فنِ خطاطی سے فنِ کمپیوٹر تک

6968167-d72.jpg

ممبئی کی ایک کمپنی نے ایک ایسا سافٹ ویئرتیار کیا ہے جس سے نہ صرف قرآن شریف کی خطاطی میں کمپیوٹر پر ہی کشش لائی جا سکتی ہے بلکہ قرآن کو آپ اپنی مرضی کے ترجمے کے ساتھ بھی پڑھ سکتے ہے۔
یہ پروگرام ایکسیس سافٹ میڈیا نے تیار کیا ہے۔ اس کمپنی کے مالک سید منظر نے اردو کے پہلے کمپیوٹر سافٹ ویئر ’اِن پیچ‘ بنانے کے علاوہ لاہوری نستعلیق اور دیگر چالیس غیر نستعلیق خطوں کو بنانے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ انہوں نے بی بی سی سے گفتگو کے دوران بتایا کہ اب تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ ایک کاتب ہی تحریر میں کشش لا سکتا ہے لیکن اب انہوں نے جو سافٹ ویئر بنایا ہے اس سے کوئی بھی شخص حروف کی خطاطی کا اسلوب تبدیل کر سکتا ہے۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ یہ پرورگام مدارس اور قرآن کی اشاعت کے اداروں کے لیے مفید ہوگا۔ سید منظر کے مطابق انہوں نے اس کی قیمت بھی کم رکھنے کی کوشش کی ہے اور اس کی بھارت میں قیمت صرف تین ہزار روپے ہوگی۔ اس پروگرام کی ٹیسٹنگ جاری ہے اور اس کو اپریل کے پہلے ہفتے میں لانچ کیا جا رہا ہے۔
ایکسیس سافٹ میڈیا کو اس پروگرام کو بنانے میں ڈیڑھ سال سے بھی زیادہ عرصہ لگا ہے۔
سید منظر کے مطابق انہوں نے مالیگاؤں کے نوجوان عارف انجم انصاری اور سید احمد کے ساتھ مل کر ڈیڑھ سال کے عرصہ میں قرآن کو پورا لوڈ کر لیا ہے۔ ڈیٹا بیس میں ہر مسلک کے عالم جیسے احمد رضا خان ، فتح محمد جالندھری، مولانا اشرف علی تھانوی، ڈاکٹر طاہرالقادری، ذیشان حیدر جوادی اور انگریزی میں عبداللہ یوسف علی کے تراجم شامل کیے گئے ہیں۔
کیا فنِ کمپیوٹر فن خطاطی کو ختم کر دے گا؟
تو کیا فن کمپیوٹر نے فن خطاطی کو آخر مات دے دی ہے؟ پہلے اخبارات، پھر کتابیں کمپیوٹر پر شائع ہونے لگیں اور اب قرآن شریف کا ہند و پاک نسخ کشش کے ساتھ ورڈ کی فائل میں قدم رکھنا اس خدشے کو جنم دے رہا ہے کہ اب کاتبین کو اپنی قلم اور سیاہی کا ساتھ چھوڑنا ہو گا۔ یہ سوال اس وقت سے درپیش ہے جب سے کمپیوٹر نے ورڈ کی فائل بنائی اور پھر ان پیچ وجود میں آیا۔ دنیا کی ہر زبان کے اخبارات میں قلم اور سیاہی کا دور تھا۔ کاتب خبروں کو لکھتے آخری وقت میں خبروں میں تبدیلی ایک ہنگامہ سا رہتا تھا اور کاتب صحافیوں سے بالاتر ہوتے تھے کیونکہ اگر وہ لکھنے سے انکار کرتے تو خبریں شائع کیسے ہوتیں۔ لیکن جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے کمپیوٹر نے کاتبوں کی بالا دستی ختم کر دی۔ وہ کام جو گھنٹوں میں ہوتا تھا وہ منٹوں میں ہونے لگا۔ اخبارات کے بعد جب کتابیں بھی کمپیوٹر پر لکھی جانے لگیں تو کاتبوں کو اپنی روزی روٹی خطرے میں نظر آئی جس کے بعد انہوں نے قران لکھنے کا کام شروع کر دیا۔ وہ ایسی کئی دعاؤں کی کتابیں بھی لکھنے لگے جس میں قرانی آیات شامل ہوتی ہیں۔
ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش جیسے ممالک میں ہند پاک نسخ کافی مقبول ہے اور اسی خط میں قرآن شریف لکھا جاتا رہا ہے۔ عام قاری کے لیے تیرہ سطری قرآن اور حافظ قرآن اور دیگر عالم کے لیے پندرہ یا اٹھارہ سطری قران لکھا جاتا ہے۔
