فرخ منظور
لائبریرین
زندگی کا مقصود اور اس کی راہ ارتقاء یہ ہے کہ وہ مسلسل گرد مجبوری کو دامن سے جھٹکتی چلی جائے۔ جو ہستی درجہ حیات میں جتنی بلند ہے اتنی ہی صاحب اختیار ہے۔ جب اختیار اور بڑھ جائے گا تو انسان صحیح معنوں میں مسخر کائنات اور مسجود ملائک ہو گا۔ خودی کی ترقی خرد سے عشق کی طرف ہوتی ہے۔ خرد کا کام محسوسات کا فہم ہے اور وہ اجزاء کے اندر روابط تلاش کرتی رہتی ہے۔ عشق کلیت حیات پر محیط ہو جاتا ہے۔خرد مر سکتی ہے لیکن عشق کے لیے موت نہیں:
ہے ابد کے نسخہ دیرینہ کی تمہید عشق
عقل انسانی ہے فانی زندہ جاوید عشق
خرد را از حواس آید متاعے
فغاں از عشق می گیر شعاعے
خرد جز را فغاں کل را بگیرد
خرد میرو فغاں ہر گز نہ میرو
٭٭٭
فغان عاشقاں انجام کارے است
نہاں در یک دم او روزگارے است
خودی پختہ ہونے سے ابد پیوند اور لازوال ہو جاتی ہے:
ازاں مرگے کہ می آید چہ باک است
خودی چوں پختہ شد از برگ پاک است
خودی کی موت عشق کے فقدان سے پیدا ہو سکتی ہے۔ اصل موت یہی ہے اور اسی موت سے ڈرنا چاہیے:
ترا ایں مرگ ہر دم در کمین است
بترس از دے کہ مرگ ما ہمین است
ساتواں سوال یہ ہے:
مسافر چوں بود رہرو کدام است
کرا گویم کہ او مرد تمام است
سوال یہ ہے کہ مسافر اور رہرو کسے کہتے اور سفر کے کیا معنی ہیں۔ انسان کامل کی کیا نشانی ہے۔
اقبال نے جا بجا زندگی کو ایک لامتناہی سفر قرار دیا ہے اور اسے مرحلہ شوق کہا ہے، جس کو سکون منزل کی آرزو نہیں:
ہر شے مسافر ہر چیز راہی
کیا چاند تارے کیا مرغ و ماہی
بڑھے جا زندگی ذوق سفر ہے
لندن میں کہی ہوئی ایک غزل بال جبریل میں درج ہے۔ جس کا موضوع بھی یہی ہے کہ ہر حالت سے گزرتا چلا جا:
تو ابھی رہ گزر میں ہے قید مقام سے گزر
مصر و حجاز سے گزر پارس و شام سے گزر
صرف دنیا ہی میں نہیں بلکہ آخرت میں بھی مختلف احوال سے آگے نکلتا جا:
جس کا عمل ہے بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے
حور و خیام سے گزر بادہ و جام سے گزر
گرچہ ہے دل کشا بہت حسن فرنگ کی بہار
طائرک بلند بال دانہ و دام سے گزر
کوہ شگاف تیری ضرب، تجھ سے کشاد شرق و غرب
تیغ ہلال کی طرح عیش نیام سے گزر
اب یہاں اسی سفر کے متعلق سوال ہے۔ جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ کوئی خارجی عالم کی مسافت طے کرنا نہیں ہے۔ یہ سفر خودی کا باطنی ارتقائی سفر ہے۔ اس میں انسان خود ہی مسافر ہے، خود ہی راہ ہے اور خود ہی منزل ہے۔ یہ از خود تا بخود سفر ہے۔ یہ خودی کی مسلسل ترقی یافتہ صورتوں تک پہنچنے کی کوشش کا نام ہے:
اگر چشمے کشائی بر دل خویش
دروں سینہ بینی منزل خویش
سفر اندر حضر گردن چنین است
سفر از خود بخود کردن ہمین است
