا کی نہیں بلکہ سمجھنے کی نسبت استعمال کیا ہے۔ یعنی تمھارا دنیا کا فہم بنیادی ہے۔ تعقید ہے کسی قدر بیان میں مگر اب کیا کریں؟ کس منہ سے کہیں؟ ہم خود بھی تو اکثر ایسا ہی لکھتے ہیں
بنیادی کی ضمیر اگر سمجھنے کی طرف بھی ہو تب بھی بات نہیں بنتی ، بہرحال۔۔
متفق۔ اس شعر کے الفاظ تو میرزا کے شعر سے مستعار ہو سکتے ہیں مگر مفہوم نہ صرف یہ کہ کوئی تعلق نہیں رکھتا بلکہ یہ گمان گزرتا ہے کہ موصوف شاید دیوانِ غالبؔ کے پہلے شعر ہی کو درست طور پر سمجھ نہیں پائے
متفق
اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے!
ہاہاہا۔۔
آپ کا قصور ہم سے دوستی ہے :p ہم ایسے کم علموں سے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کریں گے تو سوالات کے مسائل تو ہونگے :):):)
علما کے ہاں قوی امید ہے کہ دونوں کے اصطلاحی مفاہیم میں امتیاز مل جائے گا۔ یہ رعایت تو شاعر کو دی جا سکتی ہے کہ انھوں نے یہ امتیاز باور کرانے کی کوشش کی ہے۔ مگر ہمیں لفظ "الحادی" پر شدید اعتراض ہے۔ جدت اور بدعت کا فرق اب آپ بتائیے
راحیل بھائی ہم نے بھی علماءکرام کی جوتیاں سیدھی کی ہیں، دلیل کی "توڑ" کرنا کچھ نہ کچھ تو سیکھا ہے مگر چلیں بات تسلیم کرتے ہیں ، ہاں جدت کے نام پر بدعت کا معاملہ درست ہے ، ملحدین کو الحادیان تسلیم نہیں کر سکتے :D:D
 
آپ کی باتیں بجا ہیں، ایک بات دوسرے شعر کے متعلق

تمہیں ہم عشق کی سرگم سناتے ہیں، یہ بتلاؤ
فنا کے راگ سے واقف ہو، سم وادی سمجھتے ہو

اس شعر میں سم وادی الفاظ کے استعمال کا محل نہیں ہے۔ کسی بھی راگ کا ایک بنیادی سُر ہوتا ہے جسے اس راگ میں بار بار لگاتے ہیں، اُس سُر کو "وادی" سُر کہتے ہیں۔ "سم وادی" اہمیت میں دوسرے نمبر پر ہوتا ہے یعنی وہ سُر جو وادی سُر کے بعد زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ یعنی وادی کا محل ہے سم وادی کا نہیں۔

دوسرا یہ کہ چاہے وادی ہوتا یا سم وادی، شعر کے مفہوم میں پھر بھی ابہام ہے۔ ہر راگ کے وادی اور سم وادی سُر بتائے جاتے ہیں کہ وہ کون سے ہیں لیکن یہاں شاعر فنا کے راگ میں جو عشق کی سرگم سنا رہے ہیں اُس میں کیا چیز وادی یا سم وادی ہے وہ کدھر ہے؟ اور اُس کا فنا اور عشق کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ شعر پڑھ کر یہ بات کہیں بھی واضح نہیں ہوتی، فقط قافیے کے گرد شعر کی کوکون سی بنا دی گئی ہے۔

سچی بات تو یہ ہے وارث بھائی ہمیں تو موسیقی کا علم نہیں ہے اس لئے رعب میں آگئے تھے کہ ہوتا ہوگا کچھ تبھی تو علی زریون جیسے معروف شاعر نے باندھا ہے ۔:p:p اکثر لوگوں کے ساتھ یہی ہوتا ہے :D:D جس کو سمجھ نہیں آتا ہوگا وہ کہتا ہوگا شائد میری ہی سمجھ نہیں آرہا بڑا شاعر ہے کچھ نہ کچھ تو کہا ہوگا :):)۔
لوگوں کی یہ خراب عادت غالب کی وجہ سے ہوئی ہوگی ۔۔۔:daydreaming::daydreaming: کیونکہ اس کے شعر ہوتے تو مشکل ہیں مگر بے معنی نہیں ہوتے۔ دوچار اشعار پر ہمیں وہم ہوا تھا کہ غالب "ہاتھ دکھا گئے" مگر بھلا ہو طباطبائی کا انہوں نے اس میں سے بھی مطالب نکال لئے :applause::applause:
بہرحال اب علی زریوں کی کچھ غزلیں پڑھ رہا ہوں تاکہ اندازہ ہو کہ یہ معاملہ اسی غزل تک محدود ہے یا قصداََ یہ کھیل کھیلا جارہا ہے۔۔۔۔ :rollingonthefloor::rollingonthefloor:
 
