اقبال جہانگیر
محفلین
فوج نہیں مانتی‘
آخری وقت اشاعت: بدھ 12 مارچ 2014 , 17:56 GMT 22:56 PST
فوج کی سوچ اور حکومتی سوچ مختلف
طالبان سے رابطے کرنے کے لیے بنائی گئی سرکاری کمیٹی کے رکن اور طالبان کے امور کے تجزیہ کار رحیم اللہ یوسفزئی نے کہا ہے کہ حکومت نے فوج کو مذاکراتی کمیٹی میں شامل کرنے کے لیے بڑی کوشش کی لیکن فوج نے کمیٹی میں شامل ہونے سے انکار کر دیا ہے۔
بی بی سی اردو سروس کے پروگرام سیربین میں ایک گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے رحیم اللہ یوسفرزئی نے کہا کہ حکومت یہ دعوی کرتی ہے کہ فوج ان کے ساتھ ہے اور فوج بھی یہی کہتی ہے کہ جو بھی حکومتی پالیسی ہوگی وہ اس پر کاربند رہیں گے۔
رحیم اللہ یوسفزئی نے مزید کہا کہ ان کے خیال میں فوج اور حکومت کی سوچ میں اس اہم مسئلے پر فرق ہے۔ انھوں نے کہا کہ فوج کے لوگ سمجھتے ہیں کہ طالبان سے مذاکرات کا طریقہ کارگر ثابت نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ پہلے بھی مذاکرات ہوئے ہیں اور فوج کی یہی سوچ ہے کہ اس مسئلے کا اس طریقے سے حل ممکن نہیں ہے۔
رحیم اللہ یوسفزئی نے کہا کہ حکومتی جماعت اور عمران خان مذاکرات کو ہی حل سمجھتے ہیں اور عمران خان حکومت کا بھرپور ساتھ دے رہے ہیں۔
طالبان سے باقاعدہ مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنے کے لیے نئی کمیٹی کے بارے میں رحیم اللہ یوسفزئی نے کہا کہ پرانی کمیٹی میں تین افراد ایسے تھے جن کا براہ راست حکومت سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن اب جو کمیٹی بنائی جا رہی ہے اس میں سرکاری افسران شامل ہیں اور اب طالبان اور حکومت کے درمیان براہ راست بات چیت ہو گی۔
فوج سمجھتی ہے کہ مذاکرات کا طریقہ کار درست نہیں ہے
سیربین کی گفتگو میں شامل دفاعی امور کے تجزیہ کار بریگیڈیئر سعد جو طالبان سے بات چیت یا مذاکرات کے ہمیشہ سے مخالف رہے ہیں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے اس استدلال سے بالکل متفق نہیں تھے کہ مذاکرات نے طالبان کے اندر کسی قسم کا کوئی اختلاف پیدا کر دیا ہے۔
بریگیڈیئر سعد کا کہنا تھا کہ طالبان بہت شاطر اور قابل لوگ ہیں اور وہ کسی ابہام کے بغیر یکسوئی سے اپنے اہداف کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ بریگیڈیئر سعد نے سوال کیا کہ کن معلومات کی بنیاد پر اس یقین سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ طالبان تقسیم ہو چکے ہیں؟
انھوں نے کہا کہ تحریک طالبان پاکستان شمالی وزیرستان میں ایک حاوی گروپ ہے اور باقی سب گروہ اس کی ذیلی شاخیں ہیں اور انھیں انگریزی میں ’شیڈو گروپ‘ بھی کہتے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ تحریک طالبان کی اجازت کے بغیر دہشت گردی کی کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ انھوں نے کہا کہ مختلف گروپوں کا وجود طالبان کی حکمت عملی کا حصہ ہے تاکہ آپ ’انٹیلیجنس راڈر‘ کو دھندلا کر دیں اور ساتھ ہی ہو ان کارروائیوں سے اپنے آپ کو علیحدہ بھی کر سکتے ہیں۔
بریگیڈیئر سعد کا کہنا تھا کہ حکومت ابہام کا شکار ہے۔
مذاکرات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ حکومت کی طرف سے تو ابھی تک یہ بھی واضح نہیں ہو سکا کہ ان کا ایجنڈا کیا ہوگا۔ انھوں نے سوال کیا کہ کیا حکومت وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے خالی کر دے گی، یا طالبان کے کہنے پر اپنی خارجہ پالیسی تبدیل کر دے گی۔
بریگیڈیئر سعد نے ایک اور سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ان کی سمجھ سے بات بلاتر ہے کہ حکومت مذاکرات پر آمادہ اور مذکرات سے انکار کرنے والے طالبان میں امتیاز کیسے کرے گی۔
انھوں نے کہ ان لوگوں کے درمیان تفریق کیسے کی جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں ’انٹیلیجنس کا بلیک ہول‘ ہے اور کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔
انھوں نے خبردار کیا کہ اگر آپ ایک کو ہاتھ لگائیں گے سب جواب مل کر جواب دینے کے لیے آ جائیں گے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/03/140312_sairbean_discussion_fz.shtml
