فوج کو سوچنا ہو گا، زخم بہت گہرا ہوتا جا رہا ہے

فوج کو کیا سوچنا چاہیے؟

  • کیا عمران خان سے استعفیٰ لے لینا مسئلے حل کرنے میں مدد دے گا؟
  • عمران خان کے متبادل کے طور پر کسے لایا جائے؟
  • نواز شریف اور زرداری اور اُن کے ساتھی سیاستدانوں پر بنے بدعنوانی کے کیس محض سازشی اور جھوٹے ہیں یا اُن میں کچھ سچائی بھی ہے؟
  • کیا عمران خان سے پہلے کی حکومتیں کامیاب حکومتیں تھیں؟ اور اُن میں ملک ترقی کرتا رہا؟
  • بالفرض عمران خان یا اُن کے پشت پناہ بھیڑ کے روپ میں بھیڑیے ہیں، تو کیا پچھلے حکومتیں ایمانداری سے گلہ بانی کے فرائض انجام دیتی رہیں ہیں؟
محفلین کے پاس موجودہ سیٹ اپ ہٹا کر متبادل پلان کیا ہے؟ ؟ ؟
میں ان سطور میں کچھ تبدیلی کروں گا۔
جنرل باجوہ کو کیا سوچنا چاہیے؟

  • کیا عمران خان سے استعفیٰ لے لینا مسئلے حل کرنے میں مدد دے گا؟
  • عمران خان کے متبادل کے طور پر کسے لایا جائے؟
  • نواز شریف اور زرداری اور اُن کے ساتھی سیاستدانوں پر بنے بدعنوانی کے کیس محض سازشی اور جھوٹے ہیں یا اُن میں کچھ سچائی بھی ہے؟
  • کیا عمران خان سے پہلے کی حکومتیں کامیاب حکومتیں تھیں؟ اور اُن میں ملک ترقی کرتا رہا؟
  • بالفرض عمران خان یا اُن کے پشت پناہ بھیڑ کے روپ میں بھیڑیے ہیں، تو کیا پچھلے حکومتیں ایمانداری سے گلہ بانی کے فرائض انجام دیتی رہیں ہیں؟
محفلین کے پاس موجودہ سیٹ اپ ہٹا کر متبادل پلان کیا ہے؟ ؟ ؟

یا

فوج کو کیا سوچنا چاہیے؟

  • کیا وزیراعظم سے استعفیٰ لے لینا مسئلے حل کرنے میں مدد دے گا؟
  • وزیراعظم کے متبادل کے طور پر کسے لایا جائے؟
  • سابقہ حکومتوں اور اُن میں شامل سیاستدانوں پر بنے بدعنوانی کے کیس محض سازشی اور جھوٹے ہیں یا اُن میں کچھ سچائی بھی ہے؟
  • کیا اس وزیراعظم سے پہلے کی حکومتیں کامیاب حکومتیں تھیں؟ اور اُن میں ملک ترقی کرتا رہا؟
  • بالفرض موجودہ وزیراعظم یا اُن کے پشت پناہ بھیڑ کے روپ میں بھیڑیے ہیں، تو کیا پچھلے حکومتیں ایمانداری سے گلہ بانی کے فرائض انجام دیتی رہیں ہیں؟
محفلین کے پاس موجودہ سیٹ اپ ہٹا کر متبادل پلان کیا ہے؟ ؟ ؟

 

جاسم محمد

محفلین
الحمد للہ اب پاکستان میں ایک صحتمند اور توانا سوچ ابھر رہی ہے کہ ان کو بھی اب کچھ ہٹ کرسوچنے پر مجبور کیا جائے۔
کاش آپ کو پتا ہوتا کہ بھیڑ کے روپ میں بھیڑیے کون ہیں۔
یہ بھیڑیےآپ کی اپنی پارٹی کے لیڈر ہیں۔ جنہوں نےسویلین بالا دستی کی جنگ لڑنے والے انقلابی مولانا فضل الرحمان کو دھوکہ دے دیا۔ اس لئے اب یہ سویلین بالا دستی والا چورن کہیں اور جا کر بیچیں۔
 
