فوج کا کوئی دباؤ نہیں خارجہ پالیسی کے فیصلے میں کرتا ہوں، وزیر اعظم

جاسم محمد

محفلین
فوج کا کوئی دباؤ نہیں خارجہ پالیسی کے فیصلے میں کرتا ہوں، وزیر اعظم
ویب ڈیسک ہفتہ 28 نومبر 2020
2110514-imrankhan-1606545541-872-640x480.jpg

وزیر اعظم ایکسپریس نیوز کے پروگرام ٹو دی پوائنٹ کے میزبان منصور علی خان کو انٹرویو دے رہے تھے۔

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ مجھ پر فوج کا کوئی دباؤ نہیں خارجہ پالیسی کے فیصلے خود کرتا ہوں، لوگوں کو انشاءاللہ پانچ سال میں ایک کروڑسے زائد نوکریاں اور 50 لاکھ گھر ملیں گے۔

ایکسپریس نیوز کے پروگرام ’’ٹو دی پوائنٹ‘‘ کے میزبان منصورعلی خان کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں لوگوں کو انشاءاللہ پانچ سال میں ایک کروڑ سے زائد نوکریاں ملیں گی اور گھر بھی 50 لاکھ سے تجاوز کرجائیں گے، میں نے یہ وعدہ دو سال میں پورا ہونے کی بات نہیں کی تھی، یہ سب پانچ سال میں ہوگا۔

’’فوج کا کوئی دباؤ نہیں‘‘

وزیر اعظم نے کہا کہ فوج کا کوئی دباؤ نہیں اور فوج نے کبھی کسی کام سے نہیں روکا، فوج کا دباؤ ہو تو مزاحمت بھی کروں، خارجہ پالیسی کے فیصلے میں کرتا ہوں، جو باتیں میرے منشور میں تھیں میں نے اس پر عمل درآمد کیا، افغانستان کے معاملے میں جو میرا موقف تھا آج وہی پاکستان کی پالیسی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے سلیکٹڈ کہنے والے رہنما خود سلیکٹڈ ہیں، نواز شریف اور آصف زرداری دونوں سلیکٹڈ تھے، بلاول بھٹو پرچی کی وجہ سے پارٹی میں آئے، مریم اگر نواز شریف کی بیٹی نہ ہوتیں تو انہیں پارٹی عہدہ نہیں ملتا، اعداد و شمار دیکھیں تو 2018ء کے انتخابات 2013ء کے مقابلے میں زیادہ شفاف تھے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ کسی سابق فوجی افسر کو اگر کوئی عہدہ دیتے ہیں تو اس کا ہمیشہ یہ مطلب نہیں ہوتا کہ فوج کا دباؤ ہے، عاصم باجوہ نے اپنے اوپر لگنے والے الزامات کا تفصیل سے جواب دے دیا، انہیں سی پیک کی ذمے داری دینے کی وجہ یہ تھی کہ وہ سدرن کمانڈ کے کمانڈر رہے تھے اور سیکیورٹی ایشوز پر کام کرچکے تھے اس لیے ہمارا خیال تھا کہ وہ اس ذمے داری کے لیے بہترین آدمی ہیں۔

’’یو ٹرن‘‘

انہوں نے کہا کہ جس نے بھی اپنی زندگی میں مقابلہ کیا ہو وہ یوٹرن کا مطلب سمجھتا ہے، حالات کے ساتھ ساتھ حکمت عملی تبدیل کی جاتی ہے، میرا نظریہ پاکستان کو فلاحی ریاست بنانا ہے اور اسی مقصد کے لیے ایک طریقہ ناکام ہوگا تو میں دوسرا طریقہ اختیار کروں گا۔

نیب پر کوئی اختیار نہیں

اپوزیشن کے خلاف نیب کیسز کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ یہ تمام کیسز ہمارے آنے سے پہلے بنائے گئے تھے، نیب ہمارے ماتحت نہیں ہمارا اختیار صرف جیلوں پر ہے۔

عمران خان نے کہا کہ اپوزیشن کا پہلے دن سے ایجنڈا ایک ہی تھا، ہم تو پہلے دن الیکشن پر تحقیقات کے لیے آمادہ تھے لیکن یہ اس کے لیے بنائی گئی کمیٹی میں آئے تک نہیں، پھر فیٹف کے لیے ہونے والی قانون سازی میں 34 ترامیم کا مطالبہ کیا جس کا مقصد نیب ختم کرنا تھا، جب ہم کہتے ہیں کہ این آر او نہیں دیتے تو اس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ احتساب کے ان قوانین میں تبدیلی نہیں کرنے دیں گے، نہ صرف نیب بلکہ ایف آئی اے اور دیگر اداروں میں جو تحقیقات چل رہی ہیں ہم چاہتے ہیں وہ تکمیل تک پہنچیں۔