خودی کسی مکان کے اندر نہیں کہ اس کا کوئی مقام متعین کر سکیں۔ زمانی و مکانی عالم کے لحاظ سے اگر کوئی پوچھے کہ ہم کہاں ہیں تو اس کا جواب محال ہے۔ چشم مہ و اختر جو ہمارے ظاہر کو دیکھتی ہے اسے ہماری حقیقت کا کچھ علم نہیں:
کسے ایں جا نداند ما کجانیم
کہ در چشم مہ و اختر نیانم
اس سفر کی کوئی انتہائی منزل نہیں، کیونکہ اگر کوئی آخری منزل آ جائے تو ہماری جان ہی فنا ہو جائے۔ جان تو جستجو اور آرزو کا نام ہے، اگر کوئی انجام آ گیا تو آرزو ناپید اور اس کے ساتھ زندگی بھی ختم ہو جائے گی:
مجو پایاں کہ پایائے نداری
بپایاں تا رسی جانے نداری
خودی اپنی ترقی میں یقین اور بصیرت میں اضافہ کرتی رہتی ہے اور اس کے ساتھ تب و تاب محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ نہ محبت کو فنا ہے او رنہ یقین و دید کی کوئی انتہا ہے۔ کمال زندگی دیدار ذات ہے، لیکن اگر حسن ذات بے پایاں ہے، تو عشق ذات کی بھی انتہا کہیں نہیں ہے۔ خدا کو دیکھتے ہوئے بھی شوق دیدار کا سفر جاری رہتا ہے:
چناں با ذات حق خلوت گزینی
ترا او بیند و او را تو بینی
لیکن خدا کے اندر گم ہو جانا مقصود نہیں۔ اگر ہم گم ہو گئے تو محب و محبوب کا امتیاز ہی مٹ جائے گا۔ اس لیے اگر تو خدا کے حضور میں بھی گزر رہا ہو تو خودی کو استوار کرتے ہوئے گزر۔ قطرے کی طرح سمندر میں ناپید نہ ہو جا:
بخود محکم گزر اندر حضورش
مشو ناپید اندر بحر نورش
جس شخص میں دید پیدا ہو جائے، یعنی اپنی اور خدات کی ذات کا بیک وقت دیدار، اور یہ دیدار اس کی خوشی کی سوخت نہ کر دے تو اسی شخص کو دنیا کا امام سمجھو۔ مرد کامل کا معیار یہی ہے:
کسے کو دید عالم را امام است
من و تو نا تمامیم او تمام است
آدمی دید است و باقی پوست است
دید آں باشد کہ دید دوست است
(رومی)
اگر ایسا شخص دکھائی نہ دے تو اس کی طلب کو جاری رکھ اور اگر خوش قسمتی سے مل جائے تو پھر اس کا دامن نہ چھوڑنا۔ یہ مرد کامل تجھے فقیہ و شیخ و ملا کے طبقوں میں نہ ملے گا۔ یہ لوگ انسانوں کے شکاری ہیں ان سے غافل نہ رہنا۔
فقیہ و شیخ و ملا را مدہ دست
مرد مانند ماہی غافل از شست
مرد کامل تو ملک اور دین دونوں میں اچھا رہنما ہوتا ہے، کیوں کہ وہ مرد راہ ہے۔ فرنگ سے بھی خبردار رہنا۔ وہاں جو جمہوریت انسانی اخوت و مساوات کی مدعی بن گئی ہے، یہ سب ابلہ فریبی ہے۔ ہوس پرست عوام کا ہجوم کہاں انسانیت کی ترقی اور بصیرت افزائی کا موجب بن سکتا ہے۔ ایک لاکھ جمہوریت کے ہنگامے بھی ایک مرد راہ کے برابر بصیرت نہیں رکھتے۔ اس جمہوریت میں امام عالم کہاں سے آئیں گے۔ مشرق اپنی جھوٹی روحانیت اور مذہبیت کے دعوے باطل میں مردان راہ سے خالی ہے اور مغرب مادہ پرستی میں اسیر کمند ہوا ہے۔ اب شرق و غرب میں کس کو کہوں کہ وہ ’’ مرد تمام‘‘ ہے:
بگذر از خاور و افسونی افرنگ مشو
کہ نیزو بجوے ایں ہمہ دیرینہ و نو
کیا یہ مرد راہ کہیں نہیں؟ کیا یہ محض انسانیت کا ملہ کا ایک نصب العین ہے؟ ایک عرصے تک تو یہ عارف رومی کو بھی کہیں دکھائی نہ دیا:
گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما
گفت آنکہ یافت می نشود آنم آرزوست
آٹھواں سوال یہ ہے:
کدامی نکتہ را نطق است انا الحق
چہ گوئی ہرزہ بود آں رمز مطلق
ایقان ’’ انا الحق‘‘ تمام تصور کا محور ہے۔ اس کے متعلق آج تک بحث چلی آتی ہے۔ کہ منصور نے جو انا الحق کہا وہ کفر کا کلمہ تھا یا راز حیات کا افشا تھا۔ علمائے ظاہر نے اس جرم پر اس کو سولی پر چڑھا دیا، لیکن اکثر صوفی اس کو عارف باللہ اور امام سمجھتے ہیں اور تنگ نظر فقہا کو ایک معصوم کے قتل کا مجرم قرار دیتے ہیں۔
چوں قلم در دست غدارے بود
لا جرم منصور بر دارے بود
(رومی)
محمود شابستری نے بھی ’’ گلشن راز‘‘ میں بڑے زور و شور سے منصور کی حمایت کی ہے:
را باشد انالحق از درختے
چرا نبود روا از نیک بختے
انا الحق کا عقیدہ ہندو تصوف کا بھی لب لباب ہے:
اہم برہم آسمی تت توم آسی
اقبال نے جو نظریہ خودی پیش کیا اس میں بھی جا بجا خودی اور خدا میں امتیاز کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ خودی کے کثرت سے اشعار ایسے ہیں کہ بادی النظر میں دھوکا ہو سکتا ہے کہ یہ اشعار خدا کی ذات و صفات کے متعلق ہیں۔ اقبال مذکورہ صدر سوال میں انا الحق کے متعلق اپنے موقف کی تشریح کرتے ہیں، چونکہ یہ عقیدہ ہند اور ایران دونوں جگہ عام اور مسلم ہو گیا تھا اسی لیے پہلے شعر میں فرماتے ہیں:
من از رمز انا الحق باز گویم
دگر با ہند و ایراں راز گویم
پہلے یہ بیان کیا ہے کہ ایک ایرانی یہ کہہ گیا ہے کہ زندگی دھوکا کھا کر یہ ’’ من‘‘ کا تصور پیدا کر دیتی ہے مگر حقیقت میں تمام عالم، انسانی نفوس سمیت ایک سوتے ہوئے خدا کا خواب ہے۔ وہ شعر اقبال نے یہاں درج نہیں کیا لیکن اس قسم کی بحث کے دوران میں انہوں نے مجھے سنایا تھا۔ وہ شعر یہ ہے:
تا تو ہستی خداے در خواب است
تو نمانی چو او شود بیدار
مرزا غالب بھی عقلی طور پر وحدت وجود کے قائل تھے، اس لیے اس قسم کے تصورات غالب کے اردو اور فارسی کلام میں کثرت سے ملتے ہیں:
ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسد
عالم تمام حلقہ دام خیال ہے
اس فارسی شعر کے تصور کو اقبال نے اپنے جواب میں ذرا پھیلا کر لکھا ہے، کیوں کہ اس کی تردید مقصود ہے:
خدا خفت و وجود ما ز خوابش
وجود ما نمود ما ز خوابش
مقام تحت و فوق و چار سو خواب
سکون و سیر و شوق و جستجو خواب
