ساڑھے تین سال کے وقفے کے بعد پاکستان کے سب سے بڑے سہ ماہی ادبی جریدے فنون کا 303 صفحات پر مشتمل ضخیم پرچہ میرے ہاتھ میں ہے۔ 2006ء میں قاسمی صاحب تک یہ رسالہ چلتا رہا مگر پھر بند ہو گیا۔ اب ان کی بیٹی ڈاکٹر ناہید قاسمی اور فرزند نعمان قاسمی نے اسے دھوم دھام سے خوبصورت تصاویر سے مزین کر کے اعلیٰ کاغذ پر چھاپا ہے۔
یہ 1928 واں شمارہ ہے اور اس کے لئے رابطہ اس نمبر پر قائم کیا جا سکتا ہے 0301-8449998‘ قیمت اس کی 175 روپے ہے۔ یہ شمارہ فنون کے بانی اور میر کارواں احمد ندیم قاسمی نمبر کے طور پر چھاپا گیا ہے‘ رسالہ کیا ہے گویا قاسمی انسائیکلو پیڈیا ہے۔ 1916ء میں پیدا ہونے والے سون سکسیر کے فرزند کا اصلی نام احمد شاہ تھا وہ اعوان قبیلے سے تعلق رکھتے تھے‘ اتفاق کی بات ہے کہ اردو ادب کے بہت سے درخشندہ ستاروں کے نام احمد شاہ ہی تھے‘ احمد شاہ پطرس بخاری‘ احمد شاہ فارغ بخاری‘ احمد شاہ احمد فراز۔ قاسمی صاحب نے 90 سال عمر پائی اور ساری زندگی قلم ہاتھ سے نہیں رکھا‘ مرنے سے صرف پانچ دن پہلے ان کا کالم چھپا۔
فیض کے بعد زمانہ جدید میں اردو کے سب سے بڑے شاعر اور منٹو کے بعد جدید افسانے کے بہت بڑے نام قاسمی صاحب ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے‘ ادبی ادارت کے سلسلے میں تو ان کا ثانی نہ تھا۔ ان کی ادبی فتوحات کا شمار ممکن نہیں‘ شاعری کے 12 مجموعوں کے ساتھ افسانوں کے 20 مجموعے بھی شائع ہو چکے ہیں‘ انہیں اس قدر اعزازات و اکرامات ملے جن کی گنتی آسان نہیں۔ 1999ء میں ان کو پاکستان کا سب سے بڑا سول اعزاز نشان امتیاز ملا‘ اے آر وائی گولڈ کی طرف سے ان کو سب سے بڑا نقد ادبی ایوارڈ 10 ہزار ڈالر کے ساتھ ملا۔
مجھے یہ فخر حاصل ہے کہ اس ایوارڈ کی جیوری میں میں بھی شامل تھا۔ قاسمی صاحب نے پاکستان بننے کے بعد اپنے ترقی پسند نظریات کی وجہ سے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں‘ راولپنڈی سازش کیس میں بھی گرفتار ہوئے۔ انہوں نے تنقیدی مقالات بھی لکھے جو تین کتابوں کی صورت میں سامنے آ چکے ہیں‘ وہ زندگی کی آخری سانس تک کالم نگاری کرتے رہے۔ زندگی کا آغاز ایک معمولی درجے کی ملازمت سے کیا پھر آل انڈیا ریڈیو میں سکرپٹ رائٹر بن گئے‘ 1947ء میں جب پاکستان بن رہا تھا وہ ریڈیو پاکستان پشاور میں تھے جہاں سے ان کا لکھا ہوا پہلا قومی ترانہ پاکستان بنانے والے پاکستان مبارک ہو سنایا گیا۔
قاسمی صاحب انجمن ترقی پسند مصنّفین کے سرگرم رکن تھے‘ جب پاکستان بنا تو وہ پاکستان انجمن ترقی پسندوں کے پہلے سیکرٹری جنرل مقرر ہوئے۔ انہوں نے بڑی بھرپور اور فیض رساں زندگی گزاری‘ سیاسی اور ادبی چشمکوں کا بھی بھرپور مقابلہ کیا مگر ہمت نہیں ہاری۔ اس جریدے میں قاسمی صاحب کے فنون میں چھپے ابتدائی شذرات سارے کے سارے چھاپ دیئے گئے ہیں‘ بہت سی غیر مطبوعہ تحریریں بھی شامل ہیں۔ انہوں نے دو پاکستانی فلموں ’لوری‘ اور ’دو راستے‘ کے مکالمے لکھے اور نگار ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ ندیم صاحب پر کئی غیر ملکی یونیورسٹیوں میں ڈاکٹریٹ بھی ہو چکی ہے‘ ان کے افسانوں اور شاعری کے تراجم بھی دوسری زبانوں میں ہو چکے ہیں۔