جہانگیر ترین کے پاس کوئی پارٹی عہدہ نہیں

جہانگیر خان ترین سے متعلق سوال پر وزیر اعظم نے کہا کہ ان سے 10 سال پرانا تعلق ہے کیس کا افسوس ہوتا ہے تاہم ان کے خلاف کارروائی ہورہی ہے اور جہانگیر ترین کے ساتھ شہباز شریف پر بھی ایف آئی آر ہوچکی ہے، مسابقتی کمیشن اور ایف آئی اے میں بھی تحقیقات ہورہی ہیں، چینی کے کارٹیل پر اس طرح پہلی بار کام کیا گیا، ہم تو قانون کے مطابق چل رہے ہیں، اس معاملے میں ہمارے لوگ بھی ہیں اور دوسرے بھی۔

اس سوال پر کہ کیا جہانگیر ترین اب بھی پی ٹی آئی کا حصہ ہیں؟ اس کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ جہانگیر ترین کے پاس تحریک انصاف کا کوئی عہدہ نہیں ہے جس پر بھی تحقیقات شروع ہوئی ہیں ان کا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

انہوں ںے کہا کہ پہلے بھی شوگر مافیا تھا لیکن کبھی ان کے خلاف تحقیقات نہیں ہوئیں۔ پاکستان کے شوگر ملز ایسوسی ایشن کے بڑے طاقت ور لوگ چینی کی قیمت کا تعین کرتے تھے لیکن ان پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا تھا، ہم نے پہلی بار یہ کام کیا۔

ہمارے زمانے میں صرف شہباز شریف کا کیس بنا ہے، ان کے دفتر میں کام کرنے والے دو ملازم پکڑے گئے جن کے بینک اکاؤنٹ سے اربوں روپوں کی منتقلی کے ثبوت ملے۔

فردوس عاشق اعوان پر کوئی کیس نہیں!

فردوس عاشق اعوان سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ معاون خصوصی اطلاعات پنجاب پر کوئی کرپشن کیس نہیں، محکمہ اطلاعات میں کچھ مسائل تھے اور ہمارے ایک دو لوگوں کو ان سے مسئلہ تھا جس کی وجہ سے ان کا تبادلہ کیا گیا تھا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ وفاق اور صوبوں میں جہاں بھی کسی وزیر سے متعلق کرپشن کی اطلاعات ملتی ہیں تو میں اپنے ایسے ایک ایک وزیر کی آئی بی کے ذریعے خود تحقیقات کرواتا ہوں۔

نعیم بخاری چیئرمین پی ٹی وی کیوں؟

چیئرمین پی ٹی وی کے حوالے سے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ نعیم بخاری پاناما میں میرے وکیل بعد میں بنے وہ گزشتہ 50 سال سے پی ٹی وی سے وابستہ ہیں اور ان سے زیادہ اس ادارے کو شاید ہی کوئی سمجھتا ہو، ہماری درخواست پر انہوں نے یہ ذمے داری قبول کی ہے، یہ ایگزیکٹو نہیں ہیں بورڈ کے چیئرمین ہوں گے جو پالیسی بناتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی وی پر حکومت کا مؤقف سامنے آنا چاہیے لیکن اس کی ساکھ بھی بی بی سی اور ٹی آر ٹی کی طرح بنانے کی ضرورت ہے، پی ٹی وی پر حزب اختلاف کو وقت ملنا چاہیے۔

’’نوکریاں 1 کروڑ سے بڑھ جائیں گی‘‘

انہوں نے کہا کہ 5 سال میں نوکریاں فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا، ہمارے پانچ سال میں نوکریاں ایک کروڑ اور گھر 50 لاکھ سے بھی زیادہ ہوجائیں گے، بنڈل آئی لینڈ اور راوی اربن پراجیکٹ ہمارے دو بڑے منصوبے ہیں جس سے یہ ممکن ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ آج پاکستان کی تاریخ میں سیمنٹ کی پیداوار سب سے زیادہ ہوچکی ہے، یہ دو نئے شہر بسنے جارہے ہیں، راوی پراجیکٹ کے لیے لوگوں سے زمینیں لینے کے کوئی زبردستی نہیں کی جارہی، اس حوالے سے غلط خبریں پھیلائی جارہی ہیں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ان منصوبوں سے نوکریاں ملیں گی اور سمندر پار پاکستانی یہاں سرمایہ کریں گے، ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کی صورت حال بہتر ہوگی۔

عمران خان نے کہا کہ بی آر ٹی کا ایشیائی ترقیاتی بینک کا منصوبہ ہے، اس منصوبے پر ہمیں سبسڈی نہیں دینا پڑے گی، اس منصوبے کی شفافیت کے حوالے سے کوئی بھی سوال اٹھے گا تو ہم تحقیقات کروانے کے لیے تیار ہیں۔

عثمان بزدار تاریخ کے بہترین وزیر اعلیٰ

پنجاب حکومت کی کارکردگی سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ پانچ سال بعد عثمان بزدار پنجاب کی تاریخ کے بہترین وزیر اعلیٰ ثابت ہوں گے، اس کا پیمانہ یہ ہوگا کہ عام لوگوں کو کیا سہولیات دی جارہی ہیں؟ 2021ء تک ہر خاندان کے پاس ہیلتھ انشورنس کارڈ ہوگا جس سے 10 لاکھ روپے تک کا علاج کرایا جاسکے گا۔