دل بیدار وو عقل نکتہ بیں، گمان و فکر، تصدیق و یقیں سب خواب ہی خواب ہے اور یہ خواب خدا دیکھ رہا ہے۔ انسان سمجھتا ہے کہ اس زندگی کو اپنی چشم بیدار سے دیکھ رہا ہوں لیکن یہ بیداری بھی سپنا ہے اور ہمارے گفتار و کردار ہندو ویدانت کی اصطلاح میں مایا یا فریب ادراک ہیں۔ یہاں ایک ویدانتی گرو کے متعلق ایک لطیفہ یاد آگیا جو ہم نے اپنے ہندو استاد فلسفہ سے سنا تھا۔ یہ گرو جنگل میں اپنے چیلوں کو حیات و کائنات کے مایا ہونے کی تعلیم دیا کرتا تھا۔ ایک روز ایک مست ہاتھی گرو اور چیلوں کی طرف لپکتا دکھائی دیا۔ چیلے جان بچا کر ادھر ادھر تتر بتر ہو گئے اور گرو جی بھی ایک درخت پر چڑھ گئے۔ ایک چیلے نے جرأت کر کے گرو جی سے پوچھا کہ اگر یہ ہاتھی اور اس سے جان کا خطرہ مایا تھا تو آپ اس طرح دم دبا کر کیوں بھاگے؟ گرو جی اپنی منطق میں طاق تھے۔ انہوں نے جواب دیا عجب احمق ہو کہ وہ میرا بھاگنا اور درخت پر چڑھ جانا بھی تو مایا ہی تھا۔ جیسے ہاتھی کی کچھ حقیقت نہ تھی اسی طرح ہمارے فرار کی بھی کچھ اصلیت نہیں۔ وہ بھی دھوکا یہ بھی دھوکا۔
اقبال کے نظریہ حیات میں خدا بھی حق ہے اور انسانی خودی، جو خدا کی حیات ابدی سے سر زد ہوئی ہے، وہ بھی حق ہے۔ وحدت وجود کا روایتی فلسفہ خدا کو حق قرار دیتا ہے۔ وہی حقیقت مطلقہ ہے، لیکن انسانی نفس یا خواب ہے، یا فریب ادراک، یا خدا کے لامتناہی قلزم ہستی کی ایک لہر۔ لہریں پیدا اور نا پید ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن قلزم ہستی مطلق اپنے تلاطم میں ان سے مستغنی رہتا ہے۔ وحدت وجود کے اکثر قائلوں نے انسانی نفس کو ایک وہمی ہستی قرار دیا ہے:
صورت وہمی بہ ہستی متہم داریم ما
چوں حباب آئینہ بر طاق عدم داریم ما
(غالب)
ہے ابد کے نسخہ دیرینہ کی تمہید عشق
عقل انسانی ہے فانی زندہ جاوید عشق
خرد را از حواس آید متاعے
فغاں از عشق می گیر شعاعے
خرد جز را فغاں کل را بگیرد
خرد میرو فغاں ہر گز نہ میرو
٭٭٭
فغان عاشقاں انجام کارے است
نہاں در یک دم او روزگارے است
خودی پختہ ہونے سے ابد پیوند اور لازوال ہو جاتی ہے:
ازاں مرگے کہ می آید چہ باک است
خودی چوں پختہ شد از برگ پاک است
خودی کی موت عشق کے فقدان سے پیدا ہو سکتی ہے۔ اصل موت یہی ہے اور اسی موت سے ڈرنا چاہیے:
ترا ایں مرگ ہر دم در کمین است
بترس از دے کہ مرگ ما ہمین است
ساتواں سوال یہ ہے:
مسافر چوں بود رہرو کدام است
کرا گویم کہ او مرد تمام است
سوال یہ ہے کہ مسافر اور رہرو کسے کہتے اور سفر کے کیا معنی ہیں۔ انسان کامل کی کیا نشانی ہے۔
اقبال نے جا بجا زندگی کو ایک لامتناہی سفر قرار دیا ہے اور اسے مرحلہ شوق کہا ہے، جس کو سکون منزل کی آرزو نہیں:
ہر شے مسافر ہر چیز راہی
کیا چاند تارے کیا مرغ و ماہی
بڑھے جا زندگی ذوق سفر ہے
لندن میں کہی ہوئی ایک غزل بال جبریل میں درج ہے۔ جس کا موضوع بھی یہی ہے کہ ہر حالت سے گزرتا چلا جا:
تو ابھی رہ گزر میں ہے قید مقام سے گزر
مصر و حجاز سے گزر پارس و شام سے گزر
صرف دنیا ہی میں نہیں بلکہ آخرت میں بھی مختلف احوال سے آگے نکلتا جا:
جس کا عمل ہے بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے
حور و خیام سے گزر بادہ و جام سے گزر
گرچہ ہے دل کشا بہت حسن فرنگ کی بہار
طائرک بلند بال دانہ و دام سے گزر
کوہ شگاف تیری ضرب، تجھ سے کشاد شرق و غرب
تیغ ہلال کی طرح عیش نیام سے گزر
اب یہاں اسی سفر کے متعلق سوال ہے۔ جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ کوئی خارجی عالم کی مسافت طے کرنا نہیں ہے۔ یہ سفر خودی کا باطنی ارتقائی سفر ہے۔ اس میں انسان خود ہی مسافر ہے، خود ہی راہ ہے اور خود ہی منزل ہے۔ یہ از خود تا بخود سفر ہے۔ یہ خودی کی مسلسل ترقی یافتہ صورتوں تک پہنچنے کی کوشش کا نام ہے:
اگر چشمے کشائی بر دل خویش
دروں سینہ بینی منزل خویش
سفر اندر حضر گردن چنین است
سفر از خود بخود کردن ہمین است
خودی کسی مکان کے اندر نہیں کہ اس کا کوئی مقام متعین کر سکیں۔ زمانی و مکانی عالم کے لحاظ سے اگر کوئی پوچھے کہ ہم کہاں ہیں تو اس کا جواب محال ہے۔ چشم مہ و اختر جو ہمارے ظاہر کو دیکھتی ہے اسے ہماری حقیقت کا کچھ علم نہیں:
کسے ایں جا نداند ما کجانیم
کہ در چشم مہ و اختر نیانم
اس سفر کی کوئی انتہائی منزل نہیں، کیونکہ اگر کوئی آخری منزل آ جائے تو ہماری جان ہی فنا ہو جائے۔ جان تو جستجو اور آرزو کا نام ہے، اگر کوئی انجام آ گیا تو آرزو ناپید اور اس کے ساتھ زندگی بھی ختم ہو جائے گی:
مجو پایاں کہ پایائے نداری
بپایاں تا رسی جانے نداری
خودی اپنی ترقی میں یقین اور بصیرت میں اضافہ کرتی رہتی ہے اور اس کے ساتھ تب و تاب محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ نہ محبت کو فنا ہے او رنہ یقین و دید کی کوئی انتہا ہے۔ کمال زندگی دیدار ذات ہے، لیکن اگر حسن ذات بے پایاں ہے، تو عشق ذات کی بھی انتہا کہیں نہیں ہے۔ خدا کو دیکھتے ہوئے بھی شوق دیدار کا سفر جاری رہتا ہے:
چناں با ذات حق خلوت گزینی
ترا او بیند و او را تو بینی
لیکن خدا کے اندر گم ہو جانا مقصود نہیں۔ اگر ہم گم ہو گئے تو محب و محبوب کا امتیاز ہی مٹ جائے گا۔ اس لیے اگر تو خدا کے حضور میں بھی گزر رہا ہو تو خودی کو استوار کرتے ہوئے گزر۔ قطرے کی طرح سمندر میں ناپید نہ ہو جا:
بخود محکم گزر اندر حضورش
مشو ناپید اندر بحر نورش
جس شخص میں دید پیدا ہو جائے، یعنی اپنی اور خدات کی ذات کا بیک وقت دیدار، اور یہ دیدار اس کی خوشی کی سوخت نہ کر دے تو اسی شخص کو دنیا کا امام سمجھو۔ مرد کامل کا معیار یہی ہے:
کسے کو دید عالم را امام است
