الف نظامی
لائبریرین
عبدالواحد نادر القلم از خورشید عالم گوہر قلم شائع شدہ ماہنامہ پھول
کچھ لوگوں کو اللہ تعالی مخصوص کاموں کے لیے چن لیتا ہے اور وہ لوگ اللہ تعالی کی اس عطا کی قدر کرتے ہوئے دیوانہ وار اپنے مشن پر لگ جاتے ہیں۔ انہیں کبھی تعریف کی ضرورت پیش نہیں آتی اور نہ ہی کوئی ناقدری ان کی راہ میں روڑے اٹکاتی ہے۔ وہ امارات کے طلب گار نہیں ہوتے اور غربت انہیں پریشان نہیں کرتی۔ حکمرانوں سے کوئی واسطہ نہیں رکھتے اور عوام سے وہ کسی کبھی اجرت کے طالب نہیں ہوتے۔ بس اپنا کام کرتے ہیں۔
عبد الواحد نادر القلم اسی قبیل کے افراد میں سے ایک تھے۔ ایک دن راقم الحروف (خورشید عالم گوہر قلم) نے ان سے سوال کیا کہ جناب نادر القلم صاحب! آپ اتنا کام کرتے ہیں ، اس کے لیے رنگوں اور دیگر سامان کی ضرورت ہوتی ہے ، آپ کی آمدنی بہت قلیل ہے اور بدقسمتی سے ہماری حکومتوں میں وہ لوگ ہوتے ہیں جو اسلامی فنون سے قطعی بے بہرہ اور ناقدر شناس ہوتے ہیں۔ آپ یہ سب کیسے کر لیتے ہیں اور کس لیے کر رہے ہیں؟ یہ سن کر وہ مسکرائے اور فرمایا "اپنے ذوق کی تسکین کے لیے اور اس فنی خدمت کو عبادت سمجھ کر۔۔۔ کہ جس طرح عبادت کا اجر فورا نہیں مل جاتا بلکہ اس کا دن روز جزا مقرر ہے ، میرے فن کا اجر بھی روز جزا ملے گا۔ قرآن کریم ہی تو لکھتا ہوں یا اللہ تعالی کے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ذکرِ خیر قلم کے ذریعے کرتا ہوں۔ مجھے دنیا کی قدر یا ناقدری کی کوئی پرواہ نہین اور مجھے اپنے اس وجد کے بارے میں بھی کوئی خبر نہیں کہ یہ مجھ پر کیوں طاری رہتا ہے"
یہ جواب سن کر میں حیرت زدہ رہ گیا۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ آپ کو یہ شوق کب سے ہے تو مسکر کر فرمانے لگے ، "یوم الست سے" ، یعنی اس دن سے جس دن اللہ تعالی نے ارواح سے توحید کا وعدہ لیا تھا۔ میں حیرت سے انہیں دیکھ رہا تھ لیکن ان کے چہرے پر گہری سنجیدگی چھائی دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ وہ سچ کہہ رہے ہیں ، مذاق نہیں کر رہے۔ میں نے اپنے دل میں سوچا ، ہوسکتا ہے روحانیت کی یہ وہ بلند منزل ہو کہ جس کے راستوں کو میں ابھی نہیں جانتا۔ قدرے توقف کے بعد مین نے ان سے ڈرتے ڈرتے پوچھا ۔ ایک صاحب آپ کے فن پارے خریدنا چاہتے ہیں ان کا ہدیا کیا بتاوں؟
مسکرا کر فرمایا "ابھی تک آپ میری بات نہیں سمجھے ، میرے فن پاروں کا ہدیہ ذوق و شوق اور درد مندی و آرزو مندی ہے۔ روپے میرے نزدیک بے وقعت ہیں۔ وہ تو میرے ادارے میں رزق کا سامان اللہ تعالی کی طرف سے آتا ہے۔ یہ وہ کام ہوتا ہے کہ جو کمرشل ہوتا ہے اور کمرشل کی اجرت روپے ہے۔ میرے فن پارے مظہر روحانیت ہیں۔ ان کی اجرت بھی روحانیت ہے۔" ان کے چلے جانے کے بعد میں سوچتا رہا کہ وہ کیا کہہ رہے تھے۔