کسی آمر جرنیل نے ملک کی معیشت کو جمہوریت پسندوں کی طرح تباہ نہیں کیا۔


کیا بات ہے ، صاحب۔

ٓبات سمجھنے اور سمجھانے کے لئے مجھے تھوڑی تمہید باندھنی پڑے گی۔
میں پاکستانی فوج سے بہت متاثر ہوں۔ ، یہ ٓبہت ہی پروفیشنل افواج ہیں۔ اپنے فوجی کام میں ماہر، لڑنے میں بے مثال ، ہتھیآروں کے استعمال میں بے مثال، جذبہ حب الوطنی سےبھر پور، ٓجان دینے کے لئے تیار۔ ہر تمغہ ان جوانوں نے اپنی بھرپور محنت سے حاصل کیا ہے۔ ان کو خوب پتہ ہےٓ کہ کس گروہ سے کس طرح نمٹنا ہے۔ فوجی پلاننگ، سٹریتیٓجک پلاننگ، ٹیکٹیکل داؤ پیچ، ان ٓکو بہت ہی بہترین آتے ہیں۔ ان کی بے مثال صلاحیتوں کو سات سلام، دل سے سلام، ہماری عزتوں اور اثاثوں کے ان بے مثال ٓرکھوالوں کو ایک بار پھر سات سلام۔ ان بہترین صلاحیتوں ، بہادری اور دمن سٓے نبٹنے کی حکمتٓ کی وجہ سے دشمن افواج اور دشمن ممالک، پاکستانی افواج کے خلاف مسلسل پراپیگنڈہ جاری رکھے ہیں۔ میں یقیناً اس سے بہت دور ہوںٓ

ٓہم نے یہ طے کرلیا کہ جس طرح ایک بہترین دل کے سرجن کو سرجری آتی ہے، اسی طرح افواج پاکستان ، خاص طور پر ان جنرلوں کو ٓفوجی مہارت حاصل ہے۔ جس طرح دل کے ماہر سرجن کو دل کی سرجری آتی ہے ، اسی طرح ایک کمپیوٹر انجینئر ، سوفٹ وئیر انجینیر اپنے کام کا ماہر ٓہوتا ہے اور ایسے ایسے محیر العقول سافٹ وئیٓر جنم دے چکا ہے کہ جن کی نظیر نہیں ملتی ۔ اسی طرح ہڈیوں کا ڈاکٹر ، دل کی سرجری نہیں کرسکتا، اسی طٓرح دل کا سرجن ، ہڈیوں کی سرجری نہیں کرسکتا۔ میں ایک سوفٹ وئیر انجینئر ہوں، مجھے اس پر بہت فخر ٓہے، اتنا ہی جتنا دل کے ایک سرجن یا ہڈیوں کے سرجن کو ہو سکتٓا ہے یا ایک فوجی جوان کو ہو سکتا ہے۔

کیا مجھے اجازت ملے گی کہ میں دل کی سرجری کروں یا ، ہڈیوں کی سرجری کروں۔ اگر ایسا کروں گا تو مرنے والے کا قتل کہلائے گا۔ اایک انسان کی زندگی سے کھیلنے کا جرم ، جس کی سزا موت ہے۔ یہی صورت حال فوٓج میں بھی ہے۔ کوئی بھی مجھے ایک بریگیڈ کیا ، ایک ٓبٹالین کی قیادت دینے کے لئے تیار نہیں ہوگا۔ جس طرح فوجی قیادت کے سٹینڈرڈ پروسیدرز طے ہیں، ان کے مرحلے طے ہیں، رتبے طے ہیں، اسی طرح آج کل ہر میدان، ہر صنعت کا حال ہے۔ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ کہ ایک فٓن کا مولا، دوسرے فن کا جاہل ہے۔ ایک سرجن ، سافٹ وئیر لکھے گا تو صرف تکے مارے گا، ایک سافٹ وئیرٓ انجٓینئر ، دل کا آپریشن کرے گا تو بندہ جان سے جائے گا۔ یہی حال کاروبار کا ہے، کہ ایک ایم بی اے ، جانتا ہے کہ ٓبزنس یونٹ کیا ہے، آرگنائزیشن ٓیونٹ کیا ہے، ایڈمنسٹریٹیو یونٹ کیا ہے، کاروبار ہے کیا اور کس طرح چلانا ہے۔ ایک فوجی، سرجن یا انجٓینئر اب تک کسی طور ٓبھی ، بلین ڈالرز کمپنیاں بنانے میں نام پیدا نہیں کرسکے، بلکہ ان کو آپ پھوس دے دیجئے ، یہ اس کو تباہ کرنے کے لئے ، آگ خود لے آتے ہیں۔

میں نے جب بھی کسی کو پروموٹ کیا تو اس سے یہ سوال ضرور پوچھا، کیا آپ "ذمہ ٓداری" اٹھانے کے لئے تیار ہیں؟ مثبت جواب پاکر، میں نے یہ بھی واضح کیا کہ یہ آُ کی ذمہ داری ہے کہ آپ کی ٹیم میں کوئی بٓھی فیل نا ہو، کسی بھی فیلیور کے ذمہ دار آپ قرار پائیں گے۔

