فوج کو سوچنا ہو گا، زخم بہت گہرا ہوتا جا رہا ہے

آپ کو ساتھ کس کا دینا چاہئے ، ملاء کے نظام کا یا اللہ کے نظام کا؟ مسلمان آج بہت ہی کنفیوژ ہے کہ اللہ کا نظام ، ملاء کے نظام میں پوشیدہ ہے۔ کیا ایسا ہے؟ آئیے دیکھتے ہیں۔

ہم سب کو حکومت کی ضرورت کیوں ہے؟ تاکہ یہ حکومت ایک بہترین معیشیت قائم کرے اور ان آئیڈیالوجیز کا نفاذ کرے جو اللہ کا نظام ہے۔

ملاء کا نظام ، بغداد شریف سے آتا ہے اور اللہ تعالی کا نظام قرآن شریف سے۔

دونوں کا فرض ملاحظۃ فرمائیے۔ آپ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئے، اب آپ کیا کریں؟ ویسے تو بہت سے امور ہیں ، لیکن میں یہاں ایک امر پر زیادہ توجہ دوں گا، وہ امر ہے،
وَأَقَامَ الصَّلاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ

آپ صلاۃ قائم کرنے اور زکاۃ دینے کا جو بھی نظریہ رکھتے ہیں ،آپ اس نظریہ کو ذہن میں لائیے، اور ذرا تصور کیجئے کہ کچھ ایسی یہ نماز ، رسول اکرم بھی پڑھا رہے ہیں۔ قرآن کی آیات کی تلاوت فرمائی، لوگوں نے سنی، نماز ختم، اور لوگ اپنے اپنے گھر گئے؟ کیا ایسا ہی ہوتا ہوگا یا رسول اکرم کوئی تعلیم بھی دیا کرتے تھی، کوئی باہمی مشاورت بھی ہوتی تھی اس کانگریگیشن میں ؟

اب ذرا زکواۃ کا جو بھی تصور آپ کے ذہن میں ہے ، وہ تصور لائیے اپنے ذہن میں، کہ ڈھائی فی صد زکواۃ ، مسجد کو ملاء کو اور کبھی دل چاہا تو غریبوں کو بانٹ دی ورنہ نہیں ، اور صاحب حکومت وقت کرتی پھرے دوسروں سے جنگ ورنہ اس حکومت کی حالت پتلی۔

ذرا سوچئے کہ امریکہ پر ملاء کا قبضہ ہوجاتا ہے ، اور ملاء شریعت نافذ کردیتا ہے۔ وہی شریعت جس میں مسجد، مندر، کلیسا کو ڈھائی فی صد زکواۃ ادا کی جائے ، حکومت کو کچھ نہیں؟ کیا اس ڈھائی فی صد زکواۃ کی خیرات سے امریکہ چل پائے گا؟ ملاء یہ تکا مارے گا، "ہم چلا کے دکھائیں گے" - جیسے 55 اسلامی ممالک چل رہے ہیں۔ :) ۔۔ ہی ہی ہی ہی

ہوا یہ ہے کہ مسلمانوں سے ان جانے میں غلطی ہوگئی کہ وہ بغداد شریف کا نظام ، اللہ تعالی کا نظام سمجھ کر اپنا بیٹھے اور سلطنت عثمانیہ جیسی طاقت بننے کی خوہش میں امریکی ، قرآن حکیم کا نظام اپنا بیٹھے۔

آج "کافر" امریکہ میں اللہ تعالی کی ہدایت کے مطابق ہر بڑھوتری÷اضافہ کا 20 فی صد وصول کیا جاتا ہے اور "مومن" مسلم ممالک میں لوگ اپنے ایمان کے مطابق ،ٍڈھائی فی صد، مسجد، ملاء ، غریب کو ادا کرتے ہیں۔

یہ وہ بنیادی وجہ ہے جس کی وجہ سے سارے مسلم ممالک بہت ہی مردنی کا شکار ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ پھر بھی ملاء کے گیت گاتے ہیں۔ ملاء کی پاکستان مخالفت کسی سے چھپی نہیں۔ پاکستان جنرل بادشاہ یہ خوب جانتے ہیں کہ ملاء ، پاکستان کا ہو ہی نہیں سکتا۔ کہ پاکستان کی پیدائش پر ہی اس کو غیر ضرور ، فالتو قرار دے دیا تھا۔

یہ کہنا کہ سیاست دان اپنا کام کررہے ہیں اور فوج اپنا تو جنرل حمید گل کا آخری انٹرویو ملاحظہ فرمالیجئے، جس میں جنرل حمید گل نے فوج کے پاور سینٹڑ کی خوب نشاندہی کی ہے۔

یہ میرا صد فی صد یقین ہے کہ پاکستان کی دفاع فوج ہی کرتی ہے اور پاکستان کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی فوج ہے جو، سیاست چمکانے کی کوشش میں سب گنوا دیتی ہے۔

اپنے اپ سے سوال کیجئے کہ آپ کو قرآن شریف کا اللہ کا نظام چاہئے یا بغداد شریف کا اللہ کا نظام ۔ بغداد شریف، جس کے نمائندے ہیں ، نظامی (بریلوی) اور دیو بندی ، اہل حدیث، اہل سنت، اور سی طرح کے طرح طرح کے گروہ و گروپ :) ان کو شرم نہیں آتی کہ آج بھی سب کچھ سامنے آجانے کے بعد بھی یہ گمراہ لوگ اپنے ناموں کے ساتھ نظامی، بریلوی، دیوبندی لگاتے ہیں؟

