فکر فردا

اس سلسلہ میں محترم اشفاق احمد کی تصنیف زاویہ آجکل میرے زیرِ مطالعہ ہے کہ میرے محترم استاد پروفیسرڈاکٹر منظور الٰہی طاہر صاحب نے مجھے تاکید کی تھی کہ ضرور پڑھنا۔
تو زاویہ کے مضمون “احکامِ الٰہی “ سے اقتباس ملاحظہ فرمائیے

ایک روز میں اور میرا ایک ساتھی بہت بے چین ہوئے۔ ہمارے ساتھ ایک ایسا واقعہ گزرا تھا جو ہمارے ساتھ نہیں گزرنا چاہیے تھا۔ کیونکہ ہم آپنے “بھانویں“ بڑے اچھے آدمی تھے۔ لیکن ہم نے بابا جی سے پوچھاکہ سر یہ راز کھول کر ہمیں بتائیں، ایسا کیوں ہوتا ہے۔ تو انہوں نے کہا۔ “ دیکھو آپ لوگ جو ہیں، اللہ کے حکم کے پابند ہیں، احکامِ الٰہیکے پابند ہیں۔ آپ لوگوں نے ایک عجیب صورتِ حال اختیار کرلی ہےکہ آپ فعل اللہ پر تنقید کرنے لگ گئے ہو۔ فعل اللہ کے ساتھ تو آپکا کوئی تعلق نہیں۔ اللہ بادشاہوں کا بادشاہ ہے، شہنشاہوں کا شہنشاہ ہے‘ جو چاہے اسکی مرضی کرے۔ لیکن آپ صرف اسکے احکام تک رہیں۔ اور فعل اللہ کے ساتھ آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم نے کہا۔ سر یہ تو پھر کمال کی بات ہے ہم تو پڑھے لکھے لوگ ہیں اور ہمیں کالجوں، یونیورسٹیوں میں یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ تنقید کریں۔ باقاعدہ Discuss کریں ، ڈائیلاگ کریں۔ انہوں نے کہا “ نہیں، آپ کا اور انکا یہ رشتہ ہرگز ایسا نہیں ہے۔ تو آپ سے ہمیشہ کوتاہی ہوتی ہےکہ آپ احکاماتِ الٰہی کو چھوڑ کر افعالِ الٰہی کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔ یہ ایک نئی بات تھی جو بڑی قابلِ غور اور قابلِ توجہ تھی۔

میرے خیال میں واقعی احکامِ الٰہی کی بجائے افعالِ الٰہی کی طرف متوجہ ہوچکے ہیں یا کردیے گئے ہیں حالانکہ یہ ہماری حیثیت نہیں ہے۔
 
Top