عبد الواحد نادر القلم نے فنی تعلیم بچپن سے ہی عبد المجید پرویں رقم سے حاصل کی تھی اور آپ نے تمام خطوط میں کمال حاصل کیا۔ آپ کے فن میں پروینی نستعلیق کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے۔ آپ کے فن پارے خط نستعلیق کا ایک عمدہ اثاثہ ہیں۔
آپ کے فن کو خراج تحسین پیش کرنے والوں میں چراغ حسن حسرت ، حنیف رامے ، مولانا ابو الاعلی مودودی چشتی ، میاں طفیل محمد ، سید انور حسین نفیس رقم صاحب ، حافظ محمد یوسف سدیدی صاحب ، احمد ندیم قاسمی ، سید امتیاز علی تاج ، شورش کاشمیری اور اشفاق احمد جیسے ممتاز افراد شامل ہیں۔
مولانا مودودی نے نادر القلم کی اسلامک آرٹ گیلری کا دورہ کیا اور خطاطی کے فن پارے دیکھ کر بہت متاثر ہوئے ۔ کہنے لگے
" نادر القلم نے بلاشبہ خطاطی کو ملک بھر میں روشناس کرانے میں قابلِ قدر کردار ادا کیا ہے"
نادر القلم کی فنی خدمات کا اعتراف سوائے حکومت کے ہر سطح پر کیا گیا۔ دانشوروں ، ادیبوں ، صحافیوں ، علماء کرام اور معروف سیاستدانوں نے آپ کی خدمات کو تسلیم کیا اور بھر پور داد دی مگر حسب روایت حکومتوں نے آنکھیں بند رکھیں۔
سفر حج سے واپسی پر وہ ایک بار میرے پاس تشریف لائے۔ مجھے شرمندگی بھی ہوئی کہ میں انہیں مبارکباد دینے نہ جاسکا۔ میں نے ان سے سفر حج کے بارے میں پوچھا تو ان کی آنکھیں بھر آئیں۔ بقول شاعر
اک اشک میں سمٹ گئیں دل کی حکایتیں
ان کی اس کیفیت سے میری آنکھیں بھی نم ناک ہوگئیں۔ اسی کیفیت میں آپ نے سفر حرمین سنایا۔ مدینہ منورہ کے سفر اور روضہ پاک کی حاضری کے ذکر پر ان کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ میں چاہتا تھا کہ وہ اور روئیں کہ یہ رونا دل و نگاہ کوبلندی عطا کرتا ہے۔ جب وہ قدرے خاموش ہوئے تو میں نے ان سے عرض کی کہ آپ نے اسی عشق میں علامہ اقبال کی رباعی بحضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم لکھی تھی جس کا آخری مصرع تھا
"وہی قرآں وہی فرقاں وہی یسیں وہی طہ"
نادر القلم کے اس مشن کو آج بھی ان کا گھرانہ پورا کر رہا ہے۔ ان کے صاحبزادے منور اسلام انتھک محنت کرنے والے اور خطاطی کی نمائشوں کی جان سمجھے جاتے ہیں۔ آپ کے صاحبزادے ریحان منور ، عثمان اور صاحبزادی اسماء نے خوب محنت کی ہے۔ منور اسلام صاحب بیماری ہو یا صحت ، اتنا کام کرتے ہیں کہ سبھی حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔
حنیف رامے مرحوم نے ایک بار کہا تھا کہ نادر القلم کا سارا گھرانہ اس فن کی خدمت میں مگن ہے۔
الخطاط اسلامک آرٹ گیلری اس جہد مسلسل کی بھرپور عکاس ہے۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ نادر القلم مرحوم کی فنی خدمات کا اعتراف اعلی سطح پر کرے۔