موجودہ صورت حال یہ ہے کہ ملٹری اور ملٹری کا سربراہ ، پاکستان میں ہونے والے ہر ہر فیلیور کٓا ذمہ دار ہے۔ وہ اس لئے کہ ملٹری ، حکومت کے ماتحت نٓہیں، بلکہ حکومت ، ملٹری کے ماتحت ہے۔ جب بھی کسی صدر یا پرائم منسٹر نے فوج کی مرضی کے خلآف کچھ بھی کیا تو فوج نے ہمیشہ ٓجوابی کارواءٰ کی، ایوب خان، ضیاء الحق، پرویز مشرف اور باجوہ اس کے سامنے سامنے کی مثالیں ہیں۔ یہ ویڈیوٓ دیکھئے تاکہ اندازہ ہو کہ کس طرح پرویز مشرف کی برطرفی کی فوج نے مخالفت کی

تو سوال یہ ہے کہ کیا سیاست اور معیشیت چلانا بھی فوج کا کام ہے؟ٓ فوج کے ساتھ سب سے بڑا ظلم یٓہ ہے کہ ہر ایک اس فوج سے بری طرح ڈرتا ہے، اور اس فوج کی چاپلوسی فرض سمجھتا ہے۔ جس کے نتیجے میں ایک فوجی جو، بارہویں جماعت کے بعد صٓرف کسرت کرنا اور بندوق چلانا سیکھتا ہے، وہ جنرل بن کر بھی ایک بہٓت ہی پیچھے کا کاروباری ہوتا ہے۔ فوجیوں کی کسی بھی کاروبار کو چلانا نہیں آتا چاہے وہ اسٹیل مل ہو یا کاروبآر مملکت ہو، لیکن وہ اس بھرے کا شکار ہیں کہ چونکہ وہ ایکٓ بڑی فوج کی ایڈمنسٹریشن کرسکتے ہیں تو وہ کسی بھی صنعت یا کاروبار کو چلا سکتے ہیں۔ پچھلے ستر سال گواہ ہیں کہ فوٓجیوں نے جب بھی کوئی کاروبار یا مملکت سنبھالٓی ہے ، بڑی محنت سے اس کو تباہ و برباد کیا ہے۔

چونکہ جو لوگ بہت ہی بڑے ٹیکس ادا کرنے کی پوزیشن میں ، ان کٓے ہی بھائی بھتیجے جرنیل ہیں اور کور کمانڈر ہیں ۔ ٓلہذا ، یہ ٹیکس ادا نہیں کرنا چاہتے ، اور فوج اس ویلتھ سرکولیش کے معانی بھی نہیں جانتی۔ پاکستان میں معیشیت کو تباہ کرنے والوں میں سب سےٓ بڑا ہات افواج پاکستان کا ہے۔ یہ لوگ اس بات کو سمجھنے کے قابل ہی نہیں ہیں کہ ٹیکس ادا کرنے والے کو اسی ٹیکس کے فائیدے بے تحاشہ ملتے ہیں۔

ٓآج تک کا سارا ادھار کس مد میں خرچ ہوا ہے؟ سب سے بڑا خرچہ افواج پاکستان کا ہے، یہی افواج پآکستان ، حکومت کو مجبور کرتی ہیں کہ قرضہ لو اور لینڈ کروزر امپورٹ کرو۔ مرسیڈیز امپورٹ کرو، جس میں فوج کے لئے کوئی ٹیکس نا ہو۔ میرے پاس بہت سی مثالیں ہیں ، جہاں لیبر ، ٓپاکستان کی، مٹی پاکستان کی ، محنت پاکستانیوں کا اور تو اور کورنگی کا پشتہ پاکستانی مٹی کا اور قرضہ ڈالروں میں ٓ، کیا ان مزٓدوروں کو تنخواہ ڈلروں میں دی گئی تھی ٓ؟ ان جنرلوں کے بچے امریکہ میں کیسے بڑھتے ہیں؟ کبھی پوچھا ہے؟

افواج پاکستان کو یہ مان لینا چاہئے کہ معیشیت، ٹیکسیشن، کاروبار، ان کے بس کا کام اس وقت تک نہیں جب تک ان کے پاس مناسب تعلیم نا ہو۔ اگر یہی کچھ کرنا ہے تو فوجیٓ کو بھی فائنانس، بزنس، معیشیت کی تعلیم دلوآئیں۔ نا کہ تکوں پر کام چلائیں۔

کیا وجہ ہے کہ آج پاکستان میں ای کمپنی بھی بلین ڈالر کی کمپنی نہیں ہے؟ ٓکیا وجہ ہے کہ پاکستان میں کاروبار کے لئٓے وہ ماحول نہیں ہے جو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ہے؟ کیا وجہ ہے کہ دولت کی گردش معمولی ہے؟ اس لئے کہ اس کا بیڑہ ٓاس فیلڈ میں مکمل جاہل فوجیوں نے اٹھایا ہوا ہٓے ۔