رب کریم ، یا اللہ، تیری پناہ کہ میں جاہلوں میں سے نا ہوجاؤں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
اپنے اپ سے سوال کیجئے کہ آپ کو قرآن شریف کا اللہ کا نظام چاہئے یا بغداد شریف کا اللہ کا نظام ۔ بغداد شریف، جس کے نمائندے ہیں ، نظامی (بریلوی) اور دیو بندی ، اہل حدیث، اہل سنت، اور سی طرح کے طرح طرح کے گروہ و گروپ :) ان کو شرم نہیں آتی کہ آج بھی سب کچھ سامنے آجانے کے بعد بھی یہ گمراہ لوگ اپنے ناموں کے ساتھ نظامی، بریلوی، دیوبندی لگاتے ہیں؟
رب کریم ، یا اللہ، تیری پناہ کہ میں جاہلوں میں سے نا ہوجاؤں۔
بریلوی ، دیوبندی ، اہل حدیث ، اہل تشیع ، اہل سنت ، اور اسی طرح کے طرح طرح کے گروہ ، ان سب کو تبلیغ کرنے کا ایک انداز قرآن پاک میں جو ارشاد ہے وہ یہ ہے کہ داعی کو مدعو کے دل میں گھر کرنا چاہیے ورنہ لٹھ مار کر آپ خواہ کتنی ہی اعلی بات کہہ دیں ، کوئی نہیں سنے گا۔
کیا آپ نے ان تمام گروہوں کے سرکردہ علمائے سے بالمشافہ یا بذریعہ خط و ای میل اپنا پیغام پہنچایا ہے؟ اگر پہنچا دیا ہے تو ٹھیک ہے۔
حکومت کی ضرورت اور زکوۃ حکومت کو دینی چاہیے اس کی مقدار 20 فیصد ہو اور نظام صلوۃ پر آپ نے پرویز صاحب کے دئیے ہوئے فہم کے مطابق گفتگو کی۔
اب میرا ایک مطالبہ ہے کہ آپ ایک علیحدہ زمرے میں جمہوریت کو قرآن پاک سے ثابت کر دیجیے جس میں 51 فیصد لوگ کسی بات پر متفق ہوں تو اسے قانون بنا دیا جاتا ہے۔
 
آخری تدوین:
حکومت کی ضرورت اور زکوۃ حکومت کو دینی چاہیے اس کی مقدار 20 فیصد ہو اور نظام صلوۃ پر آپ نے پرویز صاحب کے دئیے ہوئے فہم کے مطابق گفتگو کی۔

اللہ تعالی کا فرمان بہت ہی واضح ہے، میں نے پرویز صاحب کی کوئی کتاب نہیں پڑھی۔
 
*کیا فوج ایک ادارہ ہے؟*

ڈی جی آئی ایس پی آر حضرت قبلہ آصف غفور صاحب فرماتے ہیں کہ فوج ایک ادارہ ہے.

غفور صاحب اگر آپ کو علم نہیں تو ہم آپ کی معلومات میں اضافہ کر دیتے ہیں. جناب ادارہ اسے کہتے ہیں جوکسی وزیراعظم کے ماتحت نہ ہو بلکہ خود مختار ہو جیسے کہ
عدلیہ، نیب، پارلیمنٹ, میڈیا وغیرہ جو حکومت کے کسی غلط اقدام پر اس سے وضاحت طلب کر سکتے ہوں.

ہماری اپنے دوستوں اور تمام پاکستانیوں سے گزارش ہے کہ چیزوں کی اصل شناخت پر توجہ دیں۔
دراصل فوج نے میڈیا پر موجود موچی اور لفافہ اینکروں اور بوٹ پالشی صحافیوں کے ذریعے سب کو یہ یقین دلا دیا ہے کہ وہ ایک ادارہ ہے۔ جیسے پارلیمنٹ ایک ادارہ ہے۔ یہ اینکر ہر پروگرام میں فوج کی طرف سے حکومت وقت کی حکم عدولی کو اداروں کا ٹکراؤکہتے ہیں اورعوام کو بیوقوف بناتے ہیں. درحقیقت
ٓ
*فوج ادارہ نہیں ،محض ایک محکمہ ہے۔*

جیسا کہ محکمہ تعلیم، محکمہ ریلوے و ترسیلات، محکمہ پولیس, محکمہ جنگلات، محکمہ زراعت وغیرہ۔

یہ ہمیشہ سے ہی محکمہ دفاع تھا، جیسا کہ سب ملکوں میں ہوتا ہے۔ محکمہ ہمیشہ حکومت اور وزارتوں کے تابع ہوتے ہیں.

افسوس کہ جرنیل بتدریج پروپیگنڈہ کے ذریعے فوج کو ادارہ کہہ کر پارلیمنٹ کے برابر لے آئے ہیں۔

آپ کو تو یاد ہو گا آپ ہمیشہ محکمہِ دفاع کے کہتے آئے ہیں۔ سب دوستوں کو چاہئے کہ خود، دوسروں کو اور خاص طور پر سیاسی لیڈروں کو کہیں کہ اسے محکمہ کہنا شروع کریں۔

لوگوں کی نفسیات میں جب اصلیت بیٹھے گی تو سیاسی طور پربہت فرق پڑے گا۔ لوگ بھول چکے ہیں یہ بات۔

پروپیگنڈے کے ذریعے پھیلائی گئی اس غلط فہمی کی ہی بنیاد پر ہر چند سال بعد ایک بائیسویں گریڈ کا ملازم آتا ہے اور کبھی براہ راست آئین کو معطل کر کے یا کبھی بالواسطہ طریقے سے ملک کو اپنی ڈاکٹرائن کے مطابق چلانے کی کوشش شروع کر دیتا ہے۔

