جاسم محمد
محفلین
فوج عمران خان سے کیوں خوش ہے؟
19/02/2020 محمد کاشف میو
چوہدری شجاعت حسین انتہائی زیرک سیاستدان ہیں۔ چوہدری صاحب موقع محل کی مناسبت سے الفاظ کا چناؤ ایسے کرتے ہیں کہ گویا دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہو۔
سعودی عرب میں عمرہ کی ادائیگی کے بعد ’اردو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے چوہدری صاحب نے کہا کہ ان کی تو کوشش ہے کہ حکومت چلے مگر عمران خان کے ارد گرد لوگ حکومت کو چلنے نہیں دے رہے۔ مزید ان کا کہنا تھا کہ ’جس طرح ملک چل رہا ہے اور معاشی صورتحال خراب ہو رہی ہے، میں نے پہلے بھی کہا تھا، اب پھر کہہ رہا ہوں کہ دو چار مہینوں کے بعد کوئی بھی وزیر اعظم بننے کو تیار نہیں ہوگا۔ ہر کوئی کہے گا میں نے وزیر اعظم نہیں بننا۔ ‘
اس سوال پر کہ کیا ملک میں قبل از وقت الیکشن ہو سکتے ہیں؟ چوہدری شجاعت نے سوچتے ہوئے کہا کہ ’ویسے تو حکومت پانچ برس کے لیے منتخب ہوئی ہے لیکن اگر کوئی صورتحال پیدا ہو جائے تو ایسا ممکن ہے۔ ‘ موجودہ سیاسی صورتحال میں ایک اتحادی جماعت کے سربراہ کا یہ بیان سمجھنے والوں کے لئے بہت بڑا اشارہ ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق چند دن پہلے عمران خان کی مخصوص صحافیوں سے ہوئی گفتگو کا خلاصہ یہ تھا کہ ’فوج مجھ سے بہت خوش ہے کیونکہ میں چھٹی نہیں کرتا اور میں کرپٹ نہیں ہوں‘ ۔ یہ یک طرفہ دعویٰ صرف عمران خان کی جانب سے سامنے آیا ہے۔ اٹھارہ ماہی حکومت کا جائزہ لیا جائے تو بظاھر خوشی کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی۔ گزری مدت میں عمرانی حکومت کا واحد طرہ امتیاز غیر سنجیدگی رہا ہے۔ اس تمام عرصۂ حکومت میں وزیراعظم کی ساری توجہ عوام کو ریلیف دینے کی بجائے صرف اپوزیشن کو ٹارگٹ کرنے پر رہی۔ عمران خان کے ساتھ کھڑے ساتھیوں پر نظر دوڑائیں تو اکثریت ان لوگوں کی ہے جن پر کرپشن کے الزامات ہیں یا ان پر نیب انکوائری چل رہی ہے۔
آج عمران خان حکومت کی مدت بے نظیر کی پہلی حکومتی مدت سے زیادہ ہو گئی ہے۔ گزشتہ چند مہینوں کی اپوزیشن پالیسی کو مدنظر رکھیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں نہیں چاہتی تھیں کہ عمران خان کو یہ کہنے کا موقع ملے کہ انھیں کام کرنے کے لئے وقت نہیں ملا۔ گمان ہے کہ فروری سے پہلے اپوزیشن جماعتیں کچھ ایسا کرنے کو تیار نہیں تھیں کہ جس سے حکومت کو خطرہ محسوس ہوتا۔ مزید براں گزشتہ دس سالوں میں ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ حکومت کے بنتے ہی اس کے جانے کی تاریخیں دینے کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا۔ اس بار بھی ایسا ہی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اس بار حکومت کا خاتمہ ہو سکے گا یا نہیں اور کیا اپوزیشن ایسی کوئی تحریک چلانے میں کامیاب ہو سکے گی جو حکومت کے خاتمہ کا سبب بن سکے۔ موجودہ سیاسی صورتحال دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ لاوا پک چکا ہے اور اٹھنے والا طوفان شاید ہچکولے کھاتی حکومتی کشتی کو بہا لے جائے۔
عمران خان نے احتساب نما انتقام کا ایسا سلسلہ شروع کیا جس سے ہر شعبہ رجعت قہقری کا شکار ہو چکا ہے۔ معیشت مکمل زوال پذیر ہے اور معیشت کی زبوں حالی کے نمایاں اسباب میں آئی ایم ایف سے معاملات میں غیر ضروری طوالت اور بڑھتے قرض کے ساتھ حکومتی لا ابالی پن نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ اگر دو سال پہلے ہماری معیشت کو درخشاں ستارہ کہا جاتا تھا تو موجودہ حکومت نے صرف اٹھارہ ماہ میں ہی اسے ایسا دیا بنا دیا ہے جس کی لو مہنگائی اور بدانتظامی کے تھپیڑوں سے ٹمٹما رہی ہے۔