’’نواز شریف کی بیرون ملک بھیجنے کے لیے دباؤ نہیں تھا‘‘

عمران خان نے کہا کہ نواز شریف کو بیرون ملک بھیجنے کے لیے کسی کا دباؤ نہیں تھا، ہم نے جو رپورٹس دیکھیں تو سوچا کہ کیا ایک آدمی کو اتنی بیماریاں ہو بھی سکتی ہیں؟ شہباز شریف نے ہائیکورٹ کو ضمانت دی کہ وہ علاج کروانے جارہے ہیں، مشرف دور میں بھی یہی انہوں نے کیا، ہم سات ارب روپے کی ضمانت چاہتے تھے لیکن عدالت نہیں مانی۔

انہوں نے کہا کہ میرے اوپر نہ کوئی دباؤ ہے نہ کوئی ڈال سکتا ہے، دباؤ میں وہ آتا ہے جسے کرسی پر جمے رہنے کا مسئلہ ہے، فوج اور آئی ایس آئی کو سب پتا ہوتا ہے، جو میں فون کرتا ہوں یا کوئی رابطہ کرتا ہے انٹیلی جینس ایجنسی کو اس بارے میں معلوم ہوتا ہے، انہیں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی وزیر اعظم کیا کررہا ہے، جو لوگ کرپشن کرتے ہیں وہی دباؤ میں آتے ہیں۔

خارجہ پالیسی

وزیر اعظم نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ بھی تھا اور نریندر مودی وہاں مظالم کررہا تھا لیکن نواز شریف نے کوئی بات نہیں کی، کشمیر پر پاکستان کا جو آج مؤقف ہے اس سے پہلے کبھی نہیں تھا، ہم نے کشمیر کاز کو ہر فورم پر اٹھایا ہے، سعودی عرب سے تعلقات بہترین ہیں، یو اے ای سے ویزے کے معاملے پر بات ہورہی ہے، چین اور ترکی سے تعلقات بہتر ہوئے ہیں، افغانستان سے اب وہ تعلقات ہیں جو پہلے کبھی نہیں تھے، ڈومور کرنے والا امریکا اب پاکستان کی تعریفیں کررہا ہے، پاکستانی کی خارجہ پالیسی جیسی آج ہے پہلے کبھی نہیں تھی۔

عمران خان نے کہا کہ جو لوگ پیسے لے کر تنقید کرتے ہیں وہ عوام کے سامنے بے نقاب ہوجاتے ہیں، صحیح معنوں میں تجزیہ کرنے کی اہلیت رکھنے والے اور پڑھے لکھے صحافی معاشرے کا اثاثہ ہوتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
فوج کا کوئی دباؤ نہیں اسی لئے ہر فیصلہ میں فوج شریک ہوتی ہے :)

وزیر اعظم کا ’ایک پیج‘ فوج کے لئے تہمت بن چکا ہے!

28/11/2020 سید مجاہد علی


چند روز قبل آئی ایس پی آر نے پاک فوج میں اعلیٰ افسروں کے تبادلوں اور چھ میجر جنرلز کی لیفٹیننٹ جنرلز کے عہدوں پر ترقی کی خبر دی تھی۔ عام حالات میں یہ معمول کی اطلاع ہے۔ فوج میں جنرلز کی ریٹائرمنٹ کے بعد ترقیاں اور فوجی یونٹوں کی ضرورتوں کے مطابق تقرریاں روٹین کا معاملہ ہوتا ہے۔ تاہم پاکستان کے موجودہ سیاسی ماحول اور سیاست میں فوج کے کردار سے پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کی روشنی میں معمول کی یہ خبر بھی ملک میں طاقت کے توازن کو جانچنے کے مقصد سے پرکھی گئی ہے۔

فوج میں ترقیوں اور تبادلوں پر ہونے والے تبصرے اور قائم کیے جانے والے اندازے دراصل پی ڈی ایم کے گوجرانوالہ جلسہ میں نواز شریف کی سخت تقریر اور اس میں جنرل قمر جاوید باجوہ اور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا نام لے کر سیاسی انجینئرنگ کے الزام کے مماثل سمجھے جا سکتے ہیں۔ ملک میں اس سے پہلے فوج پر براہ راست تنقید کا رواج نہیں تھا۔ اگرچہ اسٹبلشمنٹ کی اصطلاح کو اسی مقصد سے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ یا پھر خلائی مخلوق اور محکمہ زراعت جیسی اصطلاحات استعمال کرتے ہوئے یہ کہنے کی کوشش کی جاتی تھی کہ غیر منتخب ادارے ملکی سیاست پر اثرانداز ہونے کے لئے سرگرم رہتے ہیں۔ یوں تو اشارتاً بھی ملک کے ایک قومی ادارے پر (جسے انتظامی لحاظ سے درحقیقت ادارے یا محکمہ کی حیثیت بھی حاصل نہیں ہے بلکہ وفاقی وزارت دفاع کے زیر انتظام ایک شعبہ ہے جو ملکی دفاع کے مقصد سے استوار کیا گیا ہے ) انگشت نمائی مناسب طریقہ نہیں ہو سکتا ۔

