اظہرالحق
محفلین
یہ ایک چھوٹی سی کہانی ہے پاکستانی فوج اور ایجنسیوں کی ، شاید کچھ اب بدل جائے مگر ممکن ہے بھی اور نہیں بھی ، میں نے جو کچھ لکھا ہے وہ اپنے مطالعے اور مشاہدے کی بیس پر لکھا ہے ، اگر کوئی غلطی ہو تو معذرت چاہوں گا ، آپ کی آراء کا منتظر رہوں گا ۔ ۔
---------------------------------
پاکستانی فوج قیام پاکستان سے لے کر آج تک ساری دنیا کی نظروں میں رہی ہے ، ہندوستان کے بٹوارے کے ساتھ ہر چیز کا بٹوارہ ہوا ، سو فوج کا بھی ہوا ، مگر چالاک انگریز نے پاکستانی فوج کا سربراہ ایک گورا ہی رکھا ، اور ہمارے رہنماؤں نے سوچا کہ چلو اس طرح شاید گورا انکا حکم مانے ، مگر گورے نے قائد کے حکم کو ماننے سے انکار کیا (جنرل فرانک ) اور برطرفی سہی مگر اپنا جانشین ایک اور گورا ( ڈگلس گریسی ) کو چھوڑا اور اس نے بھی قائد کا حکم نہیں مانا مگر قائد تو دنیا ہی چھوڑ گئے ، تو گوروں نے فوج کو ایسا “ٹرین “ کیا کہ پاکستان کا پہلا ڈکٹیٹر پالنے کے لئے دے دیا ، پاکستان کی فوج اس وقت برٹش آرمی کا بہترین حصہ تھی ، اسی لئے جب سبھاش چندر بوس نے اپنی آرمی بنائی تو اس آرمی میں برٹش افسروں اور سپاہیوں نے اپنی خدمات پیش کیں تو جرمنوں نے انکی بہت تعریف کی (اصل میں ہٹلر اس آرمی کو اتحادی افواج کے خلاف استعمال کرنا چاہتا تھا )
انگریز نے اپنی حکومت قائم رکھنے کے لئے بہترین مخبری (انٹیلی جنس) کا نیٹ ورک بنایا تھا ، اسی لئے پاکستان فوج کے اس خصے کی زیادہ اہمیت تھی یعنی ملٹری انٹیلی جنس کی ، کشمیر پر ہندوستانی فوج قبضہ کر چکی تھی ، دوسری طرف مہاجرین کی آمد تھی ، تیسری طرف ایک نوزیدہ ملک کو بیرونی دنیا میں اپنی پہچان بنانی تھی ۔ ۔ ۔ قدم قدم پر سازشوں کے جال تھے ایسے میں بہترین انٹیلی جنس ہی حکومت کی مدد گار تھی ، شروع میں ملٹری انٹیلی جنس اور پولیس نے مل جل کر ملک کے خلاف سازشوں کو بے نقاب کیا ، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان آرمی ، بانی پاکستان کو وہ سب کچھ نہیں دے سکی جو وہ چاہتے تھے ، حتہ کہ کشمیر کے موجودہ آزاد حصے کا سہرا بھی ان قبائیلوں کے سر جاتا ہے جنہوں نے اپنی جان دے کر بھارتی افواج کا مقابلہ کیا ۔ ۔ ۔
میں سمجھتا ہوں پاکستان کے خلاف پہلی کامیاب سازش ، بانی پاکستان کی زیارت سے واپسی پر انکی ایمبولینس کا خراب ہونا اور پھر کسی دوسری گاڑی کا نہ ملنا ۔ ۔ ۔ یہ وہ سازش تھی جس میں میں سمجھتا ہوں اس وقت کی آرمی اور پولیس کا بہت بڑا ہاتھ تھا کیونکہ وہ اسے بے نقاب نہیں کر سکیں ۔ ۔ ۔
اور اس کامیابی نے سازشوں کو مزید پھیلا دیا ، جسکے نتیجے میں لیاقت علی خان کی شہادت ہوئی ، اور اس وقت تک فوج میں غیر ملکی اثر نفوذ ہو چکا تھا ، گورنر جنرل غلام محمد اپنی عیاشیوں میں گم تھے ، نوزیدہ مملکت تھی ، عوام میں خلوص تھا ، انصار مدینہ کی مثال قائم کر رہے تھے ، مگر وہیں پر ایسے بھی لوگ موجود تھے ، جو جھوٹے کلیم کا دھندا چلا رہے تھے ، بھارت سے آنے والے کروڑ پتی ، پاکستان آ کر فقیر بن چکے تھے ، اور فقیر لکھ پتی ہو چکے تھے ، حکمران جانتے تھے کہ عوام کے جذبات کو کیسے ابھارا جائے ، وہ بیداری جیسی فلموں پر ٹیکس معاف کر کے عوام کو پاکستانیت سکھا رہے تھے ۔ ۔ ۔ پاکستان اور ہندوستان میں صرف ایک فرق تھا بٹوارے میں ، ہندوستان سے مہاجروں کی لٹی پٹی ریل گاڑیاں آ رہی تھیں اور پاکستان سے سونے سے لدی گاڑیاں ہندوستان جا رہی تھیں ، فسادات کا محور ہندوستانی مسلم اقلیت کے علاقے تھے ، نظام حیدر آباد اور خان آف قلات جیسے لوگ پاکستان کو مدد دے رہے تھے ورنہ پاکستان جن سازشوں کا شکار تھا وہ اسے زندہ نہ رکھ سکتیں ۔ ۔
خیر بات ہو رہی تھی فوج کی ، پاکستان بنانے والے مخلص تھے ، لیاقت علی خان کے ذہن میں ١٩٤٥ کا بجٹ تھا ، سردار عبدالرب نشتر ، فضل حق اور قاضی عیسٰی جیسے لوگ اقتدار کو خدمت سمجھتے تھے ، اسلئے وہ عوامی لوگ سمجھے جاتے تھے ، مگر فوج میں افسران اسکے بالکل برعکس تھے ، انہیں عوام سے لنک صرف مہاجرین کی آبادکاری اور سرحدی محافظت تک تھی ، فوج کے جونیر افسران بہت جذباتی تھے اور عوام کے ساتھ تھے سپاہی تو عوامی ہوتے ہی ہیں ، مگر فوج کے سربراہان اور حکمرانوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی شروع ہو چکی تھی ، اصل میں یہ سوچ شاید اسی دن بن گئی تھی جب جنرل گریسی نے قائد اعظم کے حکم کو رد کیا تھا ۔ ۔ ۔ اور اسی سوچ نے اسکندر مرزا کو اقتدار سنبھالنے کا موقعہ دیا ۔ ۔ ۔ ۔یہ اسکندر مرزا اس میر جعفر کی نسل میں سے تھا جسنے ٹیپو سلطان کو دھوکہ دیا تھا ۔ ۔ ۔ اور اسی بنیاد پر اپنے اباء کی خدمات کی دہائی دے کر برٹش انڈیا کی فوج میں کمیشن حاصل کیا تھا ۔ ۔ ۔ اسکندر مرزا نے گورنر جنرل بن کر مارشل لاء لگا دیا ۔ ۔ ۔ آج تک اس مارشل لاء کی کوئی منطق پیش نہیں کی جا سکی ۔ ۔ ۔ اور یہاں سے ہی فوج میں اقتدار کے حصول کے لئے رسہ کشی شروع ہوئی ، اسکندر مرزا جو صدر بن چکے تھے انکو فیلڈ مارشل ایوب خان نے ہٹا دیا ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں سے پاکستان کی فوج کا ایک نیا روپ بنا ، ایوب خان نے عوام پر اپنی گرفت مضبوط کی ، انٹیلی جنس کو شاید سب سے پہلے ملکی رہمناؤں کی جاسوسی پر لگایا گیا ، فوج نے سیاست میں حصہ بھی اسی دور میں لیا ، فاطمہ جناح کو شکست دینے کے لئے فوجی اور بیورکریسی نے مل جل کر انتخابات کا ڈرامہ رچایا ۔ ۔ ۔ ۔ ایوب خان نے پاکستان کو بین الاقومی طور پر ایک فوجی طاقت کے طور پر متعارف کروایا ۔ ۔ ۔ لیاقت علی خان نے روس کو چھوڑ کہ جو دورہ امریکا کیا تھا ، اس کے تاثر کو زائل کیا ایوب خان نے ، اور بھارت کے روس کی قربت کو کم کرنے کے لئے ایوب خان نے روس سے تعلقات کو استوار کیا ، جسکے نتیجے میں ہم نے اسٹیل مل حاصل کی ، پاکستان سیٹو اور سنٹو جیسے فوج معاہدوں کا رکن بنا یعنی پاکستان دونوں بلاک میں تھا ۔ ۔ ۔ ایوب خان نے بیرونی دنیا پر اپنا رعب تو جما لیا تھا مگر اندرونی سطح پر وہ ناکام تھے، بھارت نے پاکستان کے اسی ابھرتے ہوئے امیج سے گھبرا کر اور اندرونی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر ١٩٦٥ کا حملہ کیا ، جو ناکام یا کامیاب رہا یہ کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اچانک حملے کی وجہ پاکستانی ایجنسیوں کی ناکامی تھی ، کیونکہ وہ تو ایوب خان کے اقتدار کو مضبوط کر رہی تھی ، مشرقی پاکستان کے لیڈروں کو تنہا کیا جا رہا تھا ۔ ۔ ۔ عوام میں ایوب خان کے خلاف غصہ بڑھ رہا تھا ۔ ۔ ۔ ایوب خان ہر ڈکٹیٹر کی طرح اپنی ایجنسیوں پر بھروسہ کئے بیٹھے تھے ۔ ۔ ۔ مگر جب وہ تاحیات صدر بننے کے خواب دیکھنے لگے (جو ہر ڈکٹیٹر دیکھتا ہے ) عوام بپھر گئی ۔ ۔۔ ملٹری انٹیلی جنس نے ایوب کو جانے کا کہ دیا اور ویسے بھی اس دوران ایک نوجوان نے جو ایوب کو ڈیڈی کہتا تھا ، باپ کو عاق کر دیا تھا ، ظلفقار علی بھٹو ۔ ۔ ۔ عوام میں اپنی اہمیت منوا چکا تھا ۔ ۔ ۔ اور پھر ایوب خان نے اپنی کمان ایک شرابی اور عیاش جنرل یحیٰی خان نے حوالے کر دی ۔ ۔ ۔ ۔ یحیٰی خان ۔ ۔ ۔ پاکستان کا رنگیلے شاہ ثابت ہوا ۔ ۔ ۔ اس دوران بھارت کو پھیر موقع ملا اور مشرقی پاکستان پر فوج کشی کر دی گئی ۔ ۔ ۔ انتخابات بھی ہوئے ۔ ۔ ہماری ایجنسیاں کچھ بھی نہ کر سکیں ۔ ۔ ۔ جانے کہاں سوئ ہوہیں تھیں جب مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی اور شانتی باہنی کا بیج بویا جا رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ سیاست دانوں نے اسی کو موقع جانا اور اقتدار کی رسہ کشی ہونے لگی ۔ ۔ ۔ اور اسی میں رسہ ٹوٹ گیا ۔ ۔ اور اپنے اپنے حصے کے رسے کے ساتھ سب رسہ کشی کرنے لگے ۔ ۔ ۔ بھٹو جو کہ ایوب کے صحبت زدہ تھے ، اپنے ڈیڈی کی روایت پر عمل کیا اور سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گئے اور انہوں نے ایجنسیوں کو اپنی خدمات پر لگا دیا ۔ ۔ ۔ بھٹو نے سات سال تک پاکستانی سیاست کو نئے رنگ دیے ۔ ۔ ۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستانی تاریخ میں صرف بھٹو کا دور خالص سیاسی تھا ، بلکہ سیاسی اکھاڑہ تھا ۔ ۔ ۔ بھٹو نے فوج میں بھی اپنا اثر چھوڑا ۔ ۔ ۔ خاصکر ایجنسیوں میں ۔ ۔۔ سیاست میں فوج تھی پہلے ہی مگر سیاسی مخالفت میں فوج کی خفیہ ایجنسیوں کو سب سے پہلے بھٹو نے استعمال کیا ۔ ۔ ۔ ٹارچر سیل بنائے گے ۔ ۔ ۔ سیاسی مخالفوں کی “عزت افزائی“ کی گئی ۔ ۔ ۔ مگر بھٹو نے بھی اپنے ڈیڈی والی غلطی کی ۔ ۔ ۔ وہ بین الاقوامی لیڈر تو بنے اور عوام میں مقبول ہونے مگر عوام کے لئے روٹی کپڑا مکان کے نعرے کے سوا کچھ نہ کر سکے ۔ ۔ ۔ ۔ بھٹو کی حکومت کی وجہ سے فوج میں واضح تبدیلی ہوئی ۔ ۔ ۔ فوج میں اسلامی عنصر واضح ہوا اور سیکولر عنصر نے بھی اپنی جگہ بنا دی ۔ ۔ ایجنسیوں کا بھی قبلہ بدلنے لگا ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس قبلہ کی تبدیلی بھٹو جیسا سیاست دان بھی نہ سمجھ پایا اور ۔ ۔ ۔ ۔ جنرل ضیاء الحق نے انکا دھڑن تختہ کر دیا تھا ۔ ۔ ۔ میں ایک بات سمجھتا ہوں کہ شاید فوج نے جو پہلا اتحاد حکومت کے خلاف یا پیپلز پارٹی کے خلاف بنایا وہ قومی اتحاد تھا ۔ ۔ ۔ کیونکہ اسے فوج کی حمایت حاصل تھی ۔ ۔ ۔ مگر دوغلے سیاستدان اس “فیور“ کا فائدہ نہ اٹھا سکے اور اسلامی مارشل لاء لگ گیا ۔ ۔ ۔ ۔
