اصل میں صاحبِ جنوں میں صاحب کے بعد کسرۂِ اضافت علی زریون نے نہیں لگایا۔ یا
نیرنگ خیال بھائی کی کرم فرمائی ہے یا پھر جہاں سے انھوں نے پڑھا ہے وہاں یہ قہر ڈھایا گیا ہو گا۔
شاعر نے اسے صاحب جنوں باندھا ہے۔ بغیر اضافت کے۔ تقطیع کچھ یوں ہو گی:
کسی صاحب = مفاعیلن
جنوں سے عق = مفاعیلن
لکی تعری = مفاعیلن
فسن لینا = مفاعیلن
فارسی کی یہ روایت رہی ہے کہ بعض اوقات تراکیب میں سے ضرورتِ شعری کے تحت کسرۂِ اضافت حذف کر دیا جاتا ہے۔ اردو میں بھی گاہے گاہے فارسی کے تتبع میں ایسا کر لیا جاتا ہے مگر یہ رویہ عام طور پر معروف نہیں۔
ہما حمید ناز صاحبہ سے میری کچھ عرصہ قبل
ایک اسی قسم کے ایک معاملے میں خاصی بحث بھی ہوئی تھی۔
یگانہؔ کی تصنیف "غالبؔ شکن: دوآتشہ" مطبوعہ ۱۹۳۵ء پڑھتے ہوئے اتفاقاً ہی معلوم ہوا کہ کسرۂِ اضافت کی تحذیف کو اصطلاح میں
فکِ اضافت کہا جاتا ہے اور کم از کم اردو میں اسے عیب گردانا جاتا ہے۔ موصوف کے خیال میں یہ "اردو میں نہایت بھدا معلوم ہوتا ہے۔" میں ان کے اس خیال سے کافی حد تک متفق ہوں۔ گو کہ اساتذہ کے ہاں نظائر اس کے ملتے ہیں مگر اولیٰ یہی ہے کہ علی زریون اور مجھ جیسے لوگ فی زمانہ اس سے اجتناب کریں۔
یگانہؔ نے تصنیفِ مذکور کے صفحہ ۴۶ پر غالبؔ کے اس شعر کے محاکمے کی ذیل میں فکِ اضافت کا ذکر کیا ہے:
بدگمانی نے نہ چاہا اسے سرگرمِ خرام
رخ پہ ہر قطرہ عرق دیدۂِ حیراں سمجھا
قطرہ عرق دراصل
قطرۂِ عرق ہے جس کا کسرۂِ اضافت غالبؔ کو ضرورتِ شعری کے تحت اڑا دینا پڑا۔
بہرحال اب علی زریوں کی کچھ غزلیں پڑھ رہا ہوں تاکہ اندازہ ہو کہ یہ معاملہ اسی غزل تک محدود ہے یا قصداََ یہ کھیل کھیلا جارہا ہے۔۔۔۔
ہمارے ہاں ہفتہ بھر پہلے فیصل آباد سے ایک معروف شاعر تشریف لائے تھے۔ ان کی غزلوں نے گویا ہمارے ایک مفروضے کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیا۔
مفروضہ یہ ہے کہ معاصر شعرا اور بالخصوص نوجوان معاصر شعرا میں ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اپنے اشعار میں کلاسیک شعرا کے فنی اور سوانحی حوالے دینے کا رجحان تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ یہ لوگ اساتذہ کی زندگیوں، واقعات و سانحات اور مشہور ابیات کو تلمیحوں اور اشاروں کنایوں کی صورت میں برت کر ادنیٰ و اسفل خیالات پر بھی استناد کی عوامی مہر لگوا لیتے ہیں۔ مثلاً غالبؔ اور دیوانِ غالبؔ کا حوالہ عام طور پر ایک مقبول ہتھکنڈا ہے۔ کئی شعرا کو میں نے یہ آرزو مختلف رنگوں میں نظم کرتے دیکھا ہے کہ کسی ویرانے میں چاند کی روشنی میں محبوب کو دیوانِ غالبؔ پڑھ کر سنایا جائے (گو کہ ہمارے ذاتی خیال میں اس "ماحول" کا یہ بالکل غلط استعمال ہے
)۔
ہماری رائے میں اس طرح کے اشاروں اور تلمیحات سے کچھ نادیدہ مگر ٹھوس فوائد ان شعرا کو حاصل ہوتے ہیں:
- علمیت کی دھاک بیٹھتی ہے۔ یعنی بندہ اساتذہ کے کلام سے واقف ہے۔ بھلے یہ وقوف ایسا بےبنیاد ہی کیوں نہ ہو جیسا علی زریون صاحب نے ظاہر کیا ہے۔
- روایت سے تعلق کا تاثر اور رعب خواہ مخواہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اشعار خواہ ساقط الوزن ہی کیوں نہ ہوں کلاسیک کے تسلسل میں سمجھ لیے جاتے ہیں۔
- اساتذہ مثلاً غالبؔ کے حوالے سے اندھی عقیدت کا بھی خاصا فائدہ شاعر کو مفت میں مل جاتا ہے۔ وہ تالیاں پیٹی جاتی ہیں کہ خود غالبؔ کو بھی نصیب نہ ہوئی ہوں گی!
ایسے ہی ایک اور معروف شاعر ہیں، انہوں نے ایک بار ایک شعر میں یہ خیال باندھا کہ اُن کے محبوب کے خراٹے "کومل سا" سُر میں ہوتے ہیں، خاکسار نے جب عرض کیا کہ "سا" سُر کومل یا تیور نہیں ہوتا اس لیے کومل سا کہنا ٹھیک نہیں تو اُس کے بعد انہوں نے وہ تیور سُر لگائے کہ رہے نام اللہ کا
"سا" کھرج کا علامتی اظہار ہے اور انتہائی نچلا سر ہے۔ لہٰذا محبوب کی توہین مقصود ہو تو ہو ستائش کا کوئی پہلو اس میں نہیں نکلتا۔ ممکن ہے یہ شعر کسی واسوخت کا حصہ ہو۔
غالباً ان صاحب کو لفظ کومل کے عام معانی سے غلط فہمی ہوئی ہے۔ کھرج اول تو اچل سر ہے اور اگر اس کا کوئی کومل سر ہوتا بھی تو آواز اور گمبھیر ہو جاتی۔ گھرڑ گھرڑ خراٹے لینے والے انسان کو علیٰ الاعلان محبوب بتانا اور اس رازِ شبینہ کا پردہ مشاعرے میں فاش کرنا کوئی اچھی بات نہیں۔ شاعرِ موصوف کو تعزیراتِ پاکستان پڑھوا دیجیے احتیاطاً!