جرنیل، معمٓولی، 22 درجے کا ملازم، سارے پاکستان کے منتخب نمائندوں کی جگہ، غیر ملکی سفیروں، غیر ملکٓی وفود سے ملتا ہے، غیر ملکی دورے کرتا ہے، اپنی خارجہ، داخلہ اور دفاعی پالیسیاں لاتا ہے، اپنا بزنس ایمپائر کھڑا کرتا ہے، سول حکومت کو اپنے معاشی ویژن پر لیکچر دیتا ہے اور مذہب اور عمرانیات کی گتھیاں سلجھاتا ہے۔ اگر یہی جرنیل کسی قابل ہوتا تو آج جیف بیزوس، بل گیٹس، یا حسین داؤد داؤد ہرکولیس والا ، یا میاں منشاء کی طرح کا کاروباری ہوتا۔ ٓ اور نا ہی صہیب عباسی یا عتیق رضا جیسا انجینئر پلس کاروباری۔

ضروری ہے کہ 22 درجے کے معمولی ملازم جس کی نا کوئی تربیت کسی کاروباری ادٓارے ، حکومتی ادارے، یا مذہبی یا تعلیمی ادارے کو چلانے کے لئے کافی ہے اور نا ہی تعلیم۔ ایسے اشخاص کو روکا جائے کہ وہ ایسے افراد کو بندوق کے زور پر دوڑا نا سکیٓں جن پر سارے ملک کے عوام نے اعتماد کا ووٹ دیا ہے۔

یہ ضروری ہے کہ قانون سازی کی جائے کہ پاکستان کا کوئی بھی جرنیل، کسی بھی دوسرے پاکستانی کی طرح ، بذریعہ ووٹ ہی ، حکومت چلانے کے قابٓل ہو سکتا ہے، بندوق کے زور پر حکومت ہٹانے کی سزا صرف اور صرف موت ہونی چاہئے کہ یہ ملک و قوم سے عظیم غداری ہے۔

ان 22 درجے کے معمولی ملازمین کی ڈاکٹرائنز کا یہ نتیجہ نکلا ہے، آج ہم دنیا میں خارجہ محاذ پر اکیلے کھڑے ہیں، معیشت ہماری تباہ ہو چکی ہے، داخلی طور پر شدید سیاسی عدم استحکام کا شکار ہیں اور دفاعی طور پر شکست کھا چکے ہیں۔ ملکی تاریخ میں اتنا ڈیپریشن پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا. آج دنیا پاکستانیوں کو دھشتگردوں اور شدت پسندوں کی حمایت کرنے والی قوم سمجھتے ہیں اورسبزپاسپورٹ رکھنے والا ہر شخص دنیا بھر کے ایئر پورٹوں پر ذلیل وخوار ہوتا ہے. یہ صرف انہی داکٹرائنوں کی وجہ سے ہے.

اگر آپ محکمے کو محکمہ سمجھنا اور کہنا شروع کر دیں گے تو آپ کو یہ یاد رہے گا کہ فوج بحیثیت محکمہ آپ کے ٹیکس سے تنخواہ لیتی ہے اور آپ کے ووٹ کے زریعے چنے ہوئے وزیر دفاع اور وزیر اعظم کے تابع ہے. ٓ گا تو آپ خود کھڑے ہو کر اس کو راہ راست پر آنے کے لیئے مجبور کر سکیں گے.
 
20 فیصد مناسب ٹیکس ہے۔ نہ بہت زیادہ نہ بہت کم۔
ٓبہت شکریہ۔
یہ آیت دیکھئے۔

8:41 وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِن كُنتُمْ آمَنتُمْ بِاللّهِ وَمَا أَنزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ وَاللّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

اور جان لو کہ جو کچھ اضافہ تم نے پایا ہو تو اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لئے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اور قرابت داروں کے لئے (ہے) اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کے لئے ہے۔ اگر تم اللہ پر اور اس (وحی) پر ایمان لائے ہو جو ہم نے اپنے (برگزیدہ) بندے پر (حق و باطل کے درمیان) فیصلے کے دن نازل فرمائی وہ دن (جب میدانِ بدر میں مومنوں اور کافروں کے) دونوں لشکر باہم مقابل ہوئے تھے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے

اس آیت کا مفہوم زیادہ تر ملاء یہ لیتے ہیں کہ یہ "انفال" (جنگ میں ہاتھ آئے مال) کے بارے میں ہیں ، جبکہ یہاں اللہ تعالی ایک واضح اصول بیان فرما رہے ہیں ، کسی بھی شے سے تم کو اضافہ ہو (غنمتم) تم کو غناء حاصل ہو ، اس کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول کا حق ہے۔ جبکہ اس آیت میں انفال کا لفظ استعمال ہی نہیں ہوا ہے۔ تو گویا آپ کے پاس جو بھی اضافہ ہوا ، اس کا پانچواں حصہ اللہ تعالی اور رسول اللہ کا حق ہے۔ جو کہ حکومت وقت کو ادا کیا جائے۔ جو بھی اس پانچویں حصے (20 فی صد) کو کھا جاتا ہے اس نے اللہ کا حق کھایا، یہی رباء یعنی سود یا منافع میں سے اللہ کا حق کھا جانا ہے

اس اصول کے مطابق، انفال (جنگ میں ہاتھ آئے مال) کو بھی اضافہ تصور کیا جائے گا۔ لیکن

سورۃ انفال کی آیت نمبر ایک کے مطابق، جنگ میں ہاتھ آیا ہوا تمام انفال (مال غنیمت) اللہ اور رسول کا حق ہے۔