پاکستان کا سب سے مہنگا خرچہ فوج ہے، عوام نہیں۔ یہ عوام روز کھاتی ہے ، آور روزگار کے مواقع ڈھونڈتی ہے، اس ٓمعاشی پسماندگی سے باہر نکلنے کی راہ میں افواج پاکستان سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
وہ کونسا فوجی ہے جو ریٹائر ہونے کے بعد کسی بڑی انڈسٹری کا سربراہ بننے کے خواب نہیں دیکھتا؟
افواج کو چاہئے کہ وہ کام کریں جس میں انہیں مہارت ہے، اور ایسے ٓکام کو بندوق اور سفارش کے زور پر نا حاصل کریں، تجارت ، معیشیت، ٓفائنانس، اور سیاست ان لوگوں کے لئے ٓچھوڑ دیں جو اس کام کے ماہر ہیں۔

جب ایک سرجن غلطی کرتا ہے تو ایک آدمی مرتا ہے۔ جب ایک جنرل معیشت ، سیاست یا کاروبار مملکت چلانے کی کوشش کرٓتا ہے تو کروڑوں آدمی پسمٓاندگی کا شکار ہوجاتے ہیں

پناہ مانگتا ہوں رب کی کہ میں جاہلوں میں سے نا ہوجاؤں۔

والسلام
ٓ
 

جاسم محمد

محفلین
آج تک کا سارا ادھار کس مد میں خرچ ہوا ہے؟ سب سے بڑا خرچہ افواج پاکستان کا ہے، یہی افواج پآکستان ، حکومت کو مجبور کرتی ہیں کہ قرضہ لو اور لینڈ کروزر امپورٹ کرو۔
پاکستان کا سب سے بڑا خرچہ پچھلی حکومتوں کے لئے گئے قرضوں کی واپسی ہے۔
web-whatsapp-com-cd77ee2a-7124-4d15-a8b7-4f27002d1b68-jpg.586970

جبکہ پاکستان کی سب بڑی امپورٹ تیل، مشینری اور کیمیکل ہے۔


اس میں کیا شک ہے کہ فوج کو سیاست و معیشت میں دخل اندازی کا کوئی حق نہیں۔ لیکن کیا جمہوری سیاست دانوں کو بار بار حکومتیں ملنے کے باوجود سندھ کو کھنڈرات بنانے کا حق ہے؟
 
ٓ
پاکستان کا سب سے بڑا خرچہ پچھلی حکومتوں کے لئے گئے قرضوں کی واپسی ہے۔

پچھلی حکومت کون سی، پاکستان کی ساری حکومتیں ، جنرل بادشاہ کے بریف کیس کیرئیر تھے۔ جب بھی کسی نے اس میں تبدیلی لانے کی کوشش کی تو کبھی جٓنرل بادشاہ ایوب خان، کبھی یحیی خان ، کبھی ٓجنرل بادشاہ، پرویز مشرف، کبھی جنرل بادشاہ ضیا الحق، کبھی جنرل بادشاہ، قمر باجوہ ، اپنا اثر رسوخ دکھانے سامنے آجاتے ہیں ۔ٓ

ٓ کیا آپ اتنے ہی معصوم ہیں ، جتنا ظاہر کررہے ہیں ؟

آٓپ کا بریک ڈاؤن اچھا ہے، لیکن اس مائیکرو فوکس تجزیہ سے کام نہیں چلے گا۔ ان سب مدوں کا جن کا آپ نے الٓگ الگ تجزیہ کیا ہے، اس سب کا 80 فی صد فوج ہی کھا جاتی ہے۔ ٓ
یہ قرضے کس لئے ، ٓلئے گئے تھے؟ افواج پاکستٓان کی مرضی کے بغیر ، جنرل بادشاہ، معاف ٓکیجئے گا، جنرل باجوہ، اور اسی قسم کے بادشاہوں کی مرضی کے بغیر ، کوئی قرضہ کس طور حاصل کیا جاسکتا ہے؟ دولت کی گردش، ٹیکس کی وصوٓلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ افواج ٓپاکستان ہیں ۔ جن کو کاروبار مملکت کا ٓالف کے نام لٹھ نہیں آتا۔ ٓذمہ داری انہی کی ہے جو اس اعلی عہدے پر فائز ہیں۔ جن کی مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا۔

نواز شریف نے جب پرویز مشرف کو ریٹائر کیا تھا تو 3 گھنٹے کے لئے جنرل بادشاہ کوٓن بنا تھا ؟ ملٹری کیوں چراغ پاء ہوئی تھی اس جنرل بادشاہ کے ہٹائے جانے پر؟