ان کی شخصیت و فن پر 11 کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ پنجابی ادب‘ بچوں کا ادب بھی ان کی تخلیقات کا حصہ ہیں۔ قاسمی صاحب نے ہزاروں خطوط بھی لکھے ہیں میرے پاس بھی ان کے تیس چالیس خطوط کی سوغات موجود ہے‘ وہ ہر خط کا جواب خود اپنے ہاتھ سے لکھ کر بھیجتے بلکہ لفافے پر پتہ بھی خود لکھتے۔
میں ان کا زبردست مداح تھا مگر 1993ء میں وہ مجھ سے ناراض ہو گئے‘ جن دنوں میں امریکہ میں تھا ان دنوں ان کی 70 ویں سالگرہ منانے کا بندوبست نیویارک سٹی میں ہوا‘ میں ایک ہزار میل کا فاصلہ طے کر کے اٹلانٹا سے وہاں گیا‘ وہاں کے واقعات کے بارے میں میں نے اپنے سفرنامہ امریکہ میں ایک صفحہ لکھ دیا‘ اس کو پڑھ کر ان کے سب سے بڑے ادبی حریف ڈاکٹر انور سدید نے اپنے کراچی سے چھپنے والے اخباری کالموں میں بھد اڑا دی‘ مجھے بڑا افسوس ہوا۔ میں نے معصومیت کے ساتھ ادبی رپورٹنگ کی تھی مگر ڈاکٹر انور سدید اسے لے کر قاسمی صاحب پر چڑھ دوڑے
اس کے بعد قاسمی صاحب نے مجھ سے منہ موڑ لیا۔ 1995ء کی عالمی ادبی کانفرنس اسلام آباد میں وہ میرے ساتھ بیٹھے تھے مگر بات نہیں کی‘ جب اٹھنے لگے تو کہا آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا‘ میں نے معافی مانگی انہوں نے معاف کر دیا۔ ہم پی ایچ ڈی کے طلباء کو لاہور لے جاتے تو قاسمی صاحب سے ملاقات اور زیارت ہمارا مشن ہوتا‘ آخری بار میں اپنے بیٹے عدنان کو بھی لے کر گیا اور ان کے ساتھ تصاویر بنوائیں‘ وہاں احمد فراز اور ڈاکٹر سحر انصاری بھی موجود تھے‘ انہوں نے قرطبہ یونیورسٹی کے میری ادارت میں چھپنے والے رسالے ’اکیسویں صدی‘ کے لئے خصوصی غزل بھی لکھ کر دی۔ بڑے متحمل مزاج اور نیک نفس انسان تھے‘ ہمیں خوشی ہے کہ ان کا رسالہ پھر اسی نام سے دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے۔
Dated : 2010-07-21 00:00:00
یہ 1928 واں شمارہ ہے اور اس کے لئے رابطہ اس نمبر پر قائم کیا جا سکتا ہے 0301-8449998‘ قیمت اس کی 175 روپے ہے۔ یہ شمارہ فنون کے بانی اور میر کارواں احمد ندیم قاسمی نمبر کے طور پر چھاپا گیا ہے‘ رسالہ کیا ہے گویا قاسمی انسائیکلو پیڈیا ہے۔ 1916ء میں پیدا ہونے والے سون سکسیر کے فرزند کا اصلی نام احمد شاہ تھا وہ اعوان قبیلے سے تعلق رکھتے تھے‘ اتفاق کی بات ہے کہ اردو ادب کے بہت سے درخشندہ ستاروں کے نام احمد شاہ ہی تھے‘ احمد شاہ پطرس بخاری‘ احمد شاہ فارغ بخاری‘ احمد شاہ احمد فراز۔ قاسمی صاحب نے 90 سال عمر پائی اور ساری زندگی قلم ہاتھ سے نہیں رکھا‘ مرنے سے صرف پانچ دن پہلے ان کا کالم چھپا۔
فیض کے بعد زمانہ جدید میں اردو کے سب سے بڑے شاعر اور منٹو کے بعد جدید افسانے کے بہت بڑے نام قاسمی صاحب ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے‘ ادبی ادارت کے سلسلے میں تو ان کا ثانی نہ تھا۔ ان کی ادبی فتوحات کا شمار ممکن نہیں‘ شاعری کے 12 مجموعوں کے ساتھ افسانوں کے 20 مجموعے بھی شائع ہو چکے ہیں‘ انہیں اس قدر اعزازات و اکرامات ملے جن کی گنتی آسان نہیں۔ 1999ء میں ان کو پاکستان کا سب سے بڑا سول اعزاز نشان امتیاز ملا‘ اے آر وائی گولڈ کی طرف سے ان کو سب سے بڑا نقد ادبی ایوارڈ 10 ہزار ڈالر کے ساتھ ملا۔