ہماری شرح ترقی خطے میں سب سے کم ہے۔ اگر یہی رفتار رہی تو ماہرین معاشیات کے مطابق اختتام سال تک ہماری شرح نمو 1.2 پر آ سکتی ہے۔ اس شرح نمو سے کیک کا سائز اتنا چھوٹا ہو جائے گا کہ اپنے اپنے حصہ کے لئے شاید چھینا جھپٹی شروع ہو جائے۔ یاد رہے مسلم لیگ ن کے دور میں یہ شرح نمو قریباً 6 فیصد تھی اور اب تقریباً 2 فیصد کے قریب ہے۔ اکنامک مینجمنٹ کی ایسی صورتحال میں جو پہلے آپ سے بہت خوش ہوتے ہیں وہ پھر پہچاننے سے بھی انکار کر دیتے ہیں۔
اسٹیٹ بینک نے بھی موجودہ حکومت کے اٹھارہ ماہ کی کارکردگی پر رپورٹ جاری کی ہے۔ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق ڈیڑھ سال میں ملکی قرضوں میں 11 ہزار 114 ارب روپے کا اضافہ ہوا اور ملک پر قرضوں کا مجموعی بوجھ 40 ہزار 993 ارب روپے ہوگیا۔ ملک پر قرضوں کا بوجھ مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کے 94.1 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ اگر شرح نمو میں گراوٹ کا یہ سلسلہ ایسے ہی جاری رہا تو ایسی خوفناک تباہی ہو گی کہ جس کا تصور بھی محال ہے۔
کارکردگی میں نا اہلیت کے ریکارڈ بنانے کے باوجود وزیراعظم دعویٰ کرتے ہیں کہ کسی کو اندازہ نہیں پاکستان کتنا عظیم ملک بننے جا رہا ہے۔ اس سے پہلے وزیراعظم نے نہ صرف ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کا دعویٰ کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ لوگ باہر سے پاکستان نوکری کرنے آئیں گے۔ آج ڈیڑھ سال بعد عوام وزیراعظم کے دعوے سننے کے بعد معاشی گراوٹ پر نظر ڈالتے ہیں تو ان کے پاس سر دھننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا۔ اس صورتحال میں اپوزیشن جماعتوں نے لیت و لعل سے کام لیا تو یاد رکھیں عوام خود احتجاج کے لئے پرتول رہے ہیں۔ اگر کسی جماعت نے موجودہ صورتحال سے پہلوتہی کی تو وہ پیچھے رہ جائے گی اور جس جماعت نے عوام کی نمائندگی کی وہی عوام کی نظروں میں نمایاں پوزیشن حاصل کرے گی۔
دوسری جانب نواز شریف کی حکومت نے گورننس پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے عام آدمی کے لئے آسانیاں پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ موجودہ حکومت کی نسبت مہنگائی بتدریج کم ہوئی تھی اور شرح نمو میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔ عوام کو ملنے والا ریلیف نمایاں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ دھرنوں اور لندن پلان جیسی سازشوں کے باوجود عوام حکومت کے خلاف احتجاج کے لئے نہیں نکلے تھے۔ بارہا عمران خان کو خالی کرسیوں سے خطاب کرتے دیکھا گیا، اس بار صورتحال قدرے مختلف ہے۔ مختلف بحرانوں نے عوام کی زندگی بے رنگ کر دی ہے اور عوام سراپا احتجاج ہیں۔ ایسی صورتحال میں فوج کیسے اس حکومت سے خوش ہے یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔
بیان کیے گئے اعدادو شمار اور عوام کی موجودہ صورتحال دیکھتے ہوئے کوئی بھی اس حکومت سے خوش نہیں ہو سکتا، عمران خان نے اٹھارہ ماہ صرف ان کو خوش رکھنے میں لگائے جو انھیں لے کر آئے ہیں۔ کاش وہ 22 کروڑ عوام کو خوش کرنے کا بھی سوچ لیتے تو یہ حالات اتنے مشکل نہ ہوتے۔ عمران خان نے تواتر کے ساتھ جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کی تعریف کی ہے اور انھیں میسر فوجی حمایت کا اعتراف کیا ہے، لیکن اتحادی جماعتوں کے بیانات اور موجودہ سیاسی صورتحال دیکھتے ہوئے محسوس ہو رہا ہے کہ اگلے چند ماہ میں عمران خان سب سے بڑا یوٹرن لیں گے اور یہ انہی کے خلاف ہو گا جن کی تعریف میں وہ آج زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں۔