اس کے باوجود میڈیا رپورٹنگ ہو، سیاسی مباحث ہوں یا ملکی معاملات پر کسی دوسری طرح کی رائے دینا مقصود ہو، فوج کا حوالہ ایک اہم اور ایسی قوت کے طور پر دیا جاتا ہے جس کی مرضی اور اشارے کے بغیر کوئی فیصلہ یا پالیسی نہیں بنائی جا سکتی۔ اس کے علاوہ صرف آئی ایس پی آر کے ترجمان کی میڈیا بریفنگ یا پریس ریلیز کے ذریعے ہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا کے دیگر ذرائع جن میں دستاویزی فلمیں اور نغموں وغیرہ کی تیاری شامل ہے، فوج قوم کے شانہ بہ شانہ رہنے کا اعلان کرتی رہتی ہے۔ پاک فوج کے سربراہ ففتھ جنریشن وار کے نام سے قومی معاملات میں پروپیگنڈا کی قوت کی طرف بھی اشارہ کرتے رہتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اس خطرہ سے نمٹنے کے لئے پاکستانی عوام اور ملک کے سب شعبوں کو مل کر جد و جہد کرنا ہوگی۔

ان خیالات سے اتفاق کے باوجود ان مباحث کا یہ پہلو زیر بحث نہیں لایا جاتا کہ قوم و ملک کو لاحق ایسے خطرات سے نمٹنا فوج اور آئی ایس پی آر کا کام ہے یا ملک کی منتخب سول حکومت کو مختلف اداروں کے تعاون سے جن میں فوج بھی شامل ہے، کوئی جامع حکمت عملی بنانا چاہیے تاکہ طاقت کا محور وہی قوت یا ادارہ ہو جو ملکی آئین کے مطابق تمام معاملات کی نگرانی اور انہیں طے کرنے کا ذمہ دار ہے۔ یعنی وزیر اعظم اور کابینہ یہ سارے فیصلے اور اقدامات کرے۔ ضرورت پڑنے پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جائے۔ کسی پارلیمانی نظام میں پارلیمنٹ کا نام لیتے ہوئے ہرگز یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ اس سے مراد حکمران یا اس کی حلیف جماعتیں ہوتی ہیں۔ بلکہ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ برسر اقتدار پارٹی جس کا نمائندہ قائد ایوان کے طور پر ملکی وزارت عظمی ٰ پر فائز ہوتا ہے، قومی اہمیت کے ہر معاملہ میں پارلیمنٹ میں اپوزیشن پارٹیوں سے مشاورت کو ترجیحات میں شامل رکھے۔

پاکستان میں اس وقت جو نظام حکومت کام کر رہا ہے، اس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ قومی اسمبلی اور ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈران شہباز شریف اور حمزہ شہباز نیب کے ذریعے زیر حراست ہیں۔ وزیر اعظم نہ صرف جیل میں ان کی زندگی اجیرن بنانے کی باتیں کرتے رہتے ہیں بلکہ گزشتہ دنوں انہوں نے یہ بھی فرمایا تھا کہ وہ قومی اسمبلی کے اسپیکر کو ہدایت کریں گے کہ شہباز شریف کو پروڈکشن آرڈر پر قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہونے کا موقع نہ دیا جائے۔ اس سے حکومت اور وزیر اعظم کی جمہوریت نوازی اور آئین پسندی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی محسوس کیا جاسکتا ہے کہ ملک میں پارلیمنٹ کیوں موثر کردار ادا کرنے اور فیصلوں میں قیادت کے قابل نہیں ہوتی۔

دوسری طرف ملکی انتظام کی یہ صورت حال بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ کسی بھی اہم معاملہ میں خواہ اس کا تعلق خارجہ امور سے ہو، معیشت سے ہو یا سلامتی سے متعلق معاملات ہوں، وزیر اعظم ایسی کمیٹیوں میں فیصلے کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جہاں فوجی قیادت شامل ہوتی ہے۔ یا پھر براہ راست آرمی چیف سے ملاقات کے ذریعے معاملات طے کیے جاتے ہیں۔ وزیر اعظم اور آرمی چیف کے درمیان ملاقات کے بارے میں جاری ہونے والی خبروں یا تصاویر سے کبھی یہ اندازہ نہیں کیا جاسکتا کہ ملک کے چیف ایگزیکٹو نے اپنی حکومت کے تحت کام کرنے والے ایک شعبہ کے سربراہ کو مشورہ کے لئے ’طلب‘ کیا تھا تاکہ کسی معاملہ پر فوج کا نقطہ نظر بھی معلوم کیا جاسکے۔ بلکہ ایسی خبریں اور تصویریں دو ’بڑوں‘ کی ملاقات کا تاثر پیدا کرتی ہیں۔ پاکستان میں سیاسی معاملات جس طرح طے کیے جاتے رہے ہیں اس کی روشنی میں یہ قیاس کرنا بھی مشکل نہیں ہوتا کہ ان دونوں میں سے حقیقی ’بڑا‘ کون ہے۔