پاکستان روس افغان جنگ میں بین الاقوامی ایجنسیوں کا اڈا بن گیا ۔ ۔ ۔ روسی کے جی بی ، امریکی سی آئی اے ، بھارتی را اور حتہ کہ ایرانی ایجنسیز تک پاکستان کے کونے کونے میں پھیل گیئیں مخبر خریدے اور بیچے جانے لگے ۔ ۔ ۔ میں اس بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ کچھ ایجنسیاں جو روس کے ساتھ جنگ کے لئے بنائی گئیں تھیں انہیں بعد میں ختم نہیں کیا گیا ۔ ۔ ۔ ۔ ایم آئی (ملٹری انٹیلی جنس ) ، آئی بی (انٹیلی جنس بیورہ ) وغیرہ نے اپنی بہت سی ذیلی ایجنسیاں بنائیں ۔ ۔ ۔ جو کافی حد تک خود مختار تھیں ۔ ۔ ۔ ان ایجنسیوں نے افغانستان میں بہت “کارنامے“ انجام دئیے ۔ ۔ ۔ “مجاہدین“ کے “ٹولے“ بنائے ۔ ۔ ۔ اور پھر ان ٹولوں کو افغانستان میں پھیلا دیا ۔ ۔ ۔ اندرونی طور پر بیرونی طاقتیں پاکستان کو کمزور کر رہی تھیں ، یعنی ہماری ایجنسیاں بیرون ملک سرگرم عمل تھیں اور بیرونی ایجنسیاں ہمیں کھوکلا کر رہی تھیں ۔ ۔ ۔ روس افغانستان سے نکل گیا اور امریکہ پاکستان سے ۔ ۔ ۔ اور باقی سب لوگ ادھر ہی رہ گئے ۔ ۔ ۔ افغان “مجاہدین“ اور “مہاجرین“ ۔ ۔ ۔ ۔ اور بھارتی ایجنسیاں ۔ ۔ ۔ اس چیز کا احساس ١٩٨٤ کے آغاز میں ہوا جب کراچی میں تشدد پھوٹ پڑا ایک طالبہ ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہوئی ، ہنگامہ ہوا ۔ ۔ ۔ اور کرفیو لگا دیا گیا ۔ ۔ ۔ فوجی حکمرانوں کی یہ ہی منطق خراب تھی ایک طرف وہ سیاست دانوں کو ہم نوا بنا رہے تھے دوسری طرف انہیں کو دبا رہے تھے ۔۔ ۔ ایک ایسے واقعے کو جسے عام پولیس ہینڈل کر لیتی ۔ ۔ ۔ اسے سیاسی بنایا گیا اور پھر فوجی بنا کہ کرفیو لگا دیا گیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اب ایجنسیوں نے اپنے گھر کی طرف دیکھا تو ۔ ۔ ۔ ۔ چوں چوں کا مربعہ تیار تھا ۔ ۔ ۔ ۔ کسی کو کچھ پتہ نہ تھا کہ کیا کرنا ہے ، لیڈر خریدے اور بیچے جانے لگے ۔ ۔ ۔ اور اس کام کے لئے وہ پیسہ استعمال کیا گیا جو افغان وار کی خدمات کا صلہ تھا ۔ ۔ ۔ ۔ جو فوج کے پاس “وافر“ مقدار میں موجود تھا ۔ ۔ ۔ ۔ اور پھر ہمارے امیر المومنین مرد مومن مرد حق ضیاء الحق نے بین الاقوامی سطح پر پر پرزے نکالنے شروع کئیے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ اور سیاست دانوں کو “تھلے “ لگانے کا منصوبہ بھی ریڈی تھا ۔ ۔ ۔ ایم کیو ایم کو لسانی طور پر کھڑا کیا جا رہا تھا ۔ ۔ ۔ کہ یہ لوگ سیاست دانوں پر پریشر گروپ بنا سکیں ۔ ۔ ۔ معصوم وزیر اعظم جونیجو اپنی آل پارٹی کانفرنس کے ڈرامے کی اور اوجڑی کیمپ کے حادثے میں جنرلوں کے ثبوت مٹانے کے عمل کا “راز“ فاش کرنے کی سزا بھگت چکے تھے کہ ۔ ۔ ۔ اللہ کے نیک بندے کو اللہ نے ہوا میں ہی اٹھا لیا ۔ ۔ ۔ ۔
اس حادثے نے ہماری فوج کے ان تمام افسران کو ایک ہی جھٹکے میں ختم کر دیا گیا جو کسی نہ کسی حوالے سے روس افغان جنگ سے متعلق تھے ۔ ۔ ۔ مجھے ان میں سب سے زیادہ افسوس تھا برگیڈیر صدیق سالک کی شہادت پر ، ایمرجنسی جیسے ناول کے خالق اور پھر سقوط ڈھاکہ کی پہلی سچی جھلک کے مصنف ہونے کی وجہ سے میں انکا مداح تھا ۔ ۔ ۔
خیر اس حادثے میں اور کچھ بچا ہو یا نہ ہو ۔ ۔ ۔ ہماری خفیہ ایجنسیاں بچ گئیں ۔ ۔ ۔ جنرل حمید گُل ۔ ۔ زندہ رہے ، اسد درانی زندہ رہے ۔۔ ۔ اور اس وقت کے اسلم بیگ بھی کراماتی طور پر زندہ رہے ۔ ۔۔