وقت آگٓیا ہے کہ پاکستان کی فوج کی تعداد کو آدھا کیا جائے ، کیوں کے ہندوسٓتان ، ایک نیوکلیرر طاقت پر حملہ نہیں کرے گا، اور فوج کو سول حکومت کے ماتحت کیا جائے۔ پاکستان کو اب آزادی چاہئیے ،ٓ جنرل بادشاہ اور اس کے ٹولے سے۔ ہندوستان سٓے سارا جھگڑا ہی اس لئے ہے کہ فوج کا بجٹ بڑھتا رہے۔ دونوں طرف۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
یہ قرضے کس لئے ، ٓلئے گئے تھے؟
سی پیک، پل، سڑکیں، میٹرو بنانے کیلئے جو ذرائع آمدن پیدا نہیں کرتے۔ اور آنے والی حکومتوں پر بوجھ ہوتے ہیں۔ لیکن چونکہ ان میں کمیشن ٹھیک ٹھاک ملتا ہے اس لئےسابقہ حکومتوں نے ان کو پروموٹ کیا۔
 

آصف اثر

معطل
سی پیک، پل، سڑکیں، میٹرو بنانے کیلئے جو ذرائع آمدن پیدا نہیں کرتے۔ اور آنے والی حکومتوں پر بوجھ ہوتے ہیں۔ لیکن چونکہ ان میں کمیشن ٹھیک ٹھاک ملتا ہے اس لئےسابقہ حکومتوں نے ان کو پروموٹ کیا۔
یعنی آپ کو غریب کے لیے سہولت بہم پہنچانے سے زیادہ پیداگیری کی فکر ہے؟
 

جاسم محمد

محفلین
یعنی آپ کو غریب کے لیے سہولت بہم پہنچانے سے زیادہ پیداگیری کی فکر ہے؟
غریب کو سہولت کے نام پر لاکھوں روپے کا مقروض کیا گیا ہے۔ اس کا حساب کون دے گا؟ ہمیشہ چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے چاہئے۔ غریب روٹی کو ترس رہا تھا اور شریفین باہر سے قرضے لے کر 2 ارب ڈالر کی میٹرو بنا رہے تھے۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ خیال، اک الگ موضوع کا تقاضہ کرتا ہے، مگر سامنے کی تین چار باتیں احباب کی نذر ہیں۔

پاکستانی فوج، یعنی پیادہ فوج کی سیاست میں مداخلت، اور یہ میں نہیں صالح ظافر صاحب کی خبر کہہ رہی ہے، اس بار بھی پاکستان کے حق میں نہ رہی۔

آرمی چیف نے مولانا کو بلایا۔ مولانا نے جا کر سیاسی بلوغت کا ثبوت دیا۔ مگر ظاہراً بات نہ بن سکی۔ ظافر صاحب کی خبر کے مطابق تو یہ رہا کہ مولانا نے فوجی سربراہ کے یہ کہہ دینے پر کہ عمران نیازی صاحب آئینی حکمران ہیں، کا اشارہ بھی نہ سمجھا اور اپنے موقف پر قائم رہے۔ دوسرا اک بہت اہم واقعہ جنرل باجوہ کا پاکستان کے کاروباری حلقوں سے ملاقات کا ہے اور اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ ان کی کراچی میں گفتگو، راولپنڈی میں ملاقات اور فوجی ترجمان کے مسلسل مثبت رپورٹنگ پر اصرار کے باوجود، کاروباری حلقے ان کی یقین دہانیوں پر اعتبار کرنے سے قاصر ہیں۔

کہتے ہیں کہ جب آپ کے ہاتھ میں ہتھوڑا ہو تو تمام مسائل کیل نظر آتے ہیں۔ فوج سیاست و سماج میں مداخلت جنرل سکندر مرزا کے وقت سے ہی ظاہر ہے۔ مگر بید و بندوق نے پاکستان کے حق میں کبھی بہتر نتائج پیدا نہیں کیے۔

عمران نیازی صاحب کی پہلے کسی قدر ملفوف یعنی درپردہ اور اب کھلم کھلا حمایت بھی یہی کر رہی ہے۔ میرے خیال میں، اور یہ خیال غلط بھی ہو سکتا ہے، فوج شاید پہلی مرتبہ اس سیاسی بےبسی کا شکار ہے جس سے اس نے پاکستانی سیاست کو کئی دہائیوں سے دوچار کر رکھا ہے۔ اب صورتحال چیک کر لیجیے:

۔ عمران نیازی صاحب سے پاکستان نہیں چلا، اور چلنا بھی نہیں۔ اس حکومت میں قابلیت اور ساکھ ہی نہیں۔