آخری تدوین:
لوگوں کی یہ خراب عادت غالب کی وجہ سے ہوئی ہوگی ۔۔۔:daydreaming::daydreaming: کیونکہ اس کے شعر ہوتے تو مشکل ہیں مگر بے معنی نہیں ہوتے۔ دوچار اشعار پر ہمیں وہم ہوا تھا کہ غالب "ہاتھ دکھا گئے" مگر بھلا ہو طباطبائی کا انہوں نے اس میں سے بھی مطالب نکال لئے :applause::applause:
غالبؔ کے بارے میں حال میں کہیں پڑھا ہے کہ موصوف کی شدبد عربی میں واجبی تھی یا اس سے بھی کم۔ چند اشعار میں موجود عربی تراکیب پر اعتراضات بھی کیے گئے تھے جن میں سے کچھ پر، اگر میں بھولتا نہیں تو، مرزا کو مطلع بھی گیا گیا اور انھوں نے انھیں رفع کرنے کی کوشش بھی کی۔ میرا بڑھاپا جس رفتار سے آ رہا ہے یادداشت اس سے دگنی رفتار سے بھاگ رہی ہے۔ اس لیے حوالہ فی الحال اللہ کے حوالے!
جہاں تک موصوف کے ہاتھ دکھانے کا تعلق ہے تو اس سے انکار کوئی اور کرے تو کرے۔ نہ غالبؔ نے خود کبھی اغلاق اور بےمعنویت وغیرہ سے کلیتاً مستثنیٰ ہونے کا دعویٰ کیا نہ ان کے شاگردِ رشید مولوی حالیؔ نے انھیں کسی ایسے سنگھاسن پر بٹھایا۔ مرنے کے بعد تو ہمارے ہاں یوں بھی پوجا شروع ہو جاتی ہے۔ غالبؔ کی کیوں نہ ہوتی؟
 

محمد وارث

لائبریرین
سچی بات تو یہ ہے وارث بھائی ہمیں تو موسیقی کا علم نہیں ہے اس لئے رعب میں آگئے تھے کہ ہوتا ہوگا کچھ تبھی تو علی زریون جیسے معروف شاعر نے باندھا ہے ۔:p:p اکثر لوگوں کے ساتھ یہی ہوتا ہے :D:D جس کو سمجھ نہیں آتا ہوگا وہ کہتا ہوگا شائد میری ہی سمجھ نہیں آرہا بڑا شاعر ہے کچھ نہ کچھ تو کہا ہوگا :):)۔
لوگوں کی یہ خراب عادت غالب کی وجہ سے ہوئی ہوگی ۔۔۔:daydreaming::daydreaming: کیونکہ اس کے شعر ہوتے تو مشکل ہیں مگر بے معنی نہیں ہوتے۔ دوچار اشعار پر ہمیں وہم ہوا تھا کہ غالب "ہاتھ دکھا گئے" مگر بھلا ہو طباطبائی کا انہوں نے اس میں سے بھی مطالب نکال لئے :applause::applause:
بہرحال اب علی زریوں کی کچھ غزلیں پڑھ رہا ہوں تاکہ اندازہ ہو کہ یہ معاملہ اسی غزل تک محدود ہے یا قصداََ یہ کھیل کھیلا جارہا ہے۔۔۔۔ :rollingonthefloor::rollingonthefloor:
ایسے ہی ایک اور معروف شاعر ہیں، انہوں نے ایک بار ایک شعر میں یہ خیال باندھا کہ اُن کے محبوب کے خراٹے "کومل سا" سُر میں ہوتے ہیں، خاکسار نے جب عرض کیا کہ "سا" سُر کومل یا تیور نہیں ہوتا اس لیے کومل سا کہنا ٹھیک نہیں تو اُس کے بعد انہوں نے وہ تیور سُر لگائے کہ رہے نام اللہ کا :)
 
Top