8:1 يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنفَالِ قُلِ الْأَنفَالُ لِلّهِ وَالرَّسُولِ فَاتَّقُواْ اللّهَ وَأَصْلِحُواْ ذَاتَ بَيْنِكُمْ وَأَطِيعُواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
(اے نبئ مکرّم!) آپ سے اَموالِ غنیمت کی نسبت سوال کرتے ہیں۔ فرما دیجئے: اَموالِ غنیمت کے مالک اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ سو تم اللہ سے ڈرو اور اپنے باہمی معاملات کو درست رکھا کرو اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کیا کرو اگر تم ایمان والے ہو


مسلمانوں نے غلطی سے کمائی ، اضافہ یا بڑھوتری پر 20 فی صد ٹیکس ادا کرنا چھوڑ دیا، لہذا ، آج خزانے خالی ہیں۔ اللہ کی آیات کے انکار کی اس سے بڑی سزا کیا ہوسکتی ہے؟ اس لئے ایک دن یہ سب مسلمان ایسے ہوش میں آئیں گے کہ جان جائیں گے کہ شیطان نے ان کو چھو لیا ہو۔

ملاء یہ بات مانتا نہیں کیوں کہ اس کا تعلق بغداد شریف سے ہے نا کہ قرآن شریف سے۔ ملاء سے بچنے کے لئے یہ آیات شیئر کی ہیں۔
 

La Alma

لائبریرین
اور جان لو کہ جو کچھ اضافہ تم نے پایا ہو تو اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لئے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اور قرابت داروں کے لئے (ہے) اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کے لئے ہے۔ اگر تم اللہ پر اور اس (وحی) پر ایمان لائے ہو جو ہم نے اپنے (برگزیدہ) بندے پر (حق و باطل کے درمیان) فیصلے کے دن نازل فرمائی وہ دن (جب میدانِ بدر میں مومنوں اور کافروں کے) دونوں لشکر باہم مقابل ہوئے تھے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے

مسلمانوں نے غلطی سے کمائی ، اضافہ یا بڑھوتری پر 20 فی صد ٹیکس ادا کرنا چھوڑ دیا، لہذا ، آج خزانے خالی ہیں
آپ بڑھوتری کس کو کہتے ہیں، آمدنی کو یا منافع کو؟
اگر یہ منافع ہے تو ہر مالِ تجارت پر اس کی قیمتِ خرید نکال کر، صرف بچت پر 20 فیصد زکوة یا ٹیکس ادا کرنا تو سمجھ میں آتا ہے، لیکن تنخواہ دار طبقہ کے لیے کیا طریقہء کار ہے۔ کیا ان کی ساری کی ساری آمدنی ہی بڑھوتری متصور ہو گی؟ اگر ہاں تو ایسی صورت میں زکوٰة کی ادائیگی کا یہ طریقہ غیر مساویانہ نہیں سمجھا جائے گا؟
اگر زکوٰة کی شرح 20 فیصد ہی تصور کر لی جائے، تو اس کے لیے کم سے کم نصاب کیا ہو گا؟ عمومًا زکوٰة کی فرضیت کے لیے صاحبِ نصاب ہونا لازمی ہے یعنی اگر کسی کے پاس کم از کم ساڑھے سات تولے سونا یا اتنی مالیت کی رقم ایک سال تک کے لیے موجود ہے تو اس پر زکوٰة فرض ہے۔
لیکن ہر بڑھوتری پر اگر لازمًا بیس فیصد دینا ہے تو بظاہر یہی لگتا ہے کہ کوئی نصاب مقرر نہیں۔ ایسی صورت میں جو لوگ پاورٹی لائن سے نیچے ہیں وہ اپنی آمدنی یا پھر منافع پر اگر بیس فیصد ادا کریں گے تو ان کے اپنے پاس کیا بچے گا۔ آپ نہیں سمجھتے یہ ان کے ساتھ سراسر زیادتی ہو گی؟
اس بات کی بھی کیا گارنٹی ہے کہ یہ بیس فیصد زکوٰة لازمًا قومی خزانے میں ہی جمع ہو گی، جس سے امورِ مملکت احسن انداز میں چلانا ممکن ہو سکے گا۔ آپ نے جس آیت کا حوالہ دیا ہے اس سے تو کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ زکوٰة صرف اور صرف حکومتِ وقت کا ہی حق ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی بڑھوتری کا بیس فیصد خود اپنے ہاتھوں سے کسی مسکین یا ضرورت مند کو دینا چاہتا ہے تو شریعت کی رو سے وہ آزاد ہے۔ حکومت اس کو کیسے پابند کر سکتی ہے۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا زکوٰة کا تعلق عبادات سے ہے اور اس سے اجر و ثواب بھی وابستہ ہے؟ کیونکہ جس طرح کسی کو زبردستی نماز نہیں پڑھائی جا سکتی، روزے نہیں رکھوائے جا سکتے، کسی صاحبِ استطاعت کو حج کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا، بالکل اسی طرح حکومت زبردستی زکوٰة کیسے وصول کر سکتی ہے؟
البتہ حکومت امورِ مملکت چلانے کے لیے لوگوں سے بزورِ طاقت ٹیکس ضرور وصول کر سکتی ہے جس کی شرح ملکی ضروریات کے لحاظ سے کم یا زیادہ کچھ بھی ہو سکتی ہے۔
اس ضمن میں ایک اور بات قابلِ توجہ ہے کہ جو مسلمان، غیر مسلم ممالک میں رہائش پزیر ہیں اور وہاں کے قوانین کے مطابق حکومت کو بھاری ٹیکسز ادا کرتے ہیں۔ کیا یہ ادائیگی ان کی زکوٰة ہی متصور ہو گی اور وہ اجر و ثواب کے بھی حقدار ہونگے یا پھر ان ٹیکسز کے علاوہ انہیں مزید بیس فیصد کسی کو زکوٰة کی مد میں بھی ادا کرنا ہونگے؟ ایسی صورت میں مزید بیس فیصد کی ادائیگی یقینًا ان پر اچھا خاصا اضافی معاشی بوجھ ثابت ہو گی۔
جبکہ اس کے برعکس کسی بھی صاحبِ نصاب مسلمان کے لیے، چاہے وہ کسی بھی ملک میں رہائش پزیر ہو، ملکی ٹیکسز ادا کرنے کے ساتھ ساتھ بطور ایک مذہبی فریضہ سالانہ ڈھائی فیصد شرح کے لحاظ سے زکوٰة ادا کرنا انتہائی قابلِ عمل ہے۔
آپ قرآن کی اس آیت پر مزید غور کیجئے گا کیونکہ سیاق و سباق کے لحاظ سے بیس فیصد کی شرح مالِ غنیمت سے متعلق ہی معلوم ہو رہی ہے۔ ویسے بھی قرآن میں کافی جگہ زکوٰة کا ذکر ہے اور زکوٰة کو لفظ "زکوٰة" سے ہی بیان کیا گیا ہے۔ جبکہ اس آیت میں یہ لفظ کہیں استعمال نہیں ہوا۔ گمان غالب یہی ہے کہ یہ آیت زکوٰة سے متعلقہ نہیں۔ واللہ اعلم۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اللہ تعالی کا فرمان بہت ہی واضح ہے، میں نے پرویز صاحب کی کوئی کتاب نہیں پڑھی۔
20 فیصد مناسب ٹیکس ہے۔ نہ بہت زیادہ نہ بہت کم۔
باقی اسلامی ممالک اور مسلمانوں کا مجھے علم نہیں لیکن اتنا علم ہے کہ ہم پاکستانی اپنی حکومت کو 20 فیصد سے کہیں زیادہ ٹیکس (ڈائریکٹ اور ان ڈائڑیکٹ ٹیکس) ادا کرتے ہیں۔
 