۔ ایسی معیشت کے ساتھ اک سیدھا مطلب یہ ہے کہ پاکستان اپنے تمام فوجی سیاسی اور بقا کے راز، معیشت کے عوض گروی رکھنے پر مجبور ہوتا چلا جائے گا۔ سی پیک کی دستاویزات، آئی ایم ایف کے پاس ہونا اک ثبوت ہے۔

۔ کمزور معیشت اک سیاسی و سماجی افراتفری کو جنم دے گی۔ دنیا اک ایٹمی قوت کو ایسا دیکھنا نہیں چاہے گی۔ پاکستان کے خلاف، اگر اک شدید اندرونی خلفشار کی بنیاد پر اک عالمی کیس بنا تو اک اکیلا ملک کچھ نہیں کر پائے گا۔ کشمیر پر پاکستان کا حال اک اشارہ ہی کافی ہے، اور چین میں صرف 20 منٹ کی ملاقات کی طرف مولانا اشارہ کر چکے ہیں۔

۔ کیچ 22 یعنی دوہری مشکل یہ ہے کہ فوج اگر عمران نیازی کے سر پر سے ہاتھ اٹھاتی ہے تو باقی بچ جانے والی جماعتوں کے ساتھ، لکھے ہوئے قانون کے زیرتحت وہ وہ زیادتیاں ہو چکی ہیں جو اسے بطور اک ادارہ مستقبل میں بہت ساری اندرونی ٹرف چھوڑنے پر مجبور کر سکتی ہیں۔ ادارہ جاتی پسپائی بہرحال تکلیف دہ ہو گی۔

۔ عمران نیازی کےساتھ ملک چل نہیں سکتا، ملمع کاری۔ جتنی مرضی ہے، کر لیجیے۔ دو سیاستدانوں کو آپ موت کے جبڑوں میں دے چکے۔ موت کا بس جبڑا چلانا ہی باقی ہے۔ کاروباری لوگ آپ کی بات سن لیتےہیں، مانتے نہیں۔ معیشت پگھلاؤ کا شکار ہے۔ اندرونی خلفشار کی انتہا اسی بات سے ظاہر ہے کہ میڈیا پر پابندیاں ہیں۔

میرے سمیت لوگ فوج سے خوف کا شکار ہیں، مگر مریم کا رونا اور نواز شریف کے حکومت کےبرعکس، موجودہ حکومت کی “پرفارمنس” عوام کو یاد رہیں گے۔

۔ سیٹھ میڈیا اور گوئبلز کے تخلیق کردہ انصافی بونوں نے اک سماجی انتشار تشکیل دیا ہے، جو آپ کو واہ واہ تو کرتے ہیں، مگر واہ واہ مسائل حل نہیں کرتی۔

بات تھوڑی پھیل گئی، اس کی معذرت۔ نکات اور بھی ہیں، مگر سمیٹتا ہوں یہ کہہ کر کہ پاکستان اس وقت کلاسیکی گرِڈ لاک (شکنجے) میں ہے۔ سیاسی تشدد کا خوف موجود ہے۔ کسی بھی بڑے سیاستدان کی موت ہونے کی صورت میں پاکستان کو اک شدید دھچکا لگ سکتا ہے، اور اس کی ذمہ داری، بہرحال مجھ پر نہیں ہو گی۔ بازاروں، گلیوں اور عام محفلوں میں لوگ اب فوج کے بارے میں کھلے عام اشارے کرتے ہیں اور احترام نہیں بلکہ تشدد کے خوف سے خاموش رہتے ہیں۔ تقابل یہ ہو رہا ہے کہ فوج کی سیاست میں مداخلت، بسم اللہ، مگر تاریخی حوالہ اور موجودہ حکومت کے حساب سے اگر کوئی بہتری کبھی ہوئی ہو تو وہ اک دلیل ہو سکتی ہے۔

اندھی طاقت، کالے ویگو ڈالے، اٹھا لیے جانے کا خوف، زندگی تباہ کر دینے کا ڈر وغیرہ بھی ابھی موجود ہے، مگر یہ سیاست و ریاست کے ساتھ ساتھ فوج، بحثیت اک ادارہ پر سے بھی عوامی اعتماد کو ختم کرتا چلا جائے گا۔ یہ وطن، ریاست، قوم کے لیے اچھا شگون نہیں ہو گا۔ میں بحثیت اک پاکستانی شہری، اپنے وطن کا وفادار ہوں، اداروں سے محبت کرتا چلا آیا ہوں، مگر میرے دل میں بھی ان کے احترام میں اب شدید کمی آئی ہے۔ حوالے کے لیے جناب ثاقب نثار، پی کے ایل آئی، چیئرمین نیب کی سر سے پاؤں تک چومنے کی ویڈیو، وینا ملک، حریم شاہ، چوتھے فلور، جنرل آصف غفور کا چھ ماہ مثبت رپورٹنگ کے بیان کے علاوہ، مخالفین کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کی نوعیت بھی شامل ہے۔ باقی کابینہ وزرا کی بدتمیزی و بدتہذیبی اور اس پورے نظام کا ایک ہی فوکس کہ مخالفین کو ڈی-ہیومنائز کیا جائے بھی اک شدید مضبوط وجہ ہے اور کہنے دیجیے کہ اس سارے نظام کی بنیاد میں قومی سلامتی کے ادارے کی حمایت نظر آتی ہے جس کا اظہار نواز شریف صاحب کے دور حکومت سے ہی نظر آنا شروع ہو چکا تھا۔ پانامہ سے اقامہ تو محض اک مثال رہی۔