19/02/2020 محمد کاشف میو
چوہدری شجاعت حسین انتہائی زیرک سیاستدان ہیں۔ چوہدری صاحب موقع محل کی مناسبت سے الفاظ کا چناؤ ایسے کرتے ہیں کہ گویا دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہو۔
سعودی عرب میں عمرہ کی ادائیگی کے بعد ’اردو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے چوہدری صاحب نے کہا کہ ان کی تو کوشش ہے کہ حکومت چلے مگر عمران خان کے ارد گرد لوگ حکومت کو چلنے نہیں دے رہے۔ مزید ان کا کہنا تھا کہ ’جس طرح ملک چل رہا ہے اور معاشی صورتحال خراب ہو رہی ہے، میں نے پہلے بھی کہا تھا، اب پھر کہہ رہا ہوں کہ دو چار مہینوں کے بعد کوئی بھی وزیر اعظم بننے کو تیار نہیں ہوگا۔ ہر کوئی کہے گا میں نے وزیر اعظم نہیں بننا۔ ‘
اس سوال پر کہ کیا ملک میں قبل از وقت الیکشن ہو سکتے ہیں؟ چوہدری شجاعت نے سوچتے ہوئے کہا کہ ’ویسے تو حکومت پانچ برس کے لیے منتخب ہوئی ہے لیکن اگر کوئی صورتحال پیدا ہو جائے تو ایسا ممکن ہے۔ ‘ موجودہ سیاسی صورتحال میں ایک اتحادی جماعت کے سربراہ کا یہ بیان سمجھنے والوں کے لئے بہت بڑا اشارہ ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق چند دن پہلے عمران خان کی مخصوص صحافیوں سے ہوئی گفتگو کا خلاصہ یہ تھا کہ ’فوج مجھ سے بہت خوش ہے کیونکہ میں چھٹی نہیں کرتا اور میں کرپٹ نہیں ہوں‘ ۔ یہ یک طرفہ دعویٰ صرف عمران خان کی جانب سے سامنے آیا ہے۔ اٹھارہ ماہی حکومت کا جائزہ لیا جائے تو بظاھر خوشی کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی۔ گزری مدت میں عمرانی حکومت کا واحد طرہ امتیاز غیر سنجیدگی رہا ہے۔ اس تمام عرصۂ حکومت میں وزیراعظم کی ساری توجہ عوام کو ریلیف دینے کی بجائے صرف اپوزیشن کو ٹارگٹ کرنے پر رہی۔ عمران خان کے ساتھ کھڑے ساتھیوں پر نظر دوڑائیں تو اکثریت ان لوگوں کی ہے جن پر کرپشن کے الزامات ہیں یا ان پر نیب انکوائری چل رہی ہے۔
آج عمران خان حکومت کی مدت بے نظیر کی پہلی حکومتی مدت سے زیادہ ہو گئی ہے۔ گزشتہ چند مہینوں کی اپوزیشن پالیسی کو مدنظر رکھیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں نہیں چاہتی تھیں کہ عمران خان کو یہ کہنے کا موقع ملے کہ انھیں کام کرنے کے لئے وقت نہیں ملا۔ گمان ہے کہ فروری سے پہلے اپوزیشن جماعتیں کچھ ایسا کرنے کو تیار نہیں تھیں کہ جس سے حکومت کو خطرہ محسوس ہوتا۔ مزید براں گزشتہ دس سالوں میں ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ حکومت کے بنتے ہی اس کے جانے کی تاریخیں دینے کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا۔ اس بار بھی ایسا ہی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اس بار حکومت کا خاتمہ ہو سکے گا یا نہیں اور کیا اپوزیشن ایسی کوئی تحریک چلانے میں کامیاب ہو سکے گی جو حکومت کے خاتمہ کا سبب بن سکے۔ موجودہ سیاسی صورتحال دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ لاوا پک چکا ہے اور اٹھنے والا طوفان شاید ہچکولے کھاتی حکومتی کشتی کو بہا لے جائے۔
عمران خان نے احتساب نما انتقام کا ایسا سلسلہ شروع کیا جس سے ہر شعبہ رجعت قہقری کا شکار ہو چکا ہے۔ معیشت مکمل زوال پذیر ہے اور معیشت کی زبوں حالی کے نمایاں اسباب میں آئی ایم ایف سے معاملات میں غیر ضروری طوالت اور بڑھتے قرض کے ساتھ حکومتی لا ابالی پن نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ اگر دو سال پہلے ہماری معیشت کو درخشاں ستارہ کہا جاتا تھا تو موجودہ حکومت نے صرف اٹھارہ ماہ میں ہی اسے ایسا دیا بنا دیا ہے جس کی لو مہنگائی اور بدانتظامی کے تھپیڑوں سے ٹمٹما رہی ہے۔
