احتشام احمد شامی
محفلین
فن میں یہ معجزہ بھی پیدا کر
پتھروں سے بشر تراشا کر
کب سے اپنی تلاش میں گم ہوں
اے خدا مجھ کو مجھ پر افشا کر
جس پہ اب انگلیاں اٹھاتا ہوں
اس کو مانگا تھا ہاتھ پھیلا کر
اے بچھڑ کر نہ لوٹنے والے!
دکھ کی راتوں میں یاد آیا کر
جل چکا شہر ، مر چکے باسی!
اب بجھی راکھ ہی کریدا کر
عمر بھر مجھ پہ برف برسی ہے
دشت کی دھوپ مجھ پہ سایہ کر
ایک تنہا شجر نے مجھ سے کہا!
میرے سائے میں روز بیٹھا کر
تو کہ معجز نما ہے نام ترا
میں کہ ذرہ ہوں مجھ کو صحرا کر
اے مرے کچھ نہ سوچنے والے
اپنے بارے میں کچھ تو سوچا کر
میں عزادار ہوں اندھیروں کا
تو سحر ہے تو مجھ سے پردہ کر
اے سمندر کے ابرِ آوارہ !
دشت میں ایک پل تو ٹھہرا کر
کون بانٹے گا دکھ ترے محسن؟
دوستوں سے بھی چھپ کے رویا کر
محسن نقوی
پتھروں سے بشر تراشا کر
کب سے اپنی تلاش میں گم ہوں
اے خدا مجھ کو مجھ پر افشا کر
جس پہ اب انگلیاں اٹھاتا ہوں
اس کو مانگا تھا ہاتھ پھیلا کر
اے بچھڑ کر نہ لوٹنے والے!
دکھ کی راتوں میں یاد آیا کر
جل چکا شہر ، مر چکے باسی!
اب بجھی راکھ ہی کریدا کر
عمر بھر مجھ پہ برف برسی ہے
دشت کی دھوپ مجھ پہ سایہ کر
ایک تنہا شجر نے مجھ سے کہا!
میرے سائے میں روز بیٹھا کر
تو کہ معجز نما ہے نام ترا
میں کہ ذرہ ہوں مجھ کو صحرا کر
اے مرے کچھ نہ سوچنے والے
اپنے بارے میں کچھ تو سوچا کر
میں عزادار ہوں اندھیروں کا
تو سحر ہے تو مجھ سے پردہ کر
اے سمندر کے ابرِ آوارہ !
دشت میں ایک پل تو ٹھہرا کر
کون بانٹے گا دکھ ترے محسن؟
دوستوں سے بھی چھپ کے رویا کر
محسن نقوی