اب ورڈ کے صفحے میں ہی خطاطی میں کشش لائی جا سکتی ہے
عام طور پر ایک قرآن لکھنے میں کم سے کم ڈھائی سے تین سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے اور اسے لکھنے کا ہدیہ پانچ سے پندرہ لاکھ روپے تک دیا جاتا ہے۔ ایک کاتب غیاث الدین مظاہری جو پہلے اخبار میں کتابت کیا کرتے تھے اب قرآن کی کتابت میں مشغول ہیں۔ انہوں نے تیرہ سطری قرآن مکمل کر لیا ہے اور اب پندرہ اور اٹھارہ سطری قرآن کی کتابت کر رہے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ انہیں قرآن کی کتابت میں تین سال کا عرصہ لگا کیونکہ ایک اچھے سے اچھا مشاق کاتب بھی روزانہ ایک یا ڈیڑھ صفحہ سے زیادہ نہیں لکھ سکتا ہے۔ اس لیے اگر یہ سافٹ ویئر بازار میں آگیا تو ان جیسے کئی کاتبوں کی مشکلیں بڑھ سکتی ہیں کیونکہ کوئی بھی کمپنی لاکھوں روپیہ دینے کے بجائے چند ہزار کا سافٹ ویئر خرید کر قرآن شائع کرا لے گی۔
غیاث الدین کہتے ہیں کہ خطاطی کا فن کمپیوٹر کے دماغ میں نہیں بلکہ ایک ماہر مشاق کاتب کے ذہن اور اس کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ ان کے مطابق کاتبوں نے اپنے خطاطی کے ہنر کا استعمال قرآن کی کتابت میں بھی کیا۔ الفی قرآن یعنی قرآن کا ہر صفحہ الف سے شروع ہوتا ہے جسے چند برس قبل کاتب نورالدین آزاد نے ترتیب دیا اور کاتب باقی بن جان محمد نے لکھا۔ غیاث کہتے ہیں کہ فن خطاطی کے نادر و نایاب نسخے حیدر آباد کے سالار جنگ میوزیم میں موجود ہیں جن کا مقابلہ کوئی کمپیوٹر نہیں کر سکتا ہے۔ لیکن سید منظر کمپیوٹر کے دفاع میں کہتے ہیں کہ آج کے اس دور میں لوگ کم خرچ اور جلدی سب کچھ پانا چاہتے ہیں اور کمپیوٹر اس کا سب سے بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔
فن خطاطی سے فن کمپیوٹر تک کا یہ سفر جب شروع ہوا تو کسی کو یقین نہیں تھا کہ قلم کا جادو کبھی ختم ہوگا۔ اخبارات، کتابوں کے علاوہ تغرے اتنے خوشنما انداز میں لکھے جاتے تھے کہ کاتبوں کی مشاقی پر عقل حیران رہ جاتی تھی۔ ہندوستان اور پاکستان میں کتابت کے کئی استاد اس فن کے ماہر رہ چکے ہیں۔ ہندوستان میں فیض مجدد کا لاہوری خط دنیا بھر میں مقبول تھا۔ تقریباً چالیس خط رائج ہو چکے ہیں جن میں اسلوب، اسیر، نستعلیق، محقق، خط رِکاں ان میں سے چند ہیں۔اردو اخبارات میں ایک دور میں کاتبوں کا طوطی بولتا تھا۔ درجنوں کاتب اخبار کے دفتر میں قلم اور سیاہی کے ساتھ پورا پورا اخبار لکھ ڈالتے۔
کتابت فن کے ساتھ ہی روزی کا سب سے بڑا ذریعہ بن گیا۔ لیکن کمپیوٹر کی آمد نے سب کچھ رفتہ رفتہ ختم کر دیا۔ کاتب اسد کہتے ہیں کہ ان کی خطاطی کے فن کے چاہنے والے اب کہاں بچے ہیں اس لیے انہیں اب روزی کے لیے ہاتھ پیر مارنا پڑ رہا ہے۔ کمپیوٹر نے کتابت کا ذریعہ چھین لیا لیکن خطاطی کا ہنر نہیں چھین سکتا اور فن زندہ رہے گا وہ کبھی نہیں مر سکتا۔ کاتب غیاث بھی انہی کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ فن خطاطی دنیا سے کبھی ختم نہیں ہو گا۔
-----------------------------------------
اصل ربط بى بى سى
 