ہماری شرح ترقی خطے میں سب سے کم ہے۔ اگر یہی رفتار رہی تو ماہرین معاشیات کے مطابق اختتام سال تک ہماری شرح نمو 1.2 پر آ سکتی ہے۔ اس شرح نمو سے کیک کا سائز اتنا چھوٹا ہو جائے گا کہ اپنے اپنے حصہ کے لئے شاید چھینا جھپٹی شروع ہو جائے۔ یاد رہے مسلم لیگ ن کے دور میں یہ شرح نمو قریباً 6 فیصد تھی اور اب تقریباً 2 فیصد کے قریب ہے۔ اکنامک مینجمنٹ کی ایسی صورتحال میں جو پہلے آپ سے بہت خوش ہوتے ہیں وہ پھر پہچاننے سے بھی انکار کر دیتے ہیں۔
اسٹیٹ بینک نے بھی موجودہ حکومت کے اٹھارہ ماہ کی کارکردگی پر رپورٹ جاری کی ہے۔ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق ڈیڑھ سال میں ملکی قرضوں میں 11 ہزار 114 ارب روپے کا اضافہ ہوا اور ملک پر قرضوں کا مجموعی بوجھ 40 ہزار 993 ارب روپے ہوگیا۔ ملک پر قرضوں کا بوجھ مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کے 94.1 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ اگر شرح نمو میں گراوٹ کا یہ سلسلہ ایسے ہی جاری رہا تو ایسی خوفناک تباہی ہو گی کہ جس کا تصور بھی محال ہے۔
کارکردگی میں نا اہلیت کے ریکارڈ بنانے کے باوجود وزیراعظم دعویٰ کرتے ہیں کہ کسی کو اندازہ نہیں پاکستان کتنا عظیم ملک بننے جا رہا ہے۔ اس سے پہلے وزیراعظم نے نہ صرف ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کا دعویٰ کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ لوگ باہر سے پاکستان نوکری کرنے آئیں گے۔ آج ڈیڑھ سال بعد عوام وزیراعظم کے دعوے سننے کے بعد معاشی گراوٹ پر نظر ڈالتے ہیں تو ان کے پاس سر دھننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا۔ اس صورتحال میں اپوزیشن جماعتوں نے لیت و لعل سے کام لیا تو یاد رکھیں عوام خود احتجاج کے لئے پرتول رہے ہیں۔ اگر کسی جماعت نے موجودہ صورتحال سے پہلوتہی کی تو وہ پیچھے رہ جائے گی اور جس جماعت نے عوام کی نمائندگی کی وہی عوام کی نظروں میں نمایاں پوزیشن حاصل کرے گی۔
دوسری جانب نواز شریف کی حکومت نے گورننس پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے عام آدمی کے لئے آسانیاں پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ موجودہ حکومت کی نسبت مہنگائی بتدریج کم ہوئی تھی اور شرح نمو میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔ عوام کو ملنے والا ریلیف نمایاں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ دھرنوں اور لندن پلان جیسی سازشوں کے باوجود عوام حکومت کے خلاف احتجاج کے لئے نہیں نکلے تھے۔ بارہا عمران خان کو خالی کرسیوں سے خطاب کرتے دیکھا گیا، اس بار صورتحال قدرے مختلف ہے۔ مختلف بحرانوں نے عوام کی زندگی بے رنگ کر دی ہے اور عوام سراپا احتجاج ہیں۔ ایسی صورتحال میں فوج کیسے اس حکومت سے خوش ہے یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔
بیان کیے گئے اعدادو شمار اور عوام کی موجودہ صورتحال دیکھتے ہوئے کوئی بھی اس حکومت سے خوش نہیں ہو سکتا، عمران خان نے اٹھارہ ماہ صرف ان کو خوش رکھنے میں لگائے جو انھیں لے کر آئے ہیں۔ کاش وہ 22 کروڑ عوام کو خوش کرنے کا بھی سوچ لیتے تو یہ حالات اتنے مشکل نہ ہوتے۔ عمران خان نے تواتر کے ساتھ جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کی تعریف کی ہے اور انھیں میسر فوجی حمایت کا اعتراف کیا ہے، لیکن اتحادی جماعتوں کے بیانات اور موجودہ سیاسی صورتحال دیکھتے ہوئے محسوس ہو رہا ہے کہ اگلے چند ماہ میں عمران خان سب سے بڑا یوٹرن لیں گے اور یہ انہی کے خلاف ہو گا جن کی تعریف میں وہ آج زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں۔