من و تو نا تمامیم او تمام است
آدمی دید است و باقی پوست است
دید آں باشد کہ دید دوست است
(رومی)
اگر ایسا شخص دکھائی نہ دے تو اس کی طلب کو جاری رکھ اور اگر خوش قسمتی سے مل جائے تو پھر اس کا دامن نہ چھوڑنا۔ یہ مرد کامل تجھے فقیہ و شیخ و ملا کے طبقوں میں نہ ملے گا۔ یہ لوگ انسانوں کے شکاری ہیں ان سے غافل نہ رہنا۔
فقیہ و شیخ و ملا را مدہ دست
مرد مانند ماہی غافل از شست
مرد کامل تو ملک اور دین دونوں میں اچھا رہنما ہوتا ہے، کیوں کہ وہ مرد راہ ہے۔ فرنگ سے بھی خبردار رہنا۔ وہاں جو جمہوریت انسانی اخوت و مساوات کی مدعی بن گئی ہے، یہ سب ابلہ فریبی ہے۔ ہوس پرست عوام کا ہجوم کہاں انسانیت کی ترقی اور بصیرت افزائی کا موجب بن سکتا ہے۔ ایک لاکھ جمہوریت کے ہنگامے بھی ایک مرد راہ کے برابر بصیرت نہیں رکھتے۔ اس جمہوریت میں امام عالم کہاں سے آئیں گے۔ مشرق اپنی جھوٹی روحانیت اور مذہبیت کے دعوے باطل میں مردان راہ سے خالی ہے اور مغرب مادہ پرستی میں اسیر کمند ہوا ہے۔ اب شرق و غرب میں کس کو کہوں کہ وہ ’’ مرد تمام‘‘ ہے:
بگذر از خاور و افسونی افرنگ مشو
کہ نیزو بجوے ایں ہمہ دیرینہ و نو
کیا یہ مرد راہ کہیں نہیں؟ کیا یہ محض انسانیت کا ملہ کا ایک نصب العین ہے؟ ایک عرصے تک تو یہ عارف رومی کو بھی کہیں دکھائی نہ دیا:
گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما
گفت آنکہ یافت می نشود آنم آرزوست
آٹھواں سوال یہ ہے:
کدامی نکتہ را نطق است انا الحق
چہ گوئی ہرزہ بود آں رمز مطلق
ایقان ’’ انا الحق‘‘ تمام تصور کا محور ہے۔ اس کے متعلق آج تک بحث چلی آتی ہے۔ کہ منصور نے جو انا الحق کہا وہ کفر کا کلمہ تھا یا راز حیات کا افشا تھا۔ علمائے ظاہر نے اس جرم پر اس کو سولی پر چڑھا دیا، لیکن اکثر صوفی اس کو عارف باللہ اور امام سمجھتے ہیں اور تنگ نظر فقہا کو ایک معصوم کے قتل کا مجرم قرار دیتے ہیں۔
چوں قلم در دست غدارے بود
لا جرم منصور بر دارے بود
(رومی)
محمود شابستری نے بھی ’’ گلشن راز‘‘ میں بڑے زور و شور سے منصور کی حمایت کی ہے:
را باشد انالحق از درختے
چرا نبود روا از نیک بختے
انا الحق کا عقیدہ ہندو تصوف کا بھی لب لباب ہے:
اہم برہم آسمی تت توم آسی
اقبال نے جو نظریہ خودی پیش کیا اس میں بھی جا بجا خودی اور خدا میں امتیاز کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ خودی کے کثرت سے اشعار ایسے ہیں کہ بادی النظر میں دھوکا ہو سکتا ہے کہ یہ اشعار خدا کی ذات و صفات کے متعلق ہیں۔ اقبال مذکورہ صدر سوال میں انا الحق کے متعلق اپنے موقف کی تشریح کرتے ہیں، چونکہ یہ عقیدہ ہند اور ایران دونوں جگہ عام اور مسلم ہو گیا تھا اسی لیے پہلے شعر میں فرماتے ہیں:
من از رمز انا الحق باز گویم
دگر با ہند و ایراں راز گویم
پہلے یہ بیان کیا ہے کہ ایک ایرانی یہ کہہ گیا ہے کہ زندگی دھوکا کھا کر یہ ’’ من‘‘ کا تصور پیدا کر دیتی ہے مگر حقیقت میں تمام عالم، انسانی نفوس سمیت ایک سوتے ہوئے خدا کا خواب ہے۔ وہ شعر اقبال نے یہاں درج نہیں کیا لیکن اس قسم کی بحث کے دوران میں انہوں نے مجھے سنایا تھا۔ وہ شعر یہ ہے:
تا تو ہستی خداے در خواب است
تو نمانی چو او شود بیدار
مرزا غالب بھی عقلی طور پر وحدت وجود کے قائل تھے، اس لیے اس قسم کے تصورات غالب کے اردو اور فارسی کلام میں کثرت سے ملتے ہیں:
ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسد
عالم تمام حلقہ دام خیال ہے
اس فارسی شعر کے تصور کو اقبال نے اپنے جواب میں ذرا پھیلا کر لکھا ہے، کیوں کہ اس کی تردید مقصود ہے:
خدا خفت و وجود ما ز خوابش
وجود ما نمود ما ز خوابش
مقام تحت و فوق و چار سو خواب
سکون و سیر و شوق و جستجو خواب
دل بیدار وو عقل نکتہ بیں، گمان و فکر، تصدیق و یقیں سب خواب ہی خواب ہے اور یہ خواب خدا دیکھ رہا ہے۔ انسان سمجھتا ہے کہ اس زندگی کو اپنی چشم بیدار سے دیکھ رہا ہوں لیکن یہ بیداری بھی سپنا ہے اور ہمارے گفتار و کردار ہندو ویدانت کی اصطلاح میں مایا یا فریب ادراک ہیں۔ یہاں ایک ویدانتی گرو کے متعلق ایک لطیفہ یاد آگیا جو ہم نے اپنے ہندو استاد فلسفہ سے سنا تھا۔ یہ گرو جنگل میں اپنے چیلوں کو حیات و کائنات کے مایا ہونے کی تعلیم دیا کرتا تھا۔ ایک روز ایک مست ہاتھی گرو اور چیلوں کی طرف لپکتا دکھائی دیا۔ چیلے جان بچا کر ادھر ادھر تتر بتر ہو گئے اور گرو جی بھی ایک درخت پر چڑھ گئے۔ ایک چیلے نے جرأت کر کے گرو جی سے پوچھا کہ اگر یہ ہاتھی اور اس سے جان کا خطرہ مایا تھا تو آپ اس طرح دم دبا کر کیوں بھاگے؟ گرو جی اپنی منطق میں طاق تھے۔ انہوں نے جواب دیا عجب احمق ہو کہ وہ میرا بھاگنا اور درخت پر چڑھ جانا بھی تو مایا ہی تھا۔ جیسے ہاتھی کی کچھ حقیقت نہ تھی اسی طرح ہمارے فرار کی بھی کچھ اصلیت نہیں۔ وہ بھی دھوکا یہ بھی دھوکا۔
اقبال کے نظریہ حیات میں خدا بھی حق ہے اور انسانی خودی، جو خدا کی حیات ابدی سے سر زد ہوئی ہے، وہ بھی حق ہے۔ وحدت وجود کا روایتی فلسفہ خدا کو حق قرار دیتا ہے۔ وہی حقیقت مطلقہ ہے، لیکن انسانی نفس یا خواب ہے، یا فریب ادراک، یا خدا کے لامتناہی قلزم ہستی کی ایک لہر۔ لہریں پیدا اور نا پید ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن قلزم ہستی مطلق اپنے تلاطم میں ان سے مستغنی رہتا ہے۔ وحدت وجود کے اکثر قائلوں نے انسانی نفس کو ایک وہمی ہستی قرار دیا ہے:
صورت وہمی بہ ہستی متہم داریم ما
چوں حباب آئینہ بر طاق عدم داریم ما
(غالب)