میری ٹکے برابر اوقات نہیں، مگر سچ کہتا ہوں کہ اتنی مایوسی، بددلی زندگی میں شاید پہلے محسوس کی ہو

اور اس میں شدت اس لیے ہے کہ حکومت نہیں، ریاست کے ادارے اس سارے گھڑمس میں شامل ہیں اور مجھے ان کے سماجی و عوامی مقام کی حقیقی فکر ہے۔ لکھے ہوئے قانون یا اختیار کے اندھے استعمال کی طاقت کے خوف سے بھی معاشرے اور ملک چلائے جا سکتے ہیں، مگر پاکستان کا کانسٹرکٹ (تعمیراتی ڈھانچہ) ویسا ہے ہی نہیں۔

اس سارے قضیئے میں یہ بھی سوچیں کہ نیول یا ائیرچیف کے نام کہیں بھی سننے کو کیوں نہیں ملتے۔ ان کے نام ویسے ہیں کیا؟ آپ کو کوئی علم بھی ہے کیا گوگل کیے بغیر؟

یہ ملک، میرا ملک ہے۔ میرے دادا کی قبر ملکوال میں ہے۔ میرے والد حیات ہیں، مگر وقت آنے پر وہ بھی ملکوال کی ہی خاک بنیں گے۔ اپنا ٹھکانہ بھی مرنے کے بعد وہیں ہو گا۔ اس دھرتی کے ساتھ اپنی جُڑت ہے اور بہت محبت خیال اور وفاداری سے ہے۔ اپنی ریاست اور اپنے ریاستی اداروں کی بالواسطہ بےتوقیری اور اس کے بطن سے پھوٹتا انتشار میرے وطن، میرے لوگوں اور میرے اداروں کو دے کیا رہا ہے؟

ایسا سلسلہ کب تک چل سکتا ہے؟

جیسے انسان ناکام ہوں تو ذاتی زندگیاں برباد ہو جاتی ہیں، ویسے ہی معاشرے و ادارے ناکام ہوں تو ملک برباد ہو جاتے ہیں۔ صومالیہ، شام، عراق، لیبیا، افغانستان بس چند مثالیں ہیں۔ لوگ رُل جاتے ہیں۔ عزتوں والے بھیک مانگتے ہیں اور عزتوں والیاں بازاروں میں بِکتی ہیں۔ اس ناکامی کی ڈھلان کے سفر کو خدارا روکیے۔ موجودہ بندوبست کا نام اس ڈھلان کے ساتھ نتھی ہو چکا ہے۔ اسی لیے تو ہاتھ جوڑ کر درخواست ہے کہ فوج کو سوچنا ہو گا، زخم بہت گہرا ہوتا جا رہا ہے۔

زیادہ تو کیا، بالکل بھی مذہبی نہیں ہوں، مگر اداسی و بےبسی کی کیفیت ہے تو مولا کے آگے دعا و سجدہ ہے: مولا، اس ملک کی خیر رکھ۔ یہاں کے لوگ بڑے بےبس ہیں۔
۔۔۔


ازمبشر اکرم
ربط
فوج نے سوچ لیا ہے۔ مکمل طور پر سلیکٹڈ حکومت کے ساتھ کھڑی ہے۔
فوج نے مولانا کے دھرنے سے ہوا نکال دی۔
 
ہمیں یہ بات سمجھنا چاہئیے کہ فوج کے بجٹ کا ٹارگٹ اتنا ہی ہونا چاہئے جتنا امریکہ یا چین کا ہے، لیکن اس کے لئے معیشت کا آگے بڑھنا ضروری ہے۔ دولت کی گردش میں اضافہ ضروری ہے۔ فوج وہ کام کرے جو اس کو آتا ہے اور دوسرے کام ان لوگوں کے لئے چھوڑ دے جو ان دوسرے لوگوں کو آتا ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
ہمیں یہ بات سمجھنا چاہئیے کہ فوج کے بجٹ کا ٹارگٹ اتنا ہی ہونا چاہئے جتنا امریکہ یا چین کا ہے، لیکن اس کے لئے معیشت کا آگے بڑھنا ضروری ہے۔ دولت کی گردش میں اضافہ ضروری ہے۔ فوج وہ کام کرے جو اس کو آتا ہے اور دوسرے کام ان لوگوں کے لئے چھوڑ دے جو ان دوسرے لوگوں کو آتا ہے۔