خیر ایجنسیاں جو خود مختار نہیں بھی تھیں ، انکی بھی ڈوریاں ہلانے والے نہ رہے ۔ ۔ ۔ اور پھر فوج کو ڈر ہوا کہ کہیں عوام پیپلز پارٹی کو نہ لے آئیں ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بے نظیر کا استقبال دیکھ چکے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور بے نظیر کی پارٹی فوج کو بھٹو کی موت کا ذمہ دار قرار دے چکی تھی ۔ ۔ ۔ مگر ۔ ۔ بے نظیر آ ہی گئی ۔ ۔ ۔ ۔ اور ایجنسیاں ڈر کے مارے وہ کھیل کھیلنے لگیں جن کے نتیجے میں پاکستان کی ایجنسیاں جو صدر کے ماتحت تھیں ۔ ۔ ۔ بے نظیر کو گرانے میں کامیاب ہو گئیں ۔۔ ۔ ۔ اور نواز شریف کو لایا گیا ۔ ۔ ۔ مگر نواز شریف جو خود ضیاء کی غیر جماعتی اسمبلی کی پیداوار تھے ۔ ۔ ۔ اور بے نظیر کے دور میں پنجاب کے وزیر اعلٰی کے طور پر طفیلیے سیاست دان سے عوامی سیاست دان تک سفر کر چکے تھے ۔ ۔ ۔ لہذا وہ بھی صدارتی محل کی بھینٹ چڑھ گئے ۔ ۔ ۔ اب ایجنسیاں سیاست دانوں کو اپنے ہاتھوں پر نچا رہیں تھیں اور آنا جانا لگ گیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے امپورٹڈ وزیر اعظم تک استعمال کر لیا تھا ۔ ۔ ۔ اور پھر اسی میوزیکل چئیر کے گیم میں جنرل مشرف نے ١٩٧٧ والا کھیل کھیلنا چاہا مگر اس وقت تک حالات بدل چکے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ پاکستان جو بین الاقوامی طاقتوں نے بھلا دیا تھا ، گریٹ افغان گیم کا حصہ بن چکا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ اور نواز شریف اور بے نظیر دونوں کو باہر دھکیل دیا گیا ۔ ۔ ۔ ۔
ایوب خان کو ٦٥ کی جنگ اور عالمی پولرازیشن نے اقتدار کو طول دینے کا موقعہ دیا تھا ، ضیاء کو روسی جارحیت نے اور مشرف کو نائن الیون نے ۔ ۔ ۔ ۔ سامنے کے کھلاڑی اور تھے اور خفیہ اینجنسیاں نئے نئے کھیل کھیل رہیں تھیں ، بھٹو دور میں جیسے فوج دو حصوں میں بٹی تھی ایسے ہی مشرف دور میں ہوا ، اس دفعہ سیکولر طبقہ اوپر آیا مگر مشرف کی ضرورت سے زیادہ امریکہ نوازی نے ملک میں جو بحران جنم دئیے وہ مشرف کو لے ڈوبے ۔ ۔۔ ایوب خان نے سیاسی طفیلیے بنانے کا فارمولہ بنایا ، ضیاء نے منشیات اور کلاشنکوف سے ملک کو بھر دیا اور مشرف نے خود کُش حملوں کا تحفہ دیا ۔ ۔ ۔ ۔
بے نظیر اور نواز شریف بین الاقوامی کھیل کو سمجھ چکے تھے ، اسی لئے دونوں نے میثاق جمہوریت کیا ، اور واپس آ گئے ، حکمرانوں کو نواز شریف سے اتنا ڈر نہیں تھا جتنا بے نظیر سے تھا ، امریکہ کو بھی بے نظیر کی فکر تھی کیونکہ اس کا لھجہ بدل چکا تھا ۔ ۔ وہ اب عوامی زبان میں بول رہی تھی ۔۔۔۔ یہ زبان ویسی ہی تھی جیسی کبھی بھٹو کی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایجنسیوں کو پتہ تھا کہ اب اگر بے نظیر برسر اقتدار آئی تو فوج کا حکمرانوں پر اثر و رسوخ ختم ہو جائے گا ، اس دوران انہیں ایجنسیوں کو پتہ تھا کہ بے نظیر کا امیج ایک سیکولر لیڈر کا ہے جبکہ نواز شریف کنزرویٹو سمجھے جا رہے تھے ، پاکستان کی تیسری جماعت یعنی مذہبی جماعتیں سرحد میں اپنے اثر کو کھو چکی تھیں اور باقی ملک میں بھی انکی عزت انکے کرتوتوں کی وجہ سے نہیں تھی ، ١٩٧٧ کے بعد سے مذہبی جماعتوں کا جھکاؤ فوج کی جانب رہا تھا ، مگر اب فوج کو معلوم تھا کہ مذہب کے نام پر اب عوام سے نہیں کھیلا جا سکتا کیونکہ طالبان نے مذہب کی غلط تشہیر کی تھی ۔ ۔ ۔ فوج کے سیکولراور کنزرویٹو حصوں دونوں نے دونوں لیڈروں کو منظر سے ہٹانے کا فیصلہ کیا مگر بے نظیر پر حملہ کامیاب ہوا ۔ ۔ ۔ ۔
جنرل مشرف کا خیال تھا کہ بے نظیر اسکا ساتھ دے گی مگر ججز کی برطرفی اور ایمر جنسی نے بے نظیر کے خیالات کو بدل دیا تھا ، اور وہ ایک بار پھر نواز شریف کی ہم آواز تھیں ۔ ۔ ۔ ۔
فوج کی ایجنسیاں ایک بار پھر سیاست دانوں کی ٹوہ میں تھیں ۔ ۔ ۔ مگر اس دفعہ سیاست دانوں کے کھیل کھیلا ۔ ۔ ۔ اور ایک آمر کو پہلی بار “باعزت“ رخصت کیا ، مگر سیاست دانوں کی اقتدار کی ہوس آج بھی ہے ہماری زیادہ تر ایجنسیاں صدر کے ماتحت ہیں اور اسی لئے صدر صاحب زیادہ تر ملک سے باہر رہتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ اور باقی ایجنسیاں ۔ ۔ ۔ ۔ امریکی خاطر مدارات میں لگیں ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہ ایک چھوٹی سی جھلک ہے جو ہمارے ملک کی ایجنسیاں کھیل کھیلتیں ہیں ، میں جانتا ہوں کہ آپ لوگ اس تاریخ کو جانتے ہیں مگر ایجنسیوں کی نظر سے دیکھیں تو شاید ہمیں پتہ چلے کہ ہم ابھی تک ایک ڈر سے نہیں نکل پائے کہ اقتدار اگر ہاتھ سے نکل گیا تو کیا ہو گا ، یہ ڈر سیاست دانوں اور فوجی افسران دونوں میں ہے ، اسی لئے ایک دوسرے کے خلاف یہ برسر پیکار رہتے ہیں ۔ ۔ ۔ اور دوسری طرف ہماری ڈسپلن فوج ، ان ڈسپلن سیاست دانوں کا شکار بھی بنتی ہے ۔ ۔ ۔