اہل پاکستان کو ہمسایہ ملک بھارت سے مقابلہ کرنے اور اپنی کامیابی کو ثابت کرنے کے لئے بھارت کی ناکامیوں کا حوالہ دینے کا بہت شوق رہتا ہے۔ یہ حوالہ سرکاری بیانات سے لے کر سیاسی گفتگو میں سامنے آتا رہتا ہے کہ پاکستان ایٹمی قوت و عسکری صلاحیت سے لے کر زندگی کے دیگر شعبوں میں کس طرح بھارت سے بہتر ہے۔ تاہم کبھی یہ دیکھنے کی کوشش نہیں کی گئی کہ بھارت کا وزیر اعظم اہم قومی معاملات پر مشاورت کے لئے کیوں اپنی فوج کے سربراہ سے سر جوڑ کر نہیں بیٹھتا۔ یا کسی بھی غیر ملکی مہمان کی آمد پر وہ مہمان بطور خاص بھارتی افواج کے ہیڈ کوارٹرز میں آرمی چیف سے ملاقات کیوں نہیں کرتا؟ پاکستان یا چین کے ساتھ تصادم کی صورت میں یا کسی دوسرے اہم دفاعی و سلامتی معاملہ پر گفتگو کے لئے سیاسی لیڈروں کو اگر عسکری قیادت کا ’ان پٹ‘ لینے کی ضرورت محسوس ہو تو وزیر دفاع مسلح افواج کے سربراہان سے ملاقات کرتا ہے۔ یعنی ایسی کسی ملاقات میں فوج، ائر فورس اور بحریہ کے سربراہان برابری کی بنیاد پر وزیر دفاع سے ملتے ہیں اور اپنے اپنے نقطہ نظر سے آگاہ کرتے ہیں۔ ان ملاقاتوں کی کبھی کوئی تصویر سامنے آ جائے تو یہ بھی محسوس کیا جاسکتا ہے کہ کسے ’باس‘ کی حیثیت حاصل ہے۔

قومی زندگی میں یہ رسمی اشارے ہوتے ہیں لیکن ان کے ذریعے کسی ملک سے بہت دور بیٹھا شخص بھی یہ اندازہ کر سکتا ہے وہاں فیصلے کرنے کا طریقہ کیا ہے۔ پاکستان میں یہ طریقہ اختیار کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ وزیر اعظم کی آرمی چیف یا فوج کے دیگر شعبوں کے سربراہان (ان میں آئی ایس آئی سر فہرست ہے ) سے مشاورت تو معمول کی بات ہے لیکن فضائیہ یا بحریہ کے سربراہوں کے ساتھ ایسی ملاقاتوں کا نہ تو اہتمام کیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کی تشہیر کرنے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ ان باتوں کو شاید زیادہ اہمیت دینے کی ضرورت بھی نہیں ہے لیکن سیاست اور فوجی قیادت کے تال میل کے بارے میں مسلسل مباحث کے سبب یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مسلح افواج میں سے صرف بری افواج کو ہی کیوں قومی معاملات میں قائدانہ کردار دینے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے؟

ملکی اپوزیشن اس وقت فوج کے غیر آئینی کردار کا حوالہ دے رہی ہے اور پی ڈی ایم کے بینر تلے اس کی حالیہ احتجاجی مہم کا بنیادی نکتہ یہی ہے کہ فوج نے سیاسی معاملات میں فیصلہ سازی کا کردار سنبھالا ہوا ہے۔ اب اسے ختم کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ اس کی وجہ سے ایک تو آئینی تقاضوں کے مطابق پارلیمنٹ فعال کردار ادا کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ دوسری طرف فوجی سرپرستی کی وجہ سے قائم ہونے والی سیاسی حکومت فیصلہ سازی میں اپوزیشن کو خاطر میں لانے پر تیار نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے ملک کا پارلیمانی نظام اور ووٹر کی رائے کا احترام خطرے میں ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں قائم حکومت اسے ’ایک پیج‘ کا کرشمہ کہتی ہے۔ اس کا موقف ہے کہ سول اور فوجی قیادت کے درمیان ملکی تاریخ کا مثالی تعاون موجود ہے جو اس سے پہلے سیاسی لیڈروں کی بدعنوانی کی وجہ سے دیکھنے میں نہیں آیا۔

موجودہ سیاسی منظر نامہ میں عمران خان کے اس موقف کو پرکھا جائے تو یہ جاننے میں دیر نہیں لگے گی کہ فوج کی خود مختار اور غیر جانبدار سیاسی حیثیت اور قومی ادارے کے طور پر اس کے کردار کو جتنا نقصان موجودہ حکومت اور اس کے نمائندوں کی غیر ذمہ دارانہ بیان بازی نے پہنچایا ہے، وہ اس سے پہلے دیکھنے میں نہیں آیا۔ حالانکہ ماضی میں بھی شاید سول حکومتیں فوجی قیادت سے ایسا ہی ’تعاون‘ مانگتی رہی ہوں لیکن اس کے اظہار میں احتیاط اور سوجھ بوجھ سے کام لیا جاتا تھا۔ عمران خان کو جب سیاسی دباؤ محسوس ہوتا ہے تو وہ یہ دعویٰ کرتے دیر نہیں لگاتے کہ آرمی چیف ان کی ہدایت پر ہی اپوزیشن سے ملتے ہیں یا وزیر اعظم ہی کی ہدایت پر کراچی میں سندھ پولیس کے آئی جی کو اٹھانے کے معاملہ پر پیش قدمی ہوئی تھی لیکن عملی طور سے موجودہ حکومت کا ہر پہلو میں فوج کے تعاون، امداد اور رہنمائی کا محتاج ہے۔