11th elections : 2008 = PPP
12th elections : 2013 = PMLN
13th elections : 2018 = PTI
سیاست دان اپنا کام کر رہے ہیں ، فوج اپنا کام کر رہی ہے۔​
 

جاسم محمد

محفلین
ہمیں یہ بات سمجھنا چاہئیے کہ فوج کے بجٹ کا ٹارگٹ اتنا ہی ہونا چاہئے جتنا امریکہ یا چین کا ہے، لیکن اس کے لئے معیشت کا آگے بڑھنا ضروری ہے۔ دولت کی گردش میں اضافہ ضروری ہے۔ فوج وہ کام کرے جو اس کو آتا ہے اور دوسرے کام ان لوگوں کے لئے چھوڑ دے جو ان دوسرے لوگوں کو آتا ہے۔
بہترین تجزیہ
 

الف نظامی

لائبریرین
جس طرح آپ نے 'پی' کو مختلف رنگ دیا ہے اس سے لگتا ہے کہ یہاں تینوں دفعہ 'پوج' مراد ہے۔ :)
اس سے لبرل یا ترقی پسندی مراد ہے اور سبز رنگ بھی اسلام کی نشانی کم رہ گیا اس کو بھی لبرلوں نے ہائی جیک کر لیا سویلین بالا دستی کے نام پر۔
البتہ اس دور میں تو خاص قسم کی ترقی پسندی نظر آتی ہے فوج اور حکومت دونوں ایک رنگ کے لبرل دکھائی دیتے ہیں اور ملکی سافٹ امیج کی ترویج کر رہے ہیں۔ اس حال میں مولانا کا آنا تو ضرور بنتا ہے کہ 2018 کے الیکشن میں بڑے اہتمام سے تمام اسلام پسندوں کو گھر بٹھا دیا گیا اور پارلیمان صرف لاڈلے اور اس کے چہیتوں اور اپوزیشن میں صرف نیب زدہ لوگوں کو رکھا گیا تا کہ لاڈلے کو کوئی تکلیف نہ ہو۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
اس سے لبرل یا ترقی پسندی مراد ہے اور سبز رنگ بھی اسلام کی نشانی کم رہ گیا اس کو بھی لبرلوں نے ہائی جیک کر لیا سویلین بالا دستی کے نام پر۔
البتہ اس دور میں تو خاص قسم کی ترقی پسندی نظر آتی ہے فوج اور حکومت دونوں ایک رنگ کے لبرل دکھائی دیتے ہیں اور ملکی سافٹ امیج کی ترویج کر رہے ہیں۔ اس حال میں مولانا کا آنا تو ضرور بنتا ہے کہ 2018 کے الیکشن میں بڑے اہتمام سے تمام اسلام پسندوں کو گھر بٹھا دیا گیا اور پارلیمان صرف لاڈلے اور اس کے چہیتوں اور اپوزیشن میں صرف نیب زدہ لوگوں کو رکھا گیا تا کہ لاڈلے کو کوئی تکلیف نہ ہو۔
باجوہ ڈکٹرائین
 

محمد وارث

لائبریرین
اس سے لبرل یا ترقی پسندی مراد ہے اور سبز رنگ بھی اسلام کی نشانی کم رہ گیا اس کو بھی لبرلوں نے ہائی جیک کر لیا سویلین بالا دستی کے نام پر۔
البتہ اس دور میں تو خاص قسم کی ترقی پسندی نظر آتی ہے فوج اور حکومت دونوں ایک رنگ کے لبرل دکھائی دیتے ہیں اور ملکی سافٹ امیج کی ترویج کر رہے ہیں۔ اس حال میں مولانا کا آنا تو ضرور بنتا ہے کہ 2018 کے الیکشن میں بڑے اہتمام سے تمام اسلام پسندوں کو گھر بٹھا دیا گیا اور پارلیمان صرف لاڈلے اور اس کے چہیتوں اور اپوزیشن میں صرف نیب زدہ لوگوں کو رکھا گیا تا کہ لاڈلے کو کوئی تکلیف نہ ہو۔
کسی نے بیل سے کہا، جا تجھے چور لے جائیں۔ اس نے کہا، جیسا زبوں حال میرا تمھارے ساتھ ہے ، چوروں کے ساتھ جا کر بھی ویسا ہی ہوگا، میں نے تو وہی مشقت ہی کرنی ہے! :)
 
Top