آپ بڑھوتری کس کو کہتے ہیں، آمدنی کو یا منافع کو؟
اگر یہ منافع ہے تو ہر مالِ تجارت پر اس کی قیمتِ خرید نکال کر، صرف بچت پر 20 فیصد زکوة یا ٹیکس ادا کرنا تو سمجھ میں آتا ہے، لیکن تنخواہ دار طبقہ کے لیے کیا طریقہء کار ہے۔ کیا ان کی ساری کی ساری آمدنی ہی بڑھوتری متصور ہو گی؟ اگر ہاں تو ایسی صورت میں زکوٰة کی ادائیگی کا یہ طریقہ غیر مساویانہ نہیں سمجھا جائے گا؟
اگر زکوٰة کی شرح 20 فیصد ہی تصور کر لی جائے، تو اس کے لیے کم سے کم نصاب کیا ہو گا؟ عمومًا زکوٰة کی فرضیت کے لیے صاحبِ نصاب ہونا لازمی ہے یعنی اگر کسی کے پاس کم از کم ساڑھے سات تولے سونا یا اتنی مالیت کی رقم ایک سال تک کے لیے موجود ہے تو اس پر زکوٰة فرض ہے۔
لیکن ہر بڑھوتری پر اگر لازمًا بیس فیصد دینا ہے تو بظاہر یہی لگتا ہے کہ کوئی نصاب مقرر نہیں۔ ایسی صورت میں جو لوگ پاورٹی لائن سے نیچے ہیں وہ اپنی آمدنی یا پھر منافع پر اگر بیس فیصد ادا کریں گے تو ان کے اپنے پاس کیا بچے گا۔ آپ نہیں سمجھتے یہ ان کے ساتھ سراسر زیادتی ہو گی؟
اس بات کی بھی کیا گارنٹی ہے کہ یہ بیس فیصد زکوٰة لازمًا قومی خزانے میں ہی جمع ہو گی، جس سے امورِ مملکت احسن انداز میں چلانا ممکن ہو سکے گا۔ آپ نے جس آیت کا حوالہ دیا ہے اس سے تو کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ زکوٰة صرف اور صرف حکومتِ وقت کا ہی حق ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی بڑھوتری کا بیس فیصد خود اپنے ہاتھوں سے کسی مسکین یا ضرورت مند کو دینا چاہتا ہے تو شریعت کی رو سے وہ آزاد ہے۔ حکومت اس کو کیسے پابند کر سکتی ہے۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا زکوٰة کا تعلق عبادات سے ہے اور اس سے اجر و ثواب بھی وابستہ ہے؟ کیونکہ جس طرح کسی کو زبردستی نماز نہیں پڑھائی جا سکتی، روزے نہیں رکھوائے جا سکتے، کسی صاحبِ استطاعت کو حج کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا، بالکل اسی طرح حکومت زبردستی زکوٰة کیسے وصول کر سکتی ہے؟
البتہ حکومت امورِ مملکت چلانے کے لیے لوگوں سے بزورِ طاقت ٹیکس ضرور وصول کر سکتی ہے جس کی شرح ملکی ضروریات کے لحاظ سے کم یا زیادہ کچھ بھی ہو سکتی ہے۔
اس ضمن میں ایک اور بات قابلِ توجہ ہے کہ جو مسلمان، غیر مسلم ممالک میں رہائش پزیر ہیں اور وہاں کے قوانین کے مطابق حکومت کو بھاری ٹیکسز ادا کرتے ہیں۔ کیا یہ ادائیگی ان کی زکوٰة ہی متصور ہو گی اور وہ اجر و ثواب کے بھی حقدار ہونگے یا پھر ان ٹیکسز کے علاوہ انہیں مزید بیس فیصد کسی کو زکوٰة کی مد میں بھی ادا کرنا ہونگے؟ ایسی صورت میں مزید بیس فیصد کی ادائیگی یقینًا ان پر اچھا خاصا اضافی معاشی بوجھ ثابت ہو گی۔
جبکہ اس کے برعکس کسی بھی صاحبِ نصاب مسلمان کے لیے، چاہے وہ کسی بھی ملک میں رہائش پزیر ہو، ملکی ٹیکسز ادا کرنے کے ساتھ ساتھ بطور ایک مذہبی فریضہ سالانہ ڈھائی فیصد شرح کے لحاظ سے زکوٰة ادا کرنا انتہائی قابلِ عمل ہے۔
آپ قرآن کی اس آیت پر مزید غور کیجئے گا کیونکہ سیاق و سباق کے لحاظ سے بیس فیصد کی شرح مالِ غنیمت سے متعلق ہی معلوم ہو رہی ہے۔ ویسے بھی قرآن میں کافی جگہ زکوٰة کا ذکر ہے اور زکوٰة کو لفظ "زکوٰة" سے ہی بیان کیا گیا ہے۔ جبکہ اس آیت میں یہ لفظ کہیں استعمال نہیں ہوا۔ گمان غالب یہی ہے کہ یہ آیت زکوٰة سے متعلقہ نہیں۔ واللہ اعلم۔

