فن قرات اور علم موسیقی - رعایت اللہ فاروقی

الف نظامی

لائبریرین
رعایت اللہ فاروقی کی فیس بک پوسٹ سے ماخوذ

چونکہ گزشتہ دو روز کے دوران آپ کو تلاوت کے مختلف کلپس سنائے ہیں اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو فن قرات میں کار گزار علم موسیقی کی ہلکی سی جھلک دکھادی جائے اور یہ سمجھا دیا جائے کہ اس فن کو سننے کے لئے نہ صرف اعلیٰ ذوق کی ضرورت ہے بلکہ موسیقی سے کم از کم ابتدائی درجے کی واقفیت ضروری ہے۔ ورنہ آپ ایک مترنم آواز پر جھوم کر ماشاءاللہ تو کہہ دیں گے لیکن یہ نہیں جان سکیں گے کہ فن کار یا قاری نے دراصل ہنر کیا دکھایا ہے اور اس میں وہ کن کن باریکیوں سے گزرا ہے۔ جو عرض کرنے جا رہا ہوں وہ فقط ایک بہت ہی معمولی سی جھلک ہے۔ اس کے کسی بھی جملے کو کُل سمجھنے کی غلطی نہ کیجئے گا۔

  1. کلام دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک موزوں اور دوسرا غیر موزوں۔ کلام موزوں آسمانی ہو تو وحی الہی ہوتا ہے اور انسانی ہو تو شاعری کہلاتا ہے۔ کلام اللہ کا یہ اعجاز ہے کہ یہ شاعری نہ ہوکر ایک ناقابل احاطہ کلام موزوں ہے۔ اس میں اشعار کی طرح ایک ہی وزن، قافیہ اور ردیف نہیں چلتی کہ ہر آیت دوسری آیات کے اوزان یا قافیے میں ہو۔ اس کی ہر آیت ایک مستقل اعجاز و کمال ہے اور یہ کمال اس حد کو پہنچا ہوا ہے کہ ہر آیت اپنے کمال کی تکمیل کے لئے اگلی یا پچھلی آیت کی مدد کی بھی محتاج نہیں۔ کلام غیر موزوں ہماری روز مرہ کی گپ کو کہتے ہیں جس میں الفاظ کا چناؤ کسی علم یا اصول کے تحت نہیں ہوتا۔ کلام موزوں کی یہ خاصیت ہے کہ یہ موسیقی میں ڈھل سکتا ہے جبکہ کلام غیر موزوں کے لئے اس پہلو سے سوچنا بھی ایک مذاق ہے۔
  2. انسانی گلے میں سات سُر پائے جاتے ہیں اور یہی ساتوں سُر انسان نے آلاتِ موسیقی پر بھی منتقل کر رکھے ہیں۔ سُر ایک حرفی بھی ہوتا ہے اور دو حرفی بھی۔ ہر سر کی اپنی ٹائمنگ ہوتی ہے۔ بعض سر ایک سیکنڈ جبکہ بعض سوا یا ڈیڑھ سیکنڈ کے بھی ہوتے ہیں۔ جب گائک یا قاری کسی لفظ کو ادا کر رہا ہوتا ہے تو اس ایک لفظ میں موجود حروف پر اس کے دو یا تین مختلف سر لگ رہے ہوتے ہیں جو اس لفظ کے زیر بم کو ایک صوتی خوبصورتی عطاء کرتے ہیں۔
  3. بر صغیر پاک و ہند کی موسیقی 9 راگوں پر کھڑی ہے جن میں سے 5 بنیادی راگ ہیں۔ جس چیز کو ہم اپنے ہاں راگ کہتے ہیں یہ عالم عرب میں "مقام" کہلاتا ہے اور عرب موسیقی بھی 9 مقامات پر کھڑی ہے۔ راگ یا مقام بنیادی طور پر ایک ماحول اور احساس کو بیان کرتا ہے۔ بعض راگ یا مقام دکھ کے احساس کو بیان کرتے ہیں تو بعض خوشی کے احساس کو۔ بعض چیلنج کی کیفیت کو صوتی شکل دیتے ہیں تو بعض غم اور رونے کے احساس کو۔ اسی طرح دیگر انسانی کیفیات بھی ہیں جن کا یہ راگ یا مقامات صوتی اظہار کرتے ہیں۔
  4. فن تجوید وہ فن ہے جس میں قرآن مجید کی سات روایات بھی سکھائی جاتی ہیں لیکن اس فن کا بنیادی کام حرف کی اس کے مخرج سے بالکل ٹھیک ٹھیک ادائیگی کو یقینی بنانا ہے۔ اگر ایک قاری حرف ہی درست ادا نہیں کر سکتا تو سُر اور مقام میں وہ جتنا بھی زور لگا دے پٹنے کے لائق ہی رہے گا۔
  5. مصری قرا حضرات نہ صرف فن تجوید پر مکمل گرفت حاصل کرنے کی محنت کرتے ہیں بلکہ موسیقی کے اساتذہ کے ساتھ سالہا سال گھنٹوں گھنٹوں ریاض (مشق) کرکے مقامات یعنی راگ پر بھی عبور حاصل کرتے ہیں۔ ہماری موسیقی میں ہر گیت ایک ہی راگ میں ہوتا ہے اگر گائیک غلطی سے بھی ایک سے دوسرے راگ پر چلا جائے تو یہ ایک بڑی نالائقی شمار ہوتی ہے لیکن عربی موسیقی اور اس میں بھی خاص طور پر فن قرات میں ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے راگ یعنی مقام پر جانا بہت ہی بڑا کمال شمار ہوتا ہے۔ یہ کمال اس لحاظ سے ہوتا ہے ایک راگ سے ایک ہی سانس میں دوسرے پر منتقل ہوتے وقت حروف کی چال بگڑنا یقینی ہوتا ہے جسے سالوں کی مشق سے نا ممکن بنانا پڑتا ہے کیونکہ اگر چال بگڑ جائے تو ساری صوتی خوبصورتی تباہ ہو جاتی ہے۔ فن قرات میں ایک سے دوسرے مقام پر اس لئے جانا پڑ جاتا ہے کہ ایک آیت اگر دکھ کے مفہوم والی ہے اور اگلی آیت خوشی کے مفہوم والی اور قاری دونوں آیات کو ملا کر پڑھنا چاہتا ہے تو یقینی بات ہے کہ اسے دو الگ الگ مقام یعنی راگ استعمال کرنے پڑیں گے۔ اس فن میں شیخ مصطفے اسماعیل سے بڑا ماہر آج تک نہیں دیکھا گیا۔ ان کی جھلک بہت حد تک ان کے شاگرد شیخ احمد نعینع میں دیکھی جا سکتی ہے۔