آج ہمارے سیاست دانوں میں کوئی بھی قائد اعظم جیسا نہیں مگر اتنا ضرور ہے کہ ہماری فوج کے سربراہوں میں جنرل گریسی کی روح موجود ہے جو آج بھی عوامی نمائندے کا حکم ماننے سے انکاری ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
---------------------------------
پاکستانی فوج قیام پاکستان سے لے کر آج تک ساری دنیا کی نظروں میں رہی ہے ، ہندوستان کے بٹوارے کے ساتھ ہر چیز کا بٹوارہ ہوا ، سو فوج کا بھی ہوا ، مگر چالاک انگریز نے پاکستانی فوج کا سربراہ ایک گورا ہی رکھا ، اور ہمارے رہنماؤں نے سوچا کہ چلو اس طرح شاید گورا انکا حکم مانے ، مگر گورے نے قائد کے حکم کو ماننے سے انکار کیا (جنرل فرانک ) اور برطرفی سہی مگر اپنا جانشین ایک اور گورا ( ڈگلس گریسی ) کو چھوڑا اور اس نے بھی قائد کا حکم نہیں مانا مگر قائد تو دنیا ہی چھوڑ گئے ، تو گوروں نے فوج کو ایسا “ٹرین “ کیا کہ پاکستان کا پہلا ڈکٹیٹر پالنے کے لئے دے دیا ، پاکستان کی فوج اس وقت برٹش آرمی کا بہترین حصہ تھی ، اسی لئے جب سبھاش چندر بوس نے اپنی آرمی بنائی تو اس آرمی میں برٹش افسروں اور سپاہیوں نے اپنی خدمات پیش کیں تو جرمنوں نے انکی بہت تعریف کی (اصل میں ہٹلر اس آرمی کو اتحادی افواج کے خلاف استعمال کرنا چاہتا تھا )
انگریز نے اپنی حکومت قائم رکھنے کے لئے بہترین مخبری (انٹیلی جنس) کا نیٹ ورک بنایا تھا ، اسی لئے پاکستان فوج کے اس خصے کی زیادہ اہمیت تھی یعنی ملٹری انٹیلی جنس کی ، کشمیر پر ہندوستانی فوج قبضہ کر چکی تھی ، دوسری طرف مہاجرین کی آمد تھی ، تیسری طرف ایک نوزیدہ ملک کو بیرونی دنیا میں اپنی پہچان بنانی تھی ۔ ۔ ۔ قدم قدم پر سازشوں کے جال تھے ایسے میں بہترین انٹیلی جنس ہی حکومت کی مدد گار تھی ، شروع میں ملٹری انٹیلی جنس اور پولیس نے مل جل کر ملک کے خلاف سازشوں کو بے نقاب کیا ، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان آرمی ، بانی پاکستان کو وہ سب کچھ نہیں دے سکی جو وہ چاہتے تھے ، حتہ کہ کشمیر کے موجودہ آزاد حصے کا سہرا بھی ان قبائیلوں کے سر جاتا ہے جنہوں نے اپنی جان دے کر بھارتی افواج کا مقابلہ کیا ۔ ۔ ۔
میں سمجھتا ہوں پاکستان کے خلاف پہلی کامیاب سازش ، بانی پاکستان کی زیارت سے واپسی پر انکی ایمبولینس کا خراب ہونا اور پھر کسی دوسری گاڑی کا نہ ملنا ۔ ۔ ۔ یہ وہ سازش تھی جس میں میں سمجھتا ہوں اس وقت کی آرمی اور پولیس کا بہت بڑا ہاتھ تھا کیونکہ وہ اسے بے نقاب نہیں کر سکیں ۔ ۔ ۔
اور اس کامیابی نے سازشوں کو مزید پھیلا دیا ، جسکے نتیجے میں لیاقت علی خان کی شہادت ہوئی ، اور اس وقت تک فوج میں غیر ملکی اثر نفوذ ہو چکا تھا ، گورنر جنرل غلام محمد اپنی عیاشیوں میں گم تھے ، نوزیدہ مملکت تھی ، عوام میں خلوص تھا ، انصار مدینہ کی مثال قائم کر رہے تھے ، مگر وہیں پر ایسے بھی لوگ موجود تھے ، جو جھوٹے کلیم کا دھندا چلا رہے تھے ، بھارت سے آنے والے کروڑ پتی ، پاکستان آ کر فقیر بن چکے تھے ، اور فقیر لکھ پتی ہو چکے تھے ، حکمران جانتے تھے کہ عوام کے جذبات کو کیسے ابھارا جائے ، وہ بیداری جیسی فلموں پر ٹیکس معاف کر کے عوام کو پاکستانیت سکھا رہے تھے ۔ ۔ ۔ پاکستان اور ہندوستان میں صرف ایک فرق تھا بٹوارے میں ، ہندوستان سے مہاجروں کی لٹی پٹی ریل گاڑیاں آ رہی تھیں اور پاکستان سے سونے سے لدی گاڑیاں ہندوستان جا رہی تھیں ، فسادات کا محور ہندوستانی مسلم اقلیت کے علاقے تھے ، نظام حیدر آباد اور خان آف قلات جیسے لوگ پاکستان کو مدد دے رہے تھے ورنہ پاکستان جن سازشوں کا شکار تھا وہ اسے زندہ نہ رکھ سکتیں ۔ ۔
خیر بات ہو رہی تھی فوج کی ، پاکستان بنانے والے مخلص تھے ، لیاقت علی خان کے ذہن میں ١٩٤٥ کا بجٹ تھا ، سردار عبدالرب نشتر ، فضل حق اور قاضی عیسٰی جیسے لوگ اقتدار کو خدمت سمجھتے تھے ، اسلئے وہ عوامی لوگ سمجھے جاتے تھے ، مگر فوج میں افسران اسکے بالکل برعکس تھے ، انہیں عوام سے لنک صرف مہاجرین کی آبادکاری اور سرحدی محافظت تک تھی ، فوج کے جونیر افسران بہت جذباتی تھے اور عوام کے ساتھ تھے سپاہی تو عوامی ہوتے ہی ہیں ، مگر فوج کے سربراہان اور حکمرانوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی شروع ہو چکی تھی ، اصل میں یہ سوچ شاید اسی دن بن گئی تھی جب جنرل گریسی نے قائد اعظم کے حکم کو رد کیا تھا ۔ ۔ ۔ اور اسی سوچ نے اسکندر مرزا کو اقتدار سنبھالنے کا موقعہ دیا ۔ ۔ ۔ ۔یہ اسکندر مرزا اس میر جعفر کی نسل میں سے تھا جسنے ٹیپو سلطان کو دھوکہ دیا تھا ۔ ۔ ۔ اور اسی بنیاد پر اپنے اباء کی خدمات کی دہائی دے کر برٹش انڈیا کی فوج میں کمیشن حاصل کیا تھا ۔ ۔ ۔ اسکندر مرزا نے گورنر جنرل بن کر مارشل لاء لگا دیا ۔ ۔ ۔ آج تک اس مارشل لاء کی کوئی منطق پیش نہیں کی جا سکی ۔ ۔ ۔ اور یہاں سے ہی فوج میں اقتدار کے حصول کے لئے رسہ کشی شروع ہوئی ، اسکندر مرزا جو صدر بن چکے تھے انکو فیلڈ مارشل ایوب خان نے ہٹا دیا ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں سے پاکستان کی فوج کا ایک نیا روپ بنا ، ایوب خان نے عوام پر اپنی گرفت مضبوط کی ، انٹیلی جنس کو شاید سب سے پہلے ملکی رہمناؤں کی جاسوسی پر لگایا گیا ، فوج نے سیاست میں حصہ بھی اسی دور میں لیا ، فاطمہ جناح کو شکست دینے کے لئے فوجی اور بیورکریسی نے مل جل کر انتخابات کا ڈرامہ رچایا ۔ ۔ ۔ ۔ ایوب خان نے پاکستان کو بین الاقومی طور پر ایک فوجی طاقت کے طور پر متعارف کروایا ۔ ۔ ۔ لیاقت علی خان نے روس کو چھوڑ کہ جو دورہ امریکا کیا تھا ، اس کے تاثر کو زائل کیا ایوب خان نے ، اور بھارت کے روس کی قربت کو کم کرنے کے لئے ایوب خان نے روس سے تعلقات کو استوار کیا ، جسکے نتیجے میں ہم نے اسٹیل مل حاصل کی ، پاکستان سیٹو اور سنٹو جیسے فوج معاہدوں کا رکن بنا یعنی پاکستان دونوں بلاک میں تھا ۔ ۔ ۔ ایوب خان نے بیرونی دنیا پر اپنا رعب تو جما لیا تھا مگر اندرونی سطح پر وہ ناکام تھے، بھارت نے پاکستان کے اسی ابھرتے ہوئے امیج سے گھبرا کر اور اندرونی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر ١٩٦٥ کا حملہ کیا ، جو ناکام یا کامیاب رہا یہ کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اچانک حملے کی وجہ پاکستانی ایجنسیوں کی ناکامی تھی ، کیونکہ وہ تو ایوب خان کے اقتدار کو مضبوط کر رہی تھی ، مشرقی پاکستان کے لیڈروں کو تنہا کیا جا رہا تھا ۔ ۔ ۔ عوام میں ایوب خان کے خلاف غصہ بڑھ رہا تھا ۔ ۔ ۔ ایوب خان ہر ڈکٹیٹر کی طرح اپنی ایجنسیوں پر بھروسہ کئے بیٹھے تھے ۔ ۔ ۔ مگر جب وہ تاحیات صدر بننے کے خواب دیکھنے لگے (جو ہر ڈکٹیٹر دیکھتا ہے ) عوام بپھر گئی ۔ ۔۔ ملٹری انٹیلی جنس نے ایوب کو جانے کا کہ دیا اور ویسے بھی اس دوران ایک نوجوان نے جو ایوب کو ڈیڈی کہتا تھا ، باپ کو عاق کر دیا تھا ، ظلفقار علی بھٹو ۔ ۔ ۔ عوام میں اپنی اہمیت منوا چکا تھا ۔ ۔ ۔ اور پھر ایوب خان نے اپنی کمان ایک شرابی اور عیاش جنرل یحیٰی خان نے حوالے کر دی ۔ ۔ ۔ ۔ یحیٰی خان ۔ ۔ ۔ پاکستان کا رنگیلے شاہ ثابت ہوا ۔ ۔ ۔ اس دوران بھارت کو پھیر موقع ملا اور مشرقی پاکستان پر فوج کشی کر دی گئی ۔ ۔ ۔ انتخابات بھی ہوئے ۔ ۔ ہماری ایجنسیاں کچھ بھی نہ کر سکیں ۔ ۔ ۔ جانے کہاں سوئ ہوہیں تھیں جب مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی اور شانتی باہنی کا بیج بویا جا رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ سیاست دانوں نے اسی کو موقع جانا اور اقتدار کی رسہ کشی ہونے لگی ۔ ۔ ۔ اور اسی میں رسہ ٹوٹ گیا ۔ ۔ اور اپنے اپنے حصے کے رسے کے ساتھ سب رسہ کشی کرنے لگے ۔ ۔ ۔ بھٹو جو کہ ایوب کے صحبت زدہ تھے ، اپنے ڈیڈی کی روایت پر عمل کیا اور سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گئے اور انہوں نے ایجنسیوں کو اپنی خدمات پر لگا دیا ۔ ۔ ۔ بھٹو نے سات سال تک پاکستانی سیاست کو نئے رنگ دیے ۔ ۔ ۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستانی تاریخ میں صرف بھٹو کا دور خالص سیاسی تھا ، بلکہ سیاسی اکھاڑہ تھا ۔ ۔ ۔ بھٹو نے فوج میں بھی اپنا اثر چھوڑا ۔ ۔ ۔ خاصکر ایجنسیوں میں ۔ ۔۔ سیاست میں فوج تھی پہلے ہی مگر سیاسی مخالفت میں فوج کی خفیہ ایجنسیوں کو سب سے پہلے بھٹو نے استعمال کیا ۔ ۔ ۔ ٹارچر سیل بنائے گے ۔ ۔ ۔ سیاسی مخالفوں کی “عزت افزائی“ کی گئی ۔ ۔ ۔ مگر بھٹو نے بھی اپنے ڈیڈی والی غلطی کی ۔ ۔ ۔ وہ بین الاقوامی لیڈر تو بنے اور عوام میں مقبول ہونے مگر عوام کے لئے روٹی کپڑا مکان کے نعرے کے سوا کچھ نہ کر سکے ۔ ۔ ۔ ۔ بھٹو کی حکومت کی وجہ سے فوج میں واضح تبدیلی ہوئی ۔ ۔ ۔ فوج میں اسلامی عنصر واضح ہوا اور سیکولر عنصر نے بھی اپنی جگہ بنا دی ۔ ۔ ایجنسیوں کا بھی قبلہ بدلنے لگا ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس قبلہ کی تبدیلی بھٹو جیسا سیاست دان بھی نہ سمجھ پایا اور ۔ ۔ ۔ ۔ جنرل ضیاء الحق نے انکا دھڑن تختہ کر دیا تھا ۔ ۔ ۔ میں ایک بات سمجھتا ہوں کہ شاید فوج نے جو پہلا اتحاد حکومت کے خلاف یا پیپلز پارٹی کے خلاف بنایا وہ قومی اتحاد تھا ۔ ۔ ۔ کیونکہ اسے فوج کی حمایت حاصل تھی ۔ ۔ ۔ مگر دوغلے سیاستدان اس “فیور“ کا فائدہ نہ اٹھا سکے اور اسلامی مارشل لاء لگ گیا ۔ ۔ ۔ ۔