سب سے پہلے تو آپ کا شکریہ کہ آپ نے اس معاملے پر توجہ دی۔
آپ کا سوال: آپ بڑھوتری کس کو کہتے ہیں، آمدنی کو یا منافع کو؟
بڑھوتری ، گراس پرافٹ یا منافع کو کہتے ہیں۔ جو کاروباری کے لئے اس کے کاروبار سے ہونے والا منافع ہے اور روزگار کرنے والے کے لئے اس کی محنت کا معاوضہ یعنی تنخواہ۔

آپ کا سوال : ایک اور بات قابلِ توجہ ہے کہ جو مسلمان، غیر مسلم ممالک میں رہائش پزیر ہیں اور وہاں کے قوانین کے مطابق حکومت کو بھاری ٹیکسز ادا کرتے ہیں۔ کیا یہ ادائیگی ان کی زکوٰة ہی متصور ہو گی؟

اصطلاح زکواۃ ادا کرو کے معانی ہیں ، معیشیت کی بڑھوتری کے لئے ادا کرو۔ اب آپ اس کو ٹیکس کہیے یا زکواۃ یا صدقات ، یہ ادائیگی ہے معیشیت کے بڑھاوے کے لئے۔

آپ کا کمنٹ:
عمومًا زکوٰة کی فرضیت کے لیے صاحبِ نصاب ہونا لازمی ہے یعنی اگر کسی کے پاس کم از کم ساڑھے سات تولے سونا یا اتنی مالیت کی رقم ایک سال تک کے لیے موجود ہے تو اس پر زکوٰة فرض ہے۔۔ لیکن ہر بڑھوتری پر اگر لازمًا بیس فیصد دینا ہے تو بظاہر یہی لگتا ہے کہ کوئی نصاب مقرر نہیں۔


نصاب کا تعلق، رسول اکرم کی ایک حدیث مبارک سے ملتا ہے ، جس کی توثیق قران کریم بھی کرتا ہے، کہ جو بھی اضافی ادائیگی کریں وہ کم نہیں ہے۔ بنیادی زکواۃ یا ٹیکس جو اللہ تعالی کے فرمان سے ثابت ہے، اپنی جگہ ہے، لیکن جو لوگ صاحب نصاب ہیں ان پر اضافی ٹیکس لاگو ہوگا، جسے ہم ویلتھ ٹٰکس سمجھ سکتے ہیں۔ امریکہ میں پراپرٹی پر 2 فی صد ٹیکس ہے، ایسے پراپرٹی ٹیکس ، مذہبی طور پر، موسی علیہ السلام کے زمانے سے تاریخی طور پر ثابت ہیں۔ تو صاحب نصاب کے لئے ڈھائی فی صد اضافی ٹیکس ، کسی بھی طور ، کوئی حیرت کی بات نہیں۔ رسول اکرم کی اس حدیث کو ہم سورۃ انفال کی آیت نمبر 41 کے حکم کے مطابق 20 فی صد سے اضافی قرار دیں گے۔

آپ کا کمنٹ :
آپ قرآن کی اس آیت پر مزید غور کیجئے گا کیونکہ سیاق و سباق کے لحاظ سے بیس فیصد کی شرح مالِ غنیمت سے متعلق ہی معلوم ہو رہی ہے۔ ویسے بھی قرآن میں کافی جگہ زکوٰة کا ذکر ہے اور زکوٰة کو لفظ "زکوٰة" سے ہی بیان کیا گیا ہے۔ جبکہ اس آیت میں یہ لفظ کہیں استعمال نہیں ہوا۔ گمان غالب یہی ہے کہ یہ آیت زکوٰة سے متعلقہ نہیں