یہ صورت حال محض ایک حکومتی شعبہ کے طور پر حکومت وقت کی مدد کرنے یا اس کا حکم ماننے تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ عوام کی منتخب حکومت عسکری قیادت کا سایہ بن چکی ہے۔ ایسے میں فوجی قیادت پر سیاسی مداخلت کے الزامات صرف سیاسی ضرورتوں کے لئے بیان بازی سے بڑھ کر ہیں۔ خاص طور سے براہ راست الزامات کے بعد بھی فوج کی طرف سے وضاحت یا تردید سامنے نہ آنے پر شبہات کی دھند گہری ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فوج کے حوالے سے معمول کی خبر بھی چہ مگوئیوں اور قیاس آرائیوں کا سبب بنتی ہے۔ اس طرح فوج کی شہرت اور قومی ادارے کے طور پر اس کا کردار غیر ضروری طور سے بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ فوج کی ساکھ اور اس ادارے کی نیک نامی کے لئے یہ تاثر ختم کرنا اہم ہے۔ جاننا چاہیے کہ اس وقت وزیر اعظم کا ’ایک پیج‘ اور اس منسلک بیانیہ فوج کے لئے تہمت بن چکا ہے۔
 
فوج کا کوئی دباؤ نہیں خارجہ پالیسی کے فیصلے میں کرتا ہوں، وزیر اعظم
ویب ڈیسک ہفتہ 28 نومبر 2020
2110514-imrankhan-1606545541-872-640x480.jpg

وزیر اعظم ایکسپریس نیوز کے پروگرام ٹو دی پوائنٹ کے میزبان منصور علی خان کو انٹرویو دے رہے تھے۔

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ مجھ پر فوج کا کوئی دباؤ نہیں خارجہ پالیسی کے فیصلے خود کرتا ہوں، لوگوں کو انشاءاللہ پانچ سال میں ایک کروڑسے زائد نوکریاں اور 50 لاکھ گھر ملیں گے۔

ایکسپریس نیوز کے پروگرام ’’ٹو دی پوائنٹ‘‘ کے میزبان منصورعلی خان کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں لوگوں کو انشاءاللہ پانچ سال میں ایک کروڑ سے زائد نوکریاں ملیں گی اور گھر بھی 50 لاکھ سے تجاوز کرجائیں گے، میں نے یہ وعدہ دو سال میں پورا ہونے کی بات نہیں کی تھی، یہ سب پانچ سال میں ہوگا۔

’’فوج کا کوئی دباؤ نہیں‘‘

وزیر اعظم نے کہا کہ فوج کا کوئی دباؤ نہیں اور فوج نے کبھی کسی کام سے نہیں روکا، فوج کا دباؤ ہو تو مزاحمت بھی کروں، خارجہ پالیسی کے فیصلے میں کرتا ہوں، جو باتیں میرے منشور میں تھیں میں نے اس پر عمل درآمد کیا، افغانستان کے معاملے میں جو میرا موقف تھا آج وہی پاکستان کی پالیسی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے سلیکٹڈ کہنے والے رہنما خود سلیکٹڈ ہیں، نواز شریف اور آصف زرداری دونوں سلیکٹڈ تھے، بلاول بھٹو پرچی کی وجہ سے پارٹی میں آئے، مریم اگر نواز شریف کی بیٹی نہ ہوتیں تو انہیں پارٹی عہدہ نہیں ملتا، اعداد و شمار دیکھیں تو 2018ء کے انتخابات 2013ء کے مقابلے میں زیادہ شفاف تھے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ کسی سابق فوجی افسر کو اگر کوئی عہدہ دیتے ہیں تو اس کا ہمیشہ یہ مطلب نہیں ہوتا کہ فوج کا دباؤ ہے، عاصم باجوہ نے اپنے اوپر لگنے والے الزامات کا تفصیل سے جواب دے دیا، انہیں سی پیک کی ذمے داری دینے کی وجہ یہ تھی کہ وہ سدرن کمانڈ کے کمانڈر رہے تھے اور سیکیورٹی ایشوز پر کام کرچکے تھے اس لیے ہمارا خیال تھا کہ وہ اس ذمے داری کے لیے بہترین آدمی ہیں۔

’’یو ٹرن‘‘

انہوں نے کہا کہ جس نے بھی اپنی زندگی میں مقابلہ کیا ہو وہ یوٹرن کا مطلب سمجھتا ہے، حالات کے ساتھ ساتھ حکمت عملی تبدیل کی جاتی ہے، میرا نظریہ پاکستان کو فلاحی ریاست بنانا ہے اور اسی مقصد کے لیے ایک طریقہ ناکام ہوگا تو میں دوسرا طریقہ اختیار کروں گا۔

نیب پر کوئی اختیار نہیں

اپوزیشن کے خلاف نیب کیسز کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ یہ تمام کیسز ہمارے آنے سے پہلے بنائے گئے تھے، نیب ہمارے ماتحت نہیں ہمارا اختیار صرف جیلوں پر ہے۔