اس پوسٹ میں آپ کو ایک کلپ میں قاری عبدالباسط کے تین مقامات سنائے جا رہے ہیں۔ سننے سے قبل ذیل میں تینوں مقامات کی آیات کا ترجمہ آپ پڑھیں گے تو اندازہ ہوجائے گا کہ پہلے مقام کی تینوں آیات ایک دکھ کی کیفیت بیان کر رہی ہیں جس میں اللہ دوبارہ تخلیق کے منکروں پر افسوس کا اظہار فرما رہے ہیں۔
چنانچہ اب لازم ہے کہ جب یہ آیات پڑھی جائیں تو دکھ کے صوتی اظہار والا مقام یعنی راگ استعمال ہو۔ دکھ کے اظہار والے مقام کو "صبا" کہتے ہیں۔ اس کلپ میں سب سے پہلے پڑھے جانے والے مقام صبا میں آپ قاری عبد لباسط کی آواز میں دکھ واضح محسوس کریں گے۔
کلپ میں دوسرے نمبر پر جو مقام ہے اس کی دونوں آیات کا ترجمہ دیکھ کر آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ حضرت مریم انتہائی تکلیف اور رنج سے گزر رہی ہیں کہ بن باپ بیٹا (حضرت عیسیٰ علیہ اسلام) پیدا ہونے لگا ہے لوگوں کو کیا جواب دوں گی۔ ان آیات کو قاری عبد الباسط بے پناہ غم والے مقام "حجاز" میں پڑھ رہے ہیں، ان کی آواز میں رونے کی حد کو پہنچا ہوا رنج آپ محسوس کریں گے۔
تیسرے مقام کی آیت کا ترجمہ صاف بتا رہا ہے کہ ماں کے پیٹ میں بچے کی تخلیق کے مراحل سے نا آشنا بنی نوع انسان کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ آگاہ فرما رہے ہیں کہ شکم مادر میں یہ شاہکار میں درحقیقت کن کن مراحل سے گزار کر تخلیق کرتا ہوں تو یقینی سی بات ہے کہ بنی نوع انسان ایکسائیٹڈ ہوگی اور اللہ جب اس راز سے پردہ اٹھا رہے ہوں گے تو وہ ان ایکسائٹڈ بندوں کی حالت دیکھ کر لطف لے رہے ہوں گے اور خوشی محسوس فرما رہے ہوں گے۔ چنانچہ اب راگ یا مقام بھی وہ لگے گا جو خوشی کی صوتی کیفیت پیدا کرے۔ خوشی کی صوتی کیفیت والا راگ یا مقام "عجم" ہے۔ قاری عبد الباسط اس آیت کو پڑھتے ہوئے خوشی کی پرجوش کیفیت اپنی آواز سے دکھا رہے ہیں اور پڑھ بھی نسبتا تیز رہے ہیں جیسے بتانے والے کو جلدی ہو یہ خوشگوار خبر دینے کی۔

مقام صبا
میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی۔ اور قسم کھاتا ملامت کرنے والے نفس (ضمیر) کی۔ کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو اکٹھا نہیں کر سکیں گے ؟ کیوں نہیں ؟ جبکہ ہمیں اس پر بھی قدرت ہے کہ اس کی انگلیوں کے پور پور کو ٹھیک بنا دیں۔
(القیٰمہ: آیت نمبر 1 تا 3)

مقام حجاز
پھر یہ ہوا کہ مریم کو اس بچے کا حمل ٹھر گیا تو وہ اس کو لے کر لوگوں سے الگ ایک دور مقام پر چلی گئیں۔ پھر زچگی کے درد نے انہیں کھجور کے ایک درخت کے پاس پہنچادیا۔ وہ کہنے لگیں: "کاش میں اس سے قبل مر گئی ہوتی اور مرکر بھولی بسری ہو ہوچکی ہوتی"
(مریم: آیت نمبر 22/23)

مقام عجم

پھر اس جمے ہوئے خون کو لوتھڑا بنادیا، پھر اس لوتھڑے کو ہڈیوں میں تبدیل کردیا، پھر ہڈیوں کو گوشت کا لباس پہنادیا، پھر اسے ایسی اٹھان دی کہ وہ ایک دوسری ہی مخلوق بن کر کھڑا ہو گیا۔ غرض بڑی شان ہے اللہ کی جو سارے کاریگروں بڑھ کر کاریگر ہے۔
(المؤمنون آیت نمبر 14)

 
آخری تدوین:
Top