پاکستان روس افغان جنگ میں بین الاقوامی ایجنسیوں کا اڈا بن گیا ۔ ۔ ۔ روسی کے جی بی ، امریکی سی آئی اے ، بھارتی را اور حتہ کہ ایرانی ایجنسیز تک پاکستان کے کونے کونے میں پھیل گیئیں مخبر خریدے اور بیچے جانے لگے ۔ ۔ ۔ میں اس بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ کچھ ایجنسیاں جو روس کے ساتھ جنگ کے لئے بنائی گئیں تھیں انہیں بعد میں ختم نہیں کیا گیا ۔ ۔ ۔ ۔ ایم آئی (ملٹری انٹیلی جنس ) ، آئی بی (انٹیلی جنس بیورہ ) وغیرہ نے اپنی بہت سی ذیلی ایجنسیاں بنائیں ۔ ۔ ۔ جو کافی حد تک خود مختار تھیں ۔ ۔ ۔ ان ایجنسیوں نے افغانستان میں بہت “کارنامے“ انجام دئیے ۔ ۔ ۔ “مجاہدین“ کے “ٹولے“ بنائے ۔ ۔ ۔ اور پھر ان ٹولوں کو افغانستان میں پھیلا دیا ۔ ۔ ۔ اندرونی طور پر بیرونی طاقتیں پاکستان کو کمزور کر رہی تھیں ، یعنی ہماری ایجنسیاں بیرون ملک سرگرم عمل تھیں اور بیرونی ایجنسیاں ہمیں کھوکلا کر رہی تھیں ۔ ۔ ۔ روس افغانستان سے نکل گیا اور امریکہ پاکستان سے ۔ ۔ ۔ اور باقی سب لوگ ادھر ہی رہ گئے ۔ ۔ ۔ افغان “مجاہدین“ اور “مہاجرین“ ۔ ۔ ۔ ۔ اور بھارتی ایجنسیاں ۔ ۔ ۔ اس چیز کا احساس ١٩٨٤ کے آغاز میں ہوا جب کراچی میں تشدد پھوٹ پڑا ایک طالبہ ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہوئی ، ہنگامہ ہوا ۔ ۔ ۔ اور کرفیو لگا دیا گیا ۔ ۔ ۔ فوجی حکمرانوں کی یہ ہی منطق خراب تھی ایک طرف وہ سیاست دانوں کو ہم نوا بنا رہے تھے دوسری طرف انہیں کو دبا رہے تھے ۔۔ ۔ ایک ایسے واقعے کو جسے عام پولیس ہینڈل کر لیتی ۔ ۔ ۔ اسے سیاسی بنایا گیا اور پھر فوجی بنا کہ کرفیو لگا دیا گیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اب ایجنسیوں نے اپنے گھر کی طرف دیکھا تو ۔ ۔ ۔ ۔ چوں چوں کا مربعہ تیار تھا ۔ ۔ ۔ ۔ کسی کو کچھ پتہ نہ تھا کہ کیا کرنا ہے ، لیڈر خریدے اور بیچے جانے لگے ۔ ۔ ۔ اور اس کام کے لئے وہ پیسہ استعمال کیا گیا جو افغان وار کی خدمات کا صلہ تھا ۔ ۔ ۔ ۔ جو فوج کے پاس “وافر“ مقدار میں موجود تھا ۔ ۔ ۔ ۔ اور پھر ہمارے امیر المومنین مرد مومن مرد حق ضیاء الحق نے بین الاقوامی سطح پر پر پرزے نکالنے شروع کئیے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ اور سیاست دانوں کو “تھلے “ لگانے کا منصوبہ بھی ریڈی تھا ۔ ۔ ۔ ایم کیو ایم کو لسانی طور پر کھڑا کیا جا رہا تھا ۔ ۔ ۔ کہ یہ لوگ سیاست دانوں پر پریشر گروپ بنا سکیں ۔ ۔ ۔ معصوم وزیر اعظم جونیجو اپنی آل پارٹی کانفرنس کے ڈرامے کی اور اوجڑی کیمپ کے حادثے میں جنرلوں کے ثبوت مٹانے کے عمل کا “راز“ فاش کرنے کی سزا بھگت چکے تھے کہ ۔ ۔ ۔ اللہ کے نیک بندے کو اللہ نے ہوا میں ہی اٹھا لیا ۔ ۔ ۔ ۔
اس حادثے نے ہماری فوج کے ان تمام افسران کو ایک ہی جھٹکے میں ختم کر دیا گیا جو کسی نہ کسی حوالے سے روس افغان جنگ سے متعلق تھے ۔ ۔ ۔ مجھے ان میں سب سے زیادہ افسوس تھا برگیڈیر صدیق سالک کی شہادت پر ، ایمرجنسی جیسے ناول کے خالق اور پھر سقوط ڈھاکہ کی پہلی سچی جھلک کے مصنف ہونے کی وجہ سے میں انکا مداح تھا ۔ ۔ ۔
خیر اس حادثے میں اور کچھ بچا ہو یا نہ ہو ۔ ۔ ۔ ہماری خفیہ ایجنسیاں بچ گئیں ۔ ۔ ۔ جنرل حمید گُل ۔ ۔ زندہ رہے ، اسد درانی زندہ رہے ۔۔ ۔ اور اس وقت کے اسلم بیگ بھی کراماتی طور پر زندہ رہے ۔ ۔۔
خیر ایجنسیاں جو خود مختار نہیں بھی تھیں ، انکی بھی ڈوریاں ہلانے والے نہ رہے ۔ ۔ ۔ اور پھر فوج کو ڈر ہوا کہ کہیں عوام پیپلز پارٹی کو نہ لے آئیں ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بے نظیر کا استقبال دیکھ چکے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور بے نظیر کی پارٹی فوج کو بھٹو کی موت کا ذمہ دار قرار دے چکی تھی ۔ ۔ ۔ مگر ۔ ۔ بے نظیر آ ہی گئی ۔ ۔ ۔ ۔ اور ایجنسیاں ڈر کے مارے وہ کھیل کھیلنے لگیں جن کے نتیجے میں پاکستان کی ایجنسیاں جو صدر کے ماتحت تھیں ۔ ۔ ۔ بے نظیر کو گرانے میں کامیاب ہو گئیں ۔۔ ۔ ۔ اور نواز شریف کو لایا گیا ۔ ۔ ۔ مگر نواز شریف جو خود ضیاء کی غیر جماعتی اسمبلی کی پیداوار تھے ۔ ۔ ۔ اور بے نظیر کے دور میں پنجاب کے وزیر اعلٰی کے طور پر طفیلیے سیاست دان سے عوامی سیاست دان تک سفر کر چکے تھے ۔ ۔ ۔ لہذا وہ بھی صدارتی محل کی بھینٹ چڑھ گئے ۔ ۔ ۔ اب ایجنسیاں سیاست دانوں کو اپنے ہاتھوں پر نچا رہیں تھیں اور آنا جانا لگ گیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے امپورٹڈ وزیر اعظم تک استعمال کر لیا تھا ۔ ۔ ۔ اور پھر اسی میوزیکل چئیر کے گیم میں جنرل مشرف نے ١٩٧٧ والا کھیل کھیلنا چاہا مگر اس وقت تک حالات بدل چکے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ پاکستان جو بین الاقوامی طاقتوں نے بھلا دیا تھا ، گریٹ افغان گیم کا حصہ بن چکا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ اور نواز شریف اور بے نظیر دونوں کو باہر دھکیل دیا گیا ۔ ۔ ۔ ۔
ایوب خان کو ٦٥ کی جنگ اور عالمی پولرازیشن نے اقتدار کو طول دینے کا موقعہ دیا تھا ، ضیاء کو روسی جارحیت نے اور مشرف کو نائن الیون نے ۔ ۔ ۔ ۔ سامنے کے کھلاڑی اور تھے اور خفیہ اینجنسیاں نئے نئے کھیل کھیل رہیں تھیں ، بھٹو دور میں جیسے فوج دو حصوں میں بٹی تھی ایسے ہی مشرف دور میں ہوا ، اس دفعہ سیکولر طبقہ اوپر آیا مگر مشرف کی ضرورت سے زیادہ امریکہ نوازی نے ملک میں جو بحران جنم دئیے وہ مشرف کو لے ڈوبے ۔ ۔۔ ایوب خان نے سیاسی طفیلیے بنانے کا فارمولہ بنایا ، ضیاء نے منشیات اور کلاشنکوف سے ملک کو بھر دیا اور مشرف نے خود کُش حملوں کا تحفہ دیا ۔ ۔ ۔ ۔
بے نظیر اور نواز شریف بین الاقوامی کھیل کو سمجھ چکے تھے ، اسی لئے دونوں نے میثاق جمہوریت کیا ، اور واپس آ گئے ، حکمرانوں کو نواز شریف سے اتنا ڈر نہیں تھا جتنا بے نظیر سے تھا ، امریکہ کو بھی بے نظیر کی فکر تھی کیونکہ اس کا لھجہ بدل چکا تھا ۔ ۔ وہ اب عوامی زبان میں بول رہی تھی ۔۔۔۔ یہ زبان ویسی ہی تھی جیسی کبھی بھٹو کی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایجنسیوں کو پتہ تھا کہ اب اگر بے نظیر برسر اقتدار آئی تو فوج کا حکمرانوں پر اثر و رسوخ ختم ہو جائے گا ، اس دوران انہیں ایجنسیوں کو پتہ تھا کہ بے نظیر کا امیج ایک سیکولر لیڈر کا ہے جبکہ نواز شریف کنزرویٹو سمجھے جا رہے تھے ، پاکستان کی تیسری جماعت یعنی مذہبی جماعتیں سرحد میں اپنے اثر کو کھو چکی تھیں اور باقی ملک میں بھی انکی عزت انکے کرتوتوں کی وجہ سے نہیں تھی ، ١٩٧٧ کے بعد سے مذہبی جماعتوں کا جھکاؤ فوج کی جانب رہا تھا ، مگر اب فوج کو معلوم تھا کہ مذہب کے نام پر اب عوام سے نہیں کھیلا جا سکتا کیونکہ طالبان نے مذہب کی غلط تشہیر کی تھی ۔ ۔ ۔ فوج کے سیکولراور کنزرویٹو حصوں دونوں نے دونوں لیڈروں کو منظر سے ہٹانے کا فیصلہ کیا مگر بے نظیر پر حملہ کامیاب ہوا ۔ ۔ ۔ ۔
جنرل مشرف کا خیال تھا کہ بے نظیر اسکا ساتھ دے گی مگر ججز کی برطرفی اور ایمر جنسی نے بے نظیر کے خیالات کو بدل دیا تھا ، اور وہ ایک بار پھر نواز شریف کی ہم آواز تھیں ۔ ۔ ۔ ۔
فوج کی ایجنسیاں ایک بار پھر سیاست دانوں کی ٹوہ میں تھیں ۔ ۔ ۔ مگر اس دفعہ سیاست دانوں کے کھیل کھیلا ۔ ۔ ۔ اور ایک آمر کو پہلی بار “باعزت“ رخصت کیا ، مگر سیاست دانوں کی اقتدار کی ہوس آج بھی ہے ہماری زیادہ تر ایجنسیاں صدر کے ماتحت ہیں اور اسی لئے صدر صاحب زیادہ تر ملک سے باہر رہتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ اور باقی ایجنسیاں ۔ ۔ ۔ ۔ امریکی خاطر مدارات میں لگیں ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہ ایک چھوٹی سی جھلک ہے جو ہمارے ملک کی ایجنسیاں کھیل کھیلتیں ہیں ، میں جانتا ہوں کہ آپ لوگ اس تاریخ کو جانتے ہیں مگر ایجنسیوں کی نظر سے دیکھیں تو شاید ہمیں پتہ چلے کہ ہم ابھی تک ایک ڈر سے نہیں نکل پائے کہ اقتدار اگر ہاتھ سے نکل گیا تو کیا ہو گا ، یہ ڈر سیاست دانوں اور فوجی افسران دونوں میں ہے ، اسی لئے ایک دوسرے کے خلاف یہ برسر پیکار رہتے ہیں ۔ ۔ ۔ اور دوسری طرف ہماری ڈسپلن فوج ، ان ڈسپلن سیاست دانوں کا شکار بھی بنتی ہے ۔ ۔ ۔
آج ہمارے سیاست دانوں میں کوئی بھی قائد اعظم جیسا نہیں مگر اتنا ضرور ہے کہ ہماری فوج کے سربراہوں میں جنرل گریسی کی روح موجود ہے جو آج بھی عوامی نمائندے کا حکم ماننے سے انکاری ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