عمران خان نے کہا کہ اپوزیشن کا پہلے دن سے ایجنڈا ایک ہی تھا، ہم تو پہلے دن الیکشن پر تحقیقات کے لیے آمادہ تھے لیکن یہ اس کے لیے بنائی گئی کمیٹی میں آئے تک نہیں، پھر فیٹف کے لیے ہونے والی قانون سازی میں 34 ترامیم کا مطالبہ کیا جس کا مقصد نیب ختم کرنا تھا، جب ہم کہتے ہیں کہ این آر او نہیں دیتے تو اس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ احتساب کے ان قوانین میں تبدیلی نہیں کرنے دیں گے، نہ صرف نیب بلکہ ایف آئی اے اور دیگر اداروں میں جو تحقیقات چل رہی ہیں ہم چاہتے ہیں وہ تکمیل تک پہنچیں۔

جہانگیر ترین کے پاس کوئی پارٹی عہدہ نہیں

جہانگیر خان ترین سے متعلق سوال پر وزیر اعظم نے کہا کہ ان سے 10 سال پرانا تعلق ہے کیس کا افسوس ہوتا ہے تاہم ان کے خلاف کارروائی ہورہی ہے اور جہانگیر ترین کے ساتھ شہباز شریف پر بھی ایف آئی آر ہوچکی ہے، مسابقتی کمیشن اور ایف آئی اے میں بھی تحقیقات ہورہی ہیں، چینی کے کارٹیل پر اس طرح پہلی بار کام کیا گیا، ہم تو قانون کے مطابق چل رہے ہیں، اس معاملے میں ہمارے لوگ بھی ہیں اور دوسرے بھی۔

اس سوال پر کہ کیا جہانگیر ترین اب بھی پی ٹی آئی کا حصہ ہیں؟ اس کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ جہانگیر ترین کے پاس تحریک انصاف کا کوئی عہدہ نہیں ہے جس پر بھی تحقیقات شروع ہوئی ہیں ان کا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

انہوں ںے کہا کہ پہلے بھی شوگر مافیا تھا لیکن کبھی ان کے خلاف تحقیقات نہیں ہوئیں۔ پاکستان کے شوگر ملز ایسوسی ایشن کے بڑے طاقت ور لوگ چینی کی قیمت کا تعین کرتے تھے لیکن ان پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا تھا، ہم نے پہلی بار یہ کام کیا۔

ہمارے زمانے میں صرف شہباز شریف کا کیس بنا ہے، ان کے دفتر میں کام کرنے والے دو ملازم پکڑے گئے جن کے بینک اکاؤنٹ سے اربوں روپوں کی منتقلی کے ثبوت ملے۔

فردوس عاشق اعوان پر کوئی کیس نہیں!

فردوس عاشق اعوان سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ معاون خصوصی اطلاعات پنجاب پر کوئی کرپشن کیس نہیں، محکمہ اطلاعات میں کچھ مسائل تھے اور ہمارے ایک دو لوگوں کو ان سے مسئلہ تھا جس کی وجہ سے ان کا تبادلہ کیا گیا تھا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ وفاق اور صوبوں میں جہاں بھی کسی وزیر سے متعلق کرپشن کی اطلاعات ملتی ہیں تو میں اپنے ایسے ایک ایک وزیر کی آئی بی کے ذریعے خود تحقیقات کرواتا ہوں۔

نعیم بخاری چیئرمین پی ٹی وی کیوں؟

چیئرمین پی ٹی وی کے حوالے سے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ نعیم بخاری پاناما میں میرے وکیل بعد میں بنے وہ گزشتہ 50 سال سے پی ٹی وی سے وابستہ ہیں اور ان سے زیادہ اس ادارے کو شاید ہی کوئی سمجھتا ہو، ہماری درخواست پر انہوں نے یہ ذمے داری قبول کی ہے، یہ ایگزیکٹو نہیں ہیں بورڈ کے چیئرمین ہوں گے جو پالیسی بناتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی وی پر حکومت کا مؤقف سامنے آنا چاہیے لیکن اس کی ساکھ بھی بی بی سی اور ٹی آر ٹی کی طرح بنانے کی ضرورت ہے، پی ٹی وی پر حزب اختلاف کو وقت ملنا چاہیے۔

’’نوکریاں 1 کروڑ سے بڑھ جائیں گی‘‘

انہوں نے کہا کہ 5 سال میں نوکریاں فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا، ہمارے پانچ سال میں نوکریاں ایک کروڑ اور گھر 50 لاکھ سے بھی زیادہ ہوجائیں گے، بنڈل آئی لینڈ اور راوی اربن پراجیکٹ ہمارے دو بڑے منصوبے ہیں جس سے یہ ممکن ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ آج پاکستان کی تاریخ میں سیمنٹ کی پیداوار سب سے زیادہ ہوچکی ہے، یہ دو نئے شہر بسنے جارہے ہیں، راوی پراجیکٹ کے لیے لوگوں سے زمینیں لینے کے کوئی زبردستی نہیں کی جارہی، اس حوالے سے غلط خبریں پھیلائی جارہی ہیں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ان منصوبوں سے نوکریاں ملیں گی اور سمندر پار پاکستانی یہاں سرمایہ کریں گے، ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کی صورت حال بہتر ہوگی۔