مجھے یہ فخر حاصل ہے کہ اس ایوارڈ کی جیوری میں میں بھی شامل تھا۔ قاسمی صاحب نے پاکستان بننے کے بعد اپنے ترقی پسند نظریات کی وجہ سے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں‘ راولپنڈی سازش کیس میں بھی گرفتار ہوئے۔ انہوں نے تنقیدی مقالات بھی لکھے جو تین کتابوں کی صورت میں سامنے آ چکے ہیں‘ وہ زندگی کی آخری سانس تک کالم نگاری کرتے رہے۔ زندگی کا آغاز ایک معمولی درجے کی ملازمت سے کیا پھر آل انڈیا ریڈیو میں سکرپٹ رائٹر بن گئے‘ 1947ء میں جب پاکستان بن رہا تھا وہ ریڈیو پاکستان پشاور میں تھے جہاں سے ان کا لکھا ہوا پہلا قومی ترانہ پاکستان بنانے والے پاکستان مبارک ہو سنایا گیا۔
قاسمی صاحب انجمن ترقی پسند مصنّفین کے سرگرم رکن تھے‘ جب پاکستان بنا تو وہ پاکستان انجمن ترقی پسندوں کے پہلے سیکرٹری جنرل مقرر ہوئے۔ انہوں نے بڑی بھرپور اور فیض رساں زندگی گزاری‘ سیاسی اور ادبی چشمکوں کا بھی بھرپور مقابلہ کیا مگر ہمت نہیں ہاری۔ اس جریدے میں قاسمی صاحب کے فنون میں چھپے ابتدائی شذرات سارے کے سارے چھاپ دیئے گئے ہیں‘ بہت سی غیر مطبوعہ تحریریں بھی شامل ہیں۔ انہوں نے دو پاکستانی فلموں ’لوری‘ اور ’دو راستے‘ کے مکالمے لکھے اور نگار ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ ندیم صاحب پر کئی غیر ملکی یونیورسٹیوں میں ڈاکٹریٹ بھی ہو چکی ہے‘ ان کے افسانوں اور شاعری کے تراجم بھی دوسری زبانوں میں ہو چکے ہیں۔
ان کی شخصیت و فن پر 11 کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ پنجابی ادب‘ بچوں کا ادب بھی ان کی تخلیقات کا حصہ ہیں۔ قاسمی صاحب نے ہزاروں خطوط بھی لکھے ہیں میرے پاس بھی ان کے تیس چالیس خطوط کی سوغات موجود ہے‘ وہ ہر خط کا جواب خود اپنے ہاتھ سے لکھ کر بھیجتے بلکہ لفافے پر پتہ بھی خود لکھتے۔
میں ان کا زبردست مداح تھا مگر 1993ء میں وہ مجھ سے ناراض ہو گئے‘ جن دنوں میں امریکہ میں تھا ان دنوں ان کی 70 ویں سالگرہ منانے کا بندوبست نیویارک سٹی میں ہوا‘ میں ایک ہزار میل کا فاصلہ طے کر کے اٹلانٹا سے وہاں گیا‘ وہاں کے واقعات کے بارے میں میں نے اپنے سفرنامہ امریکہ میں ایک صفحہ لکھ دیا‘ اس کو پڑھ کر ان کے سب سے بڑے ادبی حریف ڈاکٹر انور سدید نے اپنے کراچی سے چھپنے والے اخباری کالموں میں بھد اڑا دی‘ مجھے بڑا افسوس ہوا۔ میں نے معصومیت کے ساتھ ادبی رپورٹنگ کی تھی مگر ڈاکٹر انور سدید اسے لے کر قاسمی صاحب پر چڑھ دوڑے
اس کے بعد قاسمی صاحب نے مجھ سے منہ موڑ لیا۔ 1995ء کی عالمی ادبی کانفرنس اسلام آباد میں وہ میرے ساتھ بیٹھے تھے مگر بات نہیں کی‘ جب اٹھنے لگے تو کہا آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا‘ میں نے معافی مانگی انہوں نے معاف کر دیا۔ ہم پی ایچ ڈی کے طلباء کو لاہور لے جاتے تو قاسمی صاحب سے ملاقات اور زیارت ہمارا مشن ہوتا‘ آخری بار میں اپنے بیٹے عدنان کو بھی لے کر گیا اور ان کے ساتھ تصاویر بنوائیں‘ وہاں احمد فراز اور ڈاکٹر سحر انصاری بھی موجود تھے‘ انہوں نے قرطبہ یونیورسٹی کے میری ادارت میں چھپنے والے رسالے ’اکیسویں صدی‘ کے لئے خصوصی غزل بھی لکھ کر دی۔ بڑے متحمل مزاج اور نیک نفس انسان تھے‘ ہمیں خوشی ہے کہ ان کا رسالہ پھر اسی نام سے دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے۔
Dated : 2010-07-21 00:00:00