زکواۃ ، واجب الادا ، یعنی اکاؤنٹس پے ایبل، ہم اکاؤنٹس پے ایبل کی جگہ اکاؤنٹس ریسیو ایبل کی اصطلاح استعمال نہیں کرسکتے ۔ اسی لئے اس آیت میں زکواۃ کا لفط استعمال نہیں ہوا ، اگر زکواۃ کا لفظ ہوتا تو یہ اللہ تعالی کے لئے قابل ادائیگی یا پے ایبل بنتا۔ ریسیوایبل یعنی قابل وصولی کے لئے اللہ تعالی "صدقات" کا لفظ استعمال کرتے ہیں ۔
۔ یہاں سیاق و سباق اور سورۃ انفال آیت نمبر ایک کے مطابق، تمام کا تمام انفال (اردو میں مال غنیمت) اللہ کا حق ہے، جب کہ ہر منافع اور بڑھوتری کا پانچواں ھصہ اللہ تعالی کا حق ہے، سورۃ انفال آیت 41 میں پے ایبل کی مقدار، "غنمتم من شئی" یعنی کسی بھی شے سے ہونے والے منافع کا پانچواں ھصہ رکھی گئی ہے۔ یہاں غنمتم کے معانی اگر جنگ میں آیا ہوا مال غنیمت ہے تو پھر یہ سارا کا سارا اللہ اور اس کے رسول کا حق بنا (سورۃ انفال آیت نمبر ایک) یہاں "غنا " جس سے غنی یعنی امیر بنا ہے ، اس کے معانی کسی بھی قسم کے منافع کا ہونا ہے۔ ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ مال غنیمت ، نام ، اسم ہے جبکہ "غنمتم " ایک فعل 2nd person masculine plural perfect verb ہے، لنک دیکھئے،
http://corpus.quran.com/wordmorphology.jsp?location=(8:41:3)

غنمتم جو کہ ایک فعل ہے جس کے معانی امارت حاصل ہونا، اخافہ ہونا، بڑھوتری ہونا ہے، اس کا ترجمہ انفال یا spoils of war
ایک نام ، اسم مجرور کس طرح ہو سکتا ہے؟

اس آیت میں لفظ زکواۃ کہیں بھی استعمال نہیں ہوا۔ لیکن تمام مترجمین نے اس کے اردو ترجمے میں زکواۃ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ کیوں؟؟
9:60 إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
طاہر القادری : بیشک صدقات (زکوٰۃ) محض غریبوں اور محتاجوں اور ان کی وصولی پر مقرر کئے گئے کارکنوں اور ایسے لوگوں کے لئے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں اور قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں اور اللہ کی راہ میں (جہاد کرنے والوں پر) اور مسافروں پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے
احمد علی: زکوة مفلسوں اور محتاجوں اوراس کا کام کرنے والوں کا حق ہے اورجن کی دلجوئی کرنی ہے اور غلاموں کی گردن چھوڑانے میں اور قرض داروں کے قرض میں اور الله کی راہ میں اورمسافر کو یہ الله کی طرف سے مقرر کیاہوا ہے اور الله جاننے والا حکمت والا ہے

فتح محمد جالندھری: صدقات (یعنی زکوٰة وخیرات) تو مفلسوں اور محتاجوں اور کارکنان صدقات کا حق ہے اور ان لوگوں کا جن کی تالیف قلوب منظور ہے اور غلاموں کے آزاد کرانے میں اور قرضداروں (کے قرض ادا کرنے میں) اور خدا کی راہ میں اور مسافروں (کی مدد) میں (بھی یہ مال خرچ کرنا چاہیئے یہ حقوق) خدا کی طرف سے مقرر کر دیئے گئے ہیں اور خدا جاننے والا (اور) حکمت والا ہے

محمود الحسن: زکوٰۃ جو ہے سو وہ حق ہے مفلسوں کا اور محتاجوں کا اور زکوٰۃ کے کام پر جانے والوں کا اور جن کا دل پرچانا منظور ہے اور گردنوں کے چھڑانے میں اور جو تاوان بھریں اور اللہ کے رستہ میں اور راہ کے مسافر کو ٹھہرایا ہوا ہے اللہ کا اور اللہ سب کچھ جاننے والا حکمت والا

ہم اور آپ پر واجب الادا رقم ہے زکواۃ ، لیکن جب حکومت وصول کرلے گی تو ہے صدقات۔ لیکن جب ہم اللہ اور اس کے رسول کی بات کرتے ہیں تو یہ بن جاتا ہے، اللہ اور اس کے رسول کا حق۔ چار مترجمین کی گواہیاں آپ کو بہم پہنچا دی ہیں۔

آپ کا سوال : بالکل اسی طرح حکومت زبردستی زکوٰة کیسے وصول کر سکتی ہے؟
وہ معاملات جو حقوق اللہ ہیں، ان پر حکومت زبردستی نہیں کرسکتی ، لیکن جو معاملات حقوق العباد ہیں ، یعنی میرے کام سے آپ متاثر ہوں تو حکومتی مدخلت اور زبردستی بہت ہی ضروری ہے۔ اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کے ساتھ ساتھ حکومت وقت کی اطاعت والی آیت آپ کی نظر سے ضرور گزری ہوگی۔
آپ کا کمنٹ: اس سے تو کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ زکوٰة صرف اور صرف حکومتِ وقت کا ہی حق ہے
جی اللہ اور اس کےرسول کا حق، اس کی ادائیگی کا آسان طریقہ ہے کہ کسی اونچی جگہ پر چڑھ کے اللہ کا حق اچھال دیں ، اللہ جتنا چاہے گا ، رکھ لے گا۔
حکومت وقت، کی اطاعت، اللہ اور رسول کی اطاعت کے سے پیوستہ ہے۔ اگر کوئی قوم باہمی مشورے سے، کم زیادہ طے کرنے کا فیصلہ ہے تو یہ سورۃ شوری کے عین مطابق ہوگا۔

میرا مقصد کسی کو قائیل کرنا نہیں، لیکن جو کچھ اللہ تعالی نے فرمایا ہے ، اس کو مربوط طریقے سے پیش کرنا ہے۔ غور فرمائیے۔

جو زکواۃ ہم ادا کرتے ہیں ، وہ ہم کو واپس ملتی ہے، پارکوں، سڑکوں، اسکولوں اور انفرا سٹرکچر کی مد میں، ریسرچ فنڈنگ کی مد میں، یونیورسٹیوں کی شکل میں ، ہم دوسروں کی ادائیگی اس سے کہیں زیادہ فائیدہ اٹھاتے ہیں ، جتنا ہم نے ادا کیا ہوتا ہے۔

ذرا امریکہ یا یورپ کے ٹیکس کو ڈھائی فی صد کردیجئے جو صرف اور صرف چرچ ، کلیساء، مسجد ، مندر کو دیا جائے تو سوچئے کتنا عرصہ لگے گا، امریکہ یا یورپ کو کسی اسلامی ملک کی طرح غریب ہونے میں؟

والسلام
 
باقی اسلامی ممالک اور مسلمانوں کا مجھے علم نہیں لیکن اتنا علم ہے کہ ہم پاکستانی اپنی حکومت کو 20 فیصد سے کہیں زیادہ ٹیکس (ڈائریکٹ اور ان ڈائڑیکٹ ٹیکس) ادا کرتے ہیں۔
وارث بھائی، عزت و احترام کے ساتھ، کہ ایسا درست نہیں ہے۔ ہمارے ملک کی صرف زرعی پیداوارکے منافع پر ٹیکس کوئی لگ بھگ 40 بلین ڈالر بنتا ہے جبکہ حکومت کا تما ریوینیو لگ بھگ 30 بلین ڈالر ہے ،حکومت کا ریوینیو، آپ گوگل کرلیں اور ، زرعی آمدنی پر ٹیکس آپ آبادی، اور اس کی خوراک کی قیمت سے اندازہ کرلیجئے۔
ہاں ، چونکہ بہت کم لوگ ٹیٰکس دیتے ہیں لہذا، جو تھوڑی سی آبادی اس ٹیکس کو ادا کرتی ہے ان کے لئے یہ ٹیکس بہت ہی زیادہ ہے۔ اس لئے آپ کا احساس درست ہے۔

والسلام
 

جاسم محمد

محفلین
باقی اسلامی ممالک اور مسلمانوں کا مجھے علم نہیں لیکن اتنا علم ہے کہ ہم پاکستانی اپنی حکومت کو 20 فیصد سے کہیں زیادہ ٹیکس (ڈائریکٹ اور ان ڈائڑیکٹ ٹیکس) ادا کرتے ہیں۔
اتنا ٹیکس ادا کرنے کا کیا فائدہ جب زیادہ تر ٹیکس قومی خزانہ میں پہنچنے سے قبل ہی کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے؟
 
اتنا ٹیکس ادا کرنے کا کیا فائدہ جب زیادہ تر ٹیکس قومی خزانہ میں پہنچنے سے قبل ہی کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے؟
آپ کی بات میں سو فی صد وزن ہے۔ لیکن اس پیرامڈ کی ایک سائیڈ اور بھی ہے۔

ٹیکس کی ادائیگی ہوگی تو بچوں کی بنیادی صحت اور تعلیم کا نظام بنے گا، اور بوڑھوں کی اور غریبوں کی فلاح کا نظام ، حکومت کی آمدنی کے بغیر ایسا سوچنا بھی نا ممکن ہے۔ جب بؤڑھوں کی اور غریبوں کی برھاپے میں فلاح کا نظام (سوشل سیکیورٹی سسٹم ) بنے گا تو دولت کی حرص کم ہوجائے گی کہ آج جمع کرو تو بڑھاپے میں کام آئے گا۔ ٹیکس ادا ہوگا تو دولت کی گردش بڑھے گی، ورنہ لوگ اپنی ضروریات کے لئے رشوتیں لیتے ہی رہیں گے۔ دولت کی گردش بڑھنے سے ناجائز رشوتوں میں کمی آئے گی۔ منتخب نمائندے کب تک کھائیں گے ، جوں جوں کمیونیکیشن بڑھے گا، ایسی حرکتیں کم سے کم ہوتی جائیں گی۔ کسی بھی معاشی ، اور معاشرتی آرکیٹیکٹ کا کام ہوتا ہے کہ ایسا نظام قائم کرے کہ بتدریج بہتری آتی رہے ، نا کہ ایسا ڈیزائین تیار کرے کہ وہ سپائیرل ڈیتھ سنڈروم بن جائے ۔ :)
 

dxbgraphics

محفلین
آپ کی پارٹی اور دیگر “جمہوریت” کے حامیوں کو بھی سوچنا ہوگا کہ ملک کو اس حال تک کیا صرف فوج نے پہنچایا ہے؟ جب ملک کے ٹریڈرز اپنی معیشت کو ڈاکومنٹ کرنے کی مخالفت کریں گے تاکہ بعد میں اس کی بنیاد پر اِنکم ٹیکس نہ دینا پڑ جائے، کیا اس کا قصوروار فوج ہے؟ نجی تعلیمی ادارے جو عدالتی احکامات کے باوجود والدین کا خون نچوڑ رہے ہیں وہ کیا فوج کی ایما پر کر رہے ہیں؟ میڈیا کے صحافی جو اپنے تئیں ملک کے ہر موضوع کا ایکسپرٹ بن کر عوام کو روزانہ گمراہ کرتے ہیں، اس کا ذمہ دار فوج ہے؟ ملک کی عدالتیں جو اشرافیہ کو رلیف دینے کیلئے چھٹی کے دن بھی کھل جاتی ہیں اور غریب کو انصاف دینے کیلئے سالہا سال بند رہتی ہیں فوج کے کہنے پر ایسا کرتی ہیں؟
بقول نیازی فوج ہمیشہ چوروں کو آگے لیکر آئی ہے
جب چور ملک اجاڑیں گے تو اصل ذمہ دار کون؟؟
 
Top