عمران خان نے کہا کہ بی آر ٹی کا ایشیائی ترقیاتی بینک کا منصوبہ ہے، اس منصوبے پر ہمیں سبسڈی نہیں دینا پڑے گی، اس منصوبے کی شفافیت کے حوالے سے کوئی بھی سوال اٹھے گا تو ہم تحقیقات کروانے کے لیے تیار ہیں۔

عثمان بزدار تاریخ کے بہترین وزیر اعلیٰ

پنجاب حکومت کی کارکردگی سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ پانچ سال بعد عثمان بزدار پنجاب کی تاریخ کے بہترین وزیر اعلیٰ ثابت ہوں گے، اس کا پیمانہ یہ ہوگا کہ عام لوگوں کو کیا سہولیات دی جارہی ہیں؟ 2021ء تک ہر خاندان کے پاس ہیلتھ انشورنس کارڈ ہوگا جس سے 10 لاکھ روپے تک کا علاج کرایا جاسکے گا۔

’’نواز شریف کی بیرون ملک بھیجنے کے لیے دباؤ نہیں تھا‘‘

عمران خان نے کہا کہ نواز شریف کو بیرون ملک بھیجنے کے لیے کسی کا دباؤ نہیں تھا، ہم نے جو رپورٹس دیکھیں تو سوچا کہ کیا ایک آدمی کو اتنی بیماریاں ہو بھی سکتی ہیں؟ شہباز شریف نے ہائیکورٹ کو ضمانت دی کہ وہ علاج کروانے جارہے ہیں، مشرف دور میں بھی یہی انہوں نے کیا، ہم سات ارب روپے کی ضمانت چاہتے تھے لیکن عدالت نہیں مانی۔

انہوں نے کہا کہ میرے اوپر نہ کوئی دباؤ ہے نہ کوئی ڈال سکتا ہے، دباؤ میں وہ آتا ہے جسے کرسی پر جمے رہنے کا مسئلہ ہے، فوج اور آئی ایس آئی کو سب پتا ہوتا ہے، جو میں فون کرتا ہوں یا کوئی رابطہ کرتا ہے انٹیلی جینس ایجنسی کو اس بارے میں معلوم ہوتا ہے، انہیں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی وزیر اعظم کیا کررہا ہے، جو لوگ کرپشن کرتے ہیں وہی دباؤ میں آتے ہیں۔

خارجہ پالیسی

وزیر اعظم نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ بھی تھا اور نریندر مودی وہاں مظالم کررہا تھا لیکن نواز شریف نے کوئی بات نہیں کی، کشمیر پر پاکستان کا جو آج مؤقف ہے اس سے پہلے کبھی نہیں تھا، ہم نے کشمیر کاز کو ہر فورم پر اٹھایا ہے، سعودی عرب سے تعلقات بہترین ہیں، یو اے ای سے ویزے کے معاملے پر بات ہورہی ہے، چین اور ترکی سے تعلقات بہتر ہوئے ہیں، افغانستان سے اب وہ تعلقات ہیں جو پہلے کبھی نہیں تھے، ڈومور کرنے والا امریکا اب پاکستان کی تعریفیں کررہا ہے، پاکستانی کی خارجہ پالیسی جیسی آج ہے پہلے کبھی نہیں تھی۔

عمران خان نے کہا کہ جو لوگ پیسے لے کر تنقید کرتے ہیں وہ عوام کے سامنے بے نقاب ہوجاتے ہیں، صحیح معنوں میں تجزیہ کرنے کی اہلیت رکھنے والے اور پڑھے لکھے صحافی معاشرے کا اثاثہ ہوتے ہیں۔
غلط زمرہ۔ اسے تو لطائف کی لڑی میں ہونا چاہیے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
غلط زمرہ۔ اسے تو لطائف کی لڑی میں ہونا چاہیے۔
مُجھے شک ہے یِہ بیان بھی فوج نے دباؤ سے دِلوایا ہو گا تاکہ اُن کے گلے کُچھ نہ پڑے۔
کچھ سابق جرنیل اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں تھے۔ اب ان کا سافٹویئر بھی اپڈیٹ کر دیا گیا ہے۔
جرنیل حکومتی خارجہ پالیسی پر چل رہے ہیں۔ یہ تبدیلی نہیں ہے تو کیا ہے؟
 

جاسم محمد

محفلین
باس تو مسٹر ایف ایچ ہے جِس نے ماسک بھی نہیں پہن رکھا منطق کی رُو سے۔
عموما جمہوری ریاستوں میں طاقت کے تین ستون ہوتے ہیں:
  • مقننہ
  • انتظامیہ
  • عدلیہ
پاکستانی “جمہوریہ” میں یہ تینوں ایک ہی طاقت کے نیچے ہیں۔ اس نظام کی خرابی کو کون ٹھیک کرے گا؟
مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ پر ایک شخص کا قبضہ ہے، نواز شریف - Pakistan - Dawn News
 
Top