آخری وقت اشاعت: بدھ 12 مارچ 2014 , 17:56 GMT 22:56 PST
فوج کی سوچ اور حکومتی سوچ مختلف
طالبان سے رابطے کرنے کے لیے بنائی گئی سرکاری کمیٹی کے رکن اور طالبان کے امور کے تجزیہ کار رحیم اللہ یوسفزئی نے کہا ہے کہ حکومت نے فوج کو مذاکراتی کمیٹی میں شامل کرنے کے لیے بڑی کوشش کی لیکن فوج نے کمیٹی میں شامل ہونے سے انکار کر دیا ہے۔
بی بی سی اردو سروس کے پروگرام سیربین میں ایک گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے رحیم اللہ یوسفرزئی نے کہا کہ حکومت یہ دعوی کرتی ہے کہ فوج ان کے ساتھ ہے اور فوج بھی یہی کہتی ہے کہ جو بھی حکومتی پالیسی ہوگی وہ اس پر کاربند رہیں گے۔
رحیم اللہ یوسفزئی نے مزید کہا کہ ان کے خیال میں فوج اور حکومت کی سوچ میں اس اہم مسئلے پر فرق ہے۔ انھوں نے کہا کہ فوج کے لوگ سمجھتے ہیں کہ طالبان سے مذاکرات کا طریقہ کارگر ثابت نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ پہلے بھی مذاکرات ہوئے ہیں اور فوج کی یہی سوچ ہے کہ اس مسئلے کا اس طریقے سے حل ممکن نہیں ہے۔
رحیم اللہ یوسفزئی نے کہا کہ حکومتی جماعت اور عمران خان مذاکرات کو ہی حل سمجھتے ہیں اور عمران خان حکومت کا بھرپور ساتھ دے رہے ہیں۔
طالبان سے باقاعدہ مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنے کے لیے نئی کمیٹی کے بارے میں رحیم اللہ یوسفزئی نے کہا کہ پرانی کمیٹی میں تین افراد ایسے تھے جن کا براہ راست حکومت سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن اب جو کمیٹی بنائی جا رہی ہے اس میں سرکاری افسران شامل ہیں اور اب طالبان اور حکومت کے درمیان براہ راست بات چیت ہو گی۔
فوج سمجھتی ہے کہ مذاکرات کا طریقہ کار درست نہیں ہے
سیربین کی گفتگو میں شامل دفاعی امور کے تجزیہ کار بریگیڈیئر سعد جو طالبان سے بات چیت یا مذاکرات کے ہمیشہ سے مخالف رہے ہیں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے اس استدلال سے بالکل متفق نہیں تھے کہ مذاکرات نے طالبان کے اندر کسی قسم کا کوئی اختلاف پیدا کر دیا ہے۔
بریگیڈیئر سعد کا کہنا تھا کہ طالبان بہت شاطر اور قابل لوگ ہیں اور وہ کسی ابہام کے بغیر یکسوئی سے اپنے اہداف کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ بریگیڈیئر سعد نے سوال کیا کہ کن معلومات کی بنیاد پر اس یقین سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ طالبان تقسیم ہو چکے ہیں؟
انھوں نے کہا کہ تحریک طالبان پاکستان شمالی وزیرستان میں ایک حاوی گروپ ہے اور باقی سب گروہ اس کی ذیلی شاخیں ہیں اور انھیں انگریزی میں ’شیڈو گروپ‘ بھی کہتے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ تحریک طالبان کی اجازت کے بغیر دہشت گردی کی کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ انھوں نے کہا کہ مختلف گروپوں کا وجود طالبان کی حکمت عملی کا حصہ ہے تاکہ آپ ’انٹیلیجنس راڈر‘ کو دھندلا کر دیں اور ساتھ ہی ہو ان کارروائیوں سے اپنے آپ کو علیحدہ بھی کر سکتے ہیں۔
بریگیڈیئر سعد کا کہنا تھا کہ حکومت ابہام کا شکار ہے۔
مذاکرات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ حکومت کی طرف سے تو ابھی تک یہ بھی واضح نہیں ہو سکا کہ ان کا ایجنڈا کیا ہوگا۔ انھوں نے سوال کیا کہ کیا حکومت وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے خالی کر دے گی، یا طالبان کے کہنے پر اپنی خارجہ پالیسی تبدیل کر دے گی۔
بریگیڈیئر سعد نے ایک اور سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ان کی سمجھ سے بات بلاتر ہے کہ حکومت مذاکرات پر آمادہ اور مذکرات سے انکار کرنے والے طالبان میں امتیاز کیسے کرے گی۔
انھوں نے کہ ان لوگوں کے درمیان تفریق کیسے کی جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں ’انٹیلیجنس کا بلیک ہول‘ ہے اور کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔
انھوں نے خبردار کیا کہ اگر آپ ایک کو ہاتھ لگائیں گے سب جواب مل کر جواب دینے کے لیے آ جائیں گے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/03/140312_sairbean_discussion_fz.shtml