خلیل بہٹو

محفلین
بہت بہت شکریہ عبد المجید بھائی
ایک بات کی وضاحت کرتے جائیں کہ کیا اس سافٹ ویئر میں کسی بھی فونٹ کو کشیدہ کیا جاسکتا ہے، یا پھر کمپنی کے بنائے ہوئے فونٹس ہی اس کے لئے مخصوص ہیں۔
 
خلیل بھٹو بھائی جہاں‌تک میرا اندازہ ہےاس سوفٹ وئر میں صرف اسی کمپنی کہ ہی بنائے گئے فونٹس کشیدہ ہوسکتے ہیں باقی فونٹس نہیں
 

باسم

محفلین
بہت خوب
موضوع دیکھ کر ایک کتابچہ "قلم سے کمپیوٹر تک" یاد آگیا جو نوری نستعلیق کے متعلق نوری نستعلیق فاؤنڈیشن کی طرف سے شائع ہوا ہے۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
عبدالمجید بھائی!
آپ نے ایک اچھی خبر سنائی ہے قرآن پاک کا محفوط متن مختلف تراجم کے ساتھ کسی سافٹ ویئر میں اس انداز میں دستیاب ہونا کہ خطاطی کی ایک خوبی یعنی کشش کی ضرورت کو بھی پورا کر سکے یقینا ایک اہم پیش رفت ہے لیکن یہ امر اس بات کا ضامن ہرگز نہیں کہ کمپیوٹر، خطاطی اور اور فن خطاطی سے وابستہ افراد کی ضرورت کو ختم کر دے گا ۔
امت مسلمہ کا اپنی مذہبی کتاب سے لگائو اور عقیدت ہی ہے جس نے اس فن کو جنم دیا اور اس میں ہر دور میں جدت طرازیاں ہوئیں مسلمان اپنی مقدس کتاب میں موجود آیات خداوندی کو ہمیشہ سجاتے رہیں گے اور ان کی یہ عقیدت تا قیامت فن خطاطی کے نئے نئے اسلوب اور جدید زاویے متعارف کرواتی رہے گی
برصغیر میں نہ سہی لیکن ایران اور ترکیہ جیسے ممالک میں فروغ خطاطی کے باقاعدہ ادارے موجود ہیں اور ہر سال دنیا بھر سے خطاط حضرات ان اداروں کے زیر اہتمام منعقد ہونے والےمقابلوں میں شرکت کرتے ہیں
کمپیوٹرکو ہمارے رائج الوقت اسالیب خطاطی پر عبور حاصل کرنے میں بھی ابھی شاید کئی سالوں پہ محیط عرصہ درکار ہوگا لیکن فنکار کی جدت طرازیاں تو جاری ہیں
فن کتابت عمومی سطح پر نہ سہی لیکن خصوصی سطح پر تو شاید رہتی دنیا تک قائم و دائم رہے گا
کمپیوٹر کی تازہ کاریوں کی یہ دوڑ شاید امامان فن کے لیے مہمیز ثابت ہوتی رہیں گی
 

arifkarim

معطل
اچھا تجزیہ ہے شاکر صاحب،
ویسے بھی سافٹوئیر کی بدولت کام تیزی سے ہو تو جاتا ہے، لیکن حقیقی خوبصورتی انسانی ہاتھ ہی کھینچ سکتا ہے۔ میرے خیال میں تو یہ ایک لگیچر بیسڈ خط ہی ہوگا، ان افراد کیلئے جو قرآن پبلشنگ سسٹم خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے!
 
Top