اسلام اور فوٹو گرافی ۔ فیصلہ استعمال کی بنیاد پر ہی ہوگا
مسئلہ تصویر اتنا عام ہو چکا ہے کہ شاید ہی کوئی گھر بلکہ کوئی جیب اس سے خالی ہو۔ بلکہ اب تو یہ حال ہے کہ ہمارے جو علما و مشائخ تصاویر کی ممانعت میں زمین و آسمان ایک کر دیتے ہیں یہ سب ٹی وی پر انٹرویو دیتے ہیں، اپنی جیبوں میں کیمرے والے موبائل لیے گھومتے ہیں یا روز صبح نمازوناشتہ سے فارغ ہو کر تصویروں سے بھرا اخبار پڑھتے ہیں۔ خواص کے علاوہ عوام الناس میںلوگ انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں یاٹی وی پر کرکٹ میچ خبریں اور بریکنگ نیوز یا مذہبی پروگرام بھی سبھی دیکھتے ہیں وغیرہ۔ کہیں پر بم دھماکہ ہو جائے یا قدرتی آفت آ گھیرے تو سبھی اپنی ٹی وی سکرین سے چپکے بیٹھے نظر آتے ہیں۔
تصاویر کے حوالے سےعام طور پر تین طرح کے رویے دیکھنے میں آتے ہیں۔
۱۔ ایک رائے کے مطابق اسلام میں ہر طرح کی تصویر منع ہے لہذا مصوری، مجسمہ سازی، کیمرہ فوٹو گرافی یا وڈیوگرافی سب ایک ہی زمرے میں آتے ہیں اور سب کے سب حرام و ناجائز ہیں چاہے ان کا استعمال دین کی اشاعت کے لیے ہی کیوں نہ ہو۔
۲۔ دوسری رائے کے مطابق سٹل فوٹوگرافی اسلام میں منع ہے لیکن وڈیو گرافی اس کیٹیگری میں نہیں آتی۔ حالانکہ کیمرہ فوٹو گراف کو ہی اگر پچیس فریم فی سیکنڈ کی رفتار سے چلایا جائے تو اسے ہم مووی یا وڈیو کہیں گے۔
۳۔ تیسری رائے کے مطابق کیمرہ فوٹو گرافی یا وڈیو دونوں کی اجازت ہے البتہ یہ دیکھا جائے گا کہ انکا استعمال اسلامی اعتبار سے درست ہے یا نہیں۔
یہاں پر دو باتیں غورکے قابل ہیں یعنی کیمرہ فوٹو یا وڈیو کی نوعیت اور دوسری ہے انکا استعمال۔
کیمرہ فوٹو اور ویڈیو کی نوعیت
تصویر کے حوالے سے احادیث میں موجود لفظ ’’تمثیل‘‘ یعنی مشابہت سے کیمرہ فوٹوگرافی یا وڈیوگرافی کو مصوری اور مجسمہ سازی سے تعبیر کر لینا قطعی غلط ہے۔ کیمرہ کی آنکھ کسی انسان یا منظر کی مشابہت یعنی اس سے ملتی جلتی کوئی چیز نہیں بناتی بلکہ اسکا عکس محفوظ کرتی ہے۔ جیسے سرکار دوعالم محمد الرسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اصحاب کرام رضوان اللہ اجمعین کو کبھی پانی میں اپنا عکس دیکھ کر کنگھی کرنے سے منع نہیں فرمایا اور نہ ہی کبھی یہ کہا کہ آئینہ مت دیکھو۔ لہذا ان احادیث کے مطابق تصویرکشی کرنے والے کو اللہ کی تخلیق کی نقل کرنے یا اسکی مشابہت پر مبنی تصویر بنانے سزا دی جائے گی اوراسی لیے اسے یہ کہا جائے گا کہ اب بنائی ہے تو اس میں روح بھی پھونکو۔ جبکہ پانی میں عکس دیکھنا یا فوٹوگرافی کے ذریعے یہ عکس محفوظ کرلینا وہ بھی ایک ایسی تخلیق کی جس میں پہلے ہی روح موجود ہے اسکا اطلاق مصوری یا مجسمہ سازی سے متعلق احادیث پر نہیں ہو سکتا۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مصوری ہو مجسمہ سازی یا کیمرہ فوٹوگرافی یا وڈیوگرافی یہ سب کام ہاتھ سے ہی کیے جاتے ہیں لہذا سب ایک ہی ہیں ۔ حالانکہ جب لوگوں کے سامنے ایک کیمرہ فوٹو رکھی جائے تو وہ صرف یہ کہتے کہ کتنا اچھا فوٹوگرافر ہے جس سے مراد صرف یہ ہے کہ اس نے کیا اچھے موقع پر بٹن دبایا اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ کیمرہ یا فوٹو کی ریزولوشن بہت اچھی ہے۔ فوٹوگراف کے حوالے سے خیالی تصویر تو ممکن ہی نہیں کیونکہ یہ تو ہوتی ہے جیتی جاگتی اللہ کی بنائی تخلیقات کی ہے۔ یعنی جس انسان یا منظر کا عکس کیمرہ میں محفوظ ہوگا وہاں تخلیق بہرحال اللہ تعالیٰ کی ہی رہے گی فوٹوگرافر کی نہیں اسکا تو صرف تکنیکی کمال ہی ہوگا کی لائٹ اچھی جگہ پر ڈالی یا زوم اچھا تھا وغیرہ۔ لیکن دوسری طرف اگر انہی لوگوں کے سامنے ایک ہاتھ سے بنی ڈرائنگ یا پینٹنگ رکھی جائے تو وہ بے اختیار بول اٹھیں گے کہ کیا زبردست آرٹسٹ ہے اور کیا کمال کی تصویر بنائی ہے اس نے۔ خیالی پینٹنگ ہوگی تو بھی مصور کے فن اورتخیل تعریف ہوگی اور اگر کسی انسان کی پورٹریٹ ہوگی تو بھی یہی کہا جائے گا کہ کیا زبردست ہاتھ کی صفائی ہے یا اصل سے بہتر ہے وغیرہ یعنی یہ سب تعریفیں خالصتاً پینٹر کی ہونگی لہذا احادیث کے مطابق قیامت کے دن اسے اپنی تخلیق میں جان ڈالنے کا چیلنج دیا جائے گا۔ یہ بالکل ایسا ہے جیسے ااگر ایک شخص اپنے ہاتھ سے قران کا نسخہ لکھتا ہے اور دوسرا شخص اس نسخے کی ٖفوٹو اتار لیتا ہے تو اب اس فوٹو کے ذریعے قرانی نسخہ پڑھنے والے پہلے شخص یعنی نسخہ لکھنے والے کی لکھائی یا خوبصورتی کی تعریف کریں گے فوٹوگرافر کی نہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ مصوری اور فوٹوگرافی میں فرق ہے۔
اسی طرح ایک عام مووی یا وڈیو میں بھی ایک جیتے جاگتے انسان کی جیتی جاگتی حرکات کو ویسے ہی پردے پر دکھایا جاتا ہے۔۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص کرکٹ گراؤنڈ میں بیٹھا میچ دیکھ رہا ہے تو ایسا نہیں ہے کہ اگر تو وہ گراؤنڈ پر نظر جمائے میچ دیکھتا رہے تب تو ٹھیک ہے لیکن اگرکہیں وہ کسی کھلاڑی کے آؤٹ ہونے کا ایکشن ری پلے یا تھرڈ امپائر کا فیصلہ گراونڈ میں نصب بڑی ٹی وی سکرین پر دیکھ لے تو وہ گناہ کا مرتکب ہوجائے گا۔ ایسی باتیں یا فتوے بذات خود تو بچگانہ ہوتے ہیں ہے لیکن انہیں زبردستی ایمانی تقاضا یا ایمان کی مضبوطی یا کمزوری سے تعبیر کرلینا اس سے بڑی زیادتی ہے اگر ہم رہتے اکیسویں صدی میں ہیں تو پھر ہمارے پاس اس دور کے تقاضوں کے مطابق زندگی گزانے کا حل ہونا چایئے نہ کہ ہم ساری امت کو واپس چودہ سو سال پہلے کے دور میں گھسیٹ لے جانے کی کوشش کریں۔ لہذا اسلام چودہ سو سال پہلے والا ہی ہوگا لیکن اس پر آج کے دور میں عمل درآمد کرنے کے لیے جدید تقاضوں اور ٹیکنالوجی پر جائز انداز میں انحصار کرنے میں کوئی حرج نہیں اور ایسے ہر معاملے میں شرعی اور غیر شرعی کا فیصلہ صرف استعمال کی بنیاد پر ہی کیا جائےگا۔
اسی لیے ہمیں تصویر کے بارے میں جہاں بہت سی اور احادیث ملتی ہیں وہیں پر صحیح بخاری شریف میں ام المونین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اپنے دروازے پر پردہ لٹکایا جس میں تصویریں تھیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پردہ پھاڑ دیااور اس سے میں نے دو گدّے بنا لیے۔ اور آگے فرماتی ہیں، وہ دونوں گدّے گھر میں رہتے تھے اور نبی پاکﷺ ان پر بیٹھا کرتے تھے۔
اب اگر ہر تصویر مطلقاً حرام ہوتی تو آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام ان گدّوں کو بنانے کی اجازت دیتے اور نہ ہی ان پر بیٹھتے بلکہ فرماتے کہ اس تصویروں والے کپڑے یا پردے کو مکمل طور پر ختم کر دو یا جلا دو مگر ایسا نہیں ہوا بلکہ سرکار علیہ الصلوۃ والسلام ان گدوں پر تشریف فرما ہوتے۔
ایک اور حدیث کے مطابق آقا دوجہاںصلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم فرماتے ہیں کہ فرشتے صرف اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں وہ کتا یا تصویر ہو جسے رکھنا حرام ہے۔
اس حدیث کے حوالے سے بھی فقہا کرام یہی فرماتے ہیں شکاری کتا یاکھیتی اور مویشیوں کی حفاظت کرنے والے کتے کی ممانعت نہیں اور اسی طرح جو تصویر قالین اور تکیہ وغیرہ پر روندھی جاتی ہیں ان کی وجہ سے فرشتوں کا داخلہ ممنوع نہیں ہوتا۔ ایسا نہیں کہ اس تصویروں والے گدّے کی وجہ سے آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کے گھر رحمت کے فرشتے داخل نہ ہوتے۔ معاذ اللہ
اسی طرح فوٹوگرافی اور وڈیو گرافی آقا علیہ الصلوۃ و السلام کے دور کے صدیوں بعد ایجاد ہوئی لہذا جب ایک ٹیکنالوجی اسوقت موجود ہی نہیں تھی تو اسکے معانی یا اسکے استعمال کے حوالے سے فیصلہ عین اسی دور کے مطابق کیسے کیا جا سکتا ہے؟ یہ بالکل ایسے ہوگا جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اگر چودہ سو سال پہلے بوڑھے جانور پر سفر کرنے یا اس پر وزن لادنے سے منع کیا تو ہم آج اس سے یہ نتیجہ نکال لیں کہ اگر ہماری کار یا موٹر سائیکل کا انجن پرانا ہو جائے تو ہم اسے چلانا چھوڑ دیں اور اسے گھر میں کھڑا کرکے کہیں کہ گھوڑا و اونٹ ہو یا کار و موٹر سائیکل یہ سب سواری ہیں لہذا عین اسی دور کے اصولوں کا اطلاق دونوں پر ہوگا۔ ایسے مضحکہ خیز فتوے دینے کی بجائے ہم یہ دیکھیں گے کہ کس چیز کی بات ہو رہی ، اس کی نوعیت کیا ہے، اس کا فنکشن کیا ہے اور کیا گھوڑے اور موٹر سائیکل میں کوئی فرق ہے؟
تصاویر یا کا استعمال
اب آجائیے استعمال کی طرف کیونکہ تصاویر کے حوالے سے یہی اصل مسئلہ ہے۔ یعنی ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ تصاویر ، مجسموں یا فوٹوز اور وڈیو کا استعمال کس انداز میں ہو رہا ہے۔ یعنی اگر لوگ اپنے بزرگوں یا معروف شخصیات کی تصاویر، مجسمے اور فوٹوز لے کر انکی پرستش کررہے ہیں تو یہ استعمال بذات خود غلط ہوگا لیکن اگر یہی استعمال اپنے سمندر پار بیٹھے رشتہ دار یا آل اولاد سے وڈیو پر بات کر کے ہو تو اس میں کسی کو اعتراض نہ ہوگا کیونکہ یہاں استعمال درست ہے۔ بالکل اسی طرح ہم لاؤڈ سپیکر پر اذان دینا اسلیے بند نہیں کردینگے کیونکہ اسی لاؤڈسپیکر سے بسنت پر گانے بجائے جاتے ہیں بلکہ ہم اسی چیز کا درست استعمال کریں گے۔
اسی طرح اگر ہم مثبت استعمال کی چند مثالیں دیکھنا چاہیں تو آج کے دور میں میڈیکل کی تعلیم بغیر انسانی جسم کی تصاویر اور مجسموں کے ممکن ہی نہیں ہے۔ ایکسرے سے لے کرالٹرا ساؤنڈ تک ہر کام فوٹو اور وڈیو ٹیکنالوجی کی مدد سے ہوتے ہیں اورہڈیوں کی تعلیم یعنی آرتھوپیڈی کے لیے بھی مصنوعی ہڈیوں کی مدد سے لی جاتی ہے۔ اور تو اور آپ کا دندان ساز بھی آپکا ایک مصنوعی دانت یا پوری بتیسی بنانے سے پہلے پلاسٹر آف پیرس سے آپکے دانتوں کا مولڈ تیار کرتا ہے اور پھر اسکی مدد سے آپکے دانت تیار ہوتے ہیں۔ اسکے علاوہ آج ساری دنیا میں کسی جرم یا غیر معمولی واقعہ پیش آنے کی صورت میں سب سے پہلے اس علاقے میں نصب خودکار کیمروں کی تصاویر اور وڈیوز کا ریکارڈ اکٹھا کیا جاتا ہے تاکہ ملزمان کی نشاندہی فوری طور پر ہو سکے۔شاپنگ سینٹر یا کسی بھی پبلک مقام پر ان پڑھ لوگوں کی آسانی کے لیے پبلک ٹائلٹ سائن میں بھی تصاویر کا استعمال ہوتا ہے۔
ان تمام دلائل کی صورت میں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مصورّی اور مجسمہ سازی کو انکے استعمال کی بنیاد پر منع کیا گیا۔ لہذا آج بھی یہ مطلقاً حرام قرار نہیں دیے جائیں گے بلکہ ہر دور کی ضرورت کے مطابق انکے استعمال کے حوالے سے فقہی فیصلے کیے جا سکتے ہیں۔ ایسے فیصلے جن سے اسلامی احکامات کی خلاف ورزی بھی نہ ہو اور دنیا کی بنیادی حقیقتوں کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جائے کیونکہ اسلام کبھی بھی مسلمانوں کو کنویں کی مینڈک بن کر زندگیاں گزار دینے کی تعلیم نہیں دیتا۔ اس لیے اگر ایک انسانی جسم کا مجسمہ یا پلاسٹک سے بنا ڈھانچہ خالصتاً میڈیکل کی تعلیم کے لیے بنایا جائے گا تو یہ درست ہوگا لیکن اگر کوئی فرد یا تنظیم کسی سیاسی یا مذہبی لیڈر کا مجسمہ بنا کر کسی شاہراہ یا میوزیم میں نصب کرنا چاہے تو اسکی اجازت نہیں دی جائےگی کیونکہ اس سے شخصیت پرستی پھیلنے کا احتمال ہوگا۔ بالکل یہی معاملہ تصاویر کے ساتھ ہوگا یعنی کسی ممتاز شخصیت کی تصویر یا فوٹو کرنسی نوٹ یا سرکاری دفتر یا کسی پبلک مقام پر نہیں ہوگی لیکن اگر کوئی اپنے بچے کی تصویر لے لیتا ہے صرف اسکے بچپن کی یاد کے طور پر تو اس میں کسی قسم کی پرستش یا پوجا کا امکان نہ ہوگا لہذا یہاں پر بہر حال لچک موجود ہوگی۔ انفرادی ذمہ داری کے معاملے میں بھی یہ دیکھنا ہوگا کہ فلمی اداکاروں کی طرح پوز بنا بنا کر اپنی تصاویر سوشل میڈیا پر ڈالنا کسی طور اسلامی نہیں لیکن یہ معاملہ بھی استعمال کا ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ اجتماعی مسائل جیسےاخبارات، انٹرنیٹ یا ٹی وی کے ساتھ ہوگا یعنی اخلاق باختہ ویب سائٹس، اشتہارات اور چینلز پر پابندی ہوگی لیکن رائے عامہ، اچھی نیوز رپورٹنگ ، مذہبی پروگرام اور جائز انٹرٹینمٹ کے پروگراموں کی اجازت ہوگی۔ یہ درست استعمال آج دنیا میں جہاں کہیں بھی سمجھدار اور دینی اور دنیاوی دونوں اعتبار سے پڑھے لکھے مسلمان موجود ہیں وہاں پر یہ سب بڑے اچھے انداز میں ہورہا ہے ۔ روزمرہ معاملات اور اچھی اور مثبت تفریح کے علاوہ دعوت و تبلیغ کے کام میں بھی غیر مسلموں کی وڈیو تقریروں اور ٹی وی چینلز کے مقابلے میں آج مسلمانوں کے اپنے دعوتی وڈیو اور ٹی وی چینلز ہیں جہاں بچوں اور بڑوں سب کے لیے تفریحی اور دینی پروگرام بھی نشر ہوتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اسلام کی اشاعت بھی کی جاتی ہے۔ ان تمام معاملات میں صرف یہی دیکھنا ہوگا کہ چاہے ٹی وی ہو، اخبار یا پھر انٹرنیٹ کہیں کوئی غیر اسلامی بات نشر نہ ہو یا کوئی غیر اخلاقی چیز نہ دیکھی جائے بلکہ مثبت اور اسلامی قوانین کے مطابق استعمال ہو۔
یاد رکھیں اسلام میں شریعت اور فقہ دو الگ الگ چیزیں ہیں جہاں شریعت سے مراد اللہ سبحان وتعالیٰ کا قانون ہے جو اس نے نبی آخرالزمان محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ذریعے دیا۔ اور دوسری جانب فقہ سے مراد ہے شریعت کی روشنی میں انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین۔ یہ تمام قوانین یا تشریحات ہمیشہ شریعت کے تابع رہتے ہیں اور عقائد کے علاوہ ددیگر چھوٹے موٹے معاملات سے متعلق قوانین کو بدلتے وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن یہاں مسئلہ یہ ہوا کہ لوگوں یا مختلف گروہوں نے تقلید میں مبتلا ہو کر اپنی اپنی فقہ کو یا شریعت کے برابر لا کھڑا کیا لہذا ایک ایسا ماحول بنا دیا گیا کہ جب بھی کسی نے کسی بھی فقہ کے بنائے قانون کو چیلنج یا اس میں ترمیم کے حوالے سے کوئی بات کی یا کوئی ریسرچ پیش کی تو اسکے خلاف فتووں کے انبار لگ گئے۔ یعنی شریعت اور فقہ کو ایک ہی جیسا اور ایک کی لیول کی چیز سمجھ لیا گیا حالانکہ شریعت اللہ کی طرف سے ہے اور فقہ لوگوں کی بنائی چیز ہے اور اسی لیے آج ہمیں چاروں مستند فقہ میں بہت سے معاملات میں اختلاف ملتا ہے۔ دوسرا ظلم یہ کیا گیا کہ ہم نے کبھی بھی فقہ کو بہتر کرکے اکیسویں صدی سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ ہم آج بھی انہیں پرانے قوانین سے چمٹے بیٹھے ہیں جو آج کے دور کے بہت سے مسائل کا حل تو دور کی بات انکا ذکر تک نہیں کرتےجیسے بینکنگ کا مسئلہ ہے جہاں ایک گروہ سُود کا نام بدل کر ہر چیز کی اجازت دے دیتا ہے تو دوسرا گروہ سرے سے بنک میں اکاؤنٹ کھولنے کی اجازت دینے کو تیار نہیں۔خواتین کی حقوق کی بات آئے تو بھی وہی دقیانوسی باتیں اور فیصلے دیکھنے میں آتے ہیں وغیرہ۔
تصویر کام معاملہ بھی انہی مسائل میں سے ایک ہے جنہیں ہمارے مذہبی حلقوں نے اپنی دنیاوی علوم سے ناوقفیت کی بنا پر بلاوجہ متنازعہ بنا دیا ۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ سرے سے ہر تصویر کو ہی غیر اسلامی قرار دینے سے مراد اکیسویں صدی میں اپنے ہاتھ پاؤں کاٹ لینے جیساہے، جن مسلمانوں نے اس بات کو سمجھ لیا وہ دین کی اشاعت کے حوالے سے کہیں کے کہیں پہنچ گئے اور جو ضد پر اڑ گئے وہ کمرہ بند ہوکر بیٹھے ہیں اور اپنی ہی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔ یہی آج کی حقیقت ہے کہ اکیسویں صدی کی جائز ضروریات کو اپنے اوپر حرام کرکے امت مسلمہ صرف ایک کنویں میں بند ہو کررہ جائے گی یا بہت سے گروہ بہت سے چھوٹے چھوٹے کنوؤں میں بیٹھے اپنا اپنا راگ الآپتے رہیں گے اور مسلمان کبھی بھی بین الاقوامی طور پر کامیاب نہ ہو پائیں گے۔اسی لیے امت میں موجودچند حلقوں نے دین اور دنیا کو ساتھ لے کر اکیسویں صدی کے پروگریسو مسلمان بن کر چلنے کا یہ ہنر سیکھ لیا ہے لیکن اکثریت نے ابھی بھی ایک طویل سفر طے کرنا ہے اور یہ سفر اپنے کنویں سے نکل کر ہی شروع ہوگا